Discovery Channel کے پروگرام "How The Universe Works - Season 1" کا اردو ترجمہ

زہیر عبّاس

محفلین
١٩٨٠؁ءکی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے ایک پروگرام “Cosmos” کے عنوان سے جمعے کی صبح نشر ہوتا تھا۔ شاید یہ پروگرام امریکن ٹیلی ویژن سیریز “Cosmos: A Personal Voyage”کی اردو ڈبنگ تھی ۔ اس پروگرام کے کچھ دھندلے سے نقوش اب بھی ذہن میں باقی ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ میں بت بنا اس پروگرام کو دیکھ کر کائنات کی بیکراں گہرائیوں میں کھو جاتا تھا ۔ اس وقت سے لے کر علم فلکیات کا میں شیدائی رہا ہوں ۔ ہرچند ایک اکاؤنٹنٹ ہونے کے ناطے میری سائنس سے کوئی زیادہ واقفیت نہیں ہے لیکن عمومی سائنس خصوصاً علم فلکیات اور علم طبیعیات کے بارے میں کافی تجسس رہا ہے ۔

سال گزشتہ بقراعید کی پانچ چٹھیاں آ رہی تھیں ۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنی چھٹیوں میں کیا کروں گا لہٰذا بیگم کے ساتھ سی ڈ ی کی دکان پر کچھ موویز لینے چلا گیا ۔ وہاں پر ڈسکوری چینل کے پروگرام کی سی ڈ ی “How The Universe Works” نظر آ گئی۔ پہلی ہی قسط دیکھ کر مزہ آگیا کیونکہ یہ پروگرام ہائی ڈیفی نیشن ویڈیو (High Definition Video)میں ریکارڈڈ تھا ۔ پروگرام دیکھتے وقت خیال آیا کہ اگر یہ پروگرام اردو میں ہوتا تو زیادہ مزہ آتا۔ اگرچہ فلکیات سے متعلق کچھ پروگرام نیشنل جیوگرافک چینل انڈیا(National Geographic Channel – India) پر میں ہندی میں تو دیکھ چکا ہوں مگر یہ پروگرام مجھے ہندی زبان میں انٹرنیٹ پر بھی نہیں مل سکا۔ لہٰذا وقت گزاری کے لئے اس کا اردو ترجمہ شروع کیا۔ شروع میں سوچا کہ سب ٹائٹل (Subtitle)کی شکل میں اس کا ترجمہ کروں پھر خیال آیا کیوں نہ مضمون کی شکل میں کیا جائے اور انٹرنیٹ پر کسی بلاگ(Blog) پر اپلوڈ(Upload) کر دوں تاکہ فلکیات میں دلچسپی لینے والے بھی اس کو پڑھ سکیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ کبھی اردو ٹائپ نہیں کی تھی نہ ہی ان پیج(Inpage) چلانا آتا تھا۔ گوگل مترجم (Google Translator) ایک دفعہ استعمال کیا تھا اور اس میں موجود فونیٹک کی بورڈ(Google Phonetic) اردو لکھنے کے لئے شروع میں استعمال کیا مگر اس کا استعمال کافی مشکل تھا۔ پھر گوگل ڈاکس(Google docs) کا استعمال کیا اور ٦ اقساط اسی میں فونیٹک کی بورڈ کی مدد سے ٹائپ کیں۔ گوگل ڈاکس کے لئے ہر وقت آن لائن رہنا ضروری تھا ۔ اگر انٹرنیٹ دستیاب نہ ہو تو پھر کچھ کام نہیں ہو سکتا تھا ۔لہٰذا گوگل پر اردو آف لائن ٹائپنگ ٹول تلاش کیا اور یوں گوگل ان پٹ میتھڈ ایڈیٹر (Google Input Method – IME)سے روشنائی ہوئی اور اس نے زندگی کافی آسان کردی۔ پہلی قسط ترجمہ کرنے میں مجھے کوئی ١٢ دن لگے مگر گوگل کے اس ارود ٹول سے آخری قسط صرف دو دنوں میں مکمل ہوئی۔

اگرچہ ترجمہ کرنے کی یہ میری زندگی کی پہلی کاوش تھی (جبکہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ کرنے کی پہلی کوشش میچو کاکو کی "ناممکنات کی طبیعیات " ہے ) اور میں جانتا ہوں کہ نہ میں کوئی بڑا اردو داں ہوں ،نہ کوئی بڑا لکھاری اور نہ ہی کوئی بڑا مترجم ۔ مجھے ذخیرہ الفاظ کی کم مائیگی ہونے کا بھی احساس ہے بہرحال اپنے تئیں جتنی کوشش کر سکتا تھا کہ روانی اور سلاست کے ساتھ ترجمہ کروں نہ کہ لفظ با لفظ ،وہ میں نے کی ۔ پھر جہاں جہاں مجھے معلومات پرانی اور فرسودہ نظر آئیں ان کو بھی اپ ڈیٹ کردیا اور جہاں جہاں معلومات پر شک ہوا اس کی بھی تحقیق کی۔ انگلش الفاظ کا ترجمہ کے لئے میں نے www۔urduenglishdictionary۔org کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔

اس کے شروع کے پانچ ابواب کی ادارت جناب علیم احمد صاحب مدیر اعلیٰ "ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی " نے کی ہے ۔ ان سے مزید ابواب کی ادارت کی فرمائش کی ہے اگر انہوں نے اپنی گوں نا گوں مصروفیات سے وقت نکال لیا اور باقی بچے ہوئے ابواب کی بھی ادارت فرما دی تو میں ان کے تصحیح شدہ ابواب ہی پوسٹ کروں گا ورنہ ایسے ہی پوسٹ کر دوں گا ۔


اس پروگرام کی آٹھ اقساط ٢٥ اپریل ٢٠١٠؁ء سے لے کر ٢٤ مئی ٢٠١٠؁ء تک نشر ہوئی تھیں۔ ان مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ قوسین میں دیے گئے انگریزی کے نام اصل پروگرام کے عنوان ہیں:

1.بگ بینگ(Big Bang)

2.بلیک ہولز (Black Holes)

3.ملکی وے کہکشاں اور دوسری کہکشائیں (Alien Galaxies)

4.سورج اور دور دراز کے تارے (Extreme Stars)

5.سپرنووا (Supernovas)

6.کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے(Extreme Planets)

7.نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی(Alien Solar Systems)

8.چندا ماما اور ماورائے ارض چاند (Alien Moons)


ہر باب دو سے تین حصّوں میں پوسٹ کروں گا ۔ اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہیے گا ۔ نوٹ یہاں پر میں تصاویر کو شامل نہیں کررہا کیونکہ ان کی فائلوں کا حجم کافی زیادہ ہے۔ اور پھر مجھے یہاں پر ان کی فورمٹنگ بھی کرنی نہیں آرہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگ بینگ - Big Bang(انفجار عظیم یا دھماکہ عظیم) - حصّہ اوّل
How The Universe Works – Season 1, Episode 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائنات میں ارب ہا ارب کہکشائیں(Galaxies)موجود ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کائنات ہمارے تصور سے بھی زیادہ وسیع ہے۔اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال کلبلاتا ہے کہ یہ اتنی بڑی اور ہمہ دم وسعت پذیر کائنات کب اور کیسے وجود میں آئی؟ سائنس دانوں کے مطابق آج سے لگ بھگ ١٤ ارب سال پہلے کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ ماہرین فلکیات کی تحقیق و مطالعے کے مطابق، کائنات کی ابتداء آج سے تقریباً ۱۳ ارب ۸۰ کروڑ سال پہلے ہوئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ زمان و مکان (Time and Space) کا آغاز بگ بینگ (انفجار عظیم یا زبردست دھماکے) سے ہوا تھا۔ ہم اس باب میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی۔ہمارا یہ سفر، زمان و مکان کے راستے سے ہوتا ہوا، ابتدائے کائنات سے شروع ہوکر اس کے انجام تک پہنچے گا۔ تو آئیے، اس عظیم الشان سفر کی ابتداء کرتے ہیں۔


کرۂ ارض ہماری دنیا ہے۔ شہر، جنگل، سمندر اور لوگ، غرض ہر وہ چیز جو اس دنیا اور کائنات میں موجود ہے، اسی مادّے سے بنی ہے جو بگ بینگ کے ابتدائی چند سیکنڈوں میں تخلیق ہوگیا تھا۔ ہر ستارہ، ہر سیارہ، گھاس کا ہر پتّا، پانی کی ہر اِک بوند، ہر ایک جوہر، یہ سب کے سب اسی مادّے سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہائیڈروجن کے وہ ایٹم جو کائنات میں بکثرت پائے جاتے ہیں، ان کے مرکزے بھی بگ بینگ کے چند لمحوں بعد ہی وجود میں آگئے تھے ۔ بگ بینگ، کائنات کی پیدائش کا، اس عظیم الشان کارخانہ قدرت کی ابتداء کا معیّن واقعہ ہے۔ ہمارا ما ضی، حال اور مستقبل، سب کچھ اسی ایک اہم واقعے میں قید ہیں۔ لیکن یہ سب جاننے کے لئے ہمیں بہت دُورکا سفر کرنا ہوگا… ہمیں نظام شمسی کے پار، اپنی کہکشاں مِلکی وے (Milky Way) سے بھی بہت آگے جانا ہوگا۔


جب ہم خلاء میں دیکھتے ہیں تو دراصل ہم ما ضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ خلاء میں بہت دُور تک دیکھنے پر ہم اس قابل ہوتے ہیں کے زمانے کی، اس زمان و مکان کی، اس کائنات کی ابتداء کو دیکھ سکیں۔ پہلی نوزائیدہ کہکشاں اور اس میں موجود پہلے ستارے کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے، ہم کائنات کے بالکل ابتدائی دور میں آچکے ہیں۔


بگ بینگ اس وقت سائنس کی سب سے بڑی پہیلی ہے۔ دراصل ہم جاننا چاہتے ہیں کے بگ بینگ کے موقعے پر کیا ہوا ، کیسے ہوا ، اور کیوں ہوا تھا ؟ اور اس سے پہلے کیا تھا… اگر ہم واقعی جان سکیں۔ ان سب سوالوں کے جوابوں کے لئے سائنس داں ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بڑی بڑی عظیم الجثہ مشینیں اور طاقتور دوربینیں بنائیں، تاکہ وہ ان تمام حالات کی نقل کر سکیں کہ جب کائنات اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی؛ ان لمحوں کی باقیات دیکھ سکیں کہ جب ایک ننھی سی کائنات میں ہنگامہ بپا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اس حقیقت سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں کہ آخر ہم یہاں کیوں ہیں؛ اور کہاں سے آئے ہیں ۔کیا واقعی کائنات کا کوئی نقطہ آغاز تھا ؟ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اگر ہم نے ان سوالات کےمکمل جوابات حاصل کرلئے، تو یہ انسانیت کی سب سے شاندار فتح ہوگی۔ شاید تب ہم یہ جان سکیں کے خدا نے اسے کیوں تخلیق کیا ہے۔ بگ بینگ کی ابتداء ایک سربستہ راز ہے؛ اور جیسے جیسے ہمارا علم بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے یہ راز اور بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ سرِدست ہم پورے وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہماری کائنات ایک منفرد جگہ ہے۔ شاید ہماری کائنات، کئی دوسری کائناتوں میں سے ایک ہو۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بگ بینگ جس کے نتیجے میں ہماری کائنات ظہور پذیر ہوئی، وہ دوسرے کئی ‘‘بگ بینگوں’’ میں سے کوئی ایک ہو۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بگ بینگ تو ایک ہی رہا ہو مگر اس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی لاتعداد کائناتوں میں سے ایک، ہماری کائنات بھی ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کے ان لاتعداد کائناتوں میں کچھ جگہیں ایسی بھی ہوں جہاں اب بھی بگ بینگ وقوع پذیر ہورہا ہو؛ وہ کائناتیں ابھی اپنی ابتداء اور تخلیق کے مراحل ہی طے کررہی ہوں۔ لیکن فی الحال تو ہم صرف اپنی کائنات کے بارے میں ہی بات کر سکتے ہیں؛ اگرچہ اسے سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بقول آئن اسٹائن: ‘‘کائنات کی سب سے ناقابلِ فہم بات یہی ہے کہ یہ قابلِ فہم ہے۔’’


١٩٢٠ء کی دہائی کے اختتام سے ذرا پہلے تک جو کچھ ہم کائنات سے متعلق جانتے تھے، اس عشرے کے اختتام پر وہ سب کچھ بالکل تبدیل ہوکر رہ گیا۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پچھلی یعنی بیسویں صدی میں کائنات سے متعلق ہماری سوجھ بوجھ کس حد تک بدل گئی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہم سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی اور سا کن ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے، اور ایسی ہی ہے جیسی کہ یہ ہے۔ لیکن ۱۹۲۹ء میں یہ سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں مشہور زمانہ ماؤنٹ ولسن رصد گاہ (Mount Wilson Observatory) واقع ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ۱۹۲۹ء میں ماہر فلکیات ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) نے دریافت کیا کہ کائنات صرف ہماری کہکشاں، ملکی وے پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں ان گنت کہکشائیں ہیں۔ ان میں سے کوئی کہکشاں بھی اپنی جگہ پر ساکن نہیں۔ اس کے برعکس، کہکشائیں نہ صرف مسلسل تیزی سے حرکت کررہی ہیں بلکہ وہ نا قابل یقین رفتار کے ساتھ ہماری زمین سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔ دراصل یہ بگ بینگ سے متعلق پہلی شہادت تھی۔ اوسطاً تمام کہکشائیں ہم سے دور بھاگ رہی ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ جو کہکشاں ہم سے جتنی زیادہ دور ہے وہ اتنی زیادہ تیزی سے ہم سے اور دُور ہوتی جارہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہکشاں ہم سے دگنے فاصلے پر ہے تو وہ دگنی رفتار سے مزید دور ہورہی ہے؛ اور اگر تین گنا فاصلے پر ہے تو تین گنا رفتار سے دور بھاگتی جارہی ہے… علیٰ ہٰذالقیاس۔ ہر چیز ہم سے دور بھاگ رہی ہے، آج ہم اس کُلئے کو ‘‘ ہبل کے قانون’’ (Hubble’s Law)کے نام سے جانتے ہیں۔


مگر ہبل کی یہ دریافت تو صرف ابتداء تھی۔ کہکشاؤں کے حرکت سے ہبل نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی کے کسی موقعے پر یہ ساری کی ساری کائنات یقیناً کسی ایک جگہ پر، یکجا ضرور رہی ہوگی۔ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار سے ماہرین فلکیات نے اندازہ لگایا کہ یہ تمام کا تمام مادّہ کب، آج سے کتنا عرصہ پہلے، یکجا رہا ہوگا۔


اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کائنات کی پیدائش کے وقت موجود ہی نہیں تھے تو ہمیں کیسے پتا چلا کہ کائنات کی عمر ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال کے لگ بھگ ہے۔ اس بات کو ہم ایک سادہ مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ہم جب کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم اسے روکنے (Stop) اور پیچھے (Rewind) کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ ہم اسے دوبارہ بھی چلا سکتے ہیں۔ کونیات میں بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم کونیاتی دھماکے کی بات کرتے ہیں تو یہ ویڈیو والی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ ماضی میں جھانکنے کے لئے ماہر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب آپ نگاہ اٹھا کر آسمان میں رات کو ستارے دیکھتے ہیں تو دراصل ان کی روشنی آپ تک کروڑوں نوری سال(Light Year) کا فاصلہ طے کر کے پہنچ رہی ہوتی ہے۔اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ان ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لئے کروڑوں سال درکار ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اور بھی دور تک دیکھنے کے قابل ہوجائیں، تو دراصل آپ اور بھی پرانی، اور بھی زیادہ قدیم کائنات کا نظارہ کررہے ہوں گے۔ کائنات کی گہرائی میں دیکھتے چلے جائیے، اور ہوتے ہوتے ایک مقام وہ بھی آئے گا جو ہم سے اربوں نوری سال دور ہوگا؛ اور وہاں آپ اس کائنات کو اس کے اوّلین وقت میں دیکھ سکیں گے۔ ہبل خلائی دوربین کے ذریعے (جسے ایڈوِن ہبل کی خدمات کے اعتراف میں یہ نام دیا گیا ہے) ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ خلائے بسیط میں، کائناتی ماضی کے جھروکوں میں جھانک سکیں (ملاحظہ کیجئے: تصویر نمبر۲)۔خلاء میں ہم جتنا زیادہ دور تک دیکھ سکیں، ہم اتنا ہی قریب سے بگ بینگ کوبھی دیکھ سکیں گے۔ سائنس دانوں کے لئے بگ بینگ کی ابتداء کو دیکھنا تو بس ابتدائے عشق جیسا معاملہ ہے!


عام آدمی جب بگ بینگ کے بارے میں سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ یہ کس جگہ وقوع پذیر ہوا تھا؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ یہ ہر جگہ وقوع پذیر ہوا تھا،کیونکہ کائنات اس وقت انتہائی مختصرسی جگہ تھی۔ کائنات کے متعلق ابھی ہمارا نظریہ بہت مبہم اور مشکل ہے۔ مگردماغ کی چولیں ہلا دینے والاسوال تو یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ قدیم زمانے کے اہلِ علم اکثر یہ کہتے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز عدم (Nothingness) سے اچانک وجود میں آ جائے! حیرت انگیز طور پر، قوانینِ طبیعیات کی روشنی میں ایسا ہونا بالکل ممکن ہے۔سیدھے لفظوں میں بات یہ ہے کہ ہماری پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شئے بشمول کھاناپینا،او ڑھنابچھونا، ہماری عزیز ترین چیزیں وغیرہ، سب کی سب اچانک عدم سے وجود میں آگئیں۔ آج بگ بینگ کو سمجھنے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ کائنات کا عدم سے وجود میں آنا ہی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زہیربھائی ۔ کیا خوب یاد دلایا آ نے ۔۔۔۔۔واہ
اس زمانے میں ایسے سائنسی پروگرام واقعی ایک مسحور کن فضا کا سماں باندھ دیتے تھے ۔ کارل سگاں کا مذکورہ پروگرام اِس جملے سے شروع ہوتا تھا جو اب تک حافظے کی وادیوں میں گونجتا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے کس کی آواز میں تھا ۔:arrogant:
" علم کی حدوں کے اس پار ،،، سایوں اور دھندلکوں کی ایک ایسی دنیا جسے کسی نے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم یہ علم حاصل کر سکتے ہیں "۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگ بینگ - Big Bang(انفجار عظیم یا دھماکہ عظیم) - حصّہ دوم
How The Universe Works – Season 1, Episode 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ یہ یقیناً نا ممکن سی بات ہے اور اس بات کو سمجھنا انسانی ذہن کے لئے آسان نہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ عدم سے اچانک لامحدود توانائی اور لامحدود کثافت نے جنم لیا۔ اور تو اور اس زمان و مکان نے، اس خلاء اور وقت نے بھی اسی عدم سے وجود پایا ہے۔ کائنات کا سب سے بڑا اسرار، اس کا عدم سے وجود میں آنا ہی ہے۔ لیکن اگر آپ نے عدم سے وجود کو سمجھنا شروع کردیا تو گویا آپ نے بگ بینگ کو سمجھنا شروع کردیا۔آغازِ وقت پر کائنات ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آگئی۔ کائنات اس وقت دراصل ایک نقطہ تھی۔ یہ نقطہ لامحدود طور پر چھوٹا، نا قابلِ تصور حد تک گرم اور لا محدود و لا متناہی کثافت و توانائی پر مشتمل تھا۔ ہم بگ بینگ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سارے کا سارا مادّہ اور توانائی جو کہ آج ہم تقریباً چار کھرب کہکشاؤں میں ہم دیکھتے ہیں، وہ سب کا سب اس ایک نقطے میں قید تھا، جس کی جسامت ایک سادہ ترین ہائیڈروجن کے ایٹم سے بھی کم تھی۔ تمام قابل مشاہدہ تمام کائنات، اُس وقت صرف ایک سینٹی میٹر کے بھی کروڑ ہا کروڑویں حصے جتنی مختصر تھی۔ ہر چیز ناقابل یقین حد تک کثیف اور گرم تھی۔اس وقت تک مادّہ وجود میں نہیں آیا تھا۔ بس توانائی ایک بھپری ہوئی شکل میں موجود تھی۔ بس یہی نقطہ آغاز تھا ہماری کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کا۔


اس وقت ہر چیز بہت ہی سادہ تھی۔ کائنات کی وہ تمام بنیادی قوّتیں جنہیں ہم آج جانتے ہیں، وہ سب ایک اور یکجا تھیں۔اس وقت کائنات کسی خاص ترتیب میں نہیں ڈھلی ہوئی تھی؛ نہ ہی اس کی کوئی ساخت تھی۔ اس اوّلین وقت میں قوانین طبیعیات (جنہوں نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل و صورت دی ہے) بذات خود تشکیل پارہے تھے۔ کشش ثقل (Gravity) پہلی قوّت کے طور پر نمودار ہوئی۔ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کی قسمت کا فیصلہ اسی وقت ہو گیا تھا۔


کارلوس فرینک (Carlos Frenk) نے ایک سپر کمپیوٹر پر مصنوعی طریقے (سمیولیشن) سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کس طرح کشش ثقل نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل دی۔ یہ جاننے کےلئے انہوں نے کئی طرح کی (مصنوعی) کائناتیں (سپر کمپیوٹر پر) تشکیل دیں اور ان میں کشش ثقل کی مختلف قیمتیں رکھیں۔ انہوں نے پہلی سمیولیشن میں کشش ثقل کی قیمت (یعنی اس قوت کی شدت)، اس کی موجودہ سے قیمت سے بہت کم رکھی؛ جس کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اتنی کم ثقلی قوّت کے ساتھ مادّہ ایک ساتھ یکجا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یعنی قوّت ثقل کی موزوں شدت نے ہمیں بچالیا؛ کیونکہ اگر یہ اپنی موجودہ قیمت سے تھوڑ سی بھی کم ہوتی تو ہماری کائنات بہت ہی بیزارکن جگہ ہوتی۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہوتی۔ اور جب مادّہ ہی ایک جگہ جمع نہ ہوتا توستاروں کوجنم دینے والے، گردو غبار کے بادل کیسے وجود میں آتے۔ہماری کائنات کو اس کی موجودہ شکل و صورت دینے میں ثقلی قوّت کا بڑا ہی اہم کردار ہے۔ اگر ثقلی قوّت اپنی موجودہ شدت سے ذرا بھی کم ہوتی تو ستارے ہوتے نہ ان سے بھری کہکشائیں؛ اورنہ ہی کچھ اور۔


ایک اور سمیولیشن میں فرینک نے قوتِ ثقل کی شدت، اس کی موجودہ کیفیت کے مقابلے میں زیادہ رکھی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات: اگر کشش ثقل اپنی موجودہ شدت سے ذرا بھی زیادہ مضبوط ہوتی تو کائنات، اپنی ابتداء کے کچھ ہی عرصے بعد ایک بلیک ہول کی شکل میں سمٹ کر ختم ہوجاتی۔


مختصر یہ کہ کائنات کی تشکیل سے لے کر اس کی موجودہ شکل و صورت کو برقرار رکھنے تک کے لئے ثقلی قوّت کوبالکل اتنا ہی طاقتور، عین اتنا ہی شدید ہونا چاہئے تھا کہ جتنی یہ اس وقت ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بگ بینگ سے وجود پذیر ہونے والی قوتِ ثقل ٹھیک اتنی ہی مضبوط تھی کہ جتنا اسے (ہماری اپنی تخلیق و تشکیل کےلئے) ہونا چاہئے تھا۔


پہلے سیکنڈ کے کچھ ابتدائی حصّے میں، جب ثقلی قوّت وجود میں آ گئی تھی اور مختلف قوتوں کی ہنگامہ خیزی جاری تھی، توانائی کی ایک زبردست صدماتی لہر (شاک ویو) پھوٹ پڑی اور کائنات، ناقابل تصور رفتار سے ہر طرف پھیل گئی۔ صرف ایک سیکنڈ کے کچھ حصّے میں ہی کائنات ناقابل یقین حد تک پھیل چکی تھی! ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سیکنڈ کےسو کھربویں حصّے کے بھی سو کھربویں حصّے کے دوران یہ کائنات ایک کھرب کھرب گنا سے بھی زیادہ پھیل چکی تھی۔ آج اس مرحلے کو ہم ‘‘کائنات کا افراط زدہ پھیلاؤ’’ کہتے ہیں۔


تب کائنات کے پھیلنے کی رفتار، روشنی کی رفتار سے بھی تیز تھی۔ یہ تو سائنس سے مناسب واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کرسکتی۔ تو پھر خلاء کس طرح روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرسکتی ہے؟ تو کیا اس نے طبیعیات کا قانون توڑ نہیں دیا تھا؟ یہ بات تو چوٹی کے سائنس دنوں کو بھی پریشان کئے رکھتی ہے۔ مگر اہم بات اُس وقت کی کائنات کو جاننا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہائیڈروجن کا ایک سادہ ایٹم اتنے ہی وقت میں پھیل کرگولف کی ایک گیند جتنا ہوجائے ۔ہمارے لئے شاید ایٹم اورگولف کی گیند کے حجم کو سمجھنا مشکل ہو، لیکن اگرگولف کی ایک گیند پھیل کر، اتنے ہی وقت میں، دنیا کے گولے جتنی بڑی ہوجائے، تو شاید ہمیں بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ تو پھر وہی بات ہوگی جس کا مطلب روشنی کے رفتار سے بھی زیادہ ہوا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ابتدائے وقت میں بہت ساری چیزیں جو ایک دوسرے کے بہت ہی قریب تھیں، بہت ہی تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوئیں۔ اس بات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لئے ہمیں وقت کی ایک نئی اکائی تخلیق کرنا ہوگی: پلانک وقت (Planck Time)۔


پلانک وقت کتنا مختصرپیمانہ ہوتا ہے؟ اسے سمجھنے کےلئے یہ جان لیجئے کہ صرف ایک سیکنڈ میں پلانک وقت کی جتنی اکائیوں کی تعداد ہوتی ہے، وہ ان تمام سیکنڈوں سے بھی زیادہ ہیں جو بگ بینگ سے لے کر آج تک گزر چکے ہیں! آج بگ بینگ ہوئے تقریباً ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال ہوچکے ہیں۔ حساب کتاب میں آسانی کی غرض سے ہم انہیں پورے ۱۴ اَرب سال مان لیتے ہیں۔ اب اس ۱۴ اَرب (۱۴۰۰۰۰۰۰۰۰۰) کو ایک سال کے دوران گزرنے والے سیکنڈوں کی مجموعی تعداد (یعنی ٣١،٥٥٦،٩٢٦ سیکنڈ) سے ضرب دیجئے تو اس سے حاصل ہونے والا جواب واقعی میں سِٹّی گُمادینے والاعدد ہوگا۔ وقت کا یہ پیمانہ، یعنی پلانک وقت، اس قدر مختصر ہے کہ انسان اس کا ادراک ہی نہیں کرسکتا۔ اگر ہم اپنی گھڑی کو دیکھتے ہوئے ایک سیکنڈ کو پلانک وقت میں ناپنے کی کوشش کریں تو وہ کتنے پلانک وقت پر مشتمل ہوگا؟ وہ ایک ارب ارب ارب ارب ارب پلانک سیکنڈوں پر مشتمل ہوگا!


چلئے، اب واپس بگ بینگ شروع ہونے کے اوّلین وقت کی طرف چلتے ہیں۔ اس وقت بگ بینگ کی عمر صرف چند پلانک سیکنڈ ہی تھی۔ اُس وقت مادّہ نہایت ہی تیزی کے ساتھ کائنات میں پھیل رہا تھا۔ اگلے چند پلانک سیکنڈوں میں کائنات، جیسا کہ اس کے بارے میں ہم اب تک جان پائے ہیں، پیدا ہوچکی تھی۔ ہتھیلی پر سما جانے والی یہ چھوٹی سی کائنات، صرف ایک سیکنڈ کے بہت ہی معمولی حصے میں پھیل کر ہمارے کرۂ ارض جتنی جسامت کی ہوگئی؛ اور پھر اسی قدر معمولی وقت کے دوران یہ مزید پھیل کر ہمارے نظامِ شمسی سے بھی بڑی ہوگئی!

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
عدم سے وجود میں آنا ایک سائنسی حقیقت ہے :) گو کہ یہ پروگرام کسی خالق کو نہیں مانتا لیکن اس پروگرام سے مجھے معلوم ہوا کہ 1۔ کائنات عدم سے وجود میں آئی اور یکایک آئی اور 2۔ کائنات ایک دن لپٹ جائے گی۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
مجھے سیزن ٣ کی قسط نمبر ٨ اور ٩ کے سب ٹائٹل درکار ہیں۔ اگر کوئی اس سلسلے میں مدد کرسکے تو عین نوازش ہوگی۔ قسط نمبر ٨ کا سب ٹائٹل اسٹار مین کے نام سے دستیاب ہے لیکن اس کی کوالٹی عمدہ نہیں ہے ۔
اقساط کا نام یہ ہے :
8"Our Voyage to the Stars"
9"The Search for a Second Earth"
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگ بینگ - Big Bang(انفجار عظیم یا دھماکہ عظیم) - حصّہ سوم
How The Universe Works – Season 1, Episode 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس وقت تک کائنات ایک بپھری ہوئی توانائی کا طوفان تھی۔ وہ لامحدودو لا متناہی طور پر گرم اور کثیف تھی؛ جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس کے مقابلے پر کسی بھی ستارے کا قلب (جس کا درجہ حرارت کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ میں ہوتا ہے) بہت ہی ٹھنڈا اور پُرسکون لگےگا۔ اُس وقت درجہ حرارت اس حد تک تھاکہ ہمارا جسم ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس درجہ حرارت میں ایٹم بھی اپنا وجود قائم نہ رکھ سکیں گے۔ اس وقت درجہ حرارت دسیوں کھرب ڈگری تک جا پہنچا تھا۔ جیسے جیسے کائنات پھیلتی گئی، ویسے ویسے اس کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا گیا۔کم ہوتے درجہ حرارت نے کائناتی ارتقاء کے اگلے مرحلے میں اہم کردار ادا کیا۔ عظیم دھماکے (بگ بینگ) سے پیدا ہونے والی خالص توانائی ایٹم کے ذیلی ذرات (Subatomic Particles) میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ یہ ہماری کائنات میں تشکیل پانے والا اوّلین مادّہ تھا۔


توانائی کے مادّے میں تبدیل ہونے کا تصور سب سے پہلے البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein) نے، بگ بینگ کے نظریئے سے بھی بہت پہلے دیا تھا۔ یہ وہی سائنسی مساوات ہے جسے تقریبا ً سب ہی جانتے ہیں؛ یعنی E = mc2۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٣۔) یہی کلیہ ہمیں تخلیق کائنات کے بارے میں آگہی دیتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کائنات کی ابتداءصرف اور صرف خالص توانائی سے ہوئی تھی؛ جس سے بعد میں مادّہ پیدا ہوا۔ توانائی اور مادّہ ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہیں؛ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ مادّہ، توانائی میں اور توانائی، مادّے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ہم کائنات کی ہر چیز اس خالص توانائی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ آئن اسٹائن کی یہ چھوٹی سی مساوات نہایت ہی پُراثر ہے۔ اسی کی بنیاد پر پہلا ایٹم بم بنایا گیا۔


نیو کلیائی دھماکے میں مادّے کی تھوڑی سی مقدار زبردست توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کائنات کی تشکیل میں اس کا بالکل الٹ ہورہا تھا۔


خالص توانائی، مادّے میں تبدیل ہو رہی تھی۔ شروع میں مادّے کی ضرورت نہیں تھی، بس توانائی ہی چاہئے تھی۔ صرف توانائی ہی سے مکمل کائنات وجود میں آ سکتی تھی۔ بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں کائنات کو بنیاد فراہم کرنے والے ذیلی ایٹمی ذرّات بننا شروع ہوگئے تھے۔ اوّلین وقت میں وجود آنے والا مادّہ، اس مادّے سے بہت مختلف تھا کہ جس کا ہم آج کل مشاہدہ کرتے ہیں۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ عام مادّہ، بگ بینگ کی ابتداء میں بننے والے مادّے سے نہایت مختلف تھا؛ جس کی وجہ اس وقت کی وہ انتہائی صورتحال تھی جس نے اس وقت تک کسی بھی کوئی ایٹم کو پنپنے نہیں دیا تھا۔ بس سارا مادّہ ذیلی ایٹمی ذرّات (سب اٹامک پارٹیکلز) ہی پر مشتمل تھا۔ بگ بینگ کے وقت کائنات انتہاء درجے کی گرم اور کثیف تھی۔ وہ لامحدود و لا متناہی توانائی پر مشتمل تھی۔ اس وقت مادّہ کے توانائی میں اور توانائی کے مادّے میں تبدیل ہونے کا سلسلہ جاری تھا۔ تخلیق ہونے والا یہ اوّلین مادّہ اتنا غیر قیام پذیر تھا کہ وہ اس کائنات کو تشکیل دینے کی ابتداء کر ہی نہیں سکتا تھا کہ جس سے ہم واقف ہیں۔


اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں:آپ کسی بڑے بازار کا منظر اس کے مصروف اوقات کار میں تصور کیجئے۔ اس بازار کو ابتدائی کائنات، اور بھیڑ سے نکلنے اور اس میں گم ہوجانے والے لوگوں کو ذیلی ایٹمی ذرّات سمجھئے۔ اگر آپ نے ایک بڑے ہجوم کا تصور کرلیا تو آپ دیکھیں گے کے بھیڑ میں سے لوگوں کا نکلنا اور اس میں گم ہونا کسی خاص ترتیب سے نہیں ہوگا بلکہ وہ بالکل بےترتیب ہوگا۔ لوگوں کی یہ حرکت خاصی حد تک کائنات کے ابتدائی وقت میں ذیلی ایٹمی ذرّوں کی حرکات سے مِلتی جُلتی ہے۔ ابتدائی کائنات کے انتہائی شدید درجہ حرارت نےتوانائی سے بھرپورذیلی ایٹمی ذرّوں میں زبردست ہلچل پیدا کردی تھی۔ وہ وجود میں آتے اور فوراً ہی توانائی میں تحلیل ہوکر غائب ہوجاتے۔ ان کا اس طرح سے حاضر اور غائب ہونا ناقابل یقین رفتار اور عجیب افراتفری کے انداز میں ہو رہا تھا۔


اب ذرا تصور کیجئے کہ کسی ریلوے ا سٹیشن پر لوگ ٹرین میں جلدی جلدی میں سوار ہونے کی کوشش کر رہے ہوں تو کیا ہوگا؟ شروع میں لوگ شدید دباؤ میں ہوں گے، ہر ایک جلدی جلدی ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کررہا ہوگا۔ مگر جیسے جیسے رش کم ہوگا، ویسے ویسے لوگ پُرسکون ہو کر ٹرین پر سوارہوں گے۔ ابتدائی کائنات میں ذیلی ایٹمی ذرّات کا برتاؤ بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ شروع میں ذرّات بہت تیزی سے حرکت کررہے تھے۔ مگر پھر ان کی حرکت بتدریج دھیمی پڑتی چلی گئی۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان میں بے ترتیبی (randomness) کا عنصر بھی خاصا کم ہوتا چلا گیا۔ کائنات کے درجہ حرارت میں جب خاصی کمی ہوگئی تو ذرّات نے واپس توانائی میں تبدیل ہونا تقریباً بند کردیا۔ اس وقت بس ذیلی ایٹمی ذرّات ہی ہر جگہ موجود تھے۔درجہ حرارت میں بہت کمی ہوجانے کے باوجود،کائنات میں اب بھی بہت گرمی اور ہنگامہ خیزی جاری تھی۔ یہ سب کچھ ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں ہورہا تھا۔ بگ بینگ اپنے پہلے سیکنڈ کے سب سے اہم حصّے میں داخل ہو رہا تھا۔


اسی مرحلے پر ایک جنگ، مادّہ اور ضد مادّہ (Antimatter) میں شروع ہوچکی تھی۔ ضد مادّہ، کائنات کو تشکیل پانے سے پہلے ہی ختم کرسکتا تھا۔ کائنات کی ہر چیز،جس میں چھوٹے سے ذرّے سے لے کر عظیم الجثہ ستارے تک شامل ہیں، مادّے سے بنی ہوئی ہے۔ اور سارے کا سارا مادّہ بگ بینگ کی خالص توانائی ہی سے تخلیق ہوا ہے۔


آئن اسٹائن مشہورِزمانہ مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ مادّہ اور توانائی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔جب آئن ا سٹائن نے یہ تصور پیش کیا تھا تووہ صرف ایک مفروضہ ہی تھا۔ مگر آج سائنس اس تصور کو پرکھ چکی ہے۔ ذرّاتی طبیعیات کی مشہور یورپی تجربہ گاہ ‘‘سرن’’ (CERN) سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے؛ جہاں دنیا کی سب سے بڑی مشین موجود ہے۔ یہ مشین ایک شہر جتنی بڑی ہے۔ اسے خاص اسی مقصد کے لئے بنایا ہے کہ اس میں بگ بینگ کے وقت کی صورتحال کو دوبارہ چھوٹے پیمانے پر تخلیق کیا جاسکے۔ہم جتنے خردبینی ماحول میں اسے جانچنا چا ہتے ہیں، اتنی ہی بڑی مشین ہمیں درکار ہو گی۔ یعنی جتنے چھوٹے پیمانے پرتجزیہ درکار ہوگا، اتنی ہی بڑی مشین بھی درکار ہوگی۔ فی الحال اس طرح کے تجزیئے اورمطالعے کا دوسرا کوئی طریقہ دستیاب نہیں۔ بڑی مشین کا مطلب نہایت ہی چھوٹے پیمانے پر طبیعیات کی جانچ پڑتال کرنا ہے؛ جو ہمیں ابتدائے زمان و مکاں، یعنی کائنات کی پیدائش کے اوّلین وقت کے ماحول کا تجزیہ کرنے میں مدد کرے گی۔ اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔


سرن میں واقع اس جناتی مشین کو ‘‘تصادم گر’’ (کولائیڈر) کہتے ہیں؛ جس کا پورا نام ‘‘لارج ہیڈرون کولائیڈر’’ (The Large Hadron Collider) ہے۔ یہ مشین خاص طور پر اس لئے بنائی ہے تاکہ ہم اس میں بگ بینگ کے اوّلین وقت کا مطالعہ کرسکیں۔یہ تقریباً ١٢ فٹ چوڑی، کنکریٹ سے بنی گول سرنگوں پر مشتمل ہے۔ ان سرنگوں کی مجموعی لمبائی لگ بھگ ١٧ میل ہے۔ اس مشین میں مادّے کے چھوٹے ذرّات (پروٹونوں) کو قریب قریب روشنی کی رفتار تک پہنچاکر آپس میں ٹکرایا جاسکتا ہے۔ اس عمل میں ایک سیکنڈ کے کچھ حصّے تک ہی رہنے والی زبردست توانائی پیداہوتی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے آج سے ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال پہلے، بگ بینگ سے توانائی پیدا ہوئی تھی۔اور پھر یہ خالص توانائی، مادّے میں تبدیل ہوجاتی ہے؛ بالکل ویسے ہی جیسے بگ بینگ کے فوراً بعد، ابتدائے کائنات میں ہوئی تھی۔ اس تصادم کی سراغرسانی کرنے کےلئے بھی ہمیں اتنا ہی بڑا کوئی سراغرساں آلہ درکار ہوگا۔ لارج ہیڈرون کولائیڈر میں بھی ایسا ہی ایک دیوقامت سراغرساں (Giant Detector) نصب ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٤۔) یہ ڈٹیکٹر پانچ منزلہ عمارت جتنا اونچا اور تقریباً٧ ہزار ٹن وزنی ہے۔٧ ہزار ٹن! پڑھنے میں بہت معمولی سا لگتا ہے مگر پورے آئفل ٹاور کا وزن بھی اس سے زیادہ نہیں۔ مگر اپنے اس حجم کے باوجود بھی یہ مادّے کے ان ذرّات کو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ تو ایک سیکنڈ کے بہت ہی معمولی حصے میں نمودار ہوکر غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ البتہ، اپنے پیچھے کچھ نشانیاں ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ دیوقامت سراغرساں، ان ہی نشانیوں کا مشاہدہ کر پاتا ہے۔ یا پھر یوں کہئے کہ یہ سانپ گزرجانے کے بعد لکیر پیٹتا رہ جاتا ہے۔ لیکن لیکن یہی لکیر، وجود پذیر ہوکر غائب ہوجانے والے ذرّات کی نشانیاں، ہمیں بہت کچھ جاننے میں مدد دیتی ہیں۔ ان ذرّات میں بہت زیادہ توانائی ہوتی ہے؛ اور وہ بہت تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں جناتی سائز کا ڈٹیکٹر بھی چاہئے، جو اُن کے راستوں (trails) کی ٹھیک ٹھیک نقشہ کشی کرسکے۔ بہتر ریزولوشن کے لئے جناتی سائز کا ڈٹیکٹر نہایت ضروری ہے۔یہ بالکل کیمرے ہی کی طرح ہے :جس قدر زیادہ پکسل کا کیمرا ہوگا، اتنی ہی بہترین تصویر بھی ملے گی۔یہ ڈٹیکٹر پانچ منزلہ کیمرے جیسا ہی ہے!

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگ بینگ - Big Bang(انفجار عظیم یا دھماکہ عظیم) - آخری حصّہ (چہارم)
How The Universe Works – Season 1, Episode 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں کو اُمید ہے کہ جلد ہی اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا کہ توانائی کس طرح مادّے میں تبدیل ہوتی ہے۔ عام مادّے میں نہیں، بلکہ اس طرح کے مادّے میں جو آج سے تقریباً ١٤ ارب سال پہلے، اوّلین وقت میں تشکیل پایا تھا۔ کائنات کی تشکیل میں اوّلین وقت بہت ہی نازک مرحلہ تھا۔ کیونکہ اس وقت خالص توانائی انتہائی خطرناک چیز پیدا کررہی تھی؛ اور وہ تھی ضد مادّہ ۔


جی ہاں ضد مادّہ بالکل حقیقی ہے۔ اصل میں ضد مادّہ، مادّے کے برعکس ہے۔ مادّی ذرّات کے مقابلے میں ضدمادّہ کے ذرّات پر بالکل اُلٹ چارج ہوتا ہے۔ مادّے کے الیکٹرون پر منفی چارج ہوتا ہے، لیکن ضد مادّہ کے الیکٹرون پر مثبت چارج ہوتا ہے (اسی لئے وہ ‘‘پوزیٹرون’’ کہلاتا ہے)۔ یہی معاملہ مادّی پروٹون اور ضدمادّہ سے بنے پروٹون (اینٹی پروٹون) کا ہے۔ اب فرض کیجئے کہ اگر ہمارا کوئی ہمزاد، جو ضد مادّہ سے بنا ہو، اپنی شکل و صورت، چہرے مہرے اور شخصیت کے اعتبار سے بالکل ویسا ہی دکھائی دے گا جیسے کہ ہم خود ہیں۔ لیکن جونہی ہم اس سے ہاتھ ملائیں گے، ایک زبردست دھماکہ ہوگا… ہم اور ہمارا ہمزاد، دونوں ہی فنا ہوجائیں گے؛ خالص توانائی میں تبدیل ہوجائیں گے۔ یہ دھماکہ انتہائی شدید ہوگا، اتنا شدید کہ ایک طاقتور ایٹم بم کا دھماکہ بھی اس کے سامنے کچھ نہ ہو!


مادّہ، ضدّ مادّہ کے ساتھ ایسے سینگ لڑاتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہوں۔ اور بات بالکل صحیح بھی ہے۔ ہم بتاچکے ہیں کہ مادّے کے مقابلے میں ضد مادّہ پر بالکل یکساں لیکن اُلٹ چارج ہوتا ہے۔ کائنات کا مقدّر بھی مادّے اور ضد مادّہ کی لڑائی پر منحصر تھا۔ مادّے اور ضد مادّہ کی یکساں مقدار ایک دوسرے کو مکمل طور پر ختم کردیتی (کیونکہ مادّہ اور ضد مادّہ ایک دوسرے کو فنا کر دیتے ہیں) لہٰذا کائنات میں کچھ بھی نہ بچتا۔ تو وہ کائنات جس میں سوائے اشعاع (Radiation) کے کچھ بھی نہ بچا ہو، وہاں نہ تو کوئی ستارہ جنم لے سکتا تھا اور نہ ہی کوئی کہکشاں تخلیق ہو پاتی؛ نہ کوئی سیارہ وجود میں آسکتا تھا اور نہ ہی اس پر بسنے والے انسان پیدا ہو سکتے تھے۔ عام طور پر جس طرح جنگ میں وہی فریق جیتتا ہے جس کی تعداد زیادہ ہو، بالکل ایسے ہی مادّے اور ضد مادّہ کی لڑائی میں ہوا۔ اگرچہ مقابلہ بہت ہی ٹکر کا تھا، پھر بھی جیت تو کسی ایک ہی کی ہونی تھی۔ ہر ایک ارب ضدمادّہ کے ذرّات کے مقابل، مادّے کے ذرّ وں کی تعداد صرف ایک ذرّے کے بقدر زیادہ یعنی ایک ارب ایک ذرّات تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مادّہ تشکیل پاگیا۔ مادّے کا یہی وہ ایک ذرّہ تھا جو ایک ارب ایک ذرّات میں سے بچ گیا تھا۔ اتنا قلیل ہونے کے باوجود بھی یہ مادّہ، موجودہ کائنات کی تشکیل کے لئے کافی تھا۔ وہ تمام مادّہ جو کہکشاؤں اور ستاروں میں ہم آج دیکھتے ہیں، یہ وہی بچ جانے والا مادّہ ہے۔


سننے میں ‘‘ایک ذرّہ بہ مقابل ایک ارب ایک ذرّات’’ بہت ہی حقیر سا لگتا ہے۔ مگر یہ فرق واقعی اتنا ہے کہ اس سے پوری کائنات وجود میں آئی۔ لیکن سچ تو یہی ہے کہ ہم ‘‘کائناتی کھرچن’’ ہیں۔ مادّے اور ضد مادّہ کے مابین تصادم کی باقیات ہیں؛ اُس تصادم کی باقیات جو ابتدائے کائنات میں بڑے شدّومدّ سے جاری تھا۔ آپ کو یقین آئے یا نہ آئے، لیکن ہر وہ چیز جو آج ہمارے ارد گرد موجود ہے، یہاں تک کہ ہم خود، ہمارے جسم کا ایک ایک ایٹم، ستاروں کا ایک ایک ذرّہ، یہ سب وہی باقی ماندہ مادّہ ہے۔ یہ وہی آخری کھرچن ہے جو مادّے اور ضد مادّہ کی ازلی لڑائی کے بعد بچ گئی تھی۔ خوش قسمتی سے کائنات کے پہلے ایک سیکنڈ کے دوران ہی وہ سارے کا سارہ مادّہ بچ چکا تھا کہ جس سے بعد میں تمام ستارے، کہکشائیں اور سیارے وغیرہ وجود میں آئے۔


لیکن ٹھہریئے! کائنات ابھی ناتمام تھی۔ یہ بہت ہی مختصر اور ابتدائی قسم کے ذرّات سے لبریز تھی۔ اب اگلا مرحلہ ایٹموں (atoms) کی تشکیل کا تھا۔ کائنات کی عمر ابھی بمشکل ایک سیکنڈ ہی تھی۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٥ ۔) مگر اب بھی یہ بہت ہی عجیب و غریب سی جگہ تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کا مادّہ، ضد مادّہ سے جنگ جیت چکا تھا۔اب وقت تھا کائنات کی تشکیل کا! یہ ابھی تک انتہائی گرم تھی اور ناقابل یقین رفتار سے پھیل رہی تھی۔ جب کائنات کی عمر صرف ایک سیکنڈ تھی، تو اُس وقت کائناتی ذرّات اپنی آج کی موجودہ شکل سے بالکل مختلف تھے۔ اس وقت کوئی ایٹم پیدا نہیں تھا۔ ایسا کوئی ایٹم وجود میں نہیں آیا تھا کہ جس سے ہمارے ارد گرد موجود چیزیں، جنہیں ہم جانتے اور پہچانتے ہیں، تشکیل پائی ہیں۔ لیکن اب سب کچھ بدلنے والا تھا۔


درجہ حرارت بتدریج کم ہو رہا تھا۔ اوّلین کائناتی ذرّوں نے اپنی حرکی رفتار کم کرنی شروع کردی تھی۔ اب انہوں نے آپس میں بند باندھنے شروع کردئیے تھے جس سے ایٹموں کے اوّلین مرکزے (Nucleus) تشکیل پانے لگے تھے۔ سب سے پہلے ہائیڈروجن کا مرکزہ بنا؛ اور اگلے تین منٹوں میں مزید دو عناصر کے ایٹمی مرکزے تشکیل پاگئے؛ اور یہ تھے ہیلیم اور لیتھیم۔ کائنات اب تک تقریباً ایک نوری سال پر پھیل چکی تھی ۔ ان پہلے تین منٹوں کے دوران ہماری دلچسپی کا جو سامان بھی پیدا ہونا تھا، وہ تقریباً سارے کا سارا پیدا ہوچکا تھا۔ البتہ، اگر ہم اس وقت وہاں موجود ہوتے تو کچھ بھی نہ دیکھ پاتے۔


ہم جب رات کو آسمان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دراصل میں ہم ارب ہا سال پرانے ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ اور ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ شاید یہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ بگ بینگ کےتقریباً تین لاکھ اسّی ہزار (۳۸۰،۰۰۰) سال بعد کائنات کچھ شفاف ہونا شروع ہوئی۔اس سے پہلے وہ دودھیا سی تھی۔ یہ دودھیا کہر، آزاد الیکٹرونوں پر مشتمل تھی۔ کائنات کو اپنا درجہ حرارت ابھی اور بھی کم کرنا تھا؛ اس حد تک کہ الیکٹرون مزید دھیمے پڑجاتے، ایٹموں کے مرکزے انہیں اپنے مداروں میں قید کرنے کے قابل ہوجاتے، اور بھرپور ایٹم تشکیل پا جاتے۔ کائنات کو اس کی موجودہ ساخت دینے میں ہائیڈروجن ، ہیلیم اور لیتھیم کو بہت ہی طویل عرصہ انتظار کرنا پڑا۔سائنسدانوں کے تخمینے کے مطابق، الیکٹرونوں کو دھیما ہونے اور بڑی تعداد میں ایٹم بنانے میں لگ بھگ تین لاکھ اسّی ہزار سال لگ گئے۔ اسی کے ساتھ کائنات پر چھائی ہوئی دودھیا کہر ختم ہوگئی؛ اور روشنی کی پہلی کرن کو خلاء میں فرار ہونے، اور پوری کائنات میں پھیل جانے کا موقع ملا۔


تقریباً ١٤ اَرب سال بعد، نیو جرسی میں دو نوجوان سائنسدانوں نے اتفاقاً ان لہروں کا (روشنی کی اوّلین کرنوں کا) سراغ لگالیا۔ یہ ١٩٦٤ء کی بات ہے۔ آرنو پنزیاس (Arno Penzias) اور رابرٹ ولسن (Robert Wilson)، ہماری کہکشاں میں پھیلی ہوئی ریڈیو لہروں کی نقشہ کشی کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن وہ جہاں کہیں بھی دیکھتے، ہر جگہ پس منظر میں ایک عجیب سی بھنبھنا ہٹ جیسے ریڈیائی سگنل پاتے۔ پہلے پہل انہیں لگا کہ ان کے آلے (انٹینا) میں کوئی خربی ہوگئی ہے۔ انہیں شک ہوا کہ شاید کبوتروں کی بیٹ اس انٹینا پر گری ہے جس کی وجہ سے ایسے سگنل موصول ہورہے ہیں۔ مگر خوب اچھی طرح سے انٹینا صاف کرنے کے بعد بھی وہ سگنل ویسے ہی موصول ہوتے رہے۔


اس بارے میں ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنی اس دریافت کے بارے میں پرنسٹن یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہے تھے۔ وہاں موجود ایک شخص نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ‘‘آپ نے یا تو کبوتروں کی بیٹ کے اثرات دریافت کئے ہیں یا پھر تخلیقِ کائنات کے۔’’


درحقیقت یہ تخلیق کے لمحے کی دریافت ہی تھی۔ یہ وہی لمحہ تھا جب تقریباً ١٤ اَرب سال قبل، ایٹموں نے پہلی پہلی بار الیکٹرونوں کو اپنی آغوش میں لیا تھا اور اپنی تکمیل کی تھی… جب کائنات پر چھائے ہوئے دودھیا بادل صاف ہوئے تھے؛ اور نوزائیدہ کائنات اپنا نظارہ کرانے کو بے پردہ ہوئی تھی۔


اس یادگار لمحے کو بہتر انداز سے سمجھنے کےلئے ناسا نے ‘‘کوبے’’ (COBE) یعنی Cosmic Background Explorer Satellite نامی مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا تھا۔ اس نے خلاء میں جا کر کائناتی پس منظر کے مختلف حصوں کا درجہ حرارت ناپنا شروع کیا۔ پھر اس کا تجزیہ کیا گیا، جس سے اوّلین کائنات کی نقشہ سازی ہوئی۔ اس نقشے کو ‘‘خدا کا چہر’’ (Face of God) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اُس نومولود کائنات کا نقشہ تھا جس کی عمر صرف تین لاکھ اسّی ہزار سال تھی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ نقشہ بہت دھندلا تھا۔ ہمیں اور زیادہ واضح، مفصل اور باریک بینی سے تیار کئے ہوئے نقشے کی ضرورت تھی۔ کوبے سے حاصل شدہ معلومات، بگ بینگ کی گتھی سلجھانے میں کافی نہیں تھیں۔ لہٰذا، ناسا نے ایک اور مصنوعی سیارہ خلاء میں چھوڑا جو کوبے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جدید اور حساس تھا۔ اسے Wilkinson Microwave Anisotropy Probe یعنی مختصراً ‘‘ڈبلیومیپ’’ (WMAP) کا نام دیا گیا۔

٢٠٠١ء میں ڈیوڈ اسپر جیل (David Spergel) اس ٹیم کا حصّہ تھے جس کا کام کائناتی پس منظر کی تفصیلی نقشہ کشی کرنا تھا۔ اس یادگار لمحے کے بارے میں بتاتے ہوئے، کہ جب وہ سیارہ (ڈبلیومیپ) خلاء میں چھوڑا گیا تھا، اسپرجل کہتے ہیں: ‘‘یہ بہت ہی پُرجوش موقعہ تھا جب میں کیپ کیناورل گیا تھا۔ وہاں میرے گھر والے بھی میرے ساتھ تھے۔ میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ٹیلی ویژن پر راکٹ کو خلاء میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہ لمحہ بہت ہی قیمتی تھا جب اس سیارے کے خلاء میں پہنچنے کے ایک دن سے بھی کم وقت کے دوران، ہمیں اس سے اوّلین سگنلز موصول ہوئے؛ اور تب ہمیں اطمینان ہوا کہ وہ مصنوعی سیارہ صحیح طرح سے کام کر رہا ہے۔’’


کائناتی پس منظر کی تصویر، جو ڈبلیومیپ سے حاصل ہوئی تھی، اب تک کی حاصل کردہ تصاویر میں سے سب سے بہتر اور واضح تھی۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٦۔) یہ آغازِ کائنات کے تین لاکھ اسّی ہزار سال بعد کی تصویر تھی۔ اس تصویر کے لال اور پیلے حصے گرم ہیں؛ جبکہ نیلے اور ہرے حصے، کائنات کے سرد علاقوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اور درجہ حرارت کے اسی فرق میں کائناتی مستقبل کی تمام تر جزئیات قید ہیں۔ کائناتی پس منظر کے مختلف حصوں میں درجہ حرارت کا فرق، یہ اتار چڑھاؤ صرف درجہ حرارت سے وابستہ نہیں، بلکہ یہ اُس نوزائیدہ کائنات میں (مادّے کی) کثافت کے فرق سے بھی تعلق رکھتا ہے جس نے آگے چل کر کائنات کو وہ شکل، وہ ساخت عطا کی کہ جس میں آج ہم اسے دیکھتے ہیں۔ کائناتی پس منظر کے اس نقشے میں گرمی کی نمائندگی کرنے والے حصے دراصل ان علاقوں کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں کثافت (مادّے کی مقدار) زیادہ تھی؛ جبکہ ٹھنڈک کے نمائندہ حصے، ایسے علاقوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں یا تو مادّے کی بہت کم مقدار اکٹھی تھی، یا پھر وہ بالکل خالی تھے۔ وہ حصّے جہاں مادّہ زیادہ نہیں تھا وہ خالی رہ گئے؛ اور جہاں زیادہ مادّہ تھا، وہ جگہیں کہکشاؤں ، ستاروں ، اور سیاروں کا گھر بنیں۔یعنی درجہ حرارت کے یہ فرق صرف کثافت کے فرق نہیں تھے، بلکہ یہ کائنات کی موجودہ ساخت کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتے ہیں۔


یاد رہے کہ تب ہماری کائنات کی عمر تین لاکھ اسّی ہزار سال ہوچکی تھی؛ اور تب تک وہ کھرب ہا کھرب میلوں پر محیط ہوچکی تھی۔ ہائیڈروجن اور ہیلیم کے گیسی بادل خلاء میں تیر رہے تھے۔ پہلا ستارہ بننے میں اب بھی ٢٠ کروڑ سال باقی تھے۔ ان ستاروں نے اس وقت کائنات میں آتش بازی کا وہ شاندار مظاہرہ کیا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہوگا۔کائنات ایک تاریک دور سے نکل کر ایک ایسے شاندار دور میں داخل ہورہی تھی جب اوّلین ستاروں نے گیسی بادلوں کو اپنی ضو سے منور کرنا شروع کیا اور اسی کے ساتھ کائنات ایک شاہانہ انداز میں روشن ہونا شروع ہوئی۔کاش کہ ہم اس نظارے کو دیکھنے کے لئے وہاں موجود ہوتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے کسی نےگھپ اندھیرے میں برقی قمقموں کو روشن کردیا ہو۔ کائنات ہر سمت سے روشن ہونا شروع ہوگئی تھی ۔ یکے بعد دیگر ستارے وجود میں آنا شروع ہوگئے تھے۔


بگ بینگ کے ایک ارب سال بعد پہلی کہکشاں نے جنم لیا۔ اگلے آٹھ ارب سال میں لاتعداد کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ تقریباً پانچ اَرب سال پہلے کسی کہکشاں کے ایک گوشے میں قوّت ثقل نے گرد اور گیس کے بادلوں کو ایک جگہ جمع کرنا شروع کیا۔ یہ ایک گرم گیسی گولا تھا جو گیس اور گرد کے مزید بادل ہڑپ کرتے ہوئے خود کو بڑا کررہا تھا۔ اور آخرکار وہ وقت بھی آگیا جب گیس کے اسی گولے سے ایک ستارے نے جنم لیا… جسے ہم اپنے سورج کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ بگ بینگ کے تقریباً ۹ اَرب سال بعد ہمارے اس ننھے سے نظامِ شمسی میں کچھ امن و امان ہوا؛ اور ہماری زمین پر زندگی نے اپنی پہلی پہلی جڑیں نکالنا شروع کیں۔


بگ بینگ ہی کی وجہ سے ہر چیز کا وجود ہے۔ ہر چیز تب سے مسلسل نشوونما پارہی ہے۔ ہر چیز جس کا آغاز ہے، اس کا انجام بھی ہوگا۔بگ بینگ سےلے کر اب تک، ان تقریباً ۱۴ اَرب سال میں کہکشائیں تخلیق ہوتی رہیں اور وہ ستاروں، سیاروں اور چاندوں سے بھرتی رہیں۔ اور اس پورے عرصے میں کائنات بھی مسلسل پھیلتی رہی۔ہم یہ جان گئے ہیں کہ کائنات بہت ہی بڑی جگہ ہے؛ لگ بھگ ١٥٠ اَرب نوری سال پر پھیلی ہوئی۔ لیکن یہ کائنات لامحدود بھی ہو سکتی ہے۔ (از مترجم: پال ہالپرن کی کتاب Edge of the Universe – A Voyage to the Cosmic Horizon کے پہلے باب How Far Out Can We See میں کائنات کا پھیلاؤ ٩٣ اَرب نوری سال بیان کیا گیا ہے۔) لیکن کیا یہ کائنات واقعی ہمیشہ ہمیشہ پھیلتی ہی رہے گی؟ ہوسکتا ہے کہ کائنات کے باہر کچھ بھی نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کائنات محدود ہو۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ کائنات ایک بند جیومیٹری کی حامل ہو؛ یعنی اگر ہم بہت دور تک خلاء میں دیکھیں تو اپنے آپ ہی کو دیکھیں۔ شاید ہم یہ کبھی نہ جان پائیں کہ بگ بینگ سے وجود پذیر ہونے والی یہ کائنات ہمیشہ جاری و ساری رہے گی۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ بگ بینگ رکا نہیں؛ وہ آج بھی کائناتی پھیلاؤ کی صورت میں جاری ہے۔


ایک اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ سست نہیں پڑرہا، بلکہ یہ تو تیز ہورہا ہے! یعنی کائنات صرف پھیل نہیں رہی، بلکہ اس کے پھیلنے کی رفتار بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اسراع پذیر کائناتی پھیلاؤ (یعنی کائناتی پھیلاؤ کی بڑھتی ہوئی رفتار) کے پس پشت ایک ‘‘تاریک توانائی’’ (Dark Energy) کارفرما ہے۔ یہ پراسرار اور غیرمرئی شئے، کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ لیکن ہم اس تباہ کن طاقت کو نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ آخر یہ پراسرار توانائی موجود ہی کیوں ہے۔ مگر کہیں تاریک توانائی کی موجودگی کا مطلب یہ تو نہیں کہ بگ بینگ سے جو کچھ بھی تخلیق ہوا، وہ سب کچھ ختم ہو جائے گا؟ اگر تاریک توانائی اسی طرح کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیلتی رہی تو ہماری ملکی وے کہکشاں اکیلی ہی رہ جائے گی۔ آج سے ایک کھرب سال بعد ہمارے کائناتی پڑوس میں موجود زیادہ تر اجرام فلکی ہم سے بہت دور ہوکر ہماری نظروں ہی سے اوجھل ہوچکے ہوں گے۔ تب تک ہماری کہکشاں میں موجود ستارے اپنا ایندھن پھونک چکے ہوں گے۔ کہکشائیں اندھیری ہونا شروع ہوجائیں گی۔ اور شاید ایٹموں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر رہ جائیں گے۔ کائنات کی ابتداء، بگ بینگ سے، چشمِ زدن میں ہوگئی تھی۔ لیکن شاید اس کے اختتام کو ایک اَبد کا زمانہ درکار ہے؛ اِک ہمیشگی کی ضرورت ہے۔ یہ بحث کہ کائنات کا اختتام کیسے ہوگا، بگ بینگ ہی کی مانند ایک پہیلی ہے۔


سوال یہ ہے کہ کیاکائنات اس غبارے کی طرح پھس ہوجائے گی جس کی ہوا نکال دی جائے؟ یا اس کا خاتمہ ایک عظیم چٹاخے، ایک ‘‘بگ کرنچ’’ کی صورت میں ہوگا، جو بگ بینگ کے بالکل الٹ ہے؟ یا پھر یہ پھیلتی چلی جائے گی اور آخرکار ایک سرد و تاریک اختتام پر منتج ہوگی؟ اگر کائنات واپس سکڑتی ہے اور اپنے آپ میں منہدم ہوجاتی ہے، تو شاید ایک اور بگ بینگ کی ابتداء ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہو؛ اور ہماری کائنات اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کوئی ایک کائنات ہی ہو۔ ممکن ہے یہ ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو جس میں کائناتیں آپس میں ٹکراتی ہوں، منہدم ہوتی ہوں، نئی کائناتوں کو جنم دیتی ہوں… شاید ایسی کائناتوں کو کہ جن میں ایک دوسرے سے مختلف قوانینِ طبیعیات کی حکمرانی ہو۔ شاید، اس سے ہٹ کر، یہ سب کچھ پہلی بار نہ ہوا ہو۔ بلکہ یہ ایک چکردار سلسلہ ہو: بگ بینگ سے کائنات پیدا ہوئی ہو اور بگ کرنچ پر ختم ہوگئی ہو؛ لیکن فوراً ہی ایک نئے بگ بینگ سے ایک نئی کائنات وجود میں آگئی۔ اس طرح زمان و مکان کی بار بار پیدائش اور اختتام کا سلسلہ جاری رہا ہو۔


خیر! کائنات ایک ہو یا لامحدود، ان سب کا نقطہ آغاز بہرحال بگ بینگ ہی ہے۔


ہر وہ چیز جو ہمارے انسان ہونے کا باعث ہے – ہمارے جسم میں موجود ایٹم، ہمارے زیورات، وہ تمام چیزیں جو ہمیں خوشی دیتی ہیں، غمگین کرتی ہیں، جن سے ہم میں جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے، محبت جاگری ہے – اس لئے وجود پذیر ہوئیں کیونکہ آج سے لگ بھگ چودہ ارب سال پہلے ‘‘بگ بینگ’’ وقوع پذیر ہوا تھا؛ جس نے یہ سب کچھ جنم دیا۔ اور اگر ہم واقعی میں خود کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں بگ بینگ کو صحیح طریقے سے سمجھنا ہوگا۔


١٤ اَرب سال پہلے بگ بینگ سے اس کائنات نے، اس تمام زمان و مکان نے جنم لیا۔ وقت کے بے انتہاء مختصر لمحے میں سارے کے سارے قوانینِ طبیعیات وجود میں آئے۔ بس! یہی وہ مختصر سا لمحہ ہے جس میں اس ساری کائنات کا، ہمارے اپنے وجود کا، عظیم ترین راز پوشیدہ ہے۔ اگر ہم ابتدائے وقت کے اس لمحے کی باریک ترین جزئیات کو کھنگال پائے، اور اس سربستہ راز سے پردہ اٹھاسکے، تو شاید یہ ہماری سائنس کی، ہمارے فہم و فکر کی، پوری انسانیت کی سب سے بڑی فتح ہوگی۔ غرض اسی لمحے میں ہمارا ماضی، حال اور مستقبل، سب کچھ پنہاں ہے۔


ختم شد

تلخیص و ترجمہ: زہیر عبّاس

ترمیم، ادارت و اضافہ جات: علیم احمد

ماخذ: How The Universe Works, Season 1, Episode 1: The Big Bang
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک ہولز یا روزن سیاہ - حصّہ اوّل
How The Universe Works - Season 1, Episode 2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سچ ہے کہ کائنات میں نادیدہ اور غیرمرئی، دیوہیکل عفریت پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہم ان کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے لیکن ان کی موجودگی محسوس ضرور کی جاسکتی ہے۔ کائنات میں کوئی بھی چیز ان بلیک ہولز (Black Holes) سے زیادہ طاقتور، ہیبت ناک اور خوفناک نہیں۔ بلیک ہولز بلاتفریق ہر وہ چیز ہضم کرلیتے ہیں جو ان کی دسترس میں ہو؛ اس میں وہ کوئی تخصیص نہیں کرتے چاہے وہ سیارے ہوں یا ستارے۔ کوئی بھی چیز ان سے بچ نہیں سکتی۔ بلیک ہولز نے شروع ہی سے ماہرین طبیعیات کو الجھا رکھا ہے۔ اس کی وجہ ان کے آس پاس اور ان کے اندر، قوانین طبیعیات کا بہت ہی عجیب طریقے سے برتاؤ ہے۔ بہرحال، ایک بات تو ثابت ہے کہ ہماری کائنات پر ان ہی کی حکمرانی ہے۔ بلیک ہولز عموماً کہکشاؤں کے مرکز یا قلب میں ہوتے ہیں۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ کائنات کے ارتقاء میں ان کا کردار بہت ہی کلیدی نوعیت کا رہا ہے۔ بلیک ہولز، کائنات کی سب سے زیادہ پراسرار چیزوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی ثقلی قوّت اس قدر شدید اور زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز ان سے فرار حاصل نہیں کرسکتی… چاہے وہ روشنی کی رفتار ہی سے سفر کرنے کے قابل کیوں نہ ہو۔ ان میں سے بعض بے رحم عفریت اتنے بھیانک ہوتے ہیں کہ پوری کی پوری کہکشاں تک نگل سکتے ہیں؛ وہ بھی ڈکار لئے بغیر۔


آج سے کچھ عرصہ پہلے تک بلیک ہولز صرف سائنس فکشن ہی میں نظر آتے تھے۔ مگر اب ہم جانتے ہیں کہ وہ واقعتاً، حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔ یہ کچھ زیادہ پہلےکی بات نہیں جب لوگ بلیک ہولز کے تصور کا مذاق اڑایا کرتے تھے؛ اور انہیں سائنسی خرافات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر اب لوگ انہیں سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک یہ تو ممکن نہیں ہوسکا کہ ہم خلاء میں کئی نوری سال کا سفر کرکے کسی ایک بلیک ہول تک جاپہنچیں، اور نہ ہم ان کا براہ راست مشاہدہ ہی کرسکتے ہیں؛ مگر پھر بھی ہمارے پاس ان کی موجودگی کے واضح ثبوت ہیں۔ سائنس دان ‘‘عقاب’’ (Aquila) نامی مجمع النجوم (ستاروں کے جھرمٹ) میں ایک نادیدہ بلیک ہول کو ایک ستارہ ہڑپ کرتے ہوئے مشاہدہ کرچکے ہیں۔ کچھ ہی لاکھ سال میں یہ پورے کا پورا ستارہ، اپنے قریبی بلیک ہول کا تر نوالہ بن جائے گا۔ بلیک ہولز لکڑ ہضم پتھر ہضم ہوتے ہیں۔ ان میں گرنے والی کسی بھی چیز کا وقت، اس کے خاتمے کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں گرنے والی چیز کےلئے – چاہے وہ ستارہ ہو، معمولی سا مادّہ ہو، توانائی ہو یا پھر کچھ اور – انجام صرف اور صرف موت ہے۔ اگرچہ یہ کائنات کی سب سے تباہ کن طاقتوں میں سے ہیں، لیکن پھر بھی یہ کہکشاؤں کے ارتقاء میں، ان کی تعمیر میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


کچھ ماہرین فلکیات کے نزدیک بلیک ہولز کسی دوسری متوازی کائنات کا دروازہ ہیں۔ ہم بلیک ہولز کی طبیعیات پر ہونے والی تحقیق کے سنہرے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کائنات کے آغاز، ارتقاء اور انجام کے بارے میں وہ ایسی اہم معلومات فراہم کرسکیں جو اس سے پہلے ہمارے علم میں نہیں تھیں۔ جدید فلکیات میں بلیک ہولز کا کردار صف اول کا ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہکشاؤں کے ارتقاء سے متعلق ہمارے خیالات بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ بلکہ اس بارے میں بھی ہماری سوچ اتھل پتھل کردی ہے کہ یہ کائنات، آفاق کی یہ کارگہِ شیشہ گری، کس طرح کام کرتی ہے۔ اور بلیک ہولز کو یہ صلاحیت ایک بنیادی کائناتی قوت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے: قوتِ ثقل کی وجہ سے۔


قوتِ ثقل ہمارے قدموں کو زمین پر جمائے رکھتی ہے۔ اسی کی بدولت زمین، سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ مگر یہی ثقلی قوّت جب بلیک ہولز میں ہوتی ہے تو اس قدر شدید ہوتی ہے کہ ہر چیز کو اپنے شکنجے میں اس مضبوطی سے جکڑ لیتی ہے کہ وہ اس کی گرفت سے فرار ہی نہیں ہوسکتی۔ یہاں تک کہ یہ دور ستاروں سے آنے والی روشنی کو بھی بہت خم دے دیتی ہے؛ اور اگر وہ روشنی ان سے کچھ زیادہ قریب آجائے تو یہ اسے بھی ہضم کرلیتے ہیں۔


بلیک ہول کی ہر چیز ہضم کرلینے کی یہ خاصیت سمجھنے کیلئے ہم ایک مثال سے مدد لیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک دریا بہتا آرہا ہے، جو آگے جاکر ایک آبشار کی صورت میں گر رہا ہے۔ آبشار والی جگہ سے بہت پیچھے، دریا کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔ لیکن جیسے جیسے آبشار قریب آرہا ہے، ویسے ویسے دریا کا بہاؤ بھی تیز ہوتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ عین آبشار کے دہانے پر پہنچ کر دریا کا بہاؤ انتہائی تیز ہوکر آبشار کی شکل اختیار کرلیتا ہو؛ اور تیزی سے گرنے لگتا ہے۔ اس دریا میں ایک ڈونگی (چپوؤں والی چھوٹی کشتی) بھی تیر رہی ہے۔


یہ مثال ذہن میں رکھتے ہوئے ہم قوتِ ثقل کو بہتا دریا تصور کرتے ہیں، جبکہ آبشار کے دہانے کو بلیک ہول کا کنارہ قرار دیتے ہیں۔ ڈونگی کو ہم ایک وجود سمجھے لیتے ہیں؛ جو روشنی بھی ہوسکتی ہے اور مادّہ بھی۔ آبشار سے بہت پیچھے، خاصی دوری پر دریا کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے؛ یعنی قوتِ ثقل بھی معمول پر ہے۔

ڈونگی اس بہاؤ میں خراماں خراماں آبشار کی سمت بہتی جارہی ہے۔ اس وقت ڈونگی پر سوار فرد کےلئے ممکن ہے کہ وہ رخ موڑ سکے اور چپوؤں کی مدد سے بہاؤ کے مخالف بھی حرکت کرسکے۔

لیکن جیسے جیسے آبشار (بلیک ہول کا کنارہ) قریب آرہا ہے، ویسے ویسے دریا کے بہاؤ (قوتِ ثقل کی شدت) میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ڈونگی میں بیٹھے شخص کےلئے بہاؤ کے خلاف جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ لیکن اب بھی وہ خاصی جدوجہد کے بعد ڈونگی کا رُخ موڑ سکتا ہے… مگر وہ ایسا نہیں کرپاتا۔

یہ ڈونگی آگے بڑھتے بڑھتے آبشار کے دہانے کے بالکل قریب پہنچ جاتی ہے۔ دریا کا بہاؤ اور بھی تیز ہوچکا ہے؛ یعنی قوتِ ثقل کی شدت میں اور زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔

اب یہ ڈونگی، بالکل آبشار کے دہانے پر، بلیک ہول کے کنارے پر جاپہنچی ہے… اگلے ہی لمحے دریا کا تیز بہاؤ اسے آبشار میں گرادے گا۔

بالکل اسی طرح جو چیز بھی بلیک ہول کے کنارے پر آتی ہے، بلیک ہول اپنی انتہائی شدید قوتِ ثقل استعمال کرتے ہوئے اسے اپنے اندر کھینچ لیتا ہے… فرار ہونے کا کوئی موقعہ نہیں دیتا۔

بہ الفاظِ دیگر، خلاء میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔ جیسے جیسے آپ بلیک ہول کے کنارے کے قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ثقلی طاقت میں اضافہ ہوتا جائے گا؛ اور وہ اس قدر طاقتور ہوجائے گی کہ روشنی کی کرن بھی اس سے فرار حاصل نہ کرپائے گی۔

روشنی ہضم کرنے کی اسی خاصیت کی بدولت انہیں ‘‘بلیک ہول’’ (سیاہ سوراخ) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بالکل یک طرفہ ٹکٹ کی طرح ہے جہاں آپ اندر داخل تو ہوسکتے ہیں مگر باہر نہیں نکل سکتے۔ جو چیز بھی ان کے قریب جائے گی اس کا خاتمہ لازم ہوگا۔ ستارے، سیارے، نظام ہا ئے شمسی، سب کچھ۔ اور ہاں! یہ نہ سمجھئے گا کہ یہ بلیک ہولز ہم سے یا ہماری کہکشاں سےکہیں بہت دور واقع ہیں۔ بلیک ہولز بالکل ہمارے پڑوس میں بھی موجود ہیں۔

اب ہم جان چکے ہیں کہ ہماری کہکشاں ملکی وے میں بھی بہت سارے بلیک ہولز مٹرگشت کررہے ہیں۔ اگر کبھی کوئی بھٹکتا ہوا بلیک ہول ہمارے نظام شمسی کے قریب نکل آیا تو وہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ کسی بھی قسم کا بلیک ہول، جو ہمارے قریب سے گزرسکتا ہو، وہ سارےنظام شمسی کے سیارے نگل لے گا۔ درحقیقت بلیک ہول سارے سیاروں کو ان کے مداروں سے کھینچ کر، ایک دوسرے سے ٹکرا کر، ریزہ ریزہ کردے گا۔ یہ بڑا ہولناک اور قیامت خیز منظر ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شیشے کے برتنوں کی دکان میں ایک بپھرا ہوا سانڈ چھوڑ دیا جائے۔ اگریہ بلیک ہول سیارہ مشتری کے قریب آئے گا تو مشتری کے تمام چاند اپنے مداروں سے ہٹ جائیں گے۔ نظام شمسی کے دوسرے سیارے ادھر ادھر بھٹکیں گے۔ قیامت کا سماں ہوگا۔

اگر بلیک ہول زمین کا رُخ کرے گا تو تمام شہابیئے اور سیارچے اپنے مداروں کو چھوڑ کر زمین کی طرف لپکیں گے۔ سطح زمین جہنم بن جائے گی۔ اور یہ تو بس خاتمے کی شروعات ہوگی۔ پہلے پہل تو وہ زمین کی فضا کو نگلے گا۔ پھر اس کے بعد زمین کی اپنی باری آئے گی۔ ایک مکمل نظام شمسی کو تباہ کرنا کسی بلیک ہول کیلئے کوئی بڑی بات نہیں۔

بلیک ہولز کی کثافت ناقابل یقین حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی کثافت کا اندازہ لگانے کےلئے ہم ایک اور مثال کا سہارا لیتے ہیں۔ ذرا ہمارے سیارہ زمین کو تصور میں لائیے۔ اب اسے دبانا شروع کیجئے؛ اور اتنا دبائیے کو وہ انتہائی کثیف ہوکر، اور سکڑ سمٹ کر صرف دو اِنچ قطر کی رہ جائے۔ بلیک ہول کی کثافت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی ہماری پوری زمین پر جتنا بھی مادّہ موجود ہے، وہ بلیک ہول میں صرف گولف کی ایک گیند جتنی جگہ میں سما جائے گا۔

مگر ذرا ٹھہریئے…اور بتائیے کہ آخر وہ کونسی قوّت ہے جو زمین کے جتنی کمیت کو اتنا دباکر چھوٹا اور اس قدر کثیف بناسکتی ہے۔ کوئی بیرونی قوّت تو بلیک ہول کو تخلیق نہیں کرتی۔ یہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب قوّت ثقل بذات خود ایسا کرے۔ یہ قوتِ ثقل کے سوا کسی اور قوت کے بس کا روگ نہیں۔

کائنات میں صرف ایک ہی ایسی جگہ موجود ہے جہاں قوّت ثقل یہ کام کرسکتی ہے؛ اور وہ ہے ستاروں کے قلب یا مرکز (Center)۔ جب کوئی ستارہ جو سورج سے کم از کم دس گنا زیادہ کمیت رکھنے والا ہو، اپنی زندگی مکمل کرلیتا ہے تو قوّت ثقل اسے اتنا بھینچ دیتی ہے کہ وہ ایک زبردست دھماکے سے پھٹ جاتا ہے جسے ہم سپرنووا (Supernova) کہتے ہیں۔ لیکن کچھ ستارے اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ وہ عظیم الجثہ ستارے ہمارے سورج سے بھی سو گنا زیادہ تک بڑے، سو گنا سے بھی زیادہ جسیم ہوسکتے ہیں۔ اور ان کی ثقلی قوّت بھی سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جب ایسا کوئی ستارہ اپنی زندگی پوری کرتا ہے تو وہ کائنات کے سب سے بڑے دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا ہے جسے ہم نے ‘‘ہائپرنووا’’ (Hypernova) کا نام دے رکھا ہے۔ اسی کے ساتھ ایک بلیک ہول جنم لیتا ہے۔

ہماری پوری کائنات ستاروں سے اٹی پڑی ہے۔ کچھ ستارے اپنی زندگی پوری کرکے خاموشی سے مرجاتے ہیں؛ اور کچھ انتہائی شدید دھماکے سے پھٹ پڑتے ہیں… اور ان ہی میں سے کچھ بلیک ہولز کو جنم دیتے ہیں۔ جب کوئی عظیم الجثہ ستارہ، جو سورج سے لگ بھگ سو گنا بڑا ہو اور اپنا تمام نیوکلیائی ایندھن پھونک چکا ہو، تواس وقت مادّے کی قوّت ثقل، ستارے کی کمزور پڑتی ہوئی نیوکلیائی طاقت پر غالب آجاتی ہے؛ اور پھروہ ستارہ اپنی شکل برقرارنہیں رکھ پاتا اور وہ اپنے آپ ہی پر منہدم ہونے لگتا ہے۔ اس کا مرکز بلیک ہول میں ڈھل جاتا ہے… اور جب ایسا ہوتا ہے تو ستارے کے مرکز سے پیدا ہونے والی زبردست ثقلی قوّت بے قابو ہوجاتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک ہولز یا روزن سیاہ - حصّہ دوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائنس دانوں نے ایک ایسا ہی مرتا ہوا ستارہ دیکھا ہے، جسے انہوں نے ‘‘وی وائی کینس میجورس’’ (VY-Canis Majoris) کا نام دیا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٢)۔ یہ ‘‘کلبِ اکبر’’ کہلانے والے، ستاروں کے مشہور جھرمٹ میں واقع ہے۔ اس جھرمٹ کو عام زبان میں ‘‘بڑا کُتّا’’ بھی کہا جاتا ہے۔ اس ستارے کا پھیلاؤ ایک ارب میل سے بھی زیادہ ہے۔ ہر ستارے کی طرح یہ بھی ایک عظیم و جسیم نیوکلیائی ری ایکٹر کی طرح کام کرتا ہے؛ جس کا کام توانائی پیدا کرنا ہے۔ لیکن اس میں نیوکلیائی عمل کے ساتھ ساتھ ستارے کی ثقلی قوّت اسے اندر کی طرف دبارہی ہے، بھینچ رہی ہے پچکا رہی ہے۔ نیوکلیائی عمل سے پیدا ہونے والی قوت، اس ستارے کو پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن اس کے برعکس، قوتِ ثقل اسے اندر کی طرف بھینچنے میں مصروف ہے۔



چند سال تک ثقلی قوّت اور نیوکلیائی قوّت میں رسہ کشی جاری رہے گی۔ مگر، آخرکار، جب ستارہ اپنا تمام ایندھن پھونک چکے گا تو نیوکلیائی عمل رک جائے گا؛ اور جیت ثقلی قوّت ہی کی ہوگی۔ ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصّے سے بھی کم وقت میں ستارے کا مرکز سکڑ کر بہت ہی چھوٹا سا رہ جائے گا اور ایک نئے بلیک ہول کا جنم ہوجائے گا۔ ستارے کے قبل میں یہ بلیک ہول جیسے ہی وجود میں آئے گا، وہ فوراً ہی ستارے کا بچا کچا حصّہ ہضم کرنا شروع کردے گا۔ جیسے جیسے مادّہ، بلیک ہول کے بھنور میں گم ہوگا، ویسے ویسے اس کا درجہ حرارت بھی بڑھنا شروع ہوجائے گا؛ اور دوسری قوّتوں (مثلاً مقناطیسی قوّت اور رگڑ کی قوّت) کی کارستانیاں بھی شروع ہوجائیں گی۔ یہ سب کچھ بہت ہی ہولناک طریقے سے ہوگا۔



سائنس دان یہ جاننے کےلئے نہایت بے چین ہیں کہ اس وقت بلیک ہول کی سطح سے بالکل اوپر کیا چل رہا ہوگا۔ نومولود بلیک ہول، ستارے کے بالکل مرکز میں پیدا ہوا ہوگا اور وہ مسلسل ستارے کے بچے کچھے مادّے کو ہضم کررہا ہوگا۔ ستارے کا باقی ماندہ مادّہ، بلیک ہول کی سطح یعنی ‘‘واقعاتی اُفق’’ (Event Horizon) کے بالکل قریب پاس ایک پرت دار ٹکیہ (Accretion Disk) بنادے گا۔ اب بلیک ہول اس پرت دار ٹکیہ میں موجود، ستارے کے بچے کچھے مادّے کو، ستارے کی بیرونی گیسوں کو، بہت تیزی سے ہضم کرنا شروع کردے گا۔



گیسیں ہڑپنے کا یہ عمل شدید سے شدید تر ہوتا جائے گا۔ لیکن ستارے کے اندر گرنے والی گیسیں، اپنی آخری نشانی کے طور پر زبردست توانائی بھی خارج کررہی ہوں گی۔ بلیک ہول کی کمیت بڑھتی جائے گی، وہ اور بھی زیادہ بے رحم ہوتا چلا جائے گا… وہ مزید تیزی سے، مزید شدت کے ساتھ، زیادہ مقدار میں گیسوں کو نگلنے لگے گا۔ اور جب یہ سلسلہ اپنی تمام حدیں پھلانگ جائے گا تو یک لخت بہت سارا مادّہ، بہت ساری گیسیں اس بلیک ہول میں گریں گی اور چشمِ زدن میں بہت زیادہ توانائی خارج ہوگی: ایک زبردست دھماکے سے توانائی کی لہروں کا اخراج، توانائی کے فواروں (Jets) کی صورت میں ہوگا جسے ہم ‘‘گیما شعاعوں کی بوچھاڑ’’ (Gamma Rays Burst) کہتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٣)۔ دراصل یہ سب اتنی تیزی سے ہوگا کے باقی ماندہ ستارے کو بھی یہ پتا نہیں چل سکے گا کہ اس کا مرکز غائب ہوچکا ہے۔ اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی چیز کے زمین پر گرنے سے پہلے ہی اس کی موت ہوجائے۔ آخرکار ستارہ پھٹ جائے گا۔



ستارے کے پھٹ پڑنے سے انتہائی شدید توانائی خارج ہوگی۔ یہ توانائی کتنی شدید ہوگی؟ اس کا اندازہ لگانے کےلئے صرف یوں سمجھ لیجئے کہ جتنی توانائی ہمارا سورج اپنی پوری زندگی (تقریباً دس ارب سال) میں مجموعی طور پر خارج کرے گا، ہائپرنووا اس سے ١٠٠ گنا زیادہ توانائی صرف ایک سیکنڈ میں خارج کردیتا ہے۔ دھماکے کے بعد صرف بلیک ہول اور توانائی کے دو فوارے ہی بچ پاتے ہیں۔ یہ فوارے کائنات میں روشنی کی رفتار سے دوڑتے ہیں۔ اس قیامت خیز منظر کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ بگ بینگ کی طاقت اور توانائی کے بعد اگر کسی اور چیز کا نمبر آتا ہے، تو وہ یہی گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں ہیں۔ اگرچہ گیما شعاعوں کی یہ بوچھاڑیں صرف چند سیکنڈ تک ہی جاری رہتی ہیں، لیکن اس قدر توانا ہوتی ہیں کہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بھون کر رکھ دیتی ہیں۔ ان کی طاقت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایسی کوئی ایک (گیما شعاعوں کی) بوچھاڑ بھی ہماری کہکشاں میں، نظام شمسی کے آس پاس واقع ہو یہ ہمارے پورے کے پورے سیارے کو بھاپ بناکر اُڑادینے کےلئے کافی ہوگی۔ لیکن خوش قسمتی سے زیادہ ترگیما شعاعوں کی بوچھاڑیں ہماری کہکشاں سے خاصی دور وقوع پذیر ہوتی ہیں۔



بلیک ہولز کے بارے میں گیما شعاعوں کی یہی بوچھاڑیں ہمیں بہت ہی اہم معلومات فراہم کرتی ہیں؛ اور ہمیں کائنات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ہم جب بھی آسمان میں ان گیما شعاعوں کی بوچھاڑوں کو دیکھتے ہیں تو درحقیقت یہ کسی نئے نئے پیدا ہونے والے بلیک ہول کی نشانی ہوتی ہیں۔ ان شدید و توانا بوچھاڑوں کو ریکارڈ کرکے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اب تک کتنے بلیک ہولز بن چکے ہوں گے۔



2004ء میں ناسا نے ‘‘سوئفٹ’’ (Swift) کے نام سے ایک خلائی کھوجی روانہ کیا تھا (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر۴)؛ جس کا مقصد کائنات میں گیما شعاعوں کے ان ہی دھماکوں کی کھوج کرنا تھا۔ سوئفٹ نے اب تک کے سب سے طاقتور اور شدید گیما دھماکے دریافت کئے ہیں جو ہم سے بہت ہی فاصلے پر، کائنات کے دور افتادہ علاقوں میں واقع ہورہے ہیں۔ اگرچہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود، اب تک سوئفٹ نے سمندر میں سے صرف چند قطروں جتنی دریافتیں ہی کی ہیں، لیکن پھر بھی وہ اوسطاً ہر روز کم از کم ایک نیا گیما دھماکہ ریکارڈ کر ہی لیتا ہے۔ بلیک ہول کی ان دریافتوں نے جدید فلکیات کو آگے بڑھنے کےلئے نہایت ہی ٹھوس بنیاد فراہم کردی ہے۔



ہم سمجھتے تھے کہ جس طرح جل پریوں کو ہم آج تک نہیں دیکھ سکے، بالکل اسی طرح بلیک ہولز بھی ایک افسانوی قصّہ ہی ہوں گے؛ اور ہم کبھی ان کا سراغ نہیں لگا پائیں گے۔ مگر اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کائنات میں ارب ہا ارب بلیک ہولز پائے جاتے ہیں۔ جب ہم اپنی اور دوسری کہکشاؤں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجا تی ہے کہ ہماری کائنات، بلیک ہولز سے بھری ہوئی ہے۔ بلیک ہولز کو تلاش کرنا ایک بات ہے اور ان کے کام کرنے کا طریقہ سمجھنا دوسری بات۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تصویر کا دوسرا رخ۔ ان کے کام کرنے کا انداز سمجھنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ بلیک ہول تک کا سفر کریں۔ اس کےلئے آپ کو ایک بہت ہی بڑے خلائی جہاز کی ضرورت ہوگی۔ جب آپ بلیک ہول کے قریب پہنچیں گے، تب آپ پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ وہاں تو وقت بالکل ہی ساکن ہے۔



کائنات میں ارب ہا ارب بلیک ہولز موجود ہیں۔ مگر فی الحال ہم ان کی کھوج دوربینوں اور مصنوعی سیاروں کے ذریعے ہی لگاسکتے ہیں۔ ہم انہیں قریب سے نہیں دیکھ سکتے کہ اصل میں وہ کیسے نظر آتے ہیں۔ اس کےلئے ہمیں ابھی بہت انتظار کرنا ہوگا۔ سائنس دانوں نے بلیک ہول تک خلائی سفر کے مشن کےلئے ابھی سے خیالی گھوڑے دوڑانا شروع کردیئے ہیں۔ یہ سفر، کائنات کی سب سےخطرناک جگہ کا ایک طرح سے یک طرفہ ٹکٹ ہی ہوگا۔



شروع میں ماہرینِ طبیعیات، بلیک ہولز کے نظریئے سے بہت زیادہ خائف تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح بلیک ہولز کا نظریہ ناممکن اور ناقابلِ قبول ثابت ہوجائے؛ کیونکہ وہ قوانین طبیعیات جن سے ہمارا روزمرّہ میں واسطہ پڑتا ہے، ان کا اطلاق بلیک ہولز پر بالکل نہیں ہوتا۔ وقت وہاں ساکن ہوجاتا ہے۔ قوّت ثقل لامحدود و لامتناہی ہوجاتی ہے۔ یہ واقعی ایک بھیانک خواب کی مانند ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک ہولز یا روزن سیاہ - حصّہ سوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال! یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ انسان، بلیک ہولز کے قریب بالکل نہیں جاسکتے۔ مگر شایدانسان مستقبل میں وہاں روبوٹ کھوجی ضرور بھیج سکیں۔ یہ روبوٹ کھوجی صرف اس مقام تک جاکر ہمیں اطلاعات بھیج سکتا ہے جس کا نام واقعاتی افق (Event Horizon) ہے۔ یہ دراصل کسی بلیک ہول کے گرد، زمان و مکان کا وہ آخری کنارہ ہے جسے ہم اب تک جانتے ہیں۔ یہ خلاء (مکان) کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ کوئی جسمانی وجود رکھنے والی سطح نہیں کہ جسے دیکھا جاسکے۔ اس کنارے کو پار کرتے ہوئے شاید ہمیں یہ بھی پتا نہ چلے مگر درحقیقت اگر ایک مرتبہ آپ نے اس مقام کو، اس واقعاتی افق کو پار کرلیا تو سمجھ لیجئے کہ اب آپ گئے! آپ جیسے ہی اس کنارے کے پاس پہنچتے ہیں، ویسے ہی ثقلی قوّت انتہائی طاقتور ہوجاتی ہے؛ اور بہت ہی عجیب و غریب قسم کی صورتحال سے آپ کا سامنا ہوتا ہے۔ جسم کا جو حصّہ بلیک ہول کے قریب ہوگا، وہ ثقلی قوت کو اتنا ہی زیادہ محسوس کرے گا۔ اصل میں آپ کا جسم سویّوں کی طرح لمبا ہوکر کھنچ رہا ہوگا اور آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ کے جسم کو دو مختلف و مخالف سمتوں میں کھینچا جارہا ہو۔ آپ کا جسم باریک سے باریک تر ہوتا چلا جائے گا۔ قوّت ثقل ہمارے اس کھوجی روبوٹ کو اس کنارے سے آگے بڑھنے پر ریزہ ریزہ کردے گی۔


فرض کیجئے کہ وہ روبوٹ اس قدر طاقتور ہے کہ واقعاتی افق کو پار کرنے کہ بعد بھی سالم بچ جائے، تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ جیسے ہی روبوٹ کھوجی، واقعاتی افق کے پاس پہنچے گا، ویسے ہی ہر چیز عجیب و غریب برتاؤ کرنے لگے گی۔ وہاں ثقلی قوّت اس قدر طاقتور ہوگی کہ اس نے وقت کو ساکن کردیا ہوگا۔ وقت ایک نہ ختم ہونے والی چیز بن گیا ہوگا۔ بہرحال، یوں سمجھ لیجئے کہ بلیک ہول میں وقت بالکل ساکن ہوگیا ہوگا۔ یہ سننے میں بالکل پاگل پن محسوس ہورہا ہے، مگر بلیک ہول میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ریاضی کی مساواتیں اور ان سے حاصل ہونے والے نتیجے تو ہمیں ابھی تک یہی بتاتے ہیں۔ اگر آپ اس روبوٹ کو دور سے دیکھ سکتے ہوں گے، تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے روبوٹ کی رفتار دھیمی ہوگئی ہے؛ اور اس کے بعد وہ ایک جگہ آکر رک سا گیا ہے۔ اگرچہ یہ سارا عمل بہت ہی تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہوگا لیکن باہر سے بالکل ایسا لگ رہا ہوگا جیسے ہر چیز دھیمی پڑگئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک جگہ پر منجمد ہوگئی ہے۔


دراصل ہم کسی بھی جسم کو واقعاتی افق پار کرکے، بلیک ہول میں گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ ہمیں ایسا نظر آئے گا جیسے وہ واقعاتی افق کے پاس جاکر رک گیا ہو کیونکہ اس جگہ وقت کے بہنے کی رفتار لامحدود طور پر سست ہوجائے گی۔ لیکن درحقیقت وہ روبوٹ کھوجی رکا ہوا نہیں ہوگا۔ اگر کسی طرح اس روبوٹ کھوجی کا کیمرا، واقعاتی افق میں داخلے کی جگہ کی طرف دیکھنے کے قابل ہوگا تو وہ روشنی کو بلیک ہول میں قید ہوتا دیکھ سکے گا۔ اگر وہ کیمرے کا رخ بلیک ہول کی طرف کرے گا تو وہ ایک انوکھی دنیا سے روشناس ہوگا۔ بلیک ہول کا مرکز ہر چیز کو اپنی جانب کھینچ رہا ہوگا… ایک ایسے نقطے کی طرف، جو ناقابل بیان حد تک چھوٹا ہوگا۔ سائنس دانوں نے اس جگہ کا نام ‘‘وحدانیت’’ (Singularity) رکھا ہے۔

وحدانیت وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمارے مروجہ قوانینِ طبیعیات کے پر جلنے لگتے ہیں۔ وہ قوانین اور ان سے متعلق ریاضیاتی مساواتیں کوئی قابلِ بھروسہ جواب دینے سے معذرور ہوکر رہ جاتی ہیں۔ جب ایسی کوئی وحدانیت، بلیک ہول کا حصہ ہو، تو ہم اسے ‘‘بلیک ہول وحدانیت’’ (بلیک ہول سنگولیریٹی) کہتے ہیں۔

اب تک ہم یہ معلوم نہیں کرسکے کہ وہاں، بلیک ہول کے اندر، کیا چل رہا ہوگا۔ کثافت اتنی زیادہ ہوگی کہ ہمارے جانے پہچانے طبیعیاتی قوانین کا وہاں اطلاق نہیں ہوسکے گا۔ وحدانیت ایک ایسی جگہ ہے جہاں زمان و مکان کا تصور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ آپ کو یہ بہت ہی عجیب لگے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ وحدانیت کا سیدھا سادہ مطلب ہے ‘‘ہم کچھ نہیں جانتے۔’’ ہمارے پاس اس گتھی کو سلجھانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ اب تک سائنس دان اس سوال کا جواب صحیح طور سے دینے سے معذور ہیں کہ بلیک ہول میں کیا چل رہا ہوگا۔ یہ بہت زیادہ حوصلہ افزاء صورت حال نہیں کہ ہمیں یہ تو معلوم ہو کہ خلائے بسیط میں کچھ اجسام ایسے ہیں جن پر موجودہ قوانین طبیعیا ت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں کچھ اور، کچھ دوسرے ہی طبیعیاتی قوانین لاگو ہوں جن سے ہم اب تک لاعلم ہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ مرتے ہوئے ستاروں سے بلیک ہول وجود میں آتے ہیں؛ اور یہ کہ ان میں سے زیادہ تر کا قطر صرف بیس میل کے لگ بھگ ہوتا ہے۔

البتہ، کچھ بلیک ہول بہت زیادہ بڑے ہوتے ہیں جنہیں ہم ‘‘فوق ضخیم بلیک ہول’’ (Super-massive Black Hole) کہتے ہیں۔ وہ ہمارے نظام شمسی جتنے بڑے بھی ہوسکتے ہیں۔ان میں سے ایک فوق ضخیم بلیک ہول تو ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے ہی میں واقع ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ۵ اور ۶)۔ ارب ہا ارب ستارے اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں جن میں ہمارا اپنا سورج بھی شامل ہے۔

اکثریہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر چاند، زمین کے گرد اور زمین، سورج کے گرد چکر لگارہی ہے تو سورج کس کے گرد چکر لگا رہا ہے؟ واقعی یہ بہت ہی عمدہ سوال ہے۔ ماہرینِ فلکیات خود یہی معلوم کرنا چاہتے تھے۔ سائنس دانوں کو شک تھا کہ شاید ملکی وے کے مرکز میں کچھ ایسا چل رہا ہے جو وہاں بلیک ہول کے موجود ہونے کی نشاندہی کررہا ہے۔ چونکہ ہم بلیک ہول کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے، اس لئے ہم اس کے ثقلی اثرات کا صرف جائزہ ہی لے سکتے ہیں۔ انفراریڈ دوربینوں کے ذریعے سائنس دانوں نے ملکی وے کے مرکز میں لاکھوں ستاروں کو ایک دوسرے کے انتہائی قریب تو دیکھ لیا ہے، مگر مرکز میں موجود گرد و غبار کے بادلوں کی وجہ سے وہ یہ نہیں دیکھ سکے کہ مرکز (کہکشانی مرکز) میں دراصل کیا ہے۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے پندرہ سال اس تحقیق پر صرف کئے ہیں کہ کیا واقعی ملکی وے کے مرکز میں کوئی فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہے یا نہیں۔ امریکی ریاست ہوائی کے علاقے موانا کی (Mauna Kea) میں بادلوں سے خاصے اوپرنصب دیوہیکل دوربین ‘‘کیک’’ (Keck) اس قابل ہے کہ وہ ہماری کہکشاں کے عین مرکز کا جائزہ لےسکے۔ اپنی کہکشاں کے اسی حصے کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کرکے ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہاں موجود بلیک ہول انتہائی مختصر ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھوسے کے ڈھیر سے سوئی کی تلاش کرنا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ہمیں معلوم ہے کہ بلیک ہول کا محل وقوع کیا ہے۔ یہ تجربہ کرنے کےلئے آپ کو ان تمام ستاروں کا محل وقوع نہایت درستگی سے معلوم ہونا چاہئے کہ جو کہکشاں کے مرکز میں ایک دوسرے سے نہایت ہی قریب ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی لاہور میں بیٹھ کر، دوربین سے کسی کو کراچی میں تلاش کرے؛ اور اس کی حرکات و سکنات کو بالتفصیل دیکھ بھی سکے۔

کیک دوربین کی لیزر شعاعیں کرہ ہوائی میں ایسی معمولی ہلچل کا سراغ لگاتی ہیں جو حاصل ہونے والے عکس میں دھندلا پن پیدا کرسکتی ہیں۔ اور یہ دھندلا پن ختم کرنے کےلئے موٹروں کی مدد سے اس کا دیوقامت، تیس فٹ قطر والا آئینہ درست کیا جاتا ہے تاکہ عکس میں دھندلاہٹ ختم کرکے اسے بالکل صاف ستھرا حاصل کیا جاسکے؛ اور کہکشانی مرکز میں ستاروں تعاقب، پوری درستگی سے کیا جاسکے۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران سائنس دانوں نے ہزاروں تصاویر حاصل کی ہیں۔ اور جب انہوں نے ان تصاویر کا باریک بینی سے تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ ستارے، کہکشاں کے مرکز میں کئی لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کررہے ہیں۔ کہکشانی مرکز کا ماحول بہت ہی قیامت خیز ہوتا ہے۔ جس رفتار سے وہ ستارے حرکت میں ہیں، اتنی رفتار سے کوئی بھی ستارہ ہماری کہکشاں کے کسی بھی دوسرے حصے میں حرکت نہیں کررہا ہے۔ یہی چیز اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ یہاں بلیک ہول وجود رکھتا ہے۔

کہکشانی مرکز میں یہ ستارے ایسے لگتے ہیں جیسے چھوٹے چھوٹے سیارے، کسی نادیدہ سورج کے گرد بڑی تیزی سے چکر کاٹ رہے ہوں۔ اتنے جسیم ستاروں کو اس قدر تیز اور اتنے چھوٹے سے مدار میں چکر کاٹنے کیلئے بہت ہی زیادہ ثقلی قوّت درکارہوتی ہے…اور کائنات میں صرف ایک چیز ہی ایسی ہے جس کے پاس اس قدر ثقلی قوّت ہے۔ اور وہ ہے فوق ضخیم بلیک ہول!

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک ہولز یا روزن سیاہ - آخری حصّہ (حصّہ چہارم)
How The Universe Works - Season 1, Episode 2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بلیک ہول کا جائزہ لینے کے بعد سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی کمیت (مادّے کی مقدار) ہمارے سورج کے مقابلے میں تیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اور یہ ہماری کہکشاں کے عین مرکز میں موجود ہے۔ یہ ایک بہت ہی بڑی دریافت تھی۔ ہماری کہکشاں کی ہر چیز، جس میں ہمارا مکمل نظام شمسی بھی شامل ہے، سب اس کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ مگر دھیان رہے کہ صرف ملکی وے کہکشاں ہی وہ واحد کہکشاں نہیں جس میں فوق ضخیم بلیک ہول ہے۔ اس طرح کے فوق ضخیم بلیک ہول اکثر کہکشاؤں کے مرکزوں میں پائے جاتے ہیں۔ اینڈرومیڈا (Andromeda) یعنی ‘‘مراۃ المسلسلہ’’ ہمارے پڑوس میں سب سے قریبی کہکشاں ہے۔ اس کے مرکز میں بھی ایک بہت بڑا، فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہے، جس کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں 3 کروڑ گنا زیادہ ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں کے تمام ستارے، اسی بلیک ہول کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں، جیسے کہ M-87 اور اس قبیل کی بڑی کہکشائیں ہیں، بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج سے 20 اَرب سورجوں جتنی ہے۔

بلیک ہول اس قدر بڑے کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور وہ کہکشاؤں کے مرکز میں کیا کررہے ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمیں واپس تقریباً 14 اَرب سال پہلے کی کائنات میں جانا ہوگا؛ اس موقعے پر کہ جب کائنات بالکل نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ تب کائنات گیس کے بادلوں سے اٹی پڑی تھی۔ کچھ جگہوں پر گیس کے بادل اتنے کثیف تھے کہ وہاں لاکھوں ستارے بیک وقت جنم لے سکتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ستارے فوق ضخیم تھے… یعنی ان کی کمیت، بہت ہی زیادہ تھی۔ انہوں نے اپنا نیوکلیائی ایندھن بہت ہی تیزی سے جلایا اور اس کے بعد پھٹ کر بلیک ہولز میں تبدیل ہوگئے۔ ابتدائی کائنات ایک ایسی منہ زور اور تباہ کن جگہ تھی جہاں کمیت کے عظیم حصے اپنی کشش ثقل کے باعث، اپنے آپ ہی میں منہدم ہوکر بلیک ہولز تشکیل دے رہے تھے۔ درحقیقت ابتدائی کائنات میں جگہ جگہ بلیک ہولز بن رہے تھے۔ قوّت ثقل انہیں ایک دوسرے کے قریب کھینچ رہی تھی، اور وہ ایک دوسرے میں ضم ہوکر اور بھی بڑے فوق ضخیم بلیک بناتے جارہے تھے۔

آئندہ کروڑوں سال کے دوران ہر بلیک ہول اور بھی بڑا ہوتا چلا گیا۔ اس کی ثقلی قوّت بڑھتی گئی؛ اور نتیجتاً اس نے اور زیادہ گیس کو کھینچنا شروع کردیا۔ دوسری جانب معمول کی کمیت اور جسامت والے ستارے بننے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہ مرحلہ، کہکشاں کے وجود میں آنے کا مرحلہ تھا۔ بلیک ہول نے گیس کے بادلوں کو ہضم کرنا جاری رکھا، یہاں تک کہ وہ شکم سیر ہوگیا۔ اس میں مزید گیسیں ہڑپنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اور یہی وہ موقعہ تھا جب کائنات کی عظیم الشان آتش باری وجود میں آئی۔ اس آتش باری کو آج ہم ‘‘کوزار’’ (Quasar) کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن کسی نوزائیدہ کہکشاں میں کوزار کے وجود میں آنے کا قصہ بھی اپنے آپ میں ایک الگ داستان ہے۔ تو آئیے! اس داستان سے بھی لطف اندوز ہوتے چلئے۔

ذرا تصور کیجئے کہ ایک کہکشاں نئی نئی بنی ہے۔ اس نوزائیدہ کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں جو اپنی تشکیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں؛ اور اس کے مرکز میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول بن رہا ہے۔ گرد و غبار اور گیس کے بادلوں کی وافر مقدار ستاروں اور بلیک ہول، دونوں کی ضروریات بخوبی پوری کررہی ہے۔ بلیک ہول کے قرب و جوار میں ماحول انتہائی گرم ہے۔ گیس کے بادل نہایت تیزی سے بلیک ہول میں داخل ہورہے ہیں۔ بلیک ہول میں گرتے وقت ان کی رفتار اور بھی بڑھ رہی ہے؛ جبکہ یہ اور بھی زیادہ گرم ہوتے جارہے ہیں۔ پھر ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب بلیک ہول کی واقعاتی افق کے بالکل قریب موجود پرت دار ٹکیہ (Accretion Disk) میں جگہ اس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ حرارت اور رگڑ کی قوتوں کی وجہ سے گیس کے بادل، عظیم الشان اور انتہائی روشن فواروں کی شکل میں باہر کی طرف پھوٹ پڑتے ہیں۔ یہ فوارے، انتہائی زبردست توانائی سے لبریز ہیں۔ ایسا ہر فوارہ ہمارے نظامِ شمسی کے مقابلے میں بھی بیس گنا زیادہ چوڑا ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب فوق ضخیم بلیک ہول، کوزار کو جنم دیتا ہے۔ کوزار درحقیقت کائنات میں سب سے زیادہ منور چیزیں ہیں۔ ان کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پوری کہکشاں میں موجود، تمام کے تمام ستاروں کی مجموعی روشنی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ صحیح معنوں میں باقی تمام کہکشاں کو گہنا دیتے ہیں۔

سائنس دانوں نے M-87 کہکشاں میں ایک کوزار کی تصویر کشی کی ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧)۔ یہ ہم سے پانچ کروڑ نوری سال دور ہے۔ کوزار اپنے ارد گرد موجود کہکشاں کی گیس کو بڑی تیزی اور نہایت بے رحمی سے بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ وہ ہر ایک منٹ میں سیارہ زمین جیسے دس سیاروں جتنی کمیت، خلاء میں اُچھال رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ گیس کو گرم کرتے ہیں تو یہ پھیلتی ہے اور باہر کی جانب حرکت کرتی ہے۔ کوزار سے خلاء میں اچھالی جانے والی گیسوں کو بھی آپ ایک طرح کے جھکڑ سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ جھکڑ بہت ہی بڑے پیمانے پر چل رہے ہوتے ہیں۔ آخر کو یہ فوق ضخیم بلیک ہولز کے چلائے ہوئے جھکڑ ہیں؛ انتہائی تیزی سے، بے دردی سے، اور بہت بڑی مقدار میں خلاء بُرد کی جانے والی توانا اور روشن گیسوں کے جھکڑ! آپ کوزار اور بلیک ہولز کو ایک دوسرے کا اُلٹ بھی سمجھ سکتے ہیں: بلیک ہولز گیس کو ہضم کرتے ہیں؛ اور کوزار اسے دور دھکیلتے ہیں۔ یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ جب کسی فوق ضخیم بلیک ہول کو بد ہضمی ہوجاتی ہے، اور وہ ‘‘کائناتی الٹیاں’’ کرنے لگتا ہے، تو پھر ایک کوزار وجود میں آتا ہے۔

لیکن کب تک؟ آخرکار کہکشاں میں ستارے بنانے کےلئے گیس نہیں بچے گی؛ یعنی تب کہکشاں کی مزید نشوونما بھی رک جائے گی۔ اسی بناء پر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کسی بھی کہکشاں کی حتمی جسامت کا انحصار، اس کے مرکز میں موجود (فوق ضخیم) بلیک ہول پر ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کےلئے لازم و ملزوم ہیں۔ گیسی بادلوں کے ختم ہوجانے کے بعد کوزار کے فوارے بھی سکڑتے سکڑتے بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ کہکشاں کے مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول اور اس کے ارد گرد ڈھیر سارے نوزائیدہ ستارے ہی بچ رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ماضی میں ہماری ملکی وے کہکشاں میں بھی ہوا تھا، جب یہ نوجوان تھی۔ جب ہماری کہکشاں نئی نئی وجود پذیر ہوئی، تو شاید اس کے مرکز میں بھی ایک کوزار تھا۔ مگر اب چونکہ ہماری کہکشاں کی عمر اچھی خاصی ہوگئی ہے، اس لئے یہ بہت پرسکون ہے۔ اب ماہرینِ فلکیات جان چکے ہیں کہ بلیک ہولز کا راز پانے کےلئے کوزاروں کا مطالعہ ضروری ہے؛ اور اسی لئے وہ زیادہ سے زیادہ کوزار تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

چندرا ایکسرے رصدگاہ (Chandra X-Ray Observatory) ایک خلائی دوربین ہے جو طاقتور ایکس ریز شعاعوں کا کھوج لگاتی ہے۔ یہ اب تک ہزاروں کوزار دریافت کرچکی ہے…ہر قسم اور ہر شکل کے کوزار، جو خلاء میں گیس اور روشنی کے فوارے چھوڑ رہے ہیں۔ ان میں سے ہر کوزار ایک نئی کہکشاں کی نشاندہی کررہا ہے؛ جو اپنی تخلیق و تشکیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے، اور جس کے مرکز میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہے۔ کہکشاؤں کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ کوزار بھی آخرکار پُرسکون ہوجاتے ہیں۔ کہکشائیں بھی شاید انسانوں کی طرح ہوتی ہیں: نوجوانی میں جوش سے بھرپور اور جیسے جیسے ادھیڑ عمری کی طرف بڑھتی جائیں، ویسے ویسے ان کے مزاج میں ایک ٹھہراؤ آتا چلا جاتا ہے۔

اب ہم یہ جان چکے ہیں کہ فوق ضخیم بلیک ہول ہی کوزار کو جنم دیتے ہیں اور یہی اصل میں کہکشاؤں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کہکشاؤں کا ارتقاء سمجھنے میں سب سے زیادہ ضروری ان کا سمجھنا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کہکشاؤں کو سمجھنے کی کنجی ان ہی کو سمجھنے میں ہے۔ یہ ہماری کائنات اور کہکشاؤں کو سمجھنے کےلئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بغیر ہم کائنات اور کہکشاؤں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ انہیں سمجھنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ان کا براہ راست، قریب جاکر مطالعہ کیاجائے۔ کوئی بھی ایسا سفر جو ان کا قریبی جائزہ لے سکے، ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا سائنس دان کھوج میں لگے ہوئے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈھ نکالا جائے کہ کسی طرح ان کی تصویر حاصل کی جاسکے۔ لیکن اس کام کےلئے جتنی بڑی دوربین کی ضرورت ہے، اسے زمین جتنا بڑا ہونا چاہئے… ایک اور ناممکن ہمارے مدمقابل ہے۔ ایک فوق ضخیم بلیک ہول تو ہماری کہکشاں کے بالکل بیچوں بیچ موجود ہے۔ لیکن اسے اربوں ستاروں کے ایک دبیز جھنڈ نے گھیر رکھا ہے۔ لیکن سائنس دان پر امید ہیں کہ وہ جلد ہی اسے دیکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔ یہ یقیناً شاندار نظارہ ہوتا اگر ہم واقعاتی افق کے بالکل قریب جاسکتے۔ ہر کہکشاں کے بیچ میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہوتا ہے۔ بلیک ہول کے آس پاس ستارے، اس کے گرد لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ان کی موجودگی کا علم ہے۔ شاید کوئی ایسا طریقہ ہو جس سے ہم واقعاتی افق کے بالکل قریب سے (اپنی کہکشاں کے مرکز میں موجود) فوق ضخیم بلیک ہول کی تصویر لے سکیں۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم شیپ ڈوئلمین (Shep Doeleman) کی قیادت میں کوشش کررہی ہے کہ کسی طرح بلیک ہول کی کوئی تصویر لے سکے۔ آخرکار انہوں نے ایک جگہ ڈھونڈھ ہی نکالی جہاں گیسی بادلوں کا بھنور، کسی نادیدہ چیز کے گرد چکر کاٹتا ہوا اس میں غائب ہورہا تھا۔ یہ کسی بلیک ہول کا سایہ دیکھنے جیسا ہی تھا۔ جس تکنیک کے ذریعے سائنس دانوں نے اسے دیکھا ہے، وہ اب تک کی سب سے جدید تکنیک ہے۔ انہیں امید ہے کہ اس تکنیک سے استفادہ کرتے ہوئے ہم اپنی کائنات کے وہ گوشے بھی مشاہدے میں لاسکیں گے جو بصورتِ دیگر ہماری نظروں سے بالکل پوشیدہ ہیں۔ بصری دوربینیں (Optical Telescopes) بلیک ہولز کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتیں۔ لیکن چمکتے ہوئے گرم گیسی بادل جو ریڈیائی لہریں (Radio Waves) خارج کررہے ہیں، ان کی مدد سے بلیک ہول کا ایک خاکہ ضرور تیار کیا جاسکتا ہے۔ جناتی جسامت کی ریڈیو دوربینیں، خلاء سے آنے والی ان ہی ریڈیائی لہروں کو جمع کرتی ہیں اور پھر ان لہروں میں پوشیدہ ترتیب استعمال کرتے ہوئے، نادیدہ بلیک ہول کی نقشہ کشی کی جاتی ہے۔

بوسٹن میں واقع ایم آئی ٹی (میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کی رصدگاہ میں انٹینا تقریباً 100 فٹ چوڑا ہے۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ دور سےآتی ہوئی کمزور سے کمزور لہروں کو بھی پکڑسکے۔ یہ لہریں ہماری کہکشاں کے مرکز میں واقع بلیک ہول سے آرہی ہیں جو ہم سے لگ بھگ پچیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ مگر اس ریڈیو دوربین سے حاصل کردہ مواد بھی اتنا کافی نہیں کہ اس سے ایک واضح قسم کا خاکہ تیار کیا جاسکے۔ ایک واضح خاکہ حاصل کرنے کیلئے ہمیں ایسی کئی دوربینوں کی ضرورت ہوگی؛ اور انہیں پوری دنیا میں اس طرح لگانا ہوگا کہ وہ ایک زمین جتنی بڑی دوربین کی طرح کام کرسکیں۔ ڈوئلمین کی ٹیم ان ریڈیو دوربینوں کو جو ہوائی سے چلی تک، اور چلی سے افریقہ تک پھیلی ہوں گی، آپس میں مربوط کرے گی۔ جب دوربینوں کا یہ جال مکمل ہوجائے گا تو ایک ایسی دوربین کے طور پر کام کرے گا جس کی طشتری تقریباً دس ہزار میل قطر پر محیط ہوگی۔ اس کی طاقت ایک دوربین کے مقابلے میں پانچ سو گنا زیادہ ہوگی۔ یہ عالمگیر ‘‘مربوط دوربین’’ اس قدر طاقتور ہوگی کہ ہماری کہکشاں میں موجود فوق ضخیم بلیک ہول کے واقعاتی افق کی تصویر لے سکے۔ یہ دوربین ہماری کہکشاں کے تاریک حصے سے سگنل وصول کرنا شروع کرچکی ہے۔ اس کے وصول کردہ اوّلین سگنل، کمپیوٹر اسکرین پر دیکھ کر سائنس دان بہت ہی زیادہ خوش ہیں۔ مگر اب بھی یہ سگنل اتنے زیادہ طاقتور نہیں جتنے ایک مکمل تصویری خاکے کیلئے درکار ہیں۔

ڈوئلمین اور ان کے رفقائے تحقیق خاصے پر امید ہیں کہ جب اس نیٹ ورک میں مزید دوربینیں شامل ہوکر کام شروع کریں گی تووہ اس سے کہیں بہتر تصویریں حاصل کرلیں گے۔ مستقبل قریب میں سائنس دان آخرکار اس قابل ہوجائیں گے کہ وہ بلیک ہول کا واضح خاکہ حاصل کرسکیں۔ مستقبل بعید میں ہوسکتا ہے کہ ہماری ٹیکنالوجی اس قدر ترقی یافتہ ہوجائے کہ نہ صرف ہم بلیک ہول میں داخل ہوسکیں بلکہ اس کا سفر کرکے باہر صحیح سلامت بھی نکل آئیں۔ تب ہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ یہ بتاسکیں کہ آخر بلیک ہول میں کون سے قوانین طبیعیات رواں دواں ہیں۔

کچھ سائنس دان یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ بلیک ہول، کائنات کے دُور دراز گوشوں تک کا سفر کرنے کےلئے ‘‘مختصر راستے’’ (شارٹ کٹس) فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب ابھی صرف تصوراتی باتیں ہیں۔ ریاضی کے حساب کتاب بہرحال یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز بلیک ہول میں گر کر بالکل ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ شاید وہ ایک وارم ہول (Worm Hole) میں پہنچ جاتی ہے؛ جو دراصل کائنات میں زمان و مکان کا مختصرترین راستہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کائنات کا سفر ان بلیک ہولز کے ذریعے ہی کرسکیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ سائنس فکشن والوں کےلئے زبردست خوشخبری ہوگی کہ ان کا ایک تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا۔

ریاضیاتی مساواتوں کے اعتبار سے وقت میں سفر اگرچہ ممکن ہے، لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں۔ اس کے لوازمات اتنے انوکھے ہیں کہ ہم انہیں ابھی تجربہ گاہ میں بھی نہیں بناسکتے۔ اگر ہم کبھی اس قابل ہوگئے کہ انہیں تجربہ گاہ میں بناسکے، تو ہم ضرور وقت میں سفر کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں وقت میں سفر کرنے کی ماہر ہوجائیں۔ تو تیار رہئے کہ اگر کبھی کوئی اجنبی آپ کے گھر پر آکر دستک دے اور کہے کہ وہ آپ کے پڑپوتے کا پڑپوتا ہے تو دروازہ بند نہ کیجئے گا۔

بلیک ہول کسی دوسری کائنات کا دروازہ بھی ہوسکتا ہے؛ یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے دوسری طرف کوئی بگ بینگ شروع ہورہا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ منہدم اور سمٹتا بلیک ہول، مادّے کو دوسری طرف وائٹ ہول (White Hole) میں نکال پھینک رہا ہو۔ اگر آپ بلیک ہول کی مساوات پر ایک نگاہ ڈالیں اور اس مساوات کو بھرنا شروع کریں جس میں کائنات کی کمیت، اس کا حجم اور اس سے متعلق دوسری چیزیں اس میں رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہماری کائنات نے بلیک ہول کی مساوات کو حل کردیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ ہم خود واقعاتی افق میں بھی ہوسکتے ہیں یا ہوسکتا ہے کہ ہم کسی بلیک ہول کے اندر ہی رہ رہے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ہر ایک بلیک ہول ایک نئی کائنات کی جنم بھومی ہو۔ اگر یہ بات سچ ہوئی تو ارب ہا ارب کائناتیں ہوں گی جو ستاروں، کہکشاؤں، سیاروں اور زندگی سے بھرپور ہوں گی۔ بہرحال یہ تو مستقبل کی خیالی باتیں ہیں۔ ابھی تو ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ بلیک ہول ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ بہت بڑے بھی ہیں اور ان کا کردار کائنات کی تخلیق اور اس کو موجودہ شکل و صورت دینے میں جس قدر ہے، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ بصری دوربینوں سے حاصل کردہ معلومات سے جو ہم نے کائنات کی بنیادی باتیں سمجھیں تھیں، وہ بلیک ہول کی دریافت کے بعد بہت زیادہ تبدیل ہوگئی ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ بلیک ہول کی طبیعیا ت بہت زیادہ طلسمی قسم کی ہے؛ مگر ہم اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ انہوں نے کائنات کی تشکیل اور اس کے ارتقاء میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ماضی میں بلیک ہول سائنس فکشن کا حصہ ہوتے تھے اور خلائی مسافر ان سے دور بھاگتے تھے۔ اکثر سائنس فکشن فلموں اور کہانیوں میں دکھایا جاتا ہے کہ لوگ اپنا خلائی جہاز ان سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ بات مبالغہ آرائی نہ ہوگی اگر ہم کہیں کہ بلیک ہول نہ ہوتے تو ہم بھی نہ ہوتے۔ ہمارا وجود بلیک ہول کا مرہون منت ہے۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کائنات کے پراسرار ترین اجسام میں سے ایک، جس کا نام بلیک ہول ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ دریافت کرنا ابھی باقی ہے… پکچر ابھی باقی ہے مرے دوست!


ختم شد


تلخیص و ترجمہ: زہیر عبّاس

ترمیم و ادارت: علیم احمد
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں - پہلا حصّہ
How The Universe Works - Season 1, Episode 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ملکی وے کہکشاں (Milky Way Galaxy) میں رہتے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم اسی کہکشاں کے باشندے ہیں۔ یہ کہکشاں ارب ہا ارب ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہے۔ اکثرہمارا واسطہ اس قسم کے سوالوں سے پڑتا ہے کہ ہم انسان یہاں کیسے آئے؛ اور یہ کہ انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا وغیرہ۔ انسانیت کا مستقبل اورمقدّرتو اسی کہکشاں کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہماری ساری قابل مشاہدہ کائنات (Observable Universe) میں لگ بھگ دو کھرب سے بھی زیادہ کہکشائیں موجود ہیں۔ (یہ ایک محتاط اندازہ ہے بعض دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد چار کھرب کہکشائیں بھی بتائی جاتی ہے۔ مترجم) ان میں سے ہر کہکشاں اپنی اپنی جگہ منفرد، متحرک، اور نہایت عظیم الشان ہے۔ کہکشاؤں کی پوری زندگی بہت ہنگامہ خیز ہوتی ہے۔ ان کا جنم، ان کا ارتقاء اور ان کی موت، غرض سب ہی کچھ نہایت پُرہنگام اور خوفناک حالات میں ہوتا ہے۔ کہکشاؤں کی پیدائش کیسے ہوتی ہے؟ وہ کیسے ارتقاء پذیر ہوتی ہیں؟ ان کا مستقبل کیا ہے؟ اوران کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ یہ سوالات وہ ہیں جو اکثرہمارے ذہنوں میں آتے ہیں؛ اور جن کے جوابات جاننے کےلئے ہم بے چین رہتے ہیں۔


ہماری اپنی کہکشاں کی عمر تقریباً بارہ ارب سال ہے۔ یہ ایک عظیم الشان ٹکیہ (Disk) کی مانند ہے جس کے مرغولہ نما (Spiral) دیوہیکل بازو ہیں؛ اور ٹکیہ کے بیچوں بیچ ایک گومڑ (Bulge) سا موجود ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١)۔ یہ اُن اربوں کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک ہے جو ہماری کائنات میں موجود ہیں… وہ کہکشائیں جن میں سے کئی کے بارے میں جاننے کے باوجود ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی اصل تعداد کتنی ہے۔


ہر کہکشاں دراصل ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک اوسط کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب (۱۰۰ اَرب) ستارے ہوتے ہیں۔ یہ ستاروں کا زچہ خانہ اور قبرستان، دونوں ہی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ ستارے کسی کہکشاں کے اُس حصّے میں بنتے ہیں جہاں گرد اور گیس (Dust and Gas) کے عظیم الشان بادل موجود ہوتے ہیں؛ جنہیں ہم ‘‘سحابیہ’’ (Nebulae) کہتے ہیں۔ ہماری کہکشاں میں بھی ارب ہا ارب ستارے ہیں؛ اور ان میں سے اکثریت کے سیارے اور چاند بھی ہیں… یعنی ہمارے نظامِ شمسی جیسے اربوں دوسرے نظام ہائے شمسی صرف اس ایک کہکشاں میں موجود ہیں۔ تو پھر پوری کائنات کا کیا عالم ہوگا؟


خیر! خاصے عرصے تک ہمیں کہکشاؤں کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ایک صدی پہلے ہی کی بات ہے جب ہم صرف ملکی وے کہکشاں ہی کو ساری کی ساری کائنات سمجھتے تھے۔ سائنس دانوں نے اس کا نام ‘‘جزیرہ کائنات’’ رکھا ہوا تھا۔ ان کے مطابق کوئی دوسری کہکشاں وجود ہی نہیں رکھتی تھی! ۱۹۲۴ء میں ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) کی دریافت نے ہر چیز بدل کر رکھ دی۔ ہبل اس وقت کی جدید ترین دوربین سے خلائے بسیط کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اس دوربین کے آئینے کا قطر ۱۰۰ اِنچ تھا؛ اور یہ امریکی شہر لاس اینجلس کے نزدیک، ماؤنٹ ولسن (Mount Wilson) پر ایک رصدگاہ میں نصب تھی۔ اس نے خلاء میں، دور بہت ہی دور، روشنی کے دھندلے سے گولے دیکھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی ستارے نہیں۔ ہماری کہکشاں سے بہت زیادہ فاصلے پر، یہ تو ستاروں کی پوری کی پوری بستیاں تھیں۔


ماہرین فلکیات کےلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ صرف ایک سال پہلے تک ہماری پوری کائنات صرف ملکی وے پر مشتمل تھی؛ مگر اب وہ لاتعداد کہکشاؤں کا گھر بن گئی تھی۔ ہبل نے فلکیات کے میدان میں ایک عظیم الشان دریافت کرلی تھی۔ کائنات میں صرف ایک نہیں بلکہ لاتعداد کہکشائیں تھیں!


کہکشاؤں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جنہیں ان کی ساخت کے اعتبار سے نام دیئے جاتے ہیں۔ جیسے کہ گردابی کہکشاں (Whirlpool Galaxy)، بیضوی کہکشاں (Elliptical Galaxy)، چھلے (Ring) کی شکل والی کہکشاں، مرغولہ نما (Spiral) کہکشاں وغیرہ۔ مثلاً ایک کہکشاں جسے ‘‘میسنر کٹیلاگ کی 87 ویں کہکشاں’’ یا مختصراً صرف M-87 کہا جاتا ہے، ایک بیضوی کہکشاں ہے۔ یہ اب تک دریافت ہونے والی، قدیم ترین کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کے ستاروں کی روشنی سنہری مائل ہے۔ ایک اور کہکشاں ‘‘سومبریرو’’ (Sombrero) کہلاتی ہے۔ اس کا نظارہ نہایت شاندار ہے۔ اس کا مرکز نہایت بڑا اور روشن ہے جس کے اطراف گیس اور گرد کے بادلوں کا ایک بڑا سا ہالا بنا ہوا ہے۔ کہکشائیں دیکھنے میں بے حد حسین نظر آتی ہیں۔ یہ خلاء میں عظیم الجثہ پھرکیوں کی طرح چکراتی اور وسیع و عریض خلاء میں تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسی شاندار آتش بازی کا نمونہ لگتی ہیں جو صنّاعِ فطرت نے گویا اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تصاویر نمبر٢،٣ اور ٤۔)


ہمارے لئے کہکشائوں کی وسعت کا تصور کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ زمین پر ہم فاصلہ میلوں میں طے کرتے ہیں۔ مگر خلاء میں فاصلہ ‘‘نوری سال’’ میں ناپا جاتا ہے۔ روشنی جو فاصلہ ایک سال میں طے کرتی ہے وہ ایک نوری سال (Light Year) کہلاتا ہے۔ یہ فاصلہ ساٹھ کھرب میل سے ذرا ہی کم بنتا ہے۔ اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کے مرکز (کہکشانی مرکز) سے خود ہمارا فاصلہ بھی پچیس ہزار نوری سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اگر ملکی وے کی ہی بات کریں، جس کا شمار اوسط جسامت والی کہکشائوں میں ہوتا ہے، تو اس کی چوڑائی بھی تقریباً ایک لاکھ نوری سال بنتی ہے۔ اپنی اس عظیم الشان وسعت کے باوجود یہ کائناتی صحرا میں ریت کے ایک معمولی ذرّے کی مانند ہے۔ اگرچہ ہمیں یہ کہکشاں بہت بڑی لگتی ہے، لیکن یہ کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں کے مقابلے میں خاصی چھوٹی ہے۔ مثلاً اینڈرومیڈا (Andromeda) کہکشاں جسے عربی میں ‘‘مراۃ المسلسلہ’’ بھی کہا جاتا ہے، اور جو ہماری پڑوسی کہکشاں ہے، اس کی چوڑائی (قطر) تقریباً دو لاکھ نوری ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ وہ ہماری کہکشاں سے دوگنے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔


M-87 کا تذکرہ ہم کچھ پہلے کرچکے ہیں۔ یہ ایک بیضوی کہکشاں ہے جو اینڈرومیڈا کے مقابلے میں بھی خاصی بڑی ہے۔ لیکن پھر بھی IC-1101 نامی کہکشاں کے مقابلے میں نہایت چھوٹی سی ہے۔ IC-1101 کہکشاں اب تک کی دریافت ہونے والی، سب سے بڑی کہکشاں ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے تقریباً ساٹھ گنا بڑی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٥۔)


اب تک ہم جان چکے ہیں کہ کہکشائیں بہت وسیع و عریض ہوتی ہیں؛ اور یہ خلاء میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ فلکی طبیعیات کا اہم سوال ہے کہ کہکشائیں کہاں سے آئی ہیں۔ ہم اب تک پوری طرح سے یہ نہیں سمجھ سکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کائنات کی ابتداء آج سے 13.7 اَرب سال پہلے، بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ یہ انتہائی گرم اور بے انتہاء کثافت والا مرحلہ تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ تب کہکشاں جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوسکتی تھی۔


اس کا صاف مطلب ہے کہ کہکشائیں بہت بعد ہی میں پیدا ہوئی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کہکشاں اپنے آپ میں ستاروں کا مجموعہ ہوتی ہے؛ اور کائنات میں اوّلین ستارہ، بگ بینگ کے بیس کروڑ سال بعد وجود میں آیا تھا۔ قوتِ ثقل (Gravity) نے ایسے اربوں اوّلین ستاروں کو بتدریج یکجا کرنا شروع کیا… اور آخرکار کائنات میں اوّلین کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ ہبل خلائی دوربین (Hubble Space Telescope) ہمیں ماضی کے اس اوّلین دور میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ جب کہکشائیں وجود میں آنا شروع ہوئی تھیں۔ آسمان میں ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ہزاروں، لاکھوں، بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ ستاروں کی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں، وہ دراصل ان کا ستاروں کا ماضی ہوتا ہے: وہ ہم سے جتنے نوری سال دور ہوں گے، آج کی تاریخ میں اُن سے ہم تک پہنچنے والی روشنی اتنے ہی سال پہلے کی ہوگی… اور وہ روشنی ہمیں ان ستاروں کے اتنے ہی قدیم ماضی کی خبر دے رہی ہوگی۔ جب ہم ‘‘ہبل ڈیپ فیلڈ’’ (Hubble Deep Field) نامی دوربین میں جھانکتے ہیں (جو ہبل خلائی دوربین ہی کا ایک اہم حصہ ہے) تو ہمیں کہکشائیں چھوٹے چھوٹے دھبوں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔


وہ دور دراز ماضی کی کہکشائیں، آج کی قریبی کہکشاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ وہ کہکشائیں روشنی کے چھوٹے دھبوں جیسی لگتی ہیں جن میں ہم بمشکل فرق کر پاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٦)۔ ایسے ہر دھبے میں کروڑوں یا اربوں ستارے ہیں، جنہوں نے قوّت ثقل کے زیر اثر ایک جگہ جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ یہ دھندلے دھبے اوّلین کہکشائیں ہیں؛ جو بگ بینگ کے لگ بھگ ایک ارب سال بعد بننا شروع ہوئیں۔ لیکن ہبل ڈیپ فیلڈ بھی کائناتی ماضی میں بس اسی قدر دوری تک جھانک سکتی ہے۔ اس میں اور زیادہ آگے تک، کائنات کے مزید قدیم تر ماضی میں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر ہمیں مزید دور تک ماضی میں جھانکنا ہو، تو اس کیلئے ہمیں مختلف قسم کی، اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور دوربین کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک ایسی دوربین ہونی چاہئے جو اب تک کی سب سے بڑی دوربین ہو۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں - حصّہ دوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فی الحال تو ایک دوربین چلی (Chile) کے شمالی ریگستانی علاقے میں نصب ہے۔ اسکا نام ‘‘ایکٹ’’ (Atacama Cosmology Telescope) یعنی ‘‘اٹاکاما کونیاتی دوربین’’ ہے۔ 17,000فٹ کی بلندی پر نصب، یہ اب تک کی سب سے اونچی زمینی دوربین بھی ہے۔ یہاں کا موسم بہت سرد رہتا ہے اور اکثر ہوا بھی طوفانی رفتار سے چلتی ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں آسمان سال کے بیشتر حصے میں صاف رہتا ہے۔ صاف شفاف، بادلوں اور گرد و غبار سے خالی آسمان، ایکٹ دوربین کے شیشوں کےلئے نہایت اہم ہے۔ اس کے بغیر وہ آسمان میں قدیمی کہکشاؤں کو مرکز نگاہ نہیں بناسکتے۔ آسمان کی جتنی مفصل معلومات اس دوربین کے ذریعے حاصل ہوئیں، وہ اس سے پہلے کسی اور زمینی دوربین سے حاصل نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے ذریعے ہم کہکشاؤں اور ان کے جھرمٹوں کی ارتقاء کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔


ایکٹ، عام بصری روشنی کے بجائے اُن کائناتی خرد موجوں (Cosmic Microwaves) کا سراغ لگاتی ہے جو کائنات کی پیدائش کے صرف چند لاکھ سال بعد وجود پذیر ہوگئی تھیں۔ یہ اس صلاحیت کی حامل ہے کہ نہ صرف ان کہکشاؤں کو دیکھ سکے بلکہ ان کہکشاؤں اور کہکشانی جھرمٹوں کا ارتقاء ہوتے ہوئے بھی مشاہدہ کرسکے۔ اس دوربین کے ذریعے ہم اس قابل ہوچکے ہیں کہ کہکشاؤں اور کہکشانی جھرمٹوں کے مرحلہ وار ارتقاء کا جائزہ لے سکیں؛ ہم ان کہکشاؤں کی نشوونما کا مطالعہ ابتدائے وقت کے کچھ ہی عرصے بعد سے لے کر دورِ حاضر تک کرسکیں۔


ایکٹ نے ہمیں کہکشانی ارتقاء کو زمان و مکان کی تقریباً ابتداء سے سمجھنے کا زبردست موقعہ فراہم کیا ہے۔ اب ہم یہ بتانے کے قابل ہیں کہ کہکشائیں، قدیم کائنات میں کیسی تھیں… اور ساتھ ہی ساتھ ہم ان قدیم کہکشاؤں کا موازنہ، عصر حاضر کی کہکشاؤں سے بھی کرسکتے ہیں۔ ماہرین فلکیات، کہکشاؤں کو ستاروں کے بے ہنگم جھرمٹوں سے دورِ حاضر کی منظم و مرتب شکلوں میں (باضابطہ کہکشائوں میں) ڈھلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔


اب ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ستارے، کہکشاؤں کو تشکیل دیتے ہیں؛ کہکشائیں، کہکشانی جھرمٹوں (Clusters) کو؛ اور یہ کہکشانی جھرمٹ بھی باہم منظم و مربوط ہوکر جھرمٹوں کے جھرمٹوں یعنی ‘‘سپر کلسٹرز’’ (Super Cluster) کو جنم دیتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧ اور ٨۔) یہ سپر کلسٹرز، ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں سب سے بڑی ساختیں (Structures) ہیں۔


کہکشائیں شروع میں ستاروں، گیس اور گرد کے بے ہنگم مجموعے تھیں۔ مگر آج کہکشائیں بڑی منظم اور ترتیب وار حالت میں ہیں۔ قوّت ثقل نے ستاروں کی اس بے ترتیبی کو ختم کرکے ان میں سے کچھ کو مرغولہ نما کہکشاؤں کی شکل دی، اور کچھ کہکشاؤں کو دوسری شکلوں میں ڈھال دیا۔ کہکشاؤں کی ساخت اور ان کا مقدر بھی قوّت ثقل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ قوّت ثقل ناقابل یقین حد تک طاقتور ہے؛ اور اس کا اصل منبع کہکشاں کے مرکز میں ہوتا ہے۔ ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز میں بھی ایک خوفناک اور تباہ کن طاقت موجود ہے۔ کہکشائیں بارہ اَرب سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ ان کی وسیع سلطنت میں چکر کھاتی مرغولہ نما کہکشائوں سے لے کر عظیم الشان ستاروں کی گیند جیسی گول کہکشائیں تک؛ ہر شکل اور ہر جسامت کی کہکشائیں موجود ہیں۔


اب بھی کہکشاؤں کے بارے میں بہت سارے سوالوں کے جوابات جاننا باقی ہیں۔ کہکشاؤں کے بارے میں ہمارا موجودہ علم اب بھی تشنہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی شکل مرغولہ نما کیوں ہوتی ہے؟ اور کیا یہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھیں؟ البتہ، اتنا تو ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ یہ ہمیشہ سےایسی نہیں تھیں۔ نوعمر کہکشائیں ستاروں، گیس اور دھول کا بے ترتیب اور بے ہنگم مجموعہ تھیں۔ مگراربوں سال پہلے انہوں نے صاف ستھرے منظم طریقے سے اپنی ساخت استوار کرلی تھی۔ جیسے کہ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا پھر ہماری اپنی مرغولہ نما کہکشاں ملکی وے۔


ہماری کہکشاں ہمیشہ سے سالم حالت میں ایک کہکشاں نہیں تھی۔ بلکہ اپنی ابتداء میں یہ بہت ساری، چھوٹی چھوٹی ‘‘بچہ کہکشاؤں’’ پر مشتمل تھی۔ اس وقت ان کہکشاؤں کی شکل عجیب بے تکی اور غیر منظم سی تھی۔ پھر ان تمام کہکشاؤں نے قوت ثقل کے زیرِ اثر آپس میں ضم ہونا شروع کردیا۔ ہماری ملکی وے کہکشاں تشکیل پانے لگی۔ آہستہ آہستہ اس نے ستاروں کو اندر کی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ پھر اس کے گھومنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی؛ اوراس نے چپٹی (Flat) ہوکر ایک ٹکیہ جیسی شکل بنالی۔ ستاروں اور گیس کے بادلوں نے عظیم الجثہ گھومنے والے بازو بنائے ۔ یہ چکر تمام کائنات میں ارب ہا ارب مرتبہ چلا ہوگا۔


اگرچہ کہکشائیں ایک دوسرے سے مختلف لگتی ہیں، مگر ان سب ایک قدرِ مشترک ہے: یہ سب کی سب اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں۔ ان میں موجود ستارے، کہکشانی مرکز میں موجود کسی نادیدہ چیز کے گرد، دیوانہ وار رقص میں مصروف ہیں۔ بہت مدت سے سائنس دان یہ جاننے کی جستجو میں تھے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو کہکشاؤں کو مختلف شکلیں اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اب انہوں نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔ کہکشانی مرکز میں موجود بلیک ہول (Black Hole) انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ہر قسم کا بلیک ہول نہیں بلکہ صرف ‘‘فوق ضخیم بلیک ہول’’ (Super-massive Black Hole) ہی ایسا کر سکتا ہے۔ کہکشانی مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہونے کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ کہکشانی مرکز سے زبردست توانائی نکل رہی ہوتی ہے۔ اس توانائی کا سرچشمہ بلیک ہول ہی ہوتے ہیں۔


یہ مرکز میں موجود رہ کر آس پاس کی کے مادّے کی ضیافت اڑانے میں ایسے مصروف رہتے ہیں جیسے ہم بقرعید پر گوشت کی دعوت اڑاتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان کا کھانا، گیسی بادل اور ستارے ہوتے ہیں۔ بلیک ہول بننے کے دوران واقعاتی افق کے پاس ایک پرت دار ٹکیہ بن جاتی ہے۔ اس وقت یہ بلیک ہول کو بہت ہی مختصر وقت میں اتنی مقدار میں مادّہ مہیا کرتی ہے جو اس کی ہضم کرنے کی صلاحیت سے بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ جس سے انہیں کبھی کبھی بدہضمی بھی ہوجاتی ہے اور واقعاتی افق، مادّے سے لبریز ہوجاتی ہے۔ بلیک ہول کی برداشت کا پیمانہ چھلک جاتا ہے اور وہ مزید مادّہ ہضم کرنے کے بجائے اسے زبردست توانائی کے ساتھ، خلاء میں دور دور تک پھینک دیتا ہے۔ روشن، توانا اور زبردست مقدار والے، اس مادّے کے اخراج کو جب ہم بہت دور سے – کروڑوں نوری سال کے فاصلے سے – دیکھتے ہیں تو یہ ہمیں روشنی کے عظیم الشان فوارے لگتے ہیں۔ بلیک ہول کے اس مظہر کو ‘‘کوزار’’ (Quasars) کہتے ہیں۔ جب سائنس دان کسی کہکشاں کے مرکز سے توانائی کے یہ فوارے دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ وہاں کوئی کوزار گھات لگائے بیٹھا ہے۔ (بلیک ہول اور کوزار کے بارے میں ہم گزشتہ باب میں تفصیل سے بات کرچکے ہیں۔ مترجم)


مگر کیا کوئی کوزار ملکی وے کے مرکز میں تو آرام نہیں فرمارہا؟ اینڈریا گیز (Andrea Ghez) اور ان کی ٹیم پچھلے پندرہ سال سے اسی کی کھوج میں ہیں۔ ان کی یہ جستجو تب ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے جب وہ کہکشاں کے مرکز میں ستاروں کی حرکت دیکھ سکیں۔ ستارے، قوت ثقل کی وجہ سے حرکت کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سیارے، سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ ستارے جو کہکشانی مرکز کے بہت قریب ہیں، وہ گرد و غبار کے بادلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ لہٰذا گیز ایک دیوقامت دوربین سے ان کا جائزہ لے رہی ہیں، جس کا نام ‘‘کیک’’ (Keck) ہے۔ کہکشانی مرکز کے قرب و جوار کا یہ علاقہ، کہکشاں کی انتہائی خطرناک اور بے رحم جگہوں میں سے ایک ہے۔ کہکشانی مرکز کے پاس ہر چیز اپنی انتہاء پر ہے۔ ستارے ناقابل یقین حد تک تیزی سے حرکت کررہے ہیں؛ یہاں ہر دوسرا ستارہ گویا ایک زنّاٹے دار رفتار سے دوڑے جارہا ہے۔ یہ مقام، کہکشاں کی کسی بھی دوسری جگہ کے مقابلے میں نہایت طوفانی اور خطرناک ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں - حصّہ سوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیز اور ان کی ٹیم نے چند ستاروں کی تصاویر لیں جو کہکشانی مرکز کے قریب رہتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ اس کے بعد ان کا کام ان تصویروں سے متحرک فلم بنانا تھا۔ اس کےلئے بہت زیادہ صبر کی ضرورت تھی۔ پہلے انہیں بہت ساری تصاویر لینا تھیں۔ پھر ان تصاویر کو متحرک کرنا تھا۔ ان کی ٹیم جب یہ کام کرکے فارغ ہوئی تو انہیں بہت ہی زبردست نتیجہ ملا۔ کہکشانی مرکز کے قریب، مدار میں ستارے کئی لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگارہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ ستارے اتنی تیزی سے صرف اور صرف کسی فوق ضخیم بلیک ہول ہی کی وجہ سے چکر کاٹ رہے تھے۔ گیز اور ان کی ٹیم نے مرکز میں موجود ستاروں کا تعاقب کیا؛ اور اس جگہ کی نشاندہی کی جس کے گرد یہ ستارے چکر کاٹ رہے تھے۔ کہکشاں میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول ہی وہ چیز ہوسکتی تھی جو ستاروں کو اس طرح چکر پہ چکر دے سکے۔ یہ بلیک ہول ہی کی ثقل تھی جو ستاروں کو اس طرح اپنے گرد چکر لگانے پر مجبور کررہی تھی۔ ستاروں کے راستوں میں خم، اس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ کہکشاں کے مرکز میں فوق ضخیم بلیک ہول واقعی موجود ہے۔ علاوہ ازیں، انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ تقریباً پندرہ کروڑ قطر پر پھیلا ہوا ہے۔ اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس فوق ضخیم بلیک ہول سے ہمیں کوئی خطرہ ہے؟ اس کا آسان سا جواب ہے کہ نہیں۔ یہ فوق ضخیم بلیک ہول ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ زمین سے لگ بھگ پچیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یہ کئی ہزار کھرب میل کا فاصلہ بنتا ہے۔ فی الحال تو زمین محفوظ ہے۔

فوق ضخیم بلیک ہولز شاندار توانائی کا منبع تو ہوسکتے ہیں، مگر پھر بھی یہ اتنےطاقتور نہیں کہ کسی کہکشاں کے تمام ستاروں کو یکجا کرکے، ایک باقاعدہ کہکشاں کی صورت میں، باندھ کر رکھ سکیں۔ اگر ہم کسی کہکشاں میں صرف قابلِ مشاہدہ مادّے ہی کی بات کریں، تو پھر صرف اس میں تو اتنی کشش ثقل نہیں کہ وہ پوری کی پوری کہکشاں کو – ارب ہا ارب ستاروں کے مجموعے کو – اس شکل میں رکھ سکے کہ جس میں وہ ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ اگر کہکشائوں میں صرف وہی مادّہ ہوتا کہ جس کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں، تو پھر قوانین طبیعیات کی روشنی میں انہیں بکھر کر ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کہکشائیں اپنی حالت پر اربوں سال سے قائم و دائم ہیں۔ اتنی زیادہ کششِ ثقل، فوق ضخیم بلیک ہول کے ذریعے بھی ممکن نہیں۔ تو پھر وہ نادیدہ چیز کیا ہے جس نے ہر کہکشاں کو اتنی خوبصورتی سے سنبھالا ہوا ہے؟ ہم نے اس غیر مرئی چیز کو ‘‘تاریک مادّہ’’ (Dark Matter) کا نام دیا ہے؛ اور یہ کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔

ماہرینِ فلکیات معلوم کرچکے ہیں کہ فوق ضخیم بلیک ہولز، کہکشاؤں کے مرکز میں واقع ہوتے ہیں اور ان ہی کی بدولت مرکز سے قریب ستارے اس قدر تیز رفتاری سے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ مگرپھر بھی یہ اس قدرطاقتور نہیں ہوتے کہ کہکشاں کے سارے ستاروں کو آپس میں جوڑکررکھیں۔ یہ راز اس وقت تک نہیں کھلا تھا جب تک ایک سرپھرے سائنس دان نے یہ خیال پیش نہیں کیا: ضرور کوئی نہ کوئی چیز ایسی ہے جسے ہم اب تک نہیں جانتے، مگر وہ اپنا کام کررہی ہے۔ یہ سوئٹزرلینڈ کا فلکیات داں، فرٹز زوئکی (Fritz Zwicky) تھا۔

اس نے 1930ء کے عشرے میں اس نکتے پر غور شروع کیا کہ آخر کہکشائیں، گروپوں کی شکل میں کیوں ہیں۔ قابلِ مشاہدہ مادّے اور توانائی کی بنیاد پر اس نے حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ یہ مادّہ اتنی کششِ ثقل پیدا ہی نہیں کرسکتا کہ جو ان کہکشائوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر رکھ سکے۔ اگر یہ مادّہ صرف اتنا ہی ہے کہ جتنا ہم دیکھ سکتے ہیں، تو پھر کہکشائوں کو ایک دوسرے سے دور بھاگنا چاہئے تھے۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ یقیناً کوئی نہ کوئی چیز ایسی ضرور تھی جو ہر کہکشاں میں اربوں ستاروں کو، اور ہر کہکشانی جھرمٹ میں درجنوں بلکہ سینکڑوں کہکشائوں کو ایک ساتھ رکھے ہوئے تھی۔ مگر وہ چیز ہماری جانی پہچانی قوّت ثقل نہیں ہوسکتی تھی؛ کیونکہ قابلِ مشاہدہ مادّہ اتنی قوتِ ثقل پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ لہٰذا اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ضرور کوئی ایسی چیز موجود ہے جسے ہم نے اب تک نہیں دیکھا، اور نہ ہی کسی نے ابھی تک اس کے بارے میں سوچا ہے۔ اس نادیدہ اور پراسرار چیز کو اس نے ‘‘تاریک مادّہ’’ کا نام دے دیا۔

واقعی، یہ خداداد ذہانت کے مالک انسان ہی کا کام ہوسکتا تھا۔ فرٹز ژویکی اپنے عہد سے بہت آگے تھا۔ لہٰذا اس کی بات کو اس وقت کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مگر وہ بالکل صحیح تھا۔ ان کا تجویز کردہ تاریک مادّہ اگر کہکشاؤں کو جوڑ کر جھرمٹ میں رکھ سکتا تھا، تو وہ کہکشاؤں میں ستاروں کو بھی دور بھاگنے سے روک سکتا تھا۔

تاریک مادّے کا وجود ثابت کرنے کےلئے سائنس دانوں نے کمپیوٹر میں مجازی کہکشائیں بنائیں، جن میں مجازی ستارے اور مجازی قوت ثقل بھی موجود تھی۔ سائنس دانوں نے کہکشاں بننے کے عمل کو سمیولیشن کے ذریعے دوہرایا جس میں بہت سارے ذرّات ایک چپٹی ٹکیہ کے مدار میں ڈالے، بالکل اسی طرح جیسے ہماری کہکشاں کی شکل ہے۔ سائنس دان یہ امید کررہے تھے کہ وہ بالکل ایسی ہی ایک کہکشاں حاصل کرلیں گے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ایک مرغولہ نما شکل کی کہکشاں بنے گی۔ مگر جب نتیجہ آیا تو ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی؛ کیونکہ وہاں اتنی قوّت ثقل موجود ہی نہیں تھی جو ان سب ستاروں کو تھام کرایک کہکشاں کی شکل دے سکے۔ لہٰذا سائنس دانوں نے اپنے اس ماڈل میں ثقلی قوت بڑھادی، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ تاریک مادّہ ڈال دیا… اور اس کے ڈالتے ہی مسئلہ حل ہوگیا۔ تاریک مادّے نے کہکشاں کو تھام لیا۔ تاریک مادّہ دراصل ایک بند کا کام دیتا ہے جو کہکشاؤں کے ستاروں کو ایک دوسرے سے دور ہٹنے نہیں دیتا اور انہیں ان کی جگہ پر ٹکا کر رکھتا ہے۔

اب سائنس دان یہ دریافت کررہے ہیں کہ تاریک مادّہ نہ صرف کہکشاؤں کو جوڑ کر رکھتا ہے بلکہ یہی وہ چیز بھی ہے جس کی بدولت کہکشاؤں کے بننے کی ابتداء ہوئی تھی۔ ان سائنس دانوں کا خیال ہے کہ تاریک مادّے شاید بگ بینگ کے فوراً بعد ہی تخلیق ہوگیا تھا؛ اور اس نے ایک جگہ جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ آخرکار یہ ایسے مرکزوں میں تبدیل ہوگیا جنہوں نے بعد ازاں وجود پذیر ہونے والی کہکشاؤں کےلئے بیجوں کا کام کیا۔ مگر سائنس دان اب تک یہ نہیں جان پائے ہیں کہ آخر یہ تاریک مادّہ ہے کیا چیز۔ ہمیں یہ سب اس لئے عجیب لگتا ہے کیونکہ ہم اب تک اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ اب تک تو یہ تاریک مادّہ، اس مادّے سے بالکل مختلف لگتا ہے کہ جس سے میں اور آپ بنے ہیں۔ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے، پکڑ نہیں سکتے؛ مگر پھر بھی یہ ہمارے ارد گرد موجود ہے۔ یہ ماورائے عقل قسم کا مادّہ ہے جو ہمارے جسم میں سے یوں گزر سکتا ہے جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ ہم شاید اس کے بارے میں زیادہ نہ جان پائیں۔ لیکن کائنات اس سے بھری پڑی ہے۔ شاید یہ عام مادّے سے، جس سے میں اور آپ بنے ہیں، لگ بھگ چھ گنا زیادہ مقدار میں ہے۔ اس کے بغیر کائنات اس طرح چل ہی نہیں سکتی تھی کہ جس طرح یہ آج چل رہی ہے۔ اور چونکہ کائنات ایسے ہی چل رہی ہے، لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ تاریک مادّہ بھی موجود ہے۔

تاریک مادّہ پراسرار بھی ہے۔ لیکن اسے حال ہی میں دریافت کرلیا گیا ہے۔ براہِ راست دیکھ کر نہیں، بلکہ اس کے ثقلی اثرات کا مشاہدہ کرکے! جی ہاں، تاریک مادّے کی کشش ثقل ہی وہ واحد نشانی ہے جس کی بدولت ہم اس کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ تاریک مادّے کی دریافت، ثقلی عدسہ (Gravitational Lens) کہلانے والے ایک مظہرِ قدرت کے طفیل ممکن ہوسکی ہے۔ اس اثر کے تحت، بہت دور کسی جسم (مثلاً کسی کہکشاں) سے آنے والی روشنی کے راستے میں کوئی نادیدہ کمیت (جو بلیک ہول یا پھر تاریک مادّے پر مشتمل ہو) آجاتی ہے۔ اس نادیدہ کمیت کے ثقلی اثرات، دور سے آنے والی روشنی کو اس انداز سے موڑتے ہیں جیسے عام زندگی میں کوئی عدسہ روشنی کو اس کے راستے سے منحرف کردیتا ہے۔ انحراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی تو ہمیں وہ دور دراز جسم عجیب سا، بگڑا ہوا سا دکھائی دیتا ہے تو کبھی ایک کے دو نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری نظر کا فتور نہیں؛ بلکہ یہ ساری کارستانی، بہت دُور سے آنی والی روشنی کے راستے میں حائل، عظیم و جسیم نادیدہ کمیت کی ہوتی ہے۔ ثقلی عدسے کی مختصر اور آسان داستان بس اتنی سی ہے۔ لیکن یہی ثقلی عدسہ ہمیں تاریک مادّے کو کھوجنے کا نایاب موقعہ فراہم کرتا ہے: جب روشنی کی کرنیں کسی دور دراز کہکشاں سے سفر کرتی ہوئی ہماری طرف آتی ہیں اور راستے میں تاریک مادّے کے کسی بڑے جمگھٹ کے قریب سے گزرتی ہیں تو روشنی کی ان کرنوں کا راستہ، تاریک مادّے کی قوّت ثقل کی وجہ سے، تبدیل ہوجاتا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٩)۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں - حصّہ چہارم
How The Universe Works - Season 1, Episode 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جب ہبل دوربین نے خلائے بسیط میں جھانکا، تو اسے بہت دور کی کچھ کہکشائیں بدشکل اور عجیب طرح سے کھنچی ہوئی نظر آئیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٠)۔ ان کی شکل خم کھاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کسی مچھلی کو شیشے کے جار میں باہر سے دیکیں تو اکثر جب وہ جار کے شیشے کے قریب آتی ہے تو اس کی شکل، زاویئے کے اعتبار سے اپنے اصل حجم سے زیادہ بڑی نظر آتی ہے۔ ہم ان کہکشاؤں کی اصل ممکنہ ساخت اور ظاہری بدشکلی میں موازنہ کرتے ہوئے یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جس تاریک مادّے نے ان کہکشائوں کی شکل مسخ کی ہے، وہ اپنی کمیت کے اعتبار سے کتنا ہوگا۔ اب یہ بات بالکل صاف ہے کہ تاریک مادّہ، کائنات کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ زمان و مکان (کائنات) کی ابتداء ہی سے کارفرما رہا ہے۔ اس کا اثر ہر جگہ اور ہر چیز پر ہورہا ہے۔ اس نے کہکشاؤں کی تخلیق شروع کی، اور ستاروں کو کہکشاؤں میں باندھ رکھا ہے۔ ہم نہ تو اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا پیچھا کرسکتے ہیں؛ لیکن پھر بھی وہ اس کائنات کا ایک اہم حصّہ ہے۔


ہمیں کہکشائیں ایک دوسرے سے خاصی دورالگ تھلگ نظر آتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ ان کے درمیان کھربوں میل کا فاصلہ ہے۔ لیکن اصل میں گروپوں کی شکل میں ہی رہتی ہیں، جنہیں ہم ‘‘کہکشانی جھرمٹ’’ (Cluster) کہتے ہیں۔ اور پھر یہ کہکشانی جھرمٹ، آپس میں مربوط و منظم ہوکر جھرمٹوں کے جھرمٹ (Super-clusters) بناتے ہیں۔ ایسے ہر سپر کلسٹر میں ہزاروں کہکشائیں ہوتی ہیں۔ اگر ہم اپنے تصور کے کینواس کو تھوڑا سا اور بڑا کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری ملکی وے کہکشاں بھی ایک کہکشانی جھرمٹ کا حصہ ہے جسے ہم ‘‘لوکل گروپ’’ (Local Group) کہتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧)۔ اس کہکشانی جھرمٹ میں ہماری کہکشاں اور اینڈرومیڈا سب سے بڑی کہکشائیں ہیں۔ اگر ہم اور بڑے پیمانے پر دیکھیں گے تو ہمیں پتا چلے گا کہ ہم ‘‘سنبلہ سپر کلسٹر’’ (Virgo Super-cluster) کہلانے والے، جھرمٹوں کے ایک جھرمٹ کا حصہ ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٩)۔


سائنس دان اب کائنات کا نقشہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس میں کہکشانی جھرمٹوں اورکہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کے محل وقوع بھی شامل ہیں۔ اپاچی پوائنٹ رصدگاہ (Apache Point Observatory) نیومیکسیکو میں واقع ہے۔ یہاں ‘‘سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے’’ (Sloan Digital Sky Survey) نامی ایک چھوٹی مگر انتہائی مہنگی دوربین ایک نہایت منفرد کام کررہی ہے۔ یہ پہلا سہ جہتی آسمانی نقشہ بنارہی ہے جس میں ارب ہا ارب کہکشاؤں کے محل وقوع کی بالکل صحیح صحیح نشاندہی کی گئی ہے۔ اسے تمام کہکشاؤں کو ڈھونڈ نکالنے کےلئے خلائے بسیط میں بہت دور تک جھانکنا ہوگا۔ یہ کہکشاؤں کا محل وقوع حاصل کرنے کے بعد اس مواد کو المونیم کی ڈسک پر منتقل کرتی ہے۔ ٣٠ انچ قطر کی ایسی ہر المونیم ڈسک پر ٦٤٠ سوراخ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر سوراخ ایک کہکشاں کی (اس کے محل وقوع سمیت) نمائندگی کرتا ہے۔ روشنی کہکشاؤں سے ہوتی ہوئی فائبر آپٹک تاروں میں سے گزرتی ہے۔ اس طریقے کے تحت کہکشاؤں کی دوری اور ان کے محل وقوع کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے؛ اور پھر، اسی ریکارڈ کی بنیاد پر، کہکشائوں کا ایک تفصیلی سہ جہتی نقشہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس نقشے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کہکشاؤں کی ساخت کیا ہے، یہ کس سے بنی ہیں اور کائنات میں کس طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تمام باتیں فلکیات اور تفہیمِ کائنات کےلئے بہت اہم ہیں۔ یہ اب تک کا سب سے بڑا سہ جہتی کائناتی نقشہ ہے۔ اس نقشے نے ہم پر وہ باتیں اجاگر کی ہیں جو ہمیں اس سے پہلے معلوم نہیں تھیں۔ یہ نقشہ نہ صرف کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کا محل وقوع بیان کرتا ہے، بلکہ اور بھی بڑے پیمانے پر ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ بہت ہی بڑی ساختیں تشکیل دیتے ہیں جو (اس عظیم الشان پیمانے پر) ریشوں (Filaments) کی مانند ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دیتے ہیں۔


سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے نے ایک ارب چالیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ایسا ہی ایک فلامنٹ دریافت کیا ہے۔ یہ کائنات میں اب تک مشاہدہ کی گئی، سب سے بڑی ساخت بھی ہے۔ اس کا نام ‘‘سلون کی عظیم دیوار’’ (Sloan Great Wall) رکھا گیا ہے۔ اس دیوار کو دیکھ کر ہمیں صحیح معنوں میں وسعتِ کائنات کا احساس ہوجاتا ہے۔ اور آپ پر جب یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس فلامنٹ کا ہر چھوٹا سا نقطہ اپنے آپ میں ایک کہکشاں ہے – ستارہ نہیں بلکہ کھربوں ستاروں والی کہکشاں ہے – تو آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ یہ سروے دراصل بہت ہی بڑے پیمانے پر کائناتی جغرافیہ کو بیان کرتا ہے۔


سائنس دانوں نے ایک بہت ہی وسیع کائنات، سپرکمپیوٹر پر نقل کی ہے۔ اس میں آپ کوئی کہکشاں نہیں دیکھ سکتے؛ بلکہ اس میں تو آپ کو کہکشانی جھرمٹ بھی نظر نہیں آئیں گے۔ اس میں صرف اور صرف جھرمٹوں کے جھرمٹ، یعنی سپر کلسٹرز دکھائی دیتے ہیں جو آپس میں ایسے جڑے ہیں کہ ان سے مل کر ایک کائناتی جال بن گیا ہے۔ اس پیمانے پرکہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ ایک ریشے کی طرح کی ساخت بناتے ہوئے، ایک ایسا کائناتی جال بناتے ہیں جس میں کہکشائیں اور ان کے جھرمٹ، کائنات کو ہر جگہ اور ہر سمت سے روشن کررہے ہیں۔ اصل میں کائنات بڑے پیمانے پر ایک اسفنج کی طرح نظر آتی ہے، جس کا ہر ایک ریشہ لاکھوں کہکشانی جھرمٹوں کا گھر ہے جنہیں تاریک مادّے نے باندھ کر رکھا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١١)۔ اس کمپیوٹر سمیولیشن میں تاریک مادّہ، ہر ریشے کے ساتھ جگہ جگہ موجود ہے۔ جہاں کہکشائیں ہیں، وہاں یہ تاریک مادّہ بھی اثر انداز ہورہا ہے۔


جب ہم کہکشاؤں کو کائناتی پیمانے پر دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں بس یونہی، اٹکل سے بکھری ہوئی نہیں ملتیں بلکہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا رکھے ہوتے ہیں، جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تاریک مادّہ، کائنات میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ تاریک مادّہ ایک ایسے گوند کا کردار ادا کرتا ہے جس نے کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹوں کو باندھ رکھا ہے۔ وہ سب ایک ریشے کے بنے ہوئے جال جیسے لگتےہیں۔ تاریک مادّے کے بغیر کہکشانی جھرمٹ، کائنات میں اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے۔ غرض کہ کائنات کی بڑے پیمانے پر تصویر ایک کائناتی جال (Cosmic Web) کی مانند نظر آتی ہے۔


ان ہی میں سے ایک ریشے میں چھپی ہوئی، ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے بھی ہے۔ اس کی عمر لگ بھگ بارہ اَرب سال ہے۔ مگر اب یہ ایک کہکشانی تصادم میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ کہکشائیں ستاروں کی عظیم الشان مملکت ہوتی ہیں۔ کچھ کہکشائیں چھلے کی مانند گول، تو کچھ مرغولہ نما پیچیدہ ساخت کی ہوتی ہیں۔ مگر ان کی ساخت ہمیشہ ایک ہی جیسی نہیں ہوتی۔ جب ہم اپنی کہکشاں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔ مگر یہ خیال درست نہیں۔ ہماری کہکشاں ایک متحرک جگہ ہے۔ اس کی بنیادی نوعیت اور ساخت، کونیاتی عرصۂ وقت میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ کہکشائیں صرف ساخت ہی نہیں بدلتیں بلکہ وہ مسلسل حرکت میں بھی رہتی ہیں۔ اور نتیجتاً وہ دوسری کہکشاں سے جاٹکراتی ہیں۔ جب کبھی کسی کہکشاں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، تو ‘‘مارو یا مرجاؤ’’ والی کیفیت پیدا ہوتی ہے: یا تو مدمقابل کہکشاں کو ہڑپ کرلو، یا پھر اس میں ضم ہوجائو!


کائنات، کہکشاؤں کا ایک بھرپور جنگل ہے۔ اور اس جنگل میں پائے جانے والے حیوان، یہ کہکشائیں، کسی بھی وقت ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسا سکتی ہیں۔ یعنی کبھی کبھی کوئی کہکشاں کسی دوسری کہکشاں کے ساتھ بغلگیر بھی ہوجاتی ہے۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک کہکشاں (NGC-2207) دیکھی ہے۔ یہ ایک عظیم الشان دوہری مرغولہ نما کہکشاں (Double Spiral Galaxy) لگتی ہے۔ لیکن اصل میں یہ دو کہکشائیں ہیں جو ایک دوسرے سے پہلو بہ پہلو ٹکرا رہی ہیں۔ یہ تصادم ابھی کئی کروڑ سال تک چلے گا۔ اور آخرکار یہ دونوں کہکشائیں ایک دوسرے میں مدغم (Merge) ہوجائیں گی (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٢)… دونوں مل کر ایک ہوجائیں گی۔


اس قسم کے کہکشانی تصادم کائنات میں عام ہیں۔ ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے بھی اس قسم کی صورتحال سے مبرّا نہیں ۔ ہماری کہکشاں دراصل ایک ‘‘کہکشاں خور’’ ہے؛ اوراب تک کئی چھوٹی کہکشائیں ہضم کرچکی ہے۔ آج ہم ان ہضم شدہ کہکشائوں کی باقیات کو، ان کے بچے کچھے ستاروں کو چھوٹی سی لکیروں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ہم جس آنے والے تصادم کا تذکرہ کررہے ہیں، اس کے سامنے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ہم اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا کے ساتھ ٹکرانے جارہے ہیں؛ اور یہ ہماری اپنی کہکشاں کےلئے بہت بری خبر ہے۔ ہماری کہکشاں لگ بھگ 250,000 میل (ڈھائی لاکھ میل) فی گھنٹہ کی رفتار سے اینڈرومیڈا کی طرف بھاگی چلی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ پانچ سے چھ اَرب سال میں ہماری ملکی وے کہکشاں کا قصہ بھی تمام ہوچکا ہوگا۔ اینڈرومیڈا بھی بہت تیزی سے ہماری کہکشاں کے ساتھ ٹکرانے کےلئے سیدھی ہماری طرف بڑھتی آرہی ہے۔ جیسے ہی ان دونوں کہکشاؤں میں تصادم ہوگا، ویسے ہی یہ دونوں کہکشائیں مضطرب ہوکر ایک دوسرے سے قریب تر ہوتی جائیں گی۔ دونوں کہکشائیں اپنی اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہوجائیں گی۔

جاری ہے.۔۔۔۔۔
 
Top