ابن سعید
خادم
کل ہماری یونیورسٹی اولڈ ڈو مینین یونیورسٹی کے آفس آف انٹر کلچرل ریلیشنس کی جانب سے نیشنل چیری بلوسم فیسٹیول کی سیلیبریشن کے لیے واشنگٹن ڈی سی تک یک روزہ بس ٹرپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تہوار کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ 1912 میں جاپان کے شہر ٹوکیو کے مئیر یوکیو اوزاکی نے واشنگٹن شہر کو 3000 (تین ہزار) چیری کے پودے تحفتاً بھجوائے تھے۔ اسی کے اعزاز میں واشنگٹن میں ہر سال جب چیری کی کلیاں کھلنے کا وقت ہوتا ہے تو کئی ہفتوں تک اس کو تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس ٹرپ کا اعلان تو ایک ماہ قبل ہوا تھا اور ہماری ٹکٹ کنفرم نہ تھی اس لیے انتظار کی قطار میں تھے۔ بلکہ یوں کہیں کہ اس بابت بھول چکے تھے۔ جمعہ کے روز نماز کے بعد آفس میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ آرگنائزنگ کمیٹی کی طرف سے فون آیا کہ کسی نے اپنے جانے کا پروگرام مسترد کر دیا ہے اس لیے آپ کو جگہ مل سکتی ہے، کیا آپ جانا چاہیں گے۔ ہم کے کہا اللہ کے بندے، شام ہو رہی ہے اور فجر کے وقت روانگی ہے، اس وقت ہمیں مطلع کر رہے ہیں، ذرا چند منٹ کا وقفہ دیجیے ہم سوچ کر بتاتے ہیں۔ موصوف فون پر منتظر رہے اور ہم نے اپنا کیلینڈر وغیرہ دیکھ کر کہا کہ ٹھیک ہے ہماری سیٹ کنفرم کر دیں۔ شام میں جلدی جلدی بہت سارے کام نمٹائے، سفر کی تیاریاں کیں اور ایک ڈیڑھ گھنٹے کی نیند لے کر بیدار ہوئے، غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر کیمپس چلے گئے۔ بہر کیف خدا خدا کر کے مختلف ممالک کے طلبا پر مشتمل پچاس سے زائد زائرین کے ساتھ بس اپنے متعینہ وقت پر کیمپس سے روانہ ہوئی۔ انتظامیہ کی طرف سے سبھی کو بہترین ناشتے کا اہتمام کرایا گیا تھا جو شہر سے نکلتے ہی تقسیم کیا گیا۔ ہمارے شہر نارفاک سے باہر نکلتے ہی سطح سمندر پر بنے ایک بہت ہی طویل پل (چیسپیک بے برج) کو پار کرنا ہوتا ہے جو آگے جا کر ایک زیر آب سرنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جب ہم اس پل پر سے گزر رہ تھے تو سورج طلوع ہو رہا تھا۔ موسم میں خنکے کے باعث بس کے شیشوں پر پانی کے قطرے جمع ہو رہے تھے۔ خیر ہم نے ٹشو سے اپنے قریب شیشہ اندر سے صاف کیا اور اس منظر کی تصویر کشی کرنے کی ٹھانی۔
تقریباً تین گھنٹے کی مسافت طے کر کے بس ڈی سی پہونچی۔ سبھی بس سے باہر نکلے، چند گروپ فوٹو بنائے گئے اور ساتھ ہی یہ افسوس ناک خبر ملی کہ پچھلے دنوں موسم سرد ہونے کے باعث اس دفعہ چیری کی کلیاں شاید ہفتے دس دن کی تاخیر سے کھلیں۔ بہر کیف وہاں سے سبھی لوگ چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر شہر گردی کو نکل گئے اور یہ طے پایا کہ ڈھائی گھنٹے بعد سبھی واپس بس کے پاس جمع ہو جائیں گے۔ سات آٹھ لوگوں کے قافلے کے ساتھ ہم بھی چل پڑے۔ وائٹ ہاؤس اور اس کے اطراف کی خاک چھانی، اکا دکا چیری کے پیڑ کی تصاویر بنائیں اور نیشنل ہسٹری میوزیم میں جا پہونچے۔
نیشنل ہسٹری میوزیم کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی یہ ہاتھی نظر آیا۔۔۔ ڈریں نہیں یہ محض مجسمہ ہے۔ خیر ہم نے اس میوزیم پر طائرانہ نگاہ ہی ڈالی، زیادہ تفصیل سے ہر ایک چیز نہیں دیکھی۔ جو کچھ دیکھا اس کے چند عکس ہمارے کیمرے میں محفوظ ہیں، وہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
میوزیم سے نکلتے ہوئے ایک تصویر کی تصویر بھی بنا لی۔
یہ واشنگٹن مونومینٹ ہے اور شہر کا شناختی نشان بھی جو کہ وائٹ ہاؤس سے متصل پارک میں تعمیر کیا گیا ہے۔ شہر کی کوئی بھی عمارت اس سے اونچی بنانے کی اجازت نہیں۔ پچھلے دنوں ایک زلزے کے باعث اس میں معمولی قسم کی درار پڑ گئی تھی جس کے باعث اس کے گرد تعمیری حفاظتی گھیرا لگایا گیا ہے۔
پار میں دور دور تک لوگوں کی بھیڑ جمع تھی جو سردی کے بعد خوبصورت دھوپ کا لطف لے رہے تھے اور انواع و اقسام کے پتنگ وغیرہ اڑا رہے تھے۔ اس کیمرے کی زد میں اس بھیڑ کا عشر عشیر بھی نہیں سما سکا۔ سائڈ واک پر ایک قطار میں چھوٹے پہیوں والی ایک خاص قسم کی سواری نظر آ رہی ہوگی۔ یہ بیٹری سے چلتی ہے، اس پر ایک وقت میں ایک شخص سواری کر سکتا ہے۔ اس میں نیچے دو پہیے، کھڑے ہونے کا پائیدان اور ہاتھ میں مختلف کنٹرولز سے لیس ہینڈل ہوتا ہے۔
دوپہر کے بعد سبھی واپس بس کی طرف لوٹے اور بس نے ہمیں شہر کے ایک دوسرے حصے میں پہونچایا جہاں شاپنگ مالز اور ریسٹورینٹس وغیرہ موجود تھے۔ وہاں بھی لوگ ایک معینہ وقت تک لوٹ کر آنے کا طے کر کے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر شہر میں پھیل گئے۔ جہاں بس کو پارک کیا گیا تھا وہیں قریب ہی رنگ برنگے پھولوں کا یہ تختہ ملاحظہ فرمائیں۔
ہمارے قافلے نے ایک انڈین ریسٹورینٹ تلاش کیا۔ وہاں کھانا کھا کر واپس ہوئے تو ائس کریم سے انصاف کیا جو کہ بے حد لذیذ ثابت ہوا۔ (لوگوں کی رال نہ ٹپک جائے اس خوف سے ائس کریم کی تفصیلات اور تصاویر کو منظر عام پر نہیں لایا جا رہا۔)
چلتے چلتے ڈی سی کے اب تک صحیح سلامت موجود سب سے پرانے گھر کے پائیں باغ کی سیر بھی کی اور سات سروں پر مشتمل ہماری ٹولی نے وہاں بیٹھ کر سیون بژ کا کھیل بھی کھیلا۔ (سرگوشی: اس کھیل کو ٹولی کے ساتھ ہم نے ہی متعارف کرایا تھا لیکن جیت کسی اور کی ہوئی اور ہم سات لوگوں میں دوسرے نمبر پر آئے۔)
بس کی طرف پیدل واپس آتے ہوئے شہر کی درمیانی ندی کے پل پر سے گزر ہوا تو اس کی ریلنگ کے ساتھ لگ کر یہ تصویر بنائی اور ساتھ ہی خائف بھی رہے کہ کہیں ہاتھ سے فون چھوٹا تو اتنی اونچائی سے پانی میں گرنے کی آواز بھی سنائی نہیں دے گی۔
ان سے ملیے یہ ہمارے نئے نئے دوست محترم جسٹن ہوگان صاحب ہیں۔ اس پورے سفر میں انھوں نے ہماری ٹولی کی رہنمائی کی۔ ہماری ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر بے شمار باتیں ہوئیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ مختصراً ہم موصوف کی دوستی کو اپنے اس سفر کا حاصل کہہ سکتے ہیں۔
بس یہ کہانی یہیں تمام ہوتی ہے کیوں کہ اس کے بعد تو بس میں سوار ہو کر اپنے شہر کو لوٹے۔ کیمپس میں موجود اپنی بائک اٹھائی اور گھر آ گئے۔ کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے شاور لیا۔ باتھ ٹب میں دیر تک گرم پانی میں پاؤں کو ڈبو کر رکھا جن میں پیدل چلنے کے باعث خاصہ ورم آ گیا تھا اور چلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ پھر سو گئے اور نیند سے جاگے تو سوچا کہ روداد ہی تحریر کر دیں۔ خیر یہ روداد لکھنے کی بات ہم جیسے کاہلوں کے دماغ میں خود نہیں آتی بلکہ کئی اطراف سے لائی جاتی ہے۔
تقریباً تین گھنٹے کی مسافت طے کر کے بس ڈی سی پہونچی۔ سبھی بس سے باہر نکلے، چند گروپ فوٹو بنائے گئے اور ساتھ ہی یہ افسوس ناک خبر ملی کہ پچھلے دنوں موسم سرد ہونے کے باعث اس دفعہ چیری کی کلیاں شاید ہفتے دس دن کی تاخیر سے کھلیں۔ بہر کیف وہاں سے سبھی لوگ چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر شہر گردی کو نکل گئے اور یہ طے پایا کہ ڈھائی گھنٹے بعد سبھی واپس بس کے پاس جمع ہو جائیں گے۔ سات آٹھ لوگوں کے قافلے کے ساتھ ہم بھی چل پڑے۔ وائٹ ہاؤس اور اس کے اطراف کی خاک چھانی، اکا دکا چیری کے پیڑ کی تصاویر بنائیں اور نیشنل ہسٹری میوزیم میں جا پہونچے۔
نیشنل ہسٹری میوزیم کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی یہ ہاتھی نظر آیا۔۔۔ ڈریں نہیں یہ محض مجسمہ ہے۔ خیر ہم نے اس میوزیم پر طائرانہ نگاہ ہی ڈالی، زیادہ تفصیل سے ہر ایک چیز نہیں دیکھی۔ جو کچھ دیکھا اس کے چند عکس ہمارے کیمرے میں محفوظ ہیں، وہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
میوزیم سے نکلتے ہوئے ایک تصویر کی تصویر بھی بنا لی۔
یہ واشنگٹن مونومینٹ ہے اور شہر کا شناختی نشان بھی جو کہ وائٹ ہاؤس سے متصل پارک میں تعمیر کیا گیا ہے۔ شہر کی کوئی بھی عمارت اس سے اونچی بنانے کی اجازت نہیں۔ پچھلے دنوں ایک زلزے کے باعث اس میں معمولی قسم کی درار پڑ گئی تھی جس کے باعث اس کے گرد تعمیری حفاظتی گھیرا لگایا گیا ہے۔
پار میں دور دور تک لوگوں کی بھیڑ جمع تھی جو سردی کے بعد خوبصورت دھوپ کا لطف لے رہے تھے اور انواع و اقسام کے پتنگ وغیرہ اڑا رہے تھے۔ اس کیمرے کی زد میں اس بھیڑ کا عشر عشیر بھی نہیں سما سکا۔ سائڈ واک پر ایک قطار میں چھوٹے پہیوں والی ایک خاص قسم کی سواری نظر آ رہی ہوگی۔ یہ بیٹری سے چلتی ہے، اس پر ایک وقت میں ایک شخص سواری کر سکتا ہے۔ اس میں نیچے دو پہیے، کھڑے ہونے کا پائیدان اور ہاتھ میں مختلف کنٹرولز سے لیس ہینڈل ہوتا ہے۔
دوپہر کے بعد سبھی واپس بس کی طرف لوٹے اور بس نے ہمیں شہر کے ایک دوسرے حصے میں پہونچایا جہاں شاپنگ مالز اور ریسٹورینٹس وغیرہ موجود تھے۔ وہاں بھی لوگ ایک معینہ وقت تک لوٹ کر آنے کا طے کر کے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر شہر میں پھیل گئے۔ جہاں بس کو پارک کیا گیا تھا وہیں قریب ہی رنگ برنگے پھولوں کا یہ تختہ ملاحظہ فرمائیں۔
ہمارے قافلے نے ایک انڈین ریسٹورینٹ تلاش کیا۔ وہاں کھانا کھا کر واپس ہوئے تو ائس کریم سے انصاف کیا جو کہ بے حد لذیذ ثابت ہوا۔ (لوگوں کی رال نہ ٹپک جائے اس خوف سے ائس کریم کی تفصیلات اور تصاویر کو منظر عام پر نہیں لایا جا رہا۔)
چلتے چلتے ڈی سی کے اب تک صحیح سلامت موجود سب سے پرانے گھر کے پائیں باغ کی سیر بھی کی اور سات سروں پر مشتمل ہماری ٹولی نے وہاں بیٹھ کر سیون بژ کا کھیل بھی کھیلا۔ (سرگوشی: اس کھیل کو ٹولی کے ساتھ ہم نے ہی متعارف کرایا تھا لیکن جیت کسی اور کی ہوئی اور ہم سات لوگوں میں دوسرے نمبر پر آئے۔)
بس کی طرف پیدل واپس آتے ہوئے شہر کی درمیانی ندی کے پل پر سے گزر ہوا تو اس کی ریلنگ کے ساتھ لگ کر یہ تصویر بنائی اور ساتھ ہی خائف بھی رہے کہ کہیں ہاتھ سے فون چھوٹا تو اتنی اونچائی سے پانی میں گرنے کی آواز بھی سنائی نہیں دے گی۔
ان سے ملیے یہ ہمارے نئے نئے دوست محترم جسٹن ہوگان صاحب ہیں۔ اس پورے سفر میں انھوں نے ہماری ٹولی کی رہنمائی کی۔ ہماری ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر بے شمار باتیں ہوئیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ مختصراً ہم موصوف کی دوستی کو اپنے اس سفر کا حاصل کہہ سکتے ہیں۔
بس یہ کہانی یہیں تمام ہوتی ہے کیوں کہ اس کے بعد تو بس میں سوار ہو کر اپنے شہر کو لوٹے۔ کیمپس میں موجود اپنی بائک اٹھائی اور گھر آ گئے۔ کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے شاور لیا۔ باتھ ٹب میں دیر تک گرم پانی میں پاؤں کو ڈبو کر رکھا جن میں پیدل چلنے کے باعث خاصہ ورم آ گیا تھا اور چلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ پھر سو گئے اور نیند سے جاگے تو سوچا کہ روداد ہی تحریر کر دیں۔ خیر یہ روداد لکھنے کی بات ہم جیسے کاہلوں کے دماغ میں خود نہیں آتی بلکہ کئی اطراف سے لائی جاتی ہے۔