مہوش علی
لائبریرین
اگر جناب آدم 6 ہزار سال قبل تشریف لائے، تو پھر یہ کون ہے؟
الہامی مذاہب (اہل کتاب و اسلام) کہتے ہیں کہ جناب آدم 6 ہزار سال قبل دنیا میں تشریف لائے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہے جس کے ڈھانچے جناب آدم سے بھی ہزاروں سال پرانے ہیں؟
یہ آج کا انسان نہیں ہے، بلکہ یہ "نیندرتھال" ہے، جو کہ یورپ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ڈی این اے میں 99 فیصد انسان تھے، اور انکے دماغ کا سائز انسانی دماغ کے سائز کے برابر ہے۔
نیندرتھال کی نسل آج سے 28 ہزار سال پہلے ختم ہو گئی۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے انسان میں نیندرتھال کا ڈی این اے پایا جاتا ہے۔
کیا الہامی مذاہب کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ انسان کی اس تاریخ کے متعلق کچھ بتلا پاتے؟
سوال بہت سادہ سا ہے۔۔۔۔ اگر ہم جناب آدم کی اولاد ہیں،۔۔۔۔ تو پھر اس 28 ہزار سال پہلے ختم ہو جانے والی اس نسل "نیندرتھال" کے "ڈی این اے" آج کی شمالی ایشیائی اور یورپین انسانی نسل میں کیسے آ گئے؟
نیندرتھال نامی یہ نسل فقط یورپ اور شمال مغربی ایشیا میں پائی جاتی تھی (ٹھنڈے علاقے میں)۔ ان علاقوں میں نیندرتھال اور انسان کچھ ہزار سال اکھٹے زندگی گذارتے رہے۔ جبکہ افریقہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا نیندرتھال سے کبھی سامنا نہیں ہوا، اس لیے ان میں نیندرتھال کے کوئی ڈی این اے نہیں ملتے۔
۔2۔ اللہ اور جناب آدم کی لمبائی 60 ہاتھ (30 گز)۔۔۔۔
اور پھر مذہب کے نام پر یہ کہا جائے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ و جناب آدم 60 ہاتھ لمبے تھے، اور پھر انسان کا قد کم ہونا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے دور تک جاری تھا اور پھر وہاں جا کر قد کم ہونا رک گئے۔
دیکھئے معتبر ترین سائیٹ اسلام سوال جواب، جس کو براہ راست سعودیہ کے مفتی حضرات چلا رہے ہیں(لنک):
http://islamqa.info/ur/20612) ۔
اس لنک پر موجود مواد کو پڑھ لیجئے۔ آپکے 14 طبق روشن ہو جائیں گے۔
ایک بار پھر زبردست طریقے سے سائنس و مذہب کا ٹکراؤ سامنے ہے۔ کس پر یقین کیا جائے۔
یہ ہے فرعون کا ڈھانچہ ، جو مسلمانوں سے کہیں قبل کا ہے، مگر اسکا قد وہی ہے جو کہ آجکے انسان کا ہے۔
ایک کیا، سینکڑوں ہزاروں انسانی ڈھانچے برآمد ہو چکے ہیں جو کہ اسلام کی آمد سے قبل کے ہیں اور 2 لاکھ سال پہلے تک جا رہے ہیں، مگر ان سب کا قد 30 میٹر لمبا نہیں، بلکہ آجکے انسان جتنا ہی ہے۔
پرانے زمانے کے انسانوں کی عمر ہزار سال
جناب نوح نے 950 سال تبلیغ کی اور جب 950 سال کے بعد طوفان آیا تو انکے بیوی اور بچے اور کمیونٹی سب موجود تھے جو کہ ان ہی ساتھ طویل عمریں جی رہے تھے۔
لیکن آج سائنس ثابت کر رہی ہے کہ پرانے زمانے کے انسان کی عمر ہرگز آج کے انسان سے مختلف نہیں تھی، بلکہ پچھلے 2 لاکھ سال سے یہ اوسطا ایک ہی جیسی قائم ہے۔
آج سینکڑوں اور ہزاروں پرانے ڈھانچوں پر سائنس تحقیق کر چکی ہے جو کہ 5 ہزار سے لے کر 2 لاکھ سال پرانے ہیں، مگر ان میں سے کسی کی عمر بھی ہزاروں سال نہیں تھی۔
چنانچہ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ۔۔۔۔۔
جب مذہب کا ٹکراؤ ہو فطرت سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو عقل سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو سائنس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر آپ اپنے دلوں کو کیسے دلاسے دیں گے؟
الہامی مذاہب (اہل کتاب و اسلام) کہتے ہیں کہ جناب آدم 6 ہزار سال قبل دنیا میں تشریف لائے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہے جس کے ڈھانچے جناب آدم سے بھی ہزاروں سال پرانے ہیں؟
یہ آج کا انسان نہیں ہے، بلکہ یہ "نیندرتھال" ہے، جو کہ یورپ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ڈی این اے میں 99 فیصد انسان تھے، اور انکے دماغ کا سائز انسانی دماغ کے سائز کے برابر ہے۔
نیندرتھال کی نسل آج سے 28 ہزار سال پہلے ختم ہو گئی۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے انسان میں نیندرتھال کا ڈی این اے پایا جاتا ہے۔
Everyone living outside of Africa today has a small amount of Neanderthal in them, carried as a living relic of these ancient encounters. A team of scientists comparing the full genomes of the two species concluded that most Europeans and Asians have between 1 to 4 percent Neanderthal DNA. Indigenous sub-Saharan Africans have no Neanderthal DNA because their ancestors did not migrate through Eurasia.
کیا الہامی مذاہب کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ انسان کی اس تاریخ کے متعلق کچھ بتلا پاتے؟
سوال بہت سادہ سا ہے۔۔۔۔ اگر ہم جناب آدم کی اولاد ہیں،۔۔۔۔ تو پھر اس 28 ہزار سال پہلے ختم ہو جانے والی اس نسل "نیندرتھال" کے "ڈی این اے" آج کی شمالی ایشیائی اور یورپین انسانی نسل میں کیسے آ گئے؟
نیندرتھال نامی یہ نسل فقط یورپ اور شمال مغربی ایشیا میں پائی جاتی تھی (ٹھنڈے علاقے میں)۔ ان علاقوں میں نیندرتھال اور انسان کچھ ہزار سال اکھٹے زندگی گذارتے رہے۔ جبکہ افریقہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا نیندرتھال سے کبھی سامنا نہیں ہوا، اس لیے ان میں نیندرتھال کے کوئی ڈی این اے نہیں ملتے۔
۔2۔ اللہ اور جناب آدم کی لمبائی 60 ہاتھ (30 گز)۔۔۔۔
اور پھر مذہب کے نام پر یہ کہا جائے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ و جناب آدم 60 ہاتھ لمبے تھے، اور پھر انسان کا قد کم ہونا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے دور تک جاری تھا اور پھر وہاں جا کر قد کم ہونا رک گئے۔
دیکھئے معتبر ترین سائیٹ اسلام سوال جواب، جس کو براہ راست سعودیہ کے مفتی حضرات چلا رہے ہیں(لنک):
http://islamqa.info/ur/20612) ۔
اس لنک پر موجود مواد کو پڑھ لیجئے۔ آپکے 14 طبق روشن ہو جائیں گے۔
ایک بار پھر زبردست طریقے سے سائنس و مذہب کا ٹکراؤ سامنے ہے۔ کس پر یقین کیا جائے۔
یہ ہے فرعون کا ڈھانچہ ، جو مسلمانوں سے کہیں قبل کا ہے، مگر اسکا قد وہی ہے جو کہ آجکے انسان کا ہے۔
ایک کیا، سینکڑوں ہزاروں انسانی ڈھانچے برآمد ہو چکے ہیں جو کہ اسلام کی آمد سے قبل کے ہیں اور 2 لاکھ سال پہلے تک جا رہے ہیں، مگر ان سب کا قد 30 میٹر لمبا نہیں، بلکہ آجکے انسان جتنا ہی ہے۔
پرانے زمانے کے انسانوں کی عمر ہزار سال
جناب نوح نے 950 سال تبلیغ کی اور جب 950 سال کے بعد طوفان آیا تو انکے بیوی اور بچے اور کمیونٹی سب موجود تھے جو کہ ان ہی ساتھ طویل عمریں جی رہے تھے۔
لیکن آج سائنس ثابت کر رہی ہے کہ پرانے زمانے کے انسان کی عمر ہرگز آج کے انسان سے مختلف نہیں تھی، بلکہ پچھلے 2 لاکھ سال سے یہ اوسطا ایک ہی جیسی قائم ہے۔
آج سینکڑوں اور ہزاروں پرانے ڈھانچوں پر سائنس تحقیق کر چکی ہے جو کہ 5 ہزار سے لے کر 2 لاکھ سال پرانے ہیں، مگر ان میں سے کسی کی عمر بھی ہزاروں سال نہیں تھی۔
چنانچہ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ۔۔۔۔۔
جب مذہب کا ٹکراؤ ہو فطرت سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو عقل سے ۔۔۔۔ مذہب کا ٹکراؤ ہو سائنس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر آپ اپنے دلوں کو کیسے دلاسے دیں گے؟