انیس الرحمن
محفلین
گلیور کے تین حیرت انگیز سفر
جوناتھن سوئفٹ
احمد خاں خلیل
پہلا سفر: للی پٹ کا سفر
میرا نام گلیور ہے۔ میں شمالی انگلستان کے ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میری والد کاشتکار تھے۔ ان کی تھوڑی سی زمین پر ہمارا پورا کنبہ گزر بسر کرتا تھا۔ ہم پانچ بھائی تھے۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ ہمارے والدین ہم سب سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کی زبردست خواہش تھیں کہ ہم تعلیم حاصل کریں، لیکن اخراجات روز بروز بڑھ رہے تھے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ اب مجھے کچھ کرنا چاہیے۔میں اسکول چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں نکلا۔ مجھے ایک بحری جہاز "اینٹی لوپ" پر نوکری مل گئی۔
اینٹی لوپ کے کپتان کا نام پری چرڈ تھا۔ مئى ۱۷۰۰ میں یہ جہاز بحر جنوبی کی طرف روانہ ہوا۔ ہماری منزل وہ جزیرے تھے جنہیں جزائر شرق الہند کہتے ہیں۔ سمندر میں تیز ہواؤں کی وجہ سے بڑی بڑی موجیں اٹھنا روز کا معمول تھا۔ ایک دن تو اتنی تیز ہوا چلی کہ وہ جہاز کو کسی اور طرف دھکیل کر لے گئی اور ہم وان دیمن لینڈ (یعنی تسمانیہ) کے شمال میں جا پہنچے۔ اس طوفان میں ملاحوں کو مسلسل کام کرنا پڑا۔کوئی کنارا نظر نہ آتا تھا۔ سخت محنت اور خراب غذا سے ہمارے بارہ آدمی مر گئے۔ ایک دن بڑی موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ دور دور تک کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ پھر بھی ہمارے ایک آدمی کو ایک چٹان نظر آئی۔ کپتان نے جہاز کو چٹان سے بچانے کی بہت کوشش کی، لیکن ہوا نے جہاز کو اس چٹان پر دے مارا۔ جہاز کے پیندے میں بھی سوراخ ہو گیا ۔ ہمارے چھے آدمی ایک کشتی کو لے کر سمندر میں اترے ، لیکن ہوا کیا تھی ایک آفت تھی۔ اس نے کشتی کو اُلٹ دیا۔مجھے یہ نہیں معلوم کہ میرے باقی ساتھیوں کا کیا ہوا۔ شاید وہ ڈوب گئے تھے، لیکن موجیں مجھے اٹھائے اٹھائے لیے جا رہی تھیں۔ میں نے کوشش کی کہ پاؤں نیچے لگا کر دیکھوں کہ زمین قریب تو نہیں، مگر پاؤں زمین پر لگتے ہی نہ تھے۔
خشک زمین
میں اسی کشمکش میں تھا اور بار بار یہی خوف پیدا ہوتا کہ موت قریب ہے۔ اچانک میرے پیر زمین پر جا لگے۔ اب ہوا کچھ تھم گئی تھی۔ ایک کلو میٹر تک میں پانی میں چلتا گیا۔ پھر خشک زمین آگئی۔ اس وقت میری جان میں جان آئی۔ شام کے سات بج رہے تھے۔ میں تھکن سے چور تھا۔ پھر بھی ہمت کر کے آگے چلا۔ مجھے نہ کوئی آدمی نظر آیا نہ کوئی بستی۔ ویسے بھی میں تھکن کی وجہ سے پورے ہوش میں نہ تھا۔ ایک جگہ میں نرم نرم گھاس پر لیٹ کر گہری نیند سو گیا۔
ننھے سپاہی
میرا خیال ہے کہ میں نو گھنٹے سوتا رہا۔ سورج نکل رہا تھا کہ میری آنکھ کھلی۔ میں چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ کھڑا ہوجاؤں، لیکن کھڑا نہ ہوسکا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پاؤں ڈوریوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ میرے لمبے بالوں کو بھی ڈوریوں سے باندھ دیا گیا تھا۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا کہ ڈوریاں بڑی باریک تھیں اور یہ میرے جسم کے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں لپٹی ہوئی تھیں اور مجھے اس طرح باندھا گیا تھا کہ میں ہل تک نہ سکتا تھا۔
میں چت پڑا تھا۔ دھوپ سیدھی میری آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔ پھر مجھے شور سا سنائی دیا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ اب ایسا لگا کہ میرے تمام بدن پر چیونٹیاں سی رینگ رہی ہیں۔ یہ میرے چہرے پر بھی آگئی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو وہ مجھے آدمی سے لگے، کل ١٥ سینٹی میٹر لمبے۔ جو شخص مجھے نظر آرہا تھا وہ سپاہی کی وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس کے بعد اس طرح کے چالیس پچاس سپاہی اور آگئے۔
میں تیروں کا نشانہ بن گیا
میں یہ سب دیکھتے دیکھتے اچانک خوشی سے چلا اٹھا۔ وہ سب ڈر کے مارے بھاگ گئے۔(بعد میں مجھے بتایا گیا کہ اس بھگدڑ میں کئی زخمی بھی ہوگئے تھے)۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر میرے بدن پر چڑھ دوڑے۔ ایک بونا جو میرے چہرے کے قریب آ پہنچا تھا۔ اس نے اپنے بازو اٹھا کر زور سے کہا، "ہکینا دوگل۔"
دوسروں نے جواب دیا، "ہکینا؟ دوگل ہکینا۔"
میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں نے زور لگا کر ایک بازو زمین سے اٹھا ہی لیا۔ پھر سر بھی اونچا کر لیا۔ اب معلوم ہوا کہ انہوں نے زمین میں کیلیں ٹھونک کر میرے بال ان سے باندھ دیے تھے۔ سر میں سخت درد ہونے لگا۔ میں نے ان آدمیوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ سرپٹ بھاگے۔ پھر شور و غل سنائی دیا۔ شور کے ساتھ ایسا محسوس ہوا کہ میرے بازوؤں میں ہزاروں سوئیاں چبھو دی گئی ہیں۔ دراصل وہ مجھ پر تیر چلا رہے تھے۔ کئی چھوٹے چھوٹے تیر میرے کپڑوں کے اندر گھس گئے، مگر مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔ کچھ آدمی آسمان کی طرف تیر چلا رہے تھے جو میرے چہرے پر آ آ کر گر رہے تھے۔ ان سے میرے چہرے میں تکلیف ہونے لگی۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں کوئی تیر میری آنکھ میں نہ گھس جائے۔ میں نے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔
ننھی مخلوق نے میز بنائی
پھر میں نے سوچا خیر اسی میں ہے کہ میں رات تک چپکا پڑا رہوں۔ اندھیرا ہونے پر ان ڈوریوں سے اپنے آپ کو چھڑاؤں گا۔ اتنی چھوٹی مخلوق سے مجھے کوئی خطرہ نہیں تھا، لیکن آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ میں چپ ہو رہا تو تیر اندازی بھی رک گئی، مگر اس مخلوق کی تعداد بے تحاشا بڑھ گئی۔ مجھے کان کے قریب کچھ آواز سنائی دی۔ دیکھا تو وہ لوگ لکڑی کی ایک میز بنارہے تھے۔ وہ میز کل ۴۵سینٹی میٹر (تقریبا ۱۸انچ) اونچی تھی۔ اس پر چار ننھے آدمی گھڑے ہوسکتے تھے۔ جب میز تیار ہوگئی تو چار ننھے آدمی اس پر چڑھ آئے۔ ان میں سے ایک آدمی دوسروں کے مقابلے میں عمر میں زیادہ تھا۔ اس نے خوبصورت اور لمبا سا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کوٹ کو ایک لڑکے نے جو کہ اس کے پیچھے کھڑا تھا، زمین سے اٹھا رکھا تھا۔ لمبے کوٹ والے نے کہا، "لانگرو دیہل سان۔"
لمبے کوٹ والا آدمی
اس کی بات سن کر چالیس آدمی آگے بڑھے۔ انہوں نے میری سر کے دوسری طرف کی ڈوریاں کاٹ ڈالیں۔ اب میں سر کو ادھر ادھر موڑ سکتا تھا اور ان لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔ پھر لمبے کوٹ والے آدمی نے بولنا شروع کیا۔ وہ بڑی روانی سے بول رہا تھا اور اس کے ساتھ وہ ہاتھ سے اشارہ بھی کرتا تھا۔ خاصی دیر تک وہ بولتا رہا۔ میں ان کی زبان تو نہیں سمجھتا تھا، لیکن میرا اندازہ یہ تھا کہ وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم ہمارے حکم کی تعمیل کرو گے تو ہم تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور اگر بھاگنے کی کوشش کی تھ ہم تمہیں مار ڈالیں گے۔ میں نے اپنا ہاتھ اٹھایا، آنکھیں آسمان کی طرف کیں اور اس طرح ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں تمہارا مطلب سمجھ گیا ہوں اور میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا۔ پھر میں نے انہیں یہ بتانے کے لیے کہ میں بھوکا ہوں، اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا۔
کھانے پینے کا انتظام
لمبے کوٹ والا آدمی میرا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے سپاہیوں کو حکم دیا اور تھوڑی دیر بعد کوئی ایک سو آدمی میرے جسم پر مارچ کرتے ہوئے میرے منہ تک غذا لے کر آئے۔ یہ چیزیں بادشاہ نے بھجوائی تھیں، کیوں کہ میری آمد کی اطلاع اسے کردی گئی تھی۔ غذا میں چڑیا کے سائز سے بڑی کوئی چیز نہ تھی، لیکن لگتا یہ تھا کہ انہوں نے گائے بیل سالم پکوا کر بھیجے ہیں۔ لوبیا دال کے برابر مرغیاں بھی تھیں۔ میں دو تین چپاتیوں کا ایک لقمہ بناتا تھا اور وہ لوگ حیرت زدہ تھے۔ کھانا کھا چکنے کے بعد میں نے اشاروں سے پانی مانگا۔ وہ دودھ سے بھرا ہوا ایک برتن لائے اور میرے منہ میں انڈیل دیا۔ میں نے اور مانگا۔ وہ دوسرا برتن لائے، لیکن اب ان کے پاس دودھ نہیں بچا تھا۔ میرے کھانے پینے کو دیکھ کر وہ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے میرے بدن پر رقص کی محفل منعقد کی اور اونچی آواز سے "ہکینا دیگل" کے نعرے لگاتے رہے۔
بادشاہ کا خط
جب میرے بدن پر وہ اچھل کود رہے تھے تو ایک بار مجھے خیال آیا کہ تیس چالیس آدمیوں کو پکڑ کر زمین پر پٹخ دوں۔ پھر سوچا کہ کہیں کوئی خطرناک چیز لا کر وہ مجھے نقصان نہ پہنچائیں، اس لیے چپ ہو رہا۔ اگرچہ میں ان کی نظر میں ایک دیو تھا اور میرا ایک ہاتھ آذاد تھا، لیکن ان کی بہادری داد کے قابل ہے کہ وہ ڈرے بغیر میرے بدن پر پریڈ کرتے رہے۔
اس کے بعد کوئی بڑی شخصیت آئی۔ اس کے ساتھ بےشمار آدمی تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہن رکھے تھے۔ وہ میرے بدن پر چڑھ کر میری آنکھوں کے قریب آیا۔ اس کے پاس ایک خط تھا۔ تھوڑی دیر وہ کچھ بولتا رہا۔ گفتگو کے دوران اس نے کئی بار شمال مغرب کی طرف اشارہ کیا۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ وہ اپنے شہر کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو اس جگہ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ شاید اس نے یہ کہا تھا کہ بادشاہ کا یہ حکم ہے کہ مجھے شہر لے جایا جائے۔
میں نے اشاروں سے بتایا کہ مجھے کھلا چھوڑ دیا جائے۔ وہ شخص میرا مطلب سمجھ گیا، مگر اس کا اصرار تھا کہ مجھے اٹھوا کر لے جایا جائے گا۔ میں چپ ہو رہا۔ یہ دیکھ کر وہ بڑی شخصیت خوشی خوشی چلی گئی۔ پھر سینکڑوں آدمی آئے۔ وہ "پپلوم سیلان" کے نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے میرے بدن کے ایک طرف کی ڈوریاں کاٹ ڈالیں۔ میرے چہرے پر کوئی چیز لگائی تیل یا مرہم جیسی جس سے جسم کے زخموں کا درد دور ہوگیا۔ بعد میں مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے میرے کھانے میں نیند لانے والی دوا ملا دی، اس لیے مجھے پھر نیند آگئی اور میں آٹھ نو گھنٹے تک سوتا رہا۔
بڑا چھکڑا
جب اس ننھی مخلوق نے بادشاہ کو میری آمد کی اطلاع دی تھی تو اس نے اسی وقت یہ حکم دیا تھا کہ مجھے شہر لے جایا جائے۔ بادشاہ نے انہیں ایک بڑا چھکڑا بنانے کو کہا۔ ان کے پاس درخت اٹھانے اور کشتیوں کو سمندر میں لے جانے کے چھکڑے پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے بےشمار چھکڑوں کو جمع کر کے ایک بیڑا بنایا۔ یہ بیڑا کوئی دو میٹر لمبا اور ۱۵سینٹی میٹر بلند تھا۔ اس کے نیچے بائیس لکڑی پہیے تھے۔ یہ چھکڑا جزیرے پر میری آمد کے چار گھنٹے بعد شہر سے روانہ ہوا تھا اور میری نیند کے دوران یہاں پہنچا تھا۔ پپلوم سیلان کا نعرہ وہ اسی لیے لگا رہے تھے۔ آٹھ نو سو آدمیوں نے مجھے اٹھا کر اس پر لٹا دیا۔ یہ کام میری نیند کے دوران ہوا اور اس میں تین گھنٹے لگے۔ پھر بادشاہ کے پندرہ سو گھوڑے اسے کھینچنے لگے۔ یہاں سے شہر کا فاصلہ ایک کلو میٹر تھا۔
چار گھنٹوں کے بعد سفر شروع ہوا۔ راستے میں رات ہوگئی۔ پانچ سو آدمی میری ایک طرف اور پانچ سو دوسری طرف پہرہ دے رہے تھے تاکہ اگر میں بھاگنے کی کوشش کروں تو وہ مجھ کو اپنے تیروں سے چھلنی کردیں۔
دوسرے دن صبح کو کارواں پھر چلا۔ دوپہر تک ہم شہر سے ۱۵۰میٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے۔ بادشاہ مجھ سے ملنے آیا۔ وہ میرے نزدیک آ کر مجھے دیکھنے لگا، لیکن اس کے مشیروں کی حرکتوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے خیال میں میرے بدن پر اس کا چڑھنا مناسب نہ تھا۔
جس جگہ چھکڑوں کا بیڑا رکا تھا۔ وہاں اس ملک کا سب سے بڑا مندر تھا، مگر کئی سال سے وہ مندر کے طور پر استعمال نہیں ہورہا تھا۔ اب اسے میرے رہنے کے لیے چنا گیا تھا۔ اس کا پھاٹک ایک میٹر بلند اور ایک میٹر چوڑا تھا۔ مجھے اس کے اندر جھک کر یا بیٹھ کر داخل ہونا تھا۔ ان لوگوں نے ایک بیڑی (پاؤں میں ڈالنے کا حلقہ) پہلے سے بنا رکھی تھی۔ وہ میرے ایک پیر میں ڈال دی گئی۔ اس کے ساتھ ایک میٹر لمبی زنجیر تھی۔
للی پٹ کی زندگی
دوسرے دن صبح سویرے میں نے اپنے مکان سے باہر نکل کر دیکھا۔ سارا ملک گل و گلزار نظر آیا۔ بڑے سے بڑا درخت بھی دو میٹر لمبا نہ تھا۔ ایسے لگتا تھا تھا کہ یہ ان کا شہر نہیں بلکہ بچوں کی کتاب میں بنی ہوئی کوئی تصویر ہے۔ میرے مکان سے چھے میٹر دور ایک مکان تھا اور درمیان میں ایک سڑک تھی۔ میں ماحول کے نظارے میں مصروف تھا کہ بادشاہ کئی شرفاء اور خواتین کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ پھر وہ سب لوگ سامنے والے مکان کی چھت پر چڑھ گئے تاکہ میرا نظارہ کر سکیں۔ کچھ دیر کے بعد بادشاہ نیچے اتر کر اپنے گھوڑے پر میری طرف آیا، لیکن گھوڑا بدک بدک جاتا تھا۔ گھوڑے کو ایسا نظر آتا تھا کہ اس کے سامنے پہاڑ کھڑا ہے۔ بادشاہ گھڑ سواری کا ماہر تھا۔ اس نے گھوڑے کو قابو میں رکھا۔ پھر اس کے سائیں آ گئے اور وہ گھوڑے سے اتر گیا۔ وہ میرے ارد گرد چکر لگانے لگا، لیکن مجھ سے فاصلے پر رہا۔