الف نظامی
لائبریرین
ہم اپنے قاری کی توجہ اپریل 1933ء کے ایک واقعہ کی طرف مبذو ل کراتے ہیں جس سے اُن کی سمجھ میں بین الاقوامی مالیاتی نظام میں روپے اور دولت کی قانونی چوری کا طریقہ کار سمجھ میں آ جائے گا جو اس یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کا بنیادی مقصد ہے۔
اس موقع پر (اپریل 1933ء ) امریکی حکومت نے ایک قانون لاگو کیا جس کے تحت امریکی شہریوں کے لیے سونے کے سکے ،ان کی خام شکل اور سونے کے سرٹیفیکیٹ رکھنا جرم قرار دے دیا گیا ، سونے کے سکوں کو لین دین کے استعمال سے روک دیا گیا اور ان کی قانونی حیثیت کو ختم کر دیا گیا۔ یوں یہ سکے روپے کی طرح خرید و فروخت میں استعمال نہیں ہو سکتےتھے اور حکومت نے یہ حکم جاری کیا کہ ایک خاص وقت تک یہ سکے کسی کے پاس نظر آئے تو اس کو دس ہزار ڈالر کا جرمانہ یا چھ مہینے کی قید کی سزاہوگی۔ ان سکوں اور سرٹیفیکٹوں کے عوض امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک نے جو ایک غیر سرکاری ادارہ ہے ، کاغذی نوٹ(یعنی امریکی ڈالر) جاری کر دیے اور ایک اونس سونے کے عوض 20 ڈالر کا نوٹ دیا جانے لگا۔ گویاایک اونس سونے کا نعم البدل کاغذی نوٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ عوام قید و جرمانہ سے بچنے کے لیے سونے کے سکوں کے عوض ڈالر کے نوٹ تبدیل کروانے لگی مگر جوسمجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے سونے کو تبدیل کرنے کے بجائے مزید سونا خریدنا شروع کر دیا اور انہیں سوئس بنکوں میں بھیجتے چلے گئے۔ پھر اسی سال برطانیہ نے بھی امریکہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملک میں یہی کاروائی کی اور سونے کو تجارتی مقاصد کے استعمال سے روک دیا۔ انہوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی کاغذی کرنسی پاونڈ اسٹرلنگ کو سونے کی ضمانت سے الگ کر دیا۔
جب امریکہ میں تمام کا تمام سونا کاغذی کرنسی میں تبدیل ہوگیا تو جنوری 1934ء میں امریکی حکومت نے اپنی مرضی سے اپنے کاغذی ڈالر کی قیمت میں 41 فیصد کمی کر دی اور اس کے ساتھ ہی اپنے اس قانون کو جس کے ذریعہ سونا رکھنا ممنوع کر دیا گیا تھا ، ختم کر دیا۔ اب امریکی عوام پھر دوڑی کہ اپنے کاغذی نوٹوں کو واپس سونے میں تبدیل کر لے مگر اب ڈالر کی قیمت گرنے کی وجہ سے فی اونس سونے کی قیمت 35 ڈالر ہو گئی تھی۔ اس عمل کے دوران عوام کی 41 فیصد دولت لوٹ لی گئی۔
امید ہے کہ قاری کے ذہن میں یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ لوٹ مار میں لٹیروں کو قانونی تحفظ کس طرح ملتا ہے۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے انتہائی وضاحت سے عوام کی دولت کو لوٹنے سے منع کیا ہے اور اس کو حرام قرار دیا ہے۔ سورۃ النساء اور سورۃ ہود میں یہ ممانعت اس طرح سے ہے:
"اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے مت کھاو ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو، اور اپنے آپ کو قتل مت کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے" (سورۃ النساء ، آیت 29)
اور
"اے میری قوم کے لوگو! ناپ تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو ، اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو" (سورۃ ہود، آیت 85)
اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے بتا دیا کہ جو کاروبار اور لین دین نا جائز منافع دے وہ رِبا(سود) ہے۔
اوپر بیان کیے گئے واقعہ میں فیڈرل ریزرو بینک نے تجرباتی طور پر یہ اقدام امریکہ میں اٹھایا تھا تا کہ یہ دیکھا جاسکے کہ نئے مالیاتی نظام کے ذریعے بہت بڑے پیمانے پر دولت کا غیر قانونی انتقال دنیا کے کسی بھی ملک میں غیر محسوس طریقہ سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام اس طرح انجام پائے گا کہ بے وقعت کاغذ کے نوٹ چھاپ کر اس کو بنی نوع انسان پر ٹھونس دیا جائے۔ اور جو اِس نظام کے کرتا دھرتا ہیں ، وہ دنیا کی مختلف کرنسیوں کو نشانہ بنائیں گے اور اُن کو مجبور کریں گے کہ اُن کی قیمتیں گھٹا دی جائیں اور یوں کاغذی کرنسی گرتی گئی اور عوام الناس بے خبر رہی اور بے چاری عوام کا تو نقصان ہوا مگر دوسروں کا منافع۔
ستمبر 1931 ء میں برطانوی پاونڈ کی قیمت 30 فیصد گرائی گئی جو 1934ء تک 40 فیصد تک گر گئی۔ اس کے بعد فرانس نے اپنی کرنسی فرانک کی قیمت کو 30 فیصد گرا دیا۔ اٹالین لیرا کو 41 فیصد تک اور سوئس فرانک کو 30 فیصد تک کم کر دیا گیا۔ اس لہر نے تقریبا تمام یورپی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہ عمل ہر جگہ دہرایا گیا۔ یہاں تک کہ یونان نے تو حد کردی کہ اپنی کرنسی کو یک دم 59 فیصد کی حد تک نیچے لے آیا۔ اپنے پڑوسی کو نیچا دکھانے کی اس پالیسی نےکھلبلی مچا دی۔ کرنسی کی قیمت کم کر کے اپنے ملک کی برآمدی اشیاء کو بین الاقوامی مارکیٹ میں سستا کیا گیا تا کہ اُن کی برآمدات میں اضافہ ہو اور اُدھار چکانے میں آسانی ہوجائے ۔ اس وجہ سے قومی آمدنیوں میں شدید گراوٹ پیدا ہوئی ، مال کی مانگ میں کمی پیدا ہوئی تو بڑے پیمانے پر بے روزگاری نے جنم لیا اور پوری دنیا میں شدید تجارتی خسارے میں مبتلا ہوگئی جس کو اس صدی کی دہائی کا "پستی اور اداسی کا دور" The Great Depression Period کہا گیا اور اسی نے ایک نئے عالمی مالیاتی نظام کے نفاذ کے لیے راستہ ہموار کردیا جس کا مقصد دنیا کے تجارتی اور مالیاتی معاملات کو درست کرنا تھا۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ڈپریشن کا یہ دور جان بوجھ کر مصنوعی طریقوں سے پیدا کیا گیا تھا تا کہ نیا مالیاتی نظام ٹھونسا جا سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ کی یہ متفقہ اور متحدہ چال ہم مسلمانوں کو جگا دیتی اور یہ احساس دلا دیتی کہ کاغذی نوٹوں کی اس ہیرا پھیری کے پیچھے یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ کیا گُل کھلانے والا ہے۔
ہم تو نہ جاگے تاہم اس گٹھ جوڑ نے بالآخر کاغذی نوٹوں کی بنیاد پر ایک عالمی مالیاتی نظام کا نفاذ " بریٹن ووڈز" کے مقام پر کر لیا۔ اسی بریٹن ووڈز معاہدہ Bretton Woods Agreement میں انہوں نے سونے اور ڈالر کے درمیان ایک رابطہ پیدا کر لیا جو بظاہر تو ٹھیک تھا مگر پس ِپردہ یہ حقیقت کارفرما تھا کہ اب کاغذی نوٹ بغیر کی زر ضمانت کے چھاپے جا سکتے ہیں اور اس کا کاروباری دنیا میں حققی طور پر کسی قیمت کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
اس معاہدہ نے 1944 ء میں آئی ایم ایف کے انعقاد کا راستہ ہموار کر دیا جس کا مقصد خصوصی طور پر اس بے ضمانت کاغذی کرنسی کےنظام کو عالمی مالیاتی نظام پر لاگو کیے رہنا تھا یہاں تک کہ 1971ء میں یہ ڈھکی چھپی کاروائی بھی بے نقاب ہو گئی جب امریکہ اس عالمی معاہدہ کی اس شق سے منحرف ہو گیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی ضمانت حاصل ہوگی۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ اسلامی دنیا سے نہ کوئی آواز اس کے خلاف اٹھی اور نہ مسلمانوں کو خبردار کیا گیاکہ وہ اس فریبی نظام کے خلاف کاروائی کریں۔ مسلم علماء اس بات پر مطمئن تھےکہ امریکی کاغذی ڈالر کو سونے کی ضمانت موجود ہے اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ، مگر 1971ء کے بعد تو یہ ضمانت بھی باقی نہیں رہ گئی تھی اور اب تو یہ قانونی چوری ایک ننگی حقیقت کے طور پر سامنے آگئی تھی۔
مگر ہمارے علماء کو ابھی تک یہ نظام حرام نہیں لگا اور پھر پورا عالم اسلام اس گٹھ جوڑ کی اندھی تقلید میں اس پُرفریب مالیاتی نظام کے بِل میں داخل ہوگیا۔ جب اس بدنیت و بدشکل یورپی یہودی گٹھ جوڑ نے اپنی کالونیاں ختم کیں تو اس بات کو یقینی بنا لیا کہ آزادی حاصل کرنے والی تمام غیر یورپی قومیں اس فریبی مالیاتی نظام سے منسلک رہیں اور آئی ایم ایف کی رکنیت ان کے ساتھ رہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدہ کی ایک شق یہ ہے کہ سونے کو بطور روپیہ استعمال نہیں کیا جائے گا صرف امریکی ڈالر کو سونے کی زر ضمانت حاصل ہوگی۔
اس معاہدے کی شق نمبر 4 ، سیکشن 2 (ب) یہ کہتی ہے:
"زرِ مبادلہ کے انتظام کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ (1) رکن ملک اپنے ملک کی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنےکے لیے اپنی کرنسی کو کسی دوسرے رکن ملک کی کرنسی کے ساتھ منسلک کر لے جس کو وہ چاہے ، ماسوا سونے کے۔
یا
(2) باہمی اتفاق کے تحت رکن ممالک اپنی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے کسی اور رکن ملک کی کرنسی کے اتار چڑھاو کے ساتھ جوڑ لے
یا
(3) پھر کوئی اور معاہدہ باہمی اتفاق سے کر لے۔
اپریل 2002 ء میں امریکی کانگرس مین 'ران پاول' نے ایک خط امریکی ٹریزری ڈیپارٹمنٹ اور فیڈرل ریزرو بینک کو بھیجا اور ان سے یہ استفسار کیا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کو سونے کی زر ضمانت کے ساتھ کرنسی جاری کرنے کی اجازت نہیں دیتے اس خط کے مندرجات یوں تھے:
جنابِ عالی!
میں یہ خط آئی ایم ایف کے معاہدہ کے آرٹیکل 4 سیکشن2 ب کے متعلق لکھ رہا ہوں۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اس شق کی تشریح اس بات کی متقاضی ہے کہ آئی ایم ایف کے رکن ممالک اپنی کرنسی کو سونے کے ساتھ نہیں جوڑ سکتے۔ اس طرح آئی ایم ایف ان ملکوں کو جو غیر مستحکم مالیاتی بحران سے دوچار ہیں اس بات سےروک رہا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو ایک ایسے ذریعہ سے مستحکم کر سکیں جو سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے رکن ملک کو اپنی متزلزل مالیاتی حالت سے نکلنے میں نہ صرف وقت لگے گا بلکہ ان کی مالیاتی ترقی کو بھی روکے گا جو سیاسی اور مالیاتی کمزوریاں پیدا کر دے گا۔ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ ٹریزری اور فیڈرل ریزرو دونوں یہ وضاحت کریں گے کہ آخر کیوں امریکہ ایک ایسی گمراہ کن پالیسی کو بلا تردد قبول کیے ہوئے ہے؟ اگر آپ کو مزید تفصیلات درکار ہوں تو براہِ مہربانی میرے قانونی ڈائریکٹر مسٹر نارمن سنگلٹن سے رابطہ کریں۔ آپ کے تعاون کا شکریہ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک نہ تو محکمہ مال نے اور نہ ہی فیڈرل ریزرو بینک نے اس خط کا جواب دیا اور نہ ہی کسی تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔ اور اس کے جواب نہ دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ جواب ہے ہی نہیں کہ دیا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس مالیاتی نظام کو آئی ایم ایف کے ذریعے لاگو کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دنیا کو مالیاتی غلامی میں جکڑ لیا جائے اور یہود و نصاری کے اس گٹھ جوڑ کے تابع کر دیا جائے جو آج ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔
بحوالہ کتاب "درہم و دینار: مستقبل کے اسلامی سکے " از عمران حسین
اس موقع پر (اپریل 1933ء ) امریکی حکومت نے ایک قانون لاگو کیا جس کے تحت امریکی شہریوں کے لیے سونے کے سکے ،ان کی خام شکل اور سونے کے سرٹیفیکیٹ رکھنا جرم قرار دے دیا گیا ، سونے کے سکوں کو لین دین کے استعمال سے روک دیا گیا اور ان کی قانونی حیثیت کو ختم کر دیا گیا۔ یوں یہ سکے روپے کی طرح خرید و فروخت میں استعمال نہیں ہو سکتےتھے اور حکومت نے یہ حکم جاری کیا کہ ایک خاص وقت تک یہ سکے کسی کے پاس نظر آئے تو اس کو دس ہزار ڈالر کا جرمانہ یا چھ مہینے کی قید کی سزاہوگی۔ ان سکوں اور سرٹیفیکٹوں کے عوض امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک نے جو ایک غیر سرکاری ادارہ ہے ، کاغذی نوٹ(یعنی امریکی ڈالر) جاری کر دیے اور ایک اونس سونے کے عوض 20 ڈالر کا نوٹ دیا جانے لگا۔ گویاایک اونس سونے کا نعم البدل کاغذی نوٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ عوام قید و جرمانہ سے بچنے کے لیے سونے کے سکوں کے عوض ڈالر کے نوٹ تبدیل کروانے لگی مگر جوسمجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے سونے کو تبدیل کرنے کے بجائے مزید سونا خریدنا شروع کر دیا اور انہیں سوئس بنکوں میں بھیجتے چلے گئے۔ پھر اسی سال برطانیہ نے بھی امریکہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملک میں یہی کاروائی کی اور سونے کو تجارتی مقاصد کے استعمال سے روک دیا۔ انہوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی کاغذی کرنسی پاونڈ اسٹرلنگ کو سونے کی ضمانت سے الگ کر دیا۔
جب امریکہ میں تمام کا تمام سونا کاغذی کرنسی میں تبدیل ہوگیا تو جنوری 1934ء میں امریکی حکومت نے اپنی مرضی سے اپنے کاغذی ڈالر کی قیمت میں 41 فیصد کمی کر دی اور اس کے ساتھ ہی اپنے اس قانون کو جس کے ذریعہ سونا رکھنا ممنوع کر دیا گیا تھا ، ختم کر دیا۔ اب امریکی عوام پھر دوڑی کہ اپنے کاغذی نوٹوں کو واپس سونے میں تبدیل کر لے مگر اب ڈالر کی قیمت گرنے کی وجہ سے فی اونس سونے کی قیمت 35 ڈالر ہو گئی تھی۔ اس عمل کے دوران عوام کی 41 فیصد دولت لوٹ لی گئی۔
امید ہے کہ قاری کے ذہن میں یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ لوٹ مار میں لٹیروں کو قانونی تحفظ کس طرح ملتا ہے۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے انتہائی وضاحت سے عوام کی دولت کو لوٹنے سے منع کیا ہے اور اس کو حرام قرار دیا ہے۔ سورۃ النساء اور سورۃ ہود میں یہ ممانعت اس طرح سے ہے:
"اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے مت کھاو ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو، اور اپنے آپ کو قتل مت کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے" (سورۃ النساء ، آیت 29)
اور
"اے میری قوم کے لوگو! ناپ تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو ، اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو" (سورۃ ہود، آیت 85)
اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے بتا دیا کہ جو کاروبار اور لین دین نا جائز منافع دے وہ رِبا(سود) ہے۔
اوپر بیان کیے گئے واقعہ میں فیڈرل ریزرو بینک نے تجرباتی طور پر یہ اقدام امریکہ میں اٹھایا تھا تا کہ یہ دیکھا جاسکے کہ نئے مالیاتی نظام کے ذریعے بہت بڑے پیمانے پر دولت کا غیر قانونی انتقال دنیا کے کسی بھی ملک میں غیر محسوس طریقہ سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام اس طرح انجام پائے گا کہ بے وقعت کاغذ کے نوٹ چھاپ کر اس کو بنی نوع انسان پر ٹھونس دیا جائے۔ اور جو اِس نظام کے کرتا دھرتا ہیں ، وہ دنیا کی مختلف کرنسیوں کو نشانہ بنائیں گے اور اُن کو مجبور کریں گے کہ اُن کی قیمتیں گھٹا دی جائیں اور یوں کاغذی کرنسی گرتی گئی اور عوام الناس بے خبر رہی اور بے چاری عوام کا تو نقصان ہوا مگر دوسروں کا منافع۔
ستمبر 1931 ء میں برطانوی پاونڈ کی قیمت 30 فیصد گرائی گئی جو 1934ء تک 40 فیصد تک گر گئی۔ اس کے بعد فرانس نے اپنی کرنسی فرانک کی قیمت کو 30 فیصد گرا دیا۔ اٹالین لیرا کو 41 فیصد تک اور سوئس فرانک کو 30 فیصد تک کم کر دیا گیا۔ اس لہر نے تقریبا تمام یورپی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہ عمل ہر جگہ دہرایا گیا۔ یہاں تک کہ یونان نے تو حد کردی کہ اپنی کرنسی کو یک دم 59 فیصد کی حد تک نیچے لے آیا۔ اپنے پڑوسی کو نیچا دکھانے کی اس پالیسی نےکھلبلی مچا دی۔ کرنسی کی قیمت کم کر کے اپنے ملک کی برآمدی اشیاء کو بین الاقوامی مارکیٹ میں سستا کیا گیا تا کہ اُن کی برآمدات میں اضافہ ہو اور اُدھار چکانے میں آسانی ہوجائے ۔ اس وجہ سے قومی آمدنیوں میں شدید گراوٹ پیدا ہوئی ، مال کی مانگ میں کمی پیدا ہوئی تو بڑے پیمانے پر بے روزگاری نے جنم لیا اور پوری دنیا میں شدید تجارتی خسارے میں مبتلا ہوگئی جس کو اس صدی کی دہائی کا "پستی اور اداسی کا دور" The Great Depression Period کہا گیا اور اسی نے ایک نئے عالمی مالیاتی نظام کے نفاذ کے لیے راستہ ہموار کردیا جس کا مقصد دنیا کے تجارتی اور مالیاتی معاملات کو درست کرنا تھا۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ڈپریشن کا یہ دور جان بوجھ کر مصنوعی طریقوں سے پیدا کیا گیا تھا تا کہ نیا مالیاتی نظام ٹھونسا جا سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ کی یہ متفقہ اور متحدہ چال ہم مسلمانوں کو جگا دیتی اور یہ احساس دلا دیتی کہ کاغذی نوٹوں کی اس ہیرا پھیری کے پیچھے یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ کیا گُل کھلانے والا ہے۔
ہم تو نہ جاگے تاہم اس گٹھ جوڑ نے بالآخر کاغذی نوٹوں کی بنیاد پر ایک عالمی مالیاتی نظام کا نفاذ " بریٹن ووڈز" کے مقام پر کر لیا۔ اسی بریٹن ووڈز معاہدہ Bretton Woods Agreement میں انہوں نے سونے اور ڈالر کے درمیان ایک رابطہ پیدا کر لیا جو بظاہر تو ٹھیک تھا مگر پس ِپردہ یہ حقیقت کارفرما تھا کہ اب کاغذی نوٹ بغیر کی زر ضمانت کے چھاپے جا سکتے ہیں اور اس کا کاروباری دنیا میں حققی طور پر کسی قیمت کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
اس معاہدہ نے 1944 ء میں آئی ایم ایف کے انعقاد کا راستہ ہموار کر دیا جس کا مقصد خصوصی طور پر اس بے ضمانت کاغذی کرنسی کےنظام کو عالمی مالیاتی نظام پر لاگو کیے رہنا تھا یہاں تک کہ 1971ء میں یہ ڈھکی چھپی کاروائی بھی بے نقاب ہو گئی جب امریکہ اس عالمی معاہدہ کی اس شق سے منحرف ہو گیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی ضمانت حاصل ہوگی۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ اسلامی دنیا سے نہ کوئی آواز اس کے خلاف اٹھی اور نہ مسلمانوں کو خبردار کیا گیاکہ وہ اس فریبی نظام کے خلاف کاروائی کریں۔ مسلم علماء اس بات پر مطمئن تھےکہ امریکی کاغذی ڈالر کو سونے کی ضمانت موجود ہے اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ، مگر 1971ء کے بعد تو یہ ضمانت بھی باقی نہیں رہ گئی تھی اور اب تو یہ قانونی چوری ایک ننگی حقیقت کے طور پر سامنے آگئی تھی۔
مگر ہمارے علماء کو ابھی تک یہ نظام حرام نہیں لگا اور پھر پورا عالم اسلام اس گٹھ جوڑ کی اندھی تقلید میں اس پُرفریب مالیاتی نظام کے بِل میں داخل ہوگیا۔ جب اس بدنیت و بدشکل یورپی یہودی گٹھ جوڑ نے اپنی کالونیاں ختم کیں تو اس بات کو یقینی بنا لیا کہ آزادی حاصل کرنے والی تمام غیر یورپی قومیں اس فریبی مالیاتی نظام سے منسلک رہیں اور آئی ایم ایف کی رکنیت ان کے ساتھ رہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدہ کی ایک شق یہ ہے کہ سونے کو بطور روپیہ استعمال نہیں کیا جائے گا صرف امریکی ڈالر کو سونے کی زر ضمانت حاصل ہوگی۔
اس معاہدے کی شق نمبر 4 ، سیکشن 2 (ب) یہ کہتی ہے:
"زرِ مبادلہ کے انتظام کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ (1) رکن ملک اپنے ملک کی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنےکے لیے اپنی کرنسی کو کسی دوسرے رکن ملک کی کرنسی کے ساتھ منسلک کر لے جس کو وہ چاہے ، ماسوا سونے کے۔
یا
(2) باہمی اتفاق کے تحت رکن ممالک اپنی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے کسی اور رکن ملک کی کرنسی کے اتار چڑھاو کے ساتھ جوڑ لے
یا
(3) پھر کوئی اور معاہدہ باہمی اتفاق سے کر لے۔
اپریل 2002 ء میں امریکی کانگرس مین 'ران پاول' نے ایک خط امریکی ٹریزری ڈیپارٹمنٹ اور فیڈرل ریزرو بینک کو بھیجا اور ان سے یہ استفسار کیا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کو سونے کی زر ضمانت کے ساتھ کرنسی جاری کرنے کی اجازت نہیں دیتے اس خط کے مندرجات یوں تھے:
جنابِ عالی!
میں یہ خط آئی ایم ایف کے معاہدہ کے آرٹیکل 4 سیکشن2 ب کے متعلق لکھ رہا ہوں۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اس شق کی تشریح اس بات کی متقاضی ہے کہ آئی ایم ایف کے رکن ممالک اپنی کرنسی کو سونے کے ساتھ نہیں جوڑ سکتے۔ اس طرح آئی ایم ایف ان ملکوں کو جو غیر مستحکم مالیاتی بحران سے دوچار ہیں اس بات سےروک رہا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو ایک ایسے ذریعہ سے مستحکم کر سکیں جو سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے رکن ملک کو اپنی متزلزل مالیاتی حالت سے نکلنے میں نہ صرف وقت لگے گا بلکہ ان کی مالیاتی ترقی کو بھی روکے گا جو سیاسی اور مالیاتی کمزوریاں پیدا کر دے گا۔ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ ٹریزری اور فیڈرل ریزرو دونوں یہ وضاحت کریں گے کہ آخر کیوں امریکہ ایک ایسی گمراہ کن پالیسی کو بلا تردد قبول کیے ہوئے ہے؟ اگر آپ کو مزید تفصیلات درکار ہوں تو براہِ مہربانی میرے قانونی ڈائریکٹر مسٹر نارمن سنگلٹن سے رابطہ کریں۔ آپ کے تعاون کا شکریہ۔
ران پاول
حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک نہ تو محکمہ مال نے اور نہ ہی فیڈرل ریزرو بینک نے اس خط کا جواب دیا اور نہ ہی کسی تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔ اور اس کے جواب نہ دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ جواب ہے ہی نہیں کہ دیا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس مالیاتی نظام کو آئی ایم ایف کے ذریعے لاگو کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دنیا کو مالیاتی غلامی میں جکڑ لیا جائے اور یہود و نصاری کے اس گٹھ جوڑ کے تابع کر دیا جائے جو آج ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔
بحوالہ کتاب "درہم و دینار: مستقبل کے اسلامی سکے " از عمران حسین
آخری تدوین: