محبت کے اظہار کے لیے ویلنٹائن ڈے منانا ضروری ہے؟

محبت کریں، محبت سے کون روکتا ہے، مگر ہمارا معیار کچھ اور ہے ، مغرب کا معیار کچھ اور ہے ۔ یہاں نکاح ہوتا ہے، ہر چیز ثواب سمجھ کر ہوتی ہے، بچوں کی فوج بھِی ثواب ہی ہوتی ہے، مگر مغرب کی طرف دیکھیں نہ وہاں ، ثواب کا تصور نہ گناہ کا، سستے عاشق، سستی محبوبائیں ہوتی ہیں، جو ہر سال کلینڈر کی طرح محبوب بدل لیتے ہیں، کیونکہ ایک ہی چہرہ بوریت کا احساس دلاتا ہے، نیاء محبوب ملنے سے وہیں سے محبت کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جہاں ختم ہوا ہوتا ہے، ادھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو نام کے ساتھ باپ کا نام ہوتا ہے فلاں کا بیٹا ہے، ادھر مغرب میں دیکھئیے کیا ہوتا ہے، کسی کا بچہ ، پرورش کوئ اور کرے، باپ گیا تو پلٹ کر نہیں دیکھتا، ماں گئ تو خبر نہیں، اب تو مغرب میں ایک عجیب کام شروع ہوگیا ہے کہ ڈی این اے کی مدد سے باپ ڈھونڈنے کے لیے اسپیشل ایجنسیز کھل گئ ہیں جن کا کام بچے کے باپ کا پتا لگانا ہے۔
ہم کرتے ہیں ایک لڑکی سے محبت ، لڑکی کرتی ہے لڑکے سے محبت ، مغرب کی طرف زاوئیہ گھمائیے ، وہاں لڑکی ، لڑکی، اور لڑکے لڑکے بھی شادی کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر مغرب کی تہذیب اتنی اچھی ہوتی تو ہم بھی ویلنٹائن ڈے کی حمایت کرتے، ہم بھِی کہتے کہ لڑکی ، نامحرم سے مل لے خیر ہے، لڑکا جو مرضی کرے خیر ہے۔ مگر یہاں معاشرتی ذمہ داریاں ہیں۔
جس کی عزت پہ داغ لگ جائے، چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا اسے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ادھر لڑکا شادی کرنے لگے تو دعا کرتا ہے کہ یااللہ ایسی لڑکی نصیب میں کریں جس نے کبھی ویلنٹائن ڈے نہ منایا ہو، لڑکی بھی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکا شریف ہو۔ مگر کہاں سے ہو ۔
جب ماحول ہی ایسا بن جائے تو پھر چل سو چل ۔ سارا معاشرہ ہی گندگی میں گرتا چلا جاتا ہے۔
یہ آپ کا فیصلہ ہے ، ہم محبت کے خلاف نہیں، مگر ایسی محبت کے خلاف ہیں جو محبت کے نام پہ دھبہ ہو ۔
۔
از: عبدالباسط احسان A.B
 
مغرب میں ، دو ہم جنس پرست ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہیں، دونوں ویلنٹائن ڈے کے بارے میں نہایت خوش اور پرجوش ہیں۔
ابھی ہم کو اوپر کی ملائ نظر آرہی ہے، بعد میں کیا ہوگا، اس کو بھی دیکھ لیجئیے۔ مغرب کی تہذیب کا حصہ بننا ایسے ہی ہے جیسے کوئ گدھا گٹر میں گر جائے۔
کچھ دوستوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ فیس بک امریکیوں کی ہے، ہم جو چیزیں اکثر استعمال کرتے ہیں یہ غیر مسلم لوگوں کی ایجادات ہیں ۔
ان کو میں کئ بار سمجھا چکا ہوں کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں۔ مگر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر شراب پی سکتے ہیں۔ جہاں تک اجازت دیتا ہے وہاں تک آپ کمپیوٹر بھی استعمال کریں، فیس بک بھی استعمال کریں، جو چیزیں دین کو برباد کرتی ہیں وہ نہ اپنائیں ۔
کیا مغرب والے ننگا ناچیں، تو ہم بھی ننگا ناچنا شروع کردیں کیونکہ ہم ان کا کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں، یہ تو بہت فضول سی دلیل ہے، جو جاہلانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے، جو غلامانہ ذہن کی نشاندہی کرتی ہے۔ مسلمان کبھی بھی دنیا کے معاملات میں دوسرے لوگوں سے جدید نہ تھے، روم کے درباروں میں قالین بچھا کرتے تھے، جن پر سونے کی تاروں سے نقش کھینچے جاتے تھے۔ مگر مسلمانوں نے ان پر حکومت کی ، حکومت بھی ایسی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ کیونکہ اس وقت کے مسلمانوں میں غلامانہ ذہنیت نہیں تھی۔
خدا کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کو گناہوں کی دلدل میں گرنے سے بچا لیں ۔
از؛ عبدالباسط احسان
 

مقدس

لائبریرین
ویسے یہ ساری باتیں مشرق میں بھی ہوتی ہیں بھیا ، صرف مغرب ہی میں نہیں۔۔۔
 
Top