سید شہزاد ناصر
محفلین
یہ تصور کہ موجودہ جاندار کسی دوسری طرح کے جانداروں کی تبدیل شدہ شکل ہیں سب سے پہلے تقریبا دو ہزار سال قبل یونانی فلاسفروں نے پیش کیا تھا۔ ان مادیت پرست خیالات کے برخلاف افلاطون اور ارسطو نے نباتات اور حیوانات میں تغیرات کا مشاہدہ کیا اور انہیں Forms کی نامکمل قدرتی صورت خیال کیا۔ Forms یا Ideas کو لاطینی زبان میں Species کہتے ہیں۔ ارسطو کے مطابق یہ FORMS یا SPECIES ناقابل تغیر، ابدی اور کامل تھیں اور دنیا سے پرے کسی جگہ موجود تھیں۔
سترہویں صدی میں یورپ میں جدید سائنس کے آغاز سے ارسطو کے نظریات مسترد ہوئے اور جانداروں میں تغیرات کو قدرتی قوانین کے تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ اب Species یا نوع، جانداروں کے ایسے گروہ کو کہا جانے لگا جو ایک جیسی خصوصیات رکھنے کے ساتھ ساتھ آپسی افزائش نسل کے قابل تھے۔ لیکن اب بھی ان انواع کو غیر تغیر پذیر اور علیحدہ علیحدہ تخلیق سمجھا جاتا تھا۔
لامارک کا نظریہ ارتقا
پہلامکمل نظریہ ارتقاء لامارک نے 1809ء میں پیش کیا جس کے مطابق انواع کی اپنی ضرورت اور کوشش کی وجہ سے ارتقائی عمل ہوتا ہے اور ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثلاً قدیم زرافہ چھوٹی گردن کا تھا۔ جب زمین پر گھاس ناپید ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے درختوں کے پتے کھانے کے لئے زور لگا لگا کے اپنی گردن لمبی کر لی اور ان کی لمبی گردن ہر نسل کے ساتھ کوشش کرتے رہنے سے مزید لمبی ہوتی چلی گئی۔ نتیجاً اب لمبی گردن والے زرافے ہی موجود ہیں۔
ڈارون وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے ارتقائی عمل میں قدرتی انتخاب کو اہمیت دی۔ اس نظریے کو سائنسی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی البتہ چرچ کے پراپیگنڈے کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی اکثریت اس کے خلاف ہوتی گئی۔ ڈارون پہ الحاد کے فتوے لگے۔ اپنی زندگی میں ڈارون اپنے نظریے کا دفاع کرتا رہا۔ لیکن فوسل ریکارڈ کی کمی کی وجہ سے کچھ سائنسدان اب بھی شش و پنج میں مبتلا تھے۔ ڈارون کی وفات کے ساتھ ہی تقلید پرستوں کو پھر غلباء حاصل ہو گیا۔ انیسویں صدی میں جینیاتی تحقیق میں ترقی کے ساتھ ہی ڈارون کے پیش کردہ نظریہ کی صداقت عیاں ہو گئی۔ Hugo de Varies نے مینڈل، جو جینیاتی سائنس کا بانی کہلاتا ہے اور August Weismann کے تولیدی خلیہ کے کام کو ڈارون کے نظریہ سے جوڑ کر نظریہ ارتقاء کو جینیاتی بنیاد فراہم کی۔ اب ارتقاء کی علم حیاتیات میں اہمیت کا اندازہ معروف جینیاتی سائنسدان Theodosius Dobzhansky کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’بائیولوجی میں نظریہ ارتقاء نہ ہو تو کچھ بھی سمجھا نہیں جاسکتا۔ ‘‘
نظریہ ارتقاء جب سے پیش کیا گیا تب سے ہی اس پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ اس نظریہ پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ نظریہ کے لغوی معنوں تک محدود رہتے ہیں اُن کے مطابق نظریہ ارتقاء ایک مفروضہ یا نظریہ ہے اور چونکہ مفروضہ غلط بھی ہو سکتا ہے لہٰذااس کے بارے میں اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ اگر ارتقاء اب بھی جاری ہے تو اب ہوتانظرکیوں نہیں آتا یا پھر اب بندر سے انسان کیوں نہیں بنتے؟ کچھ ’’دانشور‘‘ نظریہ ارتقاء کے خود سے فرض کئے گئے ’’سماجی اثرات ‘‘سے خائف ہیں کہ اگر بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کو درست مان لیں تومعاشرے میں فساد پیدا ہو جائے گااور ہر طاقتور، کمزور کو ختم کرنے کے دَر پے ہو گا۔ نہ صرف عام لوگوں میں یہ تصور ہے کہ نظریہ ارتقاء کے مطابق سائنسدان یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان بندر کی اولاد ہے، بلکہ نظریہ ارتقاء سے متنفر کرنے کے لئے اس کے مخالفین اس بات کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لوگ ارتقاء کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں، کیونکہ ان کی اناپر ضرب لگتی ہے۔ غرضیکہ ارتقاء کے خلاف اعتراضات کی ایک بھرمار ہے جن میں سے بعض معقول ہیں اور بعض بالکل بے بنیاد اور جعلی۔ سائنسدان اپنی تحقیق کے ذریعے مسلسل ان اعتراضات کے جوابات دیتے چلے آ رہے ہیں۔
چارلس ڈارون
اس صورتِ حال میں عام آدمی چکرا کے رہ جاتا ہے کہ ایک طرف توسائنس ہمیں بے شمار سہولتیں دے رہی ہے اور دوسری طرف وہی سائنس انسان کو بندر سے جوڑنے پر تُلی ہے۔ عام آدمی کے ذہن کو وہ اعتراض بھی پراگندہ رکھتے ہیں جوکہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر میڈیا کی طرف سے مسلسل پھیلائے جاتے رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو محض اعتراضات سُن کر ہی ارتقا کے خلاف دلائل دینے نکل پڑتے ہیں۔ وہ لوگ جوواقعتا حقیقت جاننا چاہتے ہیں اُن کے سامنے اصل معلومات تک رسائی اور اسے سمجھنے کا مسئلہ در پیش آتا ہے۔ کیونکہ سائنسی اصطلاحات میں کی گئی بات کو سمجھنا عام آدمی کے لئے تقریباً ناممکن ہے اس طرح سے ہماری اس تحریر کا مقصد ارتقاء پر کئے جانے والے معقول اعتراضات کا جواب عام فہم زبان میں فراہم کرنا ہے۔
سب سے پہلے ہم چند بنیادی اصطلاحات کو دیکھ لیتے ہیں۔
ارتقا
ارتقا کی عام رائج تعریف کے مطابق یہ ایک بتدریج ترقی کا عمل ہے جو کہ مرحلہ وار اور صرف بہتری کی طرف ہوتا ہے۔ یعنی یہ کم پیچیدہ سے زیادہ پیچیدہ کی طرف سفر ہے۔ مثلاً لسانی ارتقا اور معاشرتی ارتقا وغیرہ۔ جبکہ ارتقا کی بائیولوجی کی سائنس میں کی جانے والی تعریف کے مطابق’’ جانداروں کی آبادی میں نسل در نسل جینیاتی تبدیلی ارتقا کہلاتی ہے۔ ‘‘یعنی تبدیلی کم پیچیدہ سے زیادہ پیچیدہ کی طرف بھی ہو سکتی ہے اور اِس کے برعکس بھی۔ چنانچہ ارتقائی عمل کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں دونوں طرح کی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہماری نظر میں آنے والی زیادہ تر تبدیلی کم پیچیدہ سے زیادہ پیچیدہ کی طرف ہوئی ہے۔
420 ملین سال پرانا سی سٹار کا فوسل
فوسل
اس سے مراد جانوروں اور پودوں کے اجسام کی وہ باقیات ہیں جو زمانہ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ عام طور پر 10,000 سال سے پرانے اجسام یا ان کی باقیات کوفوسل تسلیم کیا جاتا ہے۔ فوسل کی مدد سے سائنسدان قدیم جانداروں کی عمر، قد، ساخت، رہن سہن اور ارتقائی لڑی میں ان کے مقام کا پتا چلاتے ہیں۔
جین اور جینیاتی سائنس
’’جین وراثتی نظام کی اکائی ہے۔‘‘ جانداروں کی شکل و شباہت، قد کاٹھ، بالوں اور آنکھوں کا رنگ وغیرہ ایسے خواص ہیں جن کا تعین جین کرتے ہیں۔ جس طرح لمبے قد والے والدین کے بچے عام طور پر لمبے ہی ہوتے ہیں۔ لمبے ہونے کی یہ خصوصیت والدین کی طرف سے اولاد میں جینز کی وجہ سے منتقل ہوتی ہے۔ سائنس کی وہ شاخ جو جین کے متعلق تحقیق کرتی ہے جینیاتی سائنس کہلاتی ہے۔
اب ہم ان اصولوں کا جائزہ لیں گے جو نظریہ ارتقاء کی بنیاد ہیں۔ نظریہ ارتقا کی بنیاد چار اصولوں پر ہے۔
1:تغیّرات Variations
2:بقا کی جدوجہد Struggle for Existance
3:فطرتی انتخاب Natural Selection
4:بقائے اصلح Survival of the Fittest
1: تغیّرات Variations
کسی بھی نوع میں تمام جاندار ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتے ہیں۔ یہ فرق رنگ، قدوزن اور ساخت وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کوئی گڈریا اپنے ریوڑ کی تمام بھیڑوں کو علیحدہ علیحدہ پہچانتا ہے۔ یہ انفرادی اوصاف تغیّرات کہلاتے ہیں۔ یہ تغیرات ہر جاندار کے جینیاتی سسٹم کے فرق کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ تغیّرات جانداروں کے اندرونی تضاد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ تغیرات جانداروں کے DNA میں Mutation یا تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تغیّرات DNA کے ذریعے اگلی نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔ لمبے عرصے کی یہ مقداری تبدیلی ایک جست کے ذریعے معیاری تبدیلی میں بدل جاتی ہے اور نئی انواع وجود میں آتی ہیں۔
2: بقا کی جدوجہد Struggle for Existence
بیرونی ماحول تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جب ماحول تبدیل ہوتا ہے تو تمام انواع کو اپنی بقاء کا خطرہ پیش آتا ہے۔ ہر نوع اپنے بچاؤ کے لئے اپنے آپ کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ جس نوع میں بقا کی صلاحیّت زیادہ ہوتی ہے وہ بچ جاتی ہے اور باقی انواع معدوم ہو جاتی ہیں۔ یعنی تغیّرات کے نتیجے میں جو انواع پیدا ہوتی ہیں ان میں سے جو تبدیل شدہ ماحول سے مطابقت رکھتی ہیں وہ بچ جاتی ہیں اور باقی معدوم ہو جاتی ہیں۔
3: فطرتی انتخاب Natural Selection
فطرت طاقتور ہے۔ جانداروں اور انواع کی زندگی کا انحصار فطرت پر ہے۔ جانداروں اور فطرت کے درمیان توازن ہی پرجانداروں کی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ جو انواع فطرت سے مطابقت نہیں رکھ پاتیں فطرت انہیں فنا کر دیتی ہے۔ تبدیل شدہ ماحول میں جو انواع فطرت سے مطابقت رکھتی ہیں، بچ جاتی ہیں۔ اس عمل کو فطرتی انتخاب کہتے ہیں۔
4: بقائے اصلح Survival of The Fittest
یہ اصول درحقیقت پہلے تین اصولوں کا نتیجہ ہے۔ فطرت کا انتخاب ہمیشہ بہترین ہوتا ہے۔ بہترین وہ انواع ہیں جو بقا کی جدوجہد میں فطرتی انتخاب کے نتیجہ میں بچ جاتی ہیں۔ یعنی جو نوع تبدیل شدہ ماحول میں فطرت کے ساتھ بہترین مطابقت رکھتی ہے وہی بچتی ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ بقائے اصلح کا مطلب ایک نوع کے جانداروں کی آپسی جدوجہداور مقابلہ بازی ہرگز نہیں ہے، جیسا کہ بعض بورژوا دانشور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر قدیم زرافے میں تغیرات کے نتیجہ میں دو طرح کی نسلیں وجود میں آئیں، ایک چھوٹی گردن والی اور ایک لمبی گردن والی۔ جب ماحول تبدیل ہوا تو گھاس ناپید ہو گئی اور صرف درختوں کے پتے ہی خوراک کے طور پر رہ گئے۔ نتیجتاً بقا کی جدوجہدمیں فطرتی انتخاب کے بعد وہ نوع بہترین ثابت ہوئی جو لمبی گردن ہونے کے باعث اونچے درختوں سے پتے کھا سکتی تھی۔ جبکہ چھوٹی گردن والی نوع ناپید ہو گئی کیونکہ وہ فطرت سے مطابقت نہ رکھ پائی تھی۔
اب ہم ایک ایک کر کے ان اعتراضات کا جائزہ لیں گے جو ارتقا اور نظریہ ارتقا پر کئے جاتے ہیں۔
1: ارتقا محض ایک نظریہ یا Theoryہے، حقیقت نہیں
ارتقا پر یہ اعتراض سب سے عام اور سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر زبان میں نظریہ کا مطلب ایک مفروضہ ہوتا ہے، جسے کوئی بھی فرض کر سکتا ہے۔ لیکن سائنس میں ایسا نہیں ہے۔ سائنس میں نظریہ کسی فطرتی نظام یا عمل کی جامع تشریح کرتا ہے جسے ثبوت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ یاد رہے سائنس میں نظریہ پہلے نہیں آتا۔ بہت سارے حقائق کو جمع کرنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے، وہ نظریہ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ سائنس میں نظریہ اور حقیقت کا فرق ’’کیسے‘‘ اور ’’کیا‘‘جیسا ہے۔ ارتقا ایک حقیقت ہے جسے مشاہدے، فوسل ریکارڈ، جینیاتی سائنس اور تجربوں سے اخذ کیا گیا ہے اور اب بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ نظریہ ارتقا یہ بیان کرتا ہے کہ ارتقا کب، کیسے اور کن حالات میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔
2: ارتقا ایک مذہب ہے، سائنس نہیں
اس اعتراض کو کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ارتقا ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا لیکن اس کے ماننے والے بغیر کسی ثبوت کے ارتقائی عمل کا واویلا مچاتے ہیں لہٰذا انہوں نے ارتقا کو ایک مذہب بنا لیا ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے عوام کو’ ’ تشبیہہِ کاذب‘‘ یا False Analogy کے منطقی مغالطیمیں مبتلا کرتے ہیں۔ یعنی سائنس کو مذہب کہہ کر سائنس کو غلط ثابت کرنا۔ مذہب مکمل طور پر ایک اعتقادی نظام ہے جس کے ماننے والوں پر فرض ہے کہ وہ بنا کسی ثبوت کے اس کی کہی گئی ہر بات مانیں اور اس پر شک نہ کریں جب کہ سائنس اس کے برعکس ہے۔ سائنس تجربات اور مشاہدات کی بنا پر فیصلہ کرتی ہے۔ ارتقائی عمل بھی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر دریافت ہوا ہے۔ Fossil Record کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر تغیرات نظر آتے ہیں جو نئی انواع کے بننے کا پتا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نظریہ ارتقا ایسا نظریہ نہیں ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اب تک اِس نظریہ پر بے شمار اعتراضات کیے جا چکے ہیں۔ یہ اعتراضات سائنسدانوں کی طرف سے بھی تھے اور دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی، البتہ ابھی تک کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا جا سکا جو سائنسی بنیادوں پر درست ہوتے ہوئے ارتقا اور ارتقائی عمل کو مسترد کر سکے۔ لہٰذا نظریہ ارتقا ایک سائنس ہے۔
3: ارتقا ایک ایسا نظریہ ہے جو ثابت نہیں ہو سکتا
یہ اعتراض کرنے والے شاید جانتے نہیں کہ ارتقائی عمل ایک سے زائد بار اور ایک سے زائد طریقوں سے ثابت ہو چکا ہے۔ فوسل ریکارڈ سے پتا چلا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف انواع موجود تھیں جو فطرتی انتخاب کی وجہ سے معدوم ہوئیں اور نئی انواع پیدا ہوئیں۔ جیسا کہ تاریخ میں ڈائینوسار معدوم ہوئے۔ اس کے علاوہ جینیاتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہمارے DNA اور چمپنزی کے DNA میں 98 فیصد مماثلت ہے اور یہ کہ موجودہ انسان اور چمپنزی، قدیم بندر نما انسان کی ہی تغیر پذیر شکل ہیں۔ نومولود بچے کو اگر پانی میں ڈال دیں تو وہ تیرنے کے انداز میں ہاتھ اور پاؤں چلانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ عمل ہمارے قدیم آبی آباؤ اجداد کی یاد ہے جو بچے کے ذہن میں نقش ہوتی ہے۔ یہ یاد 6 ماہ تک بچے کے ذہن میں رہتی ہے۔ کچھ دماغی امراض میں یہ یادیں لمبے عرصے تک دیکھی جاتی ہیں۔
انسان کے آبائو اجداد نے 85 ملین سال قبل دوسرے ممالیہ جانوروں سے مختلف شکل اختیار کی تھی
4: مشاہدے کا فقدان
اعتراض یہ ہے کہ اگر ارتقا درست ہے تو اب ہوتا نظر کیوں نہیں آتا۔ ارتقا ایک سست عمل ہے جس میں ایک نوع سے دوسری نوع تک تبدیلی کو لاکھوں سال اور ہزاروں نسلیں لگتی ہیں۔ جن انواع میں افزائشِ نسل تیز ہوتی ہے مثلاً کتوں، چوہوں اور جراثیم میں، ان میں تغیرات با آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ارتقا ایک ایسا عمل ہے جسے سائنسدانوں نے ہزار ہا بار لیبارٹرری میں کر کے دیکھا ہے۔ اگر جینیاتی تبدیلی اتنی ہی ناممکن ہوتی تو آج ذیابیطیس کے مریضوں کے لئے انسولین نہ بن پاتی جو کہ جینیاتی انجینرنگ کی بدولت ہی ممکن ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں 20 سے زائد ایسی انواع وجود میں آئی ہیں جن کا اِس سے پہلے وجود نہ تھا۔ مثال کے طور پر ایڈز وائرس، پولی تھین کو کھانے والے بیکٹیریا وغیرہ۔
5: اگر ارتقا اب بھی جاری ہے تو اب کیوں بندر سے انسان نہیں بنتے؟
یہ اعتراض کرنے والے ارتقائی عمل سے یکسر ناواقف ہیں۔ درحقیقت نظریہ ارتقا میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہم بندر سے ارتقا پذیر ہوئے ہیں بلکہ ارتقائی عمل کے مطابق ہمارے اور بندر کے آباؤاجداد ایک ہی ہیں جو 60 لاکھ سال پہلے معدوم ہو گئے تھے۔ اس لحاظ سے بندر اور چمپنزی ہمارے حیاتیاتی کزن ہیں نہ کہ آباؤ اجداد۔ بندر یا چمپنزی کسی نئی نسل میں تو تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن انسان میں نہیں۔
6: اتنی پیچیدہ زندگی ارتقا کی وجہ سے ممکن نہیں
اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ایک انسانی خلیہ جسے صرف خوردبین سے ہی دیکھا جا سکتا ہے میں اتنے کام ہو رہے ہوتے ہیں کہ یہ سارے کام اگر ہم لیبارٹری میں کرنا چاہیں تو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل لیبارٹری قائم کرنا پڑے گی۔ یعنی اتنی پیچیدہ زندگی ارتقائی عمل سے ممکن نہیں ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے شاید بتدریج تبدیلی کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ Semetic مذاہب کے حساب سے زمین کی عمر چھ سے آٹھ ہزار سال ہے جبکہ سائنس کے مطابق کرہ ارض 4 ارب سال سے وجود میں ہے۔ ہم زندگی کی جس موجودہ شکل کو دیکھ رہے ہیں وہ اربوں سالوں کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ یہ بتدریج تبدیلی فطرتی انتخاب کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ اگر گزشتہ 50 سالوں میں 20 نئی انواع بن سکتی ہیں تو 4 ارب سالوں میں انسان کیوں نہیں بن سکتا؟
موجودہ انسان کا فوسل ریکارڈ
7: فوسل ریکارڈ میں تسلسل کی کمی
اب تک جتنے بھی فوسلز ملے ہیں وہ سب کے سب ایک نوع سے دوسری نوع تک بتدریج تبدیلی کا پتا دیتے ہیں۔ کچھ ارتقائی لڑیوں میں زیادہ تعداد میں فوسل ملے ہیں اور کچھ میں کم۔ مثلاً موجودہ گھوڑے کے ارتقائی عمل کے بہت سارے فوسلز مل چکے ہیں۔ موجودہ مرغ کے کم فوسلز ملے ہیں۔ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ چونکہ فوسل ریکارڈ میں تسلسل نہیں ملتا لہٰذا ارتقاء ثابت نہیں ہوتا۔ شاید یہ اعتراض کرنے والے چاہتے ہیں کہ اُن کو کسی فیچر فلم کی طرح ارتقائی عمل ہوتے ہوئے دکھایا جائے، جس میں ایک سیکنڈ میں 30 تصاویر لی جاتی ہیں۔ اگر وہ یہی چاہتے ہیں تو ایسا ہونا تو ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ جینیاتی تحقیق سے اُن کے اس اعتراض کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ موجودہ انسان اور چمپنزی کے DNA میں 98 فیصدمماثلت ہے۔ اسی طرح تمام جانداروں کا DNA ایک دوسرے سے تعلق کا پتا دیتا ہے۔ اسی تعلق کی بِنا پر سائنسدان یہ جان پاتے ہیں کہ کونسی ارتقائی لڑی کس جاندار سے جا ملتی ہے۔ مثال کہ طور پر موجودہ مرغ کے DNA کا تعلق قدیم ڈائینوسار کے DNA سے ملتا ہے۔
8: ارتقاء کا سماجی پہلو
کچھ سماجی دانشور اور زیادہ تر مذہبی علما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ ارتقا کی تعلیم سے معاشرے میں بگاڑ، بُرے اعتقادات و عادات اور الحاد پرستی کے فروغ پا جانے کا اندیشہ ہے لہٰذا ارتقا کی تعلیم نہیں دینی چاہیے۔ ارتقا کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مختلف موجودہ سماجی برائیاں، جیسے کہ جرائم، طلاق کی شرح، جنسی بیماریاں، شادی سے پہلے جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی، غیر اخلاقی حرکات، جنگیں اور قتلِ عام، ارتقا پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہے یا کم از کم ارتقا کی وجہ سے یہ بُرائیاں فروغ پا سکتی ہیں۔ یہ نظریہ ارتقا ہی ہے جو ہٹلر کے مظالم کا باعث بناوغیرہ وغیرہ۔
یہ معترضین بھی لوگوں کو ایک مغالطے کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ منطق کی زبان میں اِسے ’’مغالطہِ نتیجہ غیر مطلق‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی غیر مطلق نتیجہ سے ڈرا کے دلیل کو رد کرنا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہٹلر جیسے آمر کو یہودیوں کے قتلِ عام کے لیے نظریہ ارتقا کی ضرورت نہیں تھی، دوسرا نظریہ ارتقا ہٹلر کے قتلِ عام کی کوئی سائنسی توجیح نہیں دیتا۔ اب رہی بات سماجی برائیوں کی تو اول تو یہ برائیاں اُس وقت بھی موجود تھیں جب ارتقا کا نظریہ پیش نہیں ہوا تھا، دوم یہ کہ ان سماجی برائیوں میں موجودہ اضافہ معاشرتی اور معاشی ناہمواری کی وجہ سے ہے نہ کہ ارتقا کی تعلیم کی وجہ سے۔
9: انسانی ارتقا
ارتقا کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض انسانی ارتقا پر ہے۔ ذیل میں چند ایسے انسانی اعضا اور خصوصیات کا ذکر ہے جو ارتقائی عمل کے دوران ہم میں موجود تو ہیں البتہ اب اِن کے ہونے کا موجودہ انسان یعنی ہم میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعضا اور خصوصیات ادنیٰ درجے کے جانوروں میں اب بھی فعال ہیں۔
ٓA: رونگٹے کھڑے ہونا Goose Bumps
سردی، خوف اور غصے میں رونگٹے کھڑے ہو جانا عام مشاہدے کی بات ہے۔ کمتر جانوروں مثلاً پرندوں، بلی اور کتوں میں بھی ایسی حالت میں پرَ یا بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اِن جانوروں میں سرد حالات میں بال کھڑے کرنے سے بالوں میں ہوا قید ہو جاتی ہے جس سے انسولیشن کے عمل کے وجہ سے حرارت ملتی ہے۔ خوف کی حالت میں پرَوں یا بالوں کو کھڑا کر نے سے جانور کا سائز بڑا محسوس ہوتا ہے اور ممکنہ طور پر شکاری ڈر کے بھاگ جاتا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد میں بھی رونگٹے کھڑے ہونے سے یہی کچھ ہوتا تھا۔ اب ہم میں رونگٹے کھڑے ہونے کی کوئی عملی فعالیت نہیں ہے۔
B: وٹامن سی بنانے والا جین L-gulonolactone Oxidase
زیادہ تر دودھ پلانے والے جانوروں میں وٹامن سی جسم کے اندر سے بنتا ہے جس طرح ہمارے جسم میں وٹامن ڈی بنتا ہے۔ یہ عمل اْن میں موجود ایک جین کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ ارتقائی عمل کی وجہ سے ہمارے جسم میں یہ جین موجود تو ہے لیکن یہ فعال نہیں۔
C: کان کے زائد عضلات
ہم جانتے ہیں کہ گھوڑے کے کان چاروں طرف گھومتے ہیں۔ یہی حال کتے اور بلی کا بھی ہے۔ کانوں کی یہ حرکت کانوں کے ساتھ خاص ترتیب سے جڑے عضلات کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ ہمارے کانوں کے ساتھ بھی اتنی تعداد اور ترکیب میں عضلات موجود ہیں جتنے گھوڑے، بلی اور کتے میں ہوتے ہیں۔ البتہ ارتقائی عمل میں یہ عضلات اتنے چھوٹے رہ گئے ہیں کہ اب ہم اپنے کانوں کو گھما نہیں سکتے۔
D: عقل داڑھ
ہمارے گھاس خور آباواجدادپودے زیادہ کھاتے تھے۔ بڑا جبڑا کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خوراک کو چبانے میں فائدہ مند تھا۔ یہ بڑا جبڑا عقل داڑھ کی وجہ سے ممکن تھا۔ وقت کے ساتھ ہماری خوراک تبدیل ہوئی اور ساتھ ہی جبڑے کی جسامت بھی کم ہوتی گئی۔ آج کچھ انسانی آبادی ایسی بھی ہے جن میں عقل داڑھ نکلنی بند ہو گئی ہے۔
E: آنکھ کی جھلی
اگر بلی کو آنکھ بند کرتے دیکھیں تو پہلے ایک سفید جھلی نظر آئے گی، جو آنکھ کو ڈھکے گی اور اس کے بعد باہر والے دو پپوٹے بند ہوں گے۔ موجودہ انسان میں بھی اس سفید جھلی کی باقیات موجود ہیں جو آنکھ کے اندرونی طرف نظر آتی ہے۔ قدیم انسانوں کی صرف ایک نسل Calabar Angwantibo میں یہ جھلی فعال تھی۔
F: دم کی ہڈی
کسی جانور کی دم کا اگر معائنہ کیا جائے تو ہمیں دم میں ہڈی محسوس ہو گی۔ ہمارے آباؤاجداد میں بھی دم موجود تھی جو درختوں پر لٹکنے کے کام آتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا کے عمل میں معروضی حالات کے نتیجہ میں یہ دُم چھوٹی ہوتی گئی اور اب موجوہ انسان میں کوئی دم نظر نہیں آتی۔ لیکن دُم کی ہڈی اور اس کے ساتھ عضلات اب بھی موجود ہیں۔ ہم میں دم کے مہرے اندر کی طرف مڑ گئے ہیں جو X-Ray میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
G: اپینڈکس
ہمارے آباؤاجداد سبزی خور تھے۔ ان میں اپینڈکس گھاس اور سبزی کو ہضم کرنے کے لئے رطوبت فراہم کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ہماری خوراک تبدیل ہوتی گئی اور اپینڈکس بھی غیر فعال ہوتا گیا۔ اب ہمارے جسم میں اپینڈکس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ موجودہ گھاس خور جانوروں میں یہ اب بھی فعال ہے۔
ہم نے اس تحریر میں ارتقا، نظریہ ارتقا، اس پر اعتراضات، ان کے جواب اور ثبوت مختصراً فراہم کئے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ارتقا ایک ایسی سچائی ہے جس کے خلاف تمام رجعت پرست مقتدر حلقے مسلسل پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور عوام کو اصل حقیقت سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ سرکاری اور نجی سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ ارتقا کا باب شروع ہونے سے پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ ارتقا ایک غلط اور جھوٹا نظریہ ہے اور اسے ماننا خلاف مذہب ہے، البتہ امتحان پاس کرنے کے لئے اسے رٹا مارنا ضروری ہے۔ یوں طلبا کی سائنسی سوچ پیدا ہونے سے پہلے ہی کچل دی جاتی ہے۔
ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جن ایجادات سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں وہ ایک طویل سائنسی سوچ اور عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جو معاشرے اپنے آپ کو سائنسی خطوط پر استوار کرتے ہیں وہی ترقی کی منزلیں طے کر پاتے ہیں اور جو لوگ حقیقت کو سائنسی طور پر سمجھنے لگتے ہیں وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز اور عمل کی جانب تنقیدی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسے تجربے، عقل اور دلیل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اس سے انہیں معاشرے میں ہونے والے عوامل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ غیر سائنسی سوچ کا مطلب کہ لوگ اپنے تجربے اور دانش پر بھروسہ کرنے کی بجائے صرف وہ مانیں جو ان کے حکمران ان کو ہمیشہ کا غلام رکھنے کے لئے ان سے کہتے ہیں۔
لیکن ہر عہدمیں انقلابی خیالات کے حامل لوگ فرسودہ نظریات کی مخالفت کرتے رہے ہیں، جو پرانے نظام کو تبدیل کر کے انقلابات کے ذریعے معاشرے کو ایک بلند تر منزل تک لے گئے ہیں۔ ان کے برعکس رجعت پرست لوگ ماضی کی طرف جانے کی باتیں سوچتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ موجودہ نظام اپنے دن پورے کر چکا ہے اور کسی بھی طرح مفید نہیں ہے۔ سائنسی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال کے متعلق ان کے نظریات غلط ہوتے ہیں لیکن ان کے غلط نظریات کی تشہیر میں بھی حکمران طبقے کا مفاد چھپا ہوتا ہے۔ اس لئے رجعت پرست نظریات پھیلانے والوں کو ہمیشہ ہی سے ہر ریاست کی مدد حاصل رہی ہے اور انقلاب پسند لوگوں کوریاست کی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ رجعت پرستوں کا اصل مقصد عوام کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ موجودہ نظام نا قابلِ تغیر ہے۔ اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ہر کوشش بے کار ہے۔ جب کہ اس کے برعکس انقلابی طبقات کواس بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک سچائی کو پہنچائیں اور ان کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے تبدیلی کے عمل کو ممکن بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو سچائی تک لے کر جانا اور ان کو ایسی تبدیلی کے لئے یکجا کرتے ہوئے جدوجہد میں شامل کرنا ہر با شعور اور نیک نیت فرد کی ذمہ داری ہے۔ ایسی تبدیلی کے لئے جس میں محنت کش کی فلاح موجود ہو۔ لیکن جب تک عوام فرسودہ نظریات پر یقین رکھیں گے تب تک موجودہ نظام کے خلاف انہیں بیدار کرنا مشکل ہے۔ سچائی جاننے کے بعد ہی وہ پرانے نظام اور فرسودہ نظریات سے جان چھڑا کر انقلاب کے ذریعے اس معاشرے کو تبدیل کریں گے۔
تحریر: عمر ارشد مغل
متعلقہ:
مارکسزم اور ڈارونزم
مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس
سرمایہ دارانہ نظام بمقابلہ سائنس
ربط
http://www.struggle.com.pk/answer-to-the-criticism-on-evolution/
سترہویں صدی میں یورپ میں جدید سائنس کے آغاز سے ارسطو کے نظریات مسترد ہوئے اور جانداروں میں تغیرات کو قدرتی قوانین کے تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ اب Species یا نوع، جانداروں کے ایسے گروہ کو کہا جانے لگا جو ایک جیسی خصوصیات رکھنے کے ساتھ ساتھ آپسی افزائش نسل کے قابل تھے۔ لیکن اب بھی ان انواع کو غیر تغیر پذیر اور علیحدہ علیحدہ تخلیق سمجھا جاتا تھا۔
لامارک کا نظریہ ارتقا
پہلامکمل نظریہ ارتقاء لامارک نے 1809ء میں پیش کیا جس کے مطابق انواع کی اپنی ضرورت اور کوشش کی وجہ سے ارتقائی عمل ہوتا ہے اور ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثلاً قدیم زرافہ چھوٹی گردن کا تھا۔ جب زمین پر گھاس ناپید ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے درختوں کے پتے کھانے کے لئے زور لگا لگا کے اپنی گردن لمبی کر لی اور ان کی لمبی گردن ہر نسل کے ساتھ کوشش کرتے رہنے سے مزید لمبی ہوتی چلی گئی۔ نتیجاً اب لمبی گردن والے زرافے ہی موجود ہیں۔
ڈارون وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے ارتقائی عمل میں قدرتی انتخاب کو اہمیت دی۔ اس نظریے کو سائنسی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی البتہ چرچ کے پراپیگنڈے کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی اکثریت اس کے خلاف ہوتی گئی۔ ڈارون پہ الحاد کے فتوے لگے۔ اپنی زندگی میں ڈارون اپنے نظریے کا دفاع کرتا رہا۔ لیکن فوسل ریکارڈ کی کمی کی وجہ سے کچھ سائنسدان اب بھی شش و پنج میں مبتلا تھے۔ ڈارون کی وفات کے ساتھ ہی تقلید پرستوں کو پھر غلباء حاصل ہو گیا۔ انیسویں صدی میں جینیاتی تحقیق میں ترقی کے ساتھ ہی ڈارون کے پیش کردہ نظریہ کی صداقت عیاں ہو گئی۔ Hugo de Varies نے مینڈل، جو جینیاتی سائنس کا بانی کہلاتا ہے اور August Weismann کے تولیدی خلیہ کے کام کو ڈارون کے نظریہ سے جوڑ کر نظریہ ارتقاء کو جینیاتی بنیاد فراہم کی۔ اب ارتقاء کی علم حیاتیات میں اہمیت کا اندازہ معروف جینیاتی سائنسدان Theodosius Dobzhansky کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’بائیولوجی میں نظریہ ارتقاء نہ ہو تو کچھ بھی سمجھا نہیں جاسکتا۔ ‘‘
نظریہ ارتقاء جب سے پیش کیا گیا تب سے ہی اس پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ اس نظریہ پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ نظریہ کے لغوی معنوں تک محدود رہتے ہیں اُن کے مطابق نظریہ ارتقاء ایک مفروضہ یا نظریہ ہے اور چونکہ مفروضہ غلط بھی ہو سکتا ہے لہٰذااس کے بارے میں اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ اگر ارتقاء اب بھی جاری ہے تو اب ہوتانظرکیوں نہیں آتا یا پھر اب بندر سے انسان کیوں نہیں بنتے؟ کچھ ’’دانشور‘‘ نظریہ ارتقاء کے خود سے فرض کئے گئے ’’سماجی اثرات ‘‘سے خائف ہیں کہ اگر بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کو درست مان لیں تومعاشرے میں فساد پیدا ہو جائے گااور ہر طاقتور، کمزور کو ختم کرنے کے دَر پے ہو گا۔ نہ صرف عام لوگوں میں یہ تصور ہے کہ نظریہ ارتقاء کے مطابق سائنسدان یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان بندر کی اولاد ہے، بلکہ نظریہ ارتقاء سے متنفر کرنے کے لئے اس کے مخالفین اس بات کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لوگ ارتقاء کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں، کیونکہ ان کی اناپر ضرب لگتی ہے۔ غرضیکہ ارتقاء کے خلاف اعتراضات کی ایک بھرمار ہے جن میں سے بعض معقول ہیں اور بعض بالکل بے بنیاد اور جعلی۔ سائنسدان اپنی تحقیق کے ذریعے مسلسل ان اعتراضات کے جوابات دیتے چلے آ رہے ہیں۔
چارلس ڈارون
اس صورتِ حال میں عام آدمی چکرا کے رہ جاتا ہے کہ ایک طرف توسائنس ہمیں بے شمار سہولتیں دے رہی ہے اور دوسری طرف وہی سائنس انسان کو بندر سے جوڑنے پر تُلی ہے۔ عام آدمی کے ذہن کو وہ اعتراض بھی پراگندہ رکھتے ہیں جوکہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر میڈیا کی طرف سے مسلسل پھیلائے جاتے رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو محض اعتراضات سُن کر ہی ارتقا کے خلاف دلائل دینے نکل پڑتے ہیں۔ وہ لوگ جوواقعتا حقیقت جاننا چاہتے ہیں اُن کے سامنے اصل معلومات تک رسائی اور اسے سمجھنے کا مسئلہ در پیش آتا ہے۔ کیونکہ سائنسی اصطلاحات میں کی گئی بات کو سمجھنا عام آدمی کے لئے تقریباً ناممکن ہے اس طرح سے ہماری اس تحریر کا مقصد ارتقاء پر کئے جانے والے معقول اعتراضات کا جواب عام فہم زبان میں فراہم کرنا ہے۔
سب سے پہلے ہم چند بنیادی اصطلاحات کو دیکھ لیتے ہیں۔
ارتقا
ارتقا کی عام رائج تعریف کے مطابق یہ ایک بتدریج ترقی کا عمل ہے جو کہ مرحلہ وار اور صرف بہتری کی طرف ہوتا ہے۔ یعنی یہ کم پیچیدہ سے زیادہ پیچیدہ کی طرف سفر ہے۔ مثلاً لسانی ارتقا اور معاشرتی ارتقا وغیرہ۔ جبکہ ارتقا کی بائیولوجی کی سائنس میں کی جانے والی تعریف کے مطابق’’ جانداروں کی آبادی میں نسل در نسل جینیاتی تبدیلی ارتقا کہلاتی ہے۔ ‘‘یعنی تبدیلی کم پیچیدہ سے زیادہ پیچیدہ کی طرف بھی ہو سکتی ہے اور اِس کے برعکس بھی۔ چنانچہ ارتقائی عمل کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں دونوں طرح کی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہماری نظر میں آنے والی زیادہ تر تبدیلی کم پیچیدہ سے زیادہ پیچیدہ کی طرف ہوئی ہے۔
420 ملین سال پرانا سی سٹار کا فوسل
فوسل
اس سے مراد جانوروں اور پودوں کے اجسام کی وہ باقیات ہیں جو زمانہ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ عام طور پر 10,000 سال سے پرانے اجسام یا ان کی باقیات کوفوسل تسلیم کیا جاتا ہے۔ فوسل کی مدد سے سائنسدان قدیم جانداروں کی عمر، قد، ساخت، رہن سہن اور ارتقائی لڑی میں ان کے مقام کا پتا چلاتے ہیں۔
جین اور جینیاتی سائنس
’’جین وراثتی نظام کی اکائی ہے۔‘‘ جانداروں کی شکل و شباہت، قد کاٹھ، بالوں اور آنکھوں کا رنگ وغیرہ ایسے خواص ہیں جن کا تعین جین کرتے ہیں۔ جس طرح لمبے قد والے والدین کے بچے عام طور پر لمبے ہی ہوتے ہیں۔ لمبے ہونے کی یہ خصوصیت والدین کی طرف سے اولاد میں جینز کی وجہ سے منتقل ہوتی ہے۔ سائنس کی وہ شاخ جو جین کے متعلق تحقیق کرتی ہے جینیاتی سائنس کہلاتی ہے۔
اب ہم ان اصولوں کا جائزہ لیں گے جو نظریہ ارتقاء کی بنیاد ہیں۔ نظریہ ارتقا کی بنیاد چار اصولوں پر ہے۔
1:تغیّرات Variations
2:بقا کی جدوجہد Struggle for Existance
3:فطرتی انتخاب Natural Selection
4:بقائے اصلح Survival of the Fittest
1: تغیّرات Variations
کسی بھی نوع میں تمام جاندار ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتے ہیں۔ یہ فرق رنگ، قدوزن اور ساخت وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کوئی گڈریا اپنے ریوڑ کی تمام بھیڑوں کو علیحدہ علیحدہ پہچانتا ہے۔ یہ انفرادی اوصاف تغیّرات کہلاتے ہیں۔ یہ تغیرات ہر جاندار کے جینیاتی سسٹم کے فرق کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ تغیّرات جانداروں کے اندرونی تضاد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ تغیرات جانداروں کے DNA میں Mutation یا تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تغیّرات DNA کے ذریعے اگلی نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔ لمبے عرصے کی یہ مقداری تبدیلی ایک جست کے ذریعے معیاری تبدیلی میں بدل جاتی ہے اور نئی انواع وجود میں آتی ہیں۔
2: بقا کی جدوجہد Struggle for Existence
بیرونی ماحول تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جب ماحول تبدیل ہوتا ہے تو تمام انواع کو اپنی بقاء کا خطرہ پیش آتا ہے۔ ہر نوع اپنے بچاؤ کے لئے اپنے آپ کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ جس نوع میں بقا کی صلاحیّت زیادہ ہوتی ہے وہ بچ جاتی ہے اور باقی انواع معدوم ہو جاتی ہیں۔ یعنی تغیّرات کے نتیجے میں جو انواع پیدا ہوتی ہیں ان میں سے جو تبدیل شدہ ماحول سے مطابقت رکھتی ہیں وہ بچ جاتی ہیں اور باقی معدوم ہو جاتی ہیں۔
3: فطرتی انتخاب Natural Selection
فطرت طاقتور ہے۔ جانداروں اور انواع کی زندگی کا انحصار فطرت پر ہے۔ جانداروں اور فطرت کے درمیان توازن ہی پرجانداروں کی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ جو انواع فطرت سے مطابقت نہیں رکھ پاتیں فطرت انہیں فنا کر دیتی ہے۔ تبدیل شدہ ماحول میں جو انواع فطرت سے مطابقت رکھتی ہیں، بچ جاتی ہیں۔ اس عمل کو فطرتی انتخاب کہتے ہیں۔
4: بقائے اصلح Survival of The Fittest
اب ہم ایک ایک کر کے ان اعتراضات کا جائزہ لیں گے جو ارتقا اور نظریہ ارتقا پر کئے جاتے ہیں۔
1: ارتقا محض ایک نظریہ یا Theoryہے، حقیقت نہیں
ارتقا پر یہ اعتراض سب سے عام اور سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر زبان میں نظریہ کا مطلب ایک مفروضہ ہوتا ہے، جسے کوئی بھی فرض کر سکتا ہے۔ لیکن سائنس میں ایسا نہیں ہے۔ سائنس میں نظریہ کسی فطرتی نظام یا عمل کی جامع تشریح کرتا ہے جسے ثبوت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ یاد رہے سائنس میں نظریہ پہلے نہیں آتا۔ بہت سارے حقائق کو جمع کرنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے، وہ نظریہ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ سائنس میں نظریہ اور حقیقت کا فرق ’’کیسے‘‘ اور ’’کیا‘‘جیسا ہے۔ ارتقا ایک حقیقت ہے جسے مشاہدے، فوسل ریکارڈ، جینیاتی سائنس اور تجربوں سے اخذ کیا گیا ہے اور اب بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ نظریہ ارتقا یہ بیان کرتا ہے کہ ارتقا کب، کیسے اور کن حالات میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔
2: ارتقا ایک مذہب ہے، سائنس نہیں
اس اعتراض کو کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ارتقا ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا لیکن اس کے ماننے والے بغیر کسی ثبوت کے ارتقائی عمل کا واویلا مچاتے ہیں لہٰذا انہوں نے ارتقا کو ایک مذہب بنا لیا ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے عوام کو’ ’ تشبیہہِ کاذب‘‘ یا False Analogy کے منطقی مغالطیمیں مبتلا کرتے ہیں۔ یعنی سائنس کو مذہب کہہ کر سائنس کو غلط ثابت کرنا۔ مذہب مکمل طور پر ایک اعتقادی نظام ہے جس کے ماننے والوں پر فرض ہے کہ وہ بنا کسی ثبوت کے اس کی کہی گئی ہر بات مانیں اور اس پر شک نہ کریں جب کہ سائنس اس کے برعکس ہے۔ سائنس تجربات اور مشاہدات کی بنا پر فیصلہ کرتی ہے۔ ارتقائی عمل بھی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر دریافت ہوا ہے۔ Fossil Record کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر تغیرات نظر آتے ہیں جو نئی انواع کے بننے کا پتا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نظریہ ارتقا ایسا نظریہ نہیں ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اب تک اِس نظریہ پر بے شمار اعتراضات کیے جا چکے ہیں۔ یہ اعتراضات سائنسدانوں کی طرف سے بھی تھے اور دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی، البتہ ابھی تک کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا جا سکا جو سائنسی بنیادوں پر درست ہوتے ہوئے ارتقا اور ارتقائی عمل کو مسترد کر سکے۔ لہٰذا نظریہ ارتقا ایک سائنس ہے۔
3: ارتقا ایک ایسا نظریہ ہے جو ثابت نہیں ہو سکتا
یہ اعتراض کرنے والے شاید جانتے نہیں کہ ارتقائی عمل ایک سے زائد بار اور ایک سے زائد طریقوں سے ثابت ہو چکا ہے۔ فوسل ریکارڈ سے پتا چلا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف انواع موجود تھیں جو فطرتی انتخاب کی وجہ سے معدوم ہوئیں اور نئی انواع پیدا ہوئیں۔ جیسا کہ تاریخ میں ڈائینوسار معدوم ہوئے۔ اس کے علاوہ جینیاتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہمارے DNA اور چمپنزی کے DNA میں 98 فیصد مماثلت ہے اور یہ کہ موجودہ انسان اور چمپنزی، قدیم بندر نما انسان کی ہی تغیر پذیر شکل ہیں۔ نومولود بچے کو اگر پانی میں ڈال دیں تو وہ تیرنے کے انداز میں ہاتھ اور پاؤں چلانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ عمل ہمارے قدیم آبی آباؤ اجداد کی یاد ہے جو بچے کے ذہن میں نقش ہوتی ہے۔ یہ یاد 6 ماہ تک بچے کے ذہن میں رہتی ہے۔ کچھ دماغی امراض میں یہ یادیں لمبے عرصے تک دیکھی جاتی ہیں۔
انسان کے آبائو اجداد نے 85 ملین سال قبل دوسرے ممالیہ جانوروں سے مختلف شکل اختیار کی تھی
4: مشاہدے کا فقدان
اعتراض یہ ہے کہ اگر ارتقا درست ہے تو اب ہوتا نظر کیوں نہیں آتا۔ ارتقا ایک سست عمل ہے جس میں ایک نوع سے دوسری نوع تک تبدیلی کو لاکھوں سال اور ہزاروں نسلیں لگتی ہیں۔ جن انواع میں افزائشِ نسل تیز ہوتی ہے مثلاً کتوں، چوہوں اور جراثیم میں، ان میں تغیرات با آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ارتقا ایک ایسا عمل ہے جسے سائنسدانوں نے ہزار ہا بار لیبارٹرری میں کر کے دیکھا ہے۔ اگر جینیاتی تبدیلی اتنی ہی ناممکن ہوتی تو آج ذیابیطیس کے مریضوں کے لئے انسولین نہ بن پاتی جو کہ جینیاتی انجینرنگ کی بدولت ہی ممکن ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں 20 سے زائد ایسی انواع وجود میں آئی ہیں جن کا اِس سے پہلے وجود نہ تھا۔ مثال کے طور پر ایڈز وائرس، پولی تھین کو کھانے والے بیکٹیریا وغیرہ۔
5: اگر ارتقا اب بھی جاری ہے تو اب کیوں بندر سے انسان نہیں بنتے؟
یہ اعتراض کرنے والے ارتقائی عمل سے یکسر ناواقف ہیں۔ درحقیقت نظریہ ارتقا میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہم بندر سے ارتقا پذیر ہوئے ہیں بلکہ ارتقائی عمل کے مطابق ہمارے اور بندر کے آباؤاجداد ایک ہی ہیں جو 60 لاکھ سال پہلے معدوم ہو گئے تھے۔ اس لحاظ سے بندر اور چمپنزی ہمارے حیاتیاتی کزن ہیں نہ کہ آباؤ اجداد۔ بندر یا چمپنزی کسی نئی نسل میں تو تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن انسان میں نہیں۔
6: اتنی پیچیدہ زندگی ارتقا کی وجہ سے ممکن نہیں
اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ایک انسانی خلیہ جسے صرف خوردبین سے ہی دیکھا جا سکتا ہے میں اتنے کام ہو رہے ہوتے ہیں کہ یہ سارے کام اگر ہم لیبارٹری میں کرنا چاہیں تو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل لیبارٹری قائم کرنا پڑے گی۔ یعنی اتنی پیچیدہ زندگی ارتقائی عمل سے ممکن نہیں ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے شاید بتدریج تبدیلی کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ Semetic مذاہب کے حساب سے زمین کی عمر چھ سے آٹھ ہزار سال ہے جبکہ سائنس کے مطابق کرہ ارض 4 ارب سال سے وجود میں ہے۔ ہم زندگی کی جس موجودہ شکل کو دیکھ رہے ہیں وہ اربوں سالوں کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ یہ بتدریج تبدیلی فطرتی انتخاب کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ اگر گزشتہ 50 سالوں میں 20 نئی انواع بن سکتی ہیں تو 4 ارب سالوں میں انسان کیوں نہیں بن سکتا؟
موجودہ انسان کا فوسل ریکارڈ
7: فوسل ریکارڈ میں تسلسل کی کمی
اب تک جتنے بھی فوسلز ملے ہیں وہ سب کے سب ایک نوع سے دوسری نوع تک بتدریج تبدیلی کا پتا دیتے ہیں۔ کچھ ارتقائی لڑیوں میں زیادہ تعداد میں فوسل ملے ہیں اور کچھ میں کم۔ مثلاً موجودہ گھوڑے کے ارتقائی عمل کے بہت سارے فوسلز مل چکے ہیں۔ موجودہ مرغ کے کم فوسلز ملے ہیں۔ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ چونکہ فوسل ریکارڈ میں تسلسل نہیں ملتا لہٰذا ارتقاء ثابت نہیں ہوتا۔ شاید یہ اعتراض کرنے والے چاہتے ہیں کہ اُن کو کسی فیچر فلم کی طرح ارتقائی عمل ہوتے ہوئے دکھایا جائے، جس میں ایک سیکنڈ میں 30 تصاویر لی جاتی ہیں۔ اگر وہ یہی چاہتے ہیں تو ایسا ہونا تو ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ جینیاتی تحقیق سے اُن کے اس اعتراض کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ موجودہ انسان اور چمپنزی کے DNA میں 98 فیصدمماثلت ہے۔ اسی طرح تمام جانداروں کا DNA ایک دوسرے سے تعلق کا پتا دیتا ہے۔ اسی تعلق کی بِنا پر سائنسدان یہ جان پاتے ہیں کہ کونسی ارتقائی لڑی کس جاندار سے جا ملتی ہے۔ مثال کہ طور پر موجودہ مرغ کے DNA کا تعلق قدیم ڈائینوسار کے DNA سے ملتا ہے۔
8: ارتقاء کا سماجی پہلو
کچھ سماجی دانشور اور زیادہ تر مذہبی علما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ ارتقا کی تعلیم سے معاشرے میں بگاڑ، بُرے اعتقادات و عادات اور الحاد پرستی کے فروغ پا جانے کا اندیشہ ہے لہٰذا ارتقا کی تعلیم نہیں دینی چاہیے۔ ارتقا کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مختلف موجودہ سماجی برائیاں، جیسے کہ جرائم، طلاق کی شرح، جنسی بیماریاں، شادی سے پہلے جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی، غیر اخلاقی حرکات، جنگیں اور قتلِ عام، ارتقا پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہے یا کم از کم ارتقا کی وجہ سے یہ بُرائیاں فروغ پا سکتی ہیں۔ یہ نظریہ ارتقا ہی ہے جو ہٹلر کے مظالم کا باعث بناوغیرہ وغیرہ۔
یہ معترضین بھی لوگوں کو ایک مغالطے کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ منطق کی زبان میں اِسے ’’مغالطہِ نتیجہ غیر مطلق‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی غیر مطلق نتیجہ سے ڈرا کے دلیل کو رد کرنا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہٹلر جیسے آمر کو یہودیوں کے قتلِ عام کے لیے نظریہ ارتقا کی ضرورت نہیں تھی، دوسرا نظریہ ارتقا ہٹلر کے قتلِ عام کی کوئی سائنسی توجیح نہیں دیتا۔ اب رہی بات سماجی برائیوں کی تو اول تو یہ برائیاں اُس وقت بھی موجود تھیں جب ارتقا کا نظریہ پیش نہیں ہوا تھا، دوم یہ کہ ان سماجی برائیوں میں موجودہ اضافہ معاشرتی اور معاشی ناہمواری کی وجہ سے ہے نہ کہ ارتقا کی تعلیم کی وجہ سے۔
9: انسانی ارتقا
ارتقا کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض انسانی ارتقا پر ہے۔ ذیل میں چند ایسے انسانی اعضا اور خصوصیات کا ذکر ہے جو ارتقائی عمل کے دوران ہم میں موجود تو ہیں البتہ اب اِن کے ہونے کا موجودہ انسان یعنی ہم میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعضا اور خصوصیات ادنیٰ درجے کے جانوروں میں اب بھی فعال ہیں۔
ٓA: رونگٹے کھڑے ہونا Goose Bumps
سردی، خوف اور غصے میں رونگٹے کھڑے ہو جانا عام مشاہدے کی بات ہے۔ کمتر جانوروں مثلاً پرندوں، بلی اور کتوں میں بھی ایسی حالت میں پرَ یا بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اِن جانوروں میں سرد حالات میں بال کھڑے کرنے سے بالوں میں ہوا قید ہو جاتی ہے جس سے انسولیشن کے عمل کے وجہ سے حرارت ملتی ہے۔ خوف کی حالت میں پرَوں یا بالوں کو کھڑا کر نے سے جانور کا سائز بڑا محسوس ہوتا ہے اور ممکنہ طور پر شکاری ڈر کے بھاگ جاتا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد میں بھی رونگٹے کھڑے ہونے سے یہی کچھ ہوتا تھا۔ اب ہم میں رونگٹے کھڑے ہونے کی کوئی عملی فعالیت نہیں ہے۔
B: وٹامن سی بنانے والا جین L-gulonolactone Oxidase
زیادہ تر دودھ پلانے والے جانوروں میں وٹامن سی جسم کے اندر سے بنتا ہے جس طرح ہمارے جسم میں وٹامن ڈی بنتا ہے۔ یہ عمل اْن میں موجود ایک جین کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ ارتقائی عمل کی وجہ سے ہمارے جسم میں یہ جین موجود تو ہے لیکن یہ فعال نہیں۔
C: کان کے زائد عضلات
ہم جانتے ہیں کہ گھوڑے کے کان چاروں طرف گھومتے ہیں۔ یہی حال کتے اور بلی کا بھی ہے۔ کانوں کی یہ حرکت کانوں کے ساتھ خاص ترتیب سے جڑے عضلات کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ ہمارے کانوں کے ساتھ بھی اتنی تعداد اور ترکیب میں عضلات موجود ہیں جتنے گھوڑے، بلی اور کتے میں ہوتے ہیں۔ البتہ ارتقائی عمل میں یہ عضلات اتنے چھوٹے رہ گئے ہیں کہ اب ہم اپنے کانوں کو گھما نہیں سکتے۔
D: عقل داڑھ
ہمارے گھاس خور آباواجدادپودے زیادہ کھاتے تھے۔ بڑا جبڑا کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خوراک کو چبانے میں فائدہ مند تھا۔ یہ بڑا جبڑا عقل داڑھ کی وجہ سے ممکن تھا۔ وقت کے ساتھ ہماری خوراک تبدیل ہوئی اور ساتھ ہی جبڑے کی جسامت بھی کم ہوتی گئی۔ آج کچھ انسانی آبادی ایسی بھی ہے جن میں عقل داڑھ نکلنی بند ہو گئی ہے۔
E: آنکھ کی جھلی
اگر بلی کو آنکھ بند کرتے دیکھیں تو پہلے ایک سفید جھلی نظر آئے گی، جو آنکھ کو ڈھکے گی اور اس کے بعد باہر والے دو پپوٹے بند ہوں گے۔ موجودہ انسان میں بھی اس سفید جھلی کی باقیات موجود ہیں جو آنکھ کے اندرونی طرف نظر آتی ہے۔ قدیم انسانوں کی صرف ایک نسل Calabar Angwantibo میں یہ جھلی فعال تھی۔
F: دم کی ہڈی
کسی جانور کی دم کا اگر معائنہ کیا جائے تو ہمیں دم میں ہڈی محسوس ہو گی۔ ہمارے آباؤاجداد میں بھی دم موجود تھی جو درختوں پر لٹکنے کے کام آتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا کے عمل میں معروضی حالات کے نتیجہ میں یہ دُم چھوٹی ہوتی گئی اور اب موجوہ انسان میں کوئی دم نظر نہیں آتی۔ لیکن دُم کی ہڈی اور اس کے ساتھ عضلات اب بھی موجود ہیں۔ ہم میں دم کے مہرے اندر کی طرف مڑ گئے ہیں جو X-Ray میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
G: اپینڈکس
ہمارے آباؤاجداد سبزی خور تھے۔ ان میں اپینڈکس گھاس اور سبزی کو ہضم کرنے کے لئے رطوبت فراہم کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ہماری خوراک تبدیل ہوتی گئی اور اپینڈکس بھی غیر فعال ہوتا گیا۔ اب ہمارے جسم میں اپینڈکس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ موجودہ گھاس خور جانوروں میں یہ اب بھی فعال ہے۔
ہم نے اس تحریر میں ارتقا، نظریہ ارتقا، اس پر اعتراضات، ان کے جواب اور ثبوت مختصراً فراہم کئے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ارتقا ایک ایسی سچائی ہے جس کے خلاف تمام رجعت پرست مقتدر حلقے مسلسل پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور عوام کو اصل حقیقت سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ سرکاری اور نجی سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ ارتقا کا باب شروع ہونے سے پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ ارتقا ایک غلط اور جھوٹا نظریہ ہے اور اسے ماننا خلاف مذہب ہے، البتہ امتحان پاس کرنے کے لئے اسے رٹا مارنا ضروری ہے۔ یوں طلبا کی سائنسی سوچ پیدا ہونے سے پہلے ہی کچل دی جاتی ہے۔
ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جن ایجادات سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں وہ ایک طویل سائنسی سوچ اور عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جو معاشرے اپنے آپ کو سائنسی خطوط پر استوار کرتے ہیں وہی ترقی کی منزلیں طے کر پاتے ہیں اور جو لوگ حقیقت کو سائنسی طور پر سمجھنے لگتے ہیں وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز اور عمل کی جانب تنقیدی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسے تجربے، عقل اور دلیل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اس سے انہیں معاشرے میں ہونے والے عوامل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ غیر سائنسی سوچ کا مطلب کہ لوگ اپنے تجربے اور دانش پر بھروسہ کرنے کی بجائے صرف وہ مانیں جو ان کے حکمران ان کو ہمیشہ کا غلام رکھنے کے لئے ان سے کہتے ہیں۔
لیکن ہر عہدمیں انقلابی خیالات کے حامل لوگ فرسودہ نظریات کی مخالفت کرتے رہے ہیں، جو پرانے نظام کو تبدیل کر کے انقلابات کے ذریعے معاشرے کو ایک بلند تر منزل تک لے گئے ہیں۔ ان کے برعکس رجعت پرست لوگ ماضی کی طرف جانے کی باتیں سوچتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ موجودہ نظام اپنے دن پورے کر چکا ہے اور کسی بھی طرح مفید نہیں ہے۔ سائنسی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال کے متعلق ان کے نظریات غلط ہوتے ہیں لیکن ان کے غلط نظریات کی تشہیر میں بھی حکمران طبقے کا مفاد چھپا ہوتا ہے۔ اس لئے رجعت پرست نظریات پھیلانے والوں کو ہمیشہ ہی سے ہر ریاست کی مدد حاصل رہی ہے اور انقلاب پسند لوگوں کوریاست کی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ رجعت پرستوں کا اصل مقصد عوام کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ موجودہ نظام نا قابلِ تغیر ہے۔ اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ہر کوشش بے کار ہے۔ جب کہ اس کے برعکس انقلابی طبقات کواس بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک سچائی کو پہنچائیں اور ان کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے تبدیلی کے عمل کو ممکن بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو سچائی تک لے کر جانا اور ان کو ایسی تبدیلی کے لئے یکجا کرتے ہوئے جدوجہد میں شامل کرنا ہر با شعور اور نیک نیت فرد کی ذمہ داری ہے۔ ایسی تبدیلی کے لئے جس میں محنت کش کی فلاح موجود ہو۔ لیکن جب تک عوام فرسودہ نظریات پر یقین رکھیں گے تب تک موجودہ نظام کے خلاف انہیں بیدار کرنا مشکل ہے۔ سچائی جاننے کے بعد ہی وہ پرانے نظام اور فرسودہ نظریات سے جان چھڑا کر انقلاب کے ذریعے اس معاشرے کو تبدیل کریں گے۔
تحریر: عمر ارشد مغل
متعلقہ:
مارکسزم اور ڈارونزم
مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس
سرمایہ دارانہ نظام بمقابلہ سائنس
ربط
http://www.struggle.com.pk/answer-to-the-criticism-on-evolution/