کامران عاشر
محفلین
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے جب کوئی سوال پوچھا جاتا تو وه اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے ، جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب نہ دے دیں ، بلکہ بعض اوقات تو سوال پوچھنے والا تنگ آ کر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا.
ایک صاحب کا بیان هے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے کہ میرے ذہن میں ایک سوال آیا ، جو میں نے غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا. میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ بلبل مذکر هے یا مؤنث؟
پروفیسر صاحب اس وقت کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے ، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو کچھ سوچا ، پھر مسکرا کر گویا هوئے، " میاں! بلبل مذکر هے"
میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن هو گیا.
اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک هوئی. گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے تھے ، میں نے دروازه کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب موصوف کھڑے هیں. میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب خیریت تو هے ، آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے ، " میاں اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر هے یا مؤنث ؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر هے، لیکن آج هی مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں هو گئیں
غالب کا شمار چونکہ اهل_ زبان اور مستند شعراء میں هوتا هے ، لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث هے.
میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وه بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے.
ابھی چند روز هی گزرے هوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک هوئی، میں گہری نیند میں تھا ، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، دروازه کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رهے تھے. میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا. پروفیسر صاحب فرمانے لگے ، "میاں ، کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث هے، لیکن آج صبح جب میں کلیات_ اقبال کا مطالعہ کر رها تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
علامہ اقبال چونکہ شاعر_ مشرق هیں. ان سے زیادہ مستند کس کی رائے هو سکتی هے ، لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ اب بلبل کو مذکر هی سمجھیے. میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کے جانے کے بعد خدا کا بھی شکر ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی، لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!
ابھی ایک ہفتہ هی گزرا هو گا کہ ایک شام جبکہ میں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک هوئی . دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا هوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے هیں. ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی هوئی تھیں. اس روز پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی. میں نے حیرت سے دریافت کیا ، " پروفیسر صاحب یہ کیا معاملہ هے؟ وه اسی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا هوئے، " میاں ، آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی هے اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا. اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی هیں ، ان کے مطابق بلبل مذکر هے جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث هے، اب فیصلہ آپ خود کر لیجیئے کہ آپ کس رائے سے اتفاق کریں گے. مجھے اجازت دیجئے، ایک ضروری کام یاد آ گیا هے."
ان کے رخصت هوتے هی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئنده پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا ۔
(ماخوذ از احساس اردو واٹس اپ گروپ)
ایک صاحب کا بیان هے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے کہ میرے ذہن میں ایک سوال آیا ، جو میں نے غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا. میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ بلبل مذکر هے یا مؤنث؟
پروفیسر صاحب اس وقت کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے ، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو کچھ سوچا ، پھر مسکرا کر گویا هوئے، " میاں! بلبل مذکر هے"
میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن هو گیا.
اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک هوئی. گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے تھے ، میں نے دروازه کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب موصوف کھڑے هیں. میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب خیریت تو هے ، آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے ، " میاں اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر هے یا مؤنث ؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر هے، لیکن آج هی مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں هو گئیں
غالب کا شمار چونکہ اهل_ زبان اور مستند شعراء میں هوتا هے ، لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث هے.
میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وه بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے.
ابھی چند روز هی گزرے هوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک هوئی، میں گہری نیند میں تھا ، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، دروازه کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رهے تھے. میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا. پروفیسر صاحب فرمانے لگے ، "میاں ، کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث هے، لیکن آج صبح جب میں کلیات_ اقبال کا مطالعہ کر رها تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
علامہ اقبال چونکہ شاعر_ مشرق هیں. ان سے زیادہ مستند کس کی رائے هو سکتی هے ، لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ اب بلبل کو مذکر هی سمجھیے. میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کے جانے کے بعد خدا کا بھی شکر ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی، لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!
ابھی ایک ہفتہ هی گزرا هو گا کہ ایک شام جبکہ میں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک هوئی . دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا هوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے هیں. ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی هوئی تھیں. اس روز پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی. میں نے حیرت سے دریافت کیا ، " پروفیسر صاحب یہ کیا معاملہ هے؟ وه اسی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا هوئے، " میاں ، آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی هے اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا. اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی هیں ، ان کے مطابق بلبل مذکر هے جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث هے، اب فیصلہ آپ خود کر لیجیئے کہ آپ کس رائے سے اتفاق کریں گے. مجھے اجازت دیجئے، ایک ضروری کام یاد آ گیا هے."
ان کے رخصت هوتے هی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئنده پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا ۔
(ماخوذ از احساس اردو واٹس اپ گروپ)