محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
غزل
آبلہ پائی کا قرار گیا
لطف ہمراہِ نوکِ خار گیا
کون کر پاتا پھر مسیحائی
تیرا مجروح سوئے دار گیا
داد تجھ کو ترے کمال کی، تُو
اپنے ہی کشتگاں کو مار گیا
دل کا سودا کبھی رہا تھا مگر
برسرِ حرص کاروبار گیا
دولتِ نشّۂ وفا نہ رہی
خواہشِ زر میں یہ خمار گیا
رہ گیا جسم ہی اساسِ وجود
روح کا میری تار تار گیا
شرم، عزت، حیا، وفا، ناموس
پیرہن سارے تُو اتار گیا
کس پہ اب اعتبار کیجے بشیرؔ
ہر تعلق کا اعتبار گیا
فاتح الدین بشیر