زہیر عبّاس
محفلین
١٩٨٠ءکی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے ایک پروگرام “Cosmos” کے عنوان سے جمعے کی صبح نشر ہوتا تھا۔ شاید یہ پروگرام امریکن ٹیلی ویژن سیریز “Cosmos: A Personal Voyage”کی اردو ڈبنگ تھی ۔ اس پروگرام کے کچھ دھندلے سے نقوش اب بھی ذہن میں باقی ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ میں بت بنا اس پروگرام کو دیکھ کر کائنات کی بیکراں گہرائیوں میں کھو جاتا تھا ۔ اس وقت سے لے کر علم فلکیات کا میں شیدائی رہا ہوں ۔ ہرچند ایک اکاؤنٹنٹ ہونے کے ناطے میری سائنس سے کوئی زیادہ واقفیت نہیں ہے لیکن عمومی سائنس خصوصاً علم فلکیات اور علم طبیعیات کے بارے میں کافی تجسس رہا ہے ۔
سال گزشتہ بقراعید کی پانچ چٹھیاں آ رہی تھیں ۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنی چھٹیوں میں کیا کروں گا لہٰذا بیگم کے ساتھ سی ڈ ی کی دکان پر کچھ موویز لینے چلا گیا ۔ وہاں پر ڈسکوری چینل کے پروگرام کی سی ڈ ی “How The Universe Works” نظر آ گئی۔ پہلی ہی قسط دیکھ کر مزہ آگیا کیونکہ یہ پروگرام ہائی ڈیفی نیشن ویڈیو (High Definition Video)میں ریکارڈڈ تھا ۔ پروگرام دیکھتے وقت خیال آیا کہ اگر یہ پروگرام اردو میں ہوتا تو زیادہ مزہ آتا۔ اگرچہ فلکیات سے متعلق کچھ پروگرام نیشنل جیوگرافک چینل انڈیا(National Geographic Channel – India) پر میں ہندی میں تو دیکھ چکا ہوں مگر یہ پروگرام مجھے ہندی زبان میں انٹرنیٹ پر بھی نہیں مل سکا۔ لہٰذا وقت گزاری کے لئے اس کا اردو ترجمہ شروع کیا۔ شروع میں سوچا کہ سب ٹائٹل (Subtitle)کی شکل میں اس کا ترجمہ کروں پھر خیال آیا کیوں نہ مضمون کی شکل میں کیا جائے اور انٹرنیٹ پر کسی بلاگ(Blog) پر اپلوڈ(Upload) کر دوں تاکہ فلکیات میں دلچسپی لینے والے بھی اس کو پڑھ سکیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ کبھی اردو ٹائپ نہیں کی تھی نہ ہی ان پیج(Inpage) چلانا آتا تھا۔ گوگل مترجم (Google Translator) ایک دفعہ استعمال کیا تھا اور اس میں موجود فونیٹک کی بورڈ(Google Phonetic) اردو لکھنے کے لئے شروع میں استعمال کیا مگر اس کا استعمال کافی مشکل تھا۔ پھر گوگل ڈاکس(Google docs) کا استعمال کیا اور ٦ اقساط اسی میں فونیٹک کی بورڈ کی مدد سے ٹائپ کیں۔ گوگل ڈاکس کے لئے ہر وقت آن لائن رہنا ضروری تھا ۔ اگر انٹرنیٹ دستیاب نہ ہو تو پھر کچھ کام نہیں ہو سکتا تھا ۔لہٰذا گوگل پر اردو آف لائن ٹائپنگ ٹول تلاش کیا اور یوں گوگل ان پٹ میتھڈ ایڈیٹر (Google Input Method – IME)سے روشنائی ہوئی اور اس نے زندگی کافی آسان کردی۔ پہلی قسط ترجمہ کرنے میں مجھے کوئی ١٢ دن لگے مگر گوگل کے اس ارود ٹول سے آخری قسط صرف دو دنوں میں مکمل ہوئی۔
اگرچہ ترجمہ کرنے کی یہ میری زندگی کی پہلی کاوش تھی (جبکہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ کرنے کی پہلی کوشش میچو کاکو کی "ناممکنات کی طبیعیات " ہے ) اور میں جانتا ہوں کہ نہ میں کوئی بڑا اردو داں ہوں ،نہ کوئی بڑا لکھاری اور نہ ہی کوئی بڑا مترجم ۔ مجھے ذخیرہ الفاظ کی کم مائیگی ہونے کا بھی احساس ہے بہرحال اپنے تئیں جتنی کوشش کر سکتا تھا کہ روانی اور سلاست کے ساتھ ترجمہ کروں نہ کہ لفظ با لفظ ،وہ میں نے کی ۔ پھر جہاں جہاں مجھے معلومات پرانی اور فرسودہ نظر آئیں ان کو بھی اپ ڈیٹ کردیا اور جہاں جہاں معلومات پر شک ہوا اس کی بھی تحقیق کی۔ انگلش الفاظ کا ترجمہ کے لئے میں نے www۔urduenglishdictionary۔org کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔
اس کے شروع کے پانچ ابواب کی ادارت جناب علیم احمد صاحب مدیر اعلیٰ "ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی " نے کی ہے ۔ ان سے مزید ابواب کی ادارت کی فرمائش کی ہے اگر انہوں نے اپنی گوں نا گوں مصروفیات سے وقت نکال لیا اور باقی بچے ہوئے ابواب کی بھی ادارت فرما دی تو میں ان کے تصحیح شدہ ابواب ہی پوسٹ کروں گا ورنہ ایسے ہی پوسٹ کر دوں گا ۔
اس پروگرام کی آٹھ اقساط ٢٥ اپریل ٢٠١٠ء سے لے کر ٢٤ مئی ٢٠١٠ء تک نشر ہوئی تھیں۔ ان مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ قوسین میں دیے گئے انگریزی کے نام اصل پروگرام کے عنوان ہیں:
1.بگ بینگ(Big Bang)
2.بلیک ہولز (Black Holes)
3.ملکی وے کہکشاں اور دوسری کہکشائیں (Alien Galaxies)
4.سورج اور دور دراز کے تارے (Extreme Stars)
5.سپرنووا (Supernovas)
6.کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے(Extreme Planets)
7.نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی(Alien Solar Systems)
8.چندا ماما اور ماورائے ارض چاند (Alien Moons)
ہر باب دو سے تین حصّوں میں پوسٹ کروں گا ۔ اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہیے گا ۔ نوٹ یہاں پر میں تصاویر کو شامل نہیں کررہا کیونکہ ان کی فائلوں کا حجم کافی زیادہ ہے۔ اور پھر مجھے یہاں پر ان کی فورمٹنگ بھی کرنی نہیں آرہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگ بینگ - Big Bang(انفجار عظیم یا دھماکہ عظیم) - حصّہ اوّل
How The Universe Works – Season 1, Episode 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات میں ارب ہا ارب کہکشائیں(Galaxies)موجود ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کائنات ہمارے تصور سے بھی زیادہ وسیع ہے۔اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال کلبلاتا ہے کہ یہ اتنی بڑی اور ہمہ دم وسعت پذیر کائنات کب اور کیسے وجود میں آئی؟ سائنس دانوں کے مطابق آج سے لگ بھگ ١٤ ارب سال پہلے کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ ماہرین فلکیات کی تحقیق و مطالعے کے مطابق، کائنات کی ابتداء آج سے تقریباً ۱۳ ارب ۸۰ کروڑ سال پہلے ہوئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ زمان و مکان (Time and Space) کا آغاز بگ بینگ (انفجار عظیم یا زبردست دھماکے) سے ہوا تھا۔ ہم اس باب میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی۔ہمارا یہ سفر، زمان و مکان کے راستے سے ہوتا ہوا، ابتدائے کائنات سے شروع ہوکر اس کے انجام تک پہنچے گا۔ تو آئیے، اس عظیم الشان سفر کی ابتداء کرتے ہیں۔
کرۂ ارض ہماری دنیا ہے۔ شہر، جنگل، سمندر اور لوگ، غرض ہر وہ چیز جو اس دنیا اور کائنات میں موجود ہے، اسی مادّے سے بنی ہے جو بگ بینگ کے ابتدائی چند سیکنڈوں میں تخلیق ہوگیا تھا۔ ہر ستارہ، ہر سیارہ، گھاس کا ہر پتّا، پانی کی ہر اِک بوند، ہر ایک جوہر، یہ سب کے سب اسی مادّے سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہائیڈروجن کے وہ ایٹم جو کائنات میں بکثرت پائے جاتے ہیں، ان کے مرکزے بھی بگ بینگ کے چند لمحوں بعد ہی وجود میں آگئے تھے ۔ بگ بینگ، کائنات کی پیدائش کا، اس عظیم الشان کارخانہ قدرت کی ابتداء کا معیّن واقعہ ہے۔ ہمارا ما ضی، حال اور مستقبل، سب کچھ اسی ایک اہم واقعے میں قید ہیں۔ لیکن یہ سب جاننے کے لئے ہمیں بہت دُورکا سفر کرنا ہوگا… ہمیں نظام شمسی کے پار، اپنی کہکشاں مِلکی وے (Milky Way) سے بھی بہت آگے جانا ہوگا۔
جب ہم خلاء میں دیکھتے ہیں تو دراصل ہم ما ضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ خلاء میں بہت دُور تک دیکھنے پر ہم اس قابل ہوتے ہیں کے زمانے کی، اس زمان و مکان کی، اس کائنات کی ابتداء کو دیکھ سکیں۔ پہلی نوزائیدہ کہکشاں اور اس میں موجود پہلے ستارے کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے، ہم کائنات کے بالکل ابتدائی دور میں آچکے ہیں۔
بگ بینگ اس وقت سائنس کی سب سے بڑی پہیلی ہے۔ دراصل ہم جاننا چاہتے ہیں کے بگ بینگ کے موقعے پر کیا ہوا ، کیسے ہوا ، اور کیوں ہوا تھا ؟ اور اس سے پہلے کیا تھا… اگر ہم واقعی جان سکیں۔ ان سب سوالوں کے جوابوں کے لئے سائنس داں ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بڑی بڑی عظیم الجثہ مشینیں اور طاقتور دوربینیں بنائیں، تاکہ وہ ان تمام حالات کی نقل کر سکیں کہ جب کائنات اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی؛ ان لمحوں کی باقیات دیکھ سکیں کہ جب ایک ننھی سی کائنات میں ہنگامہ بپا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اس حقیقت سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں کہ آخر ہم یہاں کیوں ہیں؛ اور کہاں سے آئے ہیں ۔کیا واقعی کائنات کا کوئی نقطہ آغاز تھا ؟ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اگر ہم نے ان سوالات کےمکمل جوابات حاصل کرلئے، تو یہ انسانیت کی سب سے شاندار فتح ہوگی۔ شاید تب ہم یہ جان سکیں کے خدا نے اسے کیوں تخلیق کیا ہے۔ بگ بینگ کی ابتداء ایک سربستہ راز ہے؛ اور جیسے جیسے ہمارا علم بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے یہ راز اور بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ سرِدست ہم پورے وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہماری کائنات ایک منفرد جگہ ہے۔ شاید ہماری کائنات، کئی دوسری کائناتوں میں سے ایک ہو۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بگ بینگ جس کے نتیجے میں ہماری کائنات ظہور پذیر ہوئی، وہ دوسرے کئی ‘‘بگ بینگوں’’ میں سے کوئی ایک ہو۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بگ بینگ تو ایک ہی رہا ہو مگر اس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی لاتعداد کائناتوں میں سے ایک، ہماری کائنات بھی ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کے ان لاتعداد کائناتوں میں کچھ جگہیں ایسی بھی ہوں جہاں اب بھی بگ بینگ وقوع پذیر ہورہا ہو؛ وہ کائناتیں ابھی اپنی ابتداء اور تخلیق کے مراحل ہی طے کررہی ہوں۔ لیکن فی الحال تو ہم صرف اپنی کائنات کے بارے میں ہی بات کر سکتے ہیں؛ اگرچہ اسے سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بقول آئن اسٹائن: ‘‘کائنات کی سب سے ناقابلِ فہم بات یہی ہے کہ یہ قابلِ فہم ہے۔’’
١٩٢٠ء کی دہائی کے اختتام سے ذرا پہلے تک جو کچھ ہم کائنات سے متعلق جانتے تھے، اس عشرے کے اختتام پر وہ سب کچھ بالکل تبدیل ہوکر رہ گیا۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پچھلی یعنی بیسویں صدی میں کائنات سے متعلق ہماری سوجھ بوجھ کس حد تک بدل گئی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہم سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی اور سا کن ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے، اور ایسی ہی ہے جیسی کہ یہ ہے۔ لیکن ۱۹۲۹ء میں یہ سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں مشہور زمانہ ماؤنٹ ولسن رصد گاہ (Mount Wilson Observatory) واقع ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ۱۹۲۹ء میں ماہر فلکیات ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) نے دریافت کیا کہ کائنات صرف ہماری کہکشاں، ملکی وے پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں ان گنت کہکشائیں ہیں۔ ان میں سے کوئی کہکشاں بھی اپنی جگہ پر ساکن نہیں۔ اس کے برعکس، کہکشائیں نہ صرف مسلسل تیزی سے حرکت کررہی ہیں بلکہ وہ نا قابل یقین رفتار کے ساتھ ہماری زمین سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔ دراصل یہ بگ بینگ سے متعلق پہلی شہادت تھی۔ اوسطاً تمام کہکشائیں ہم سے دور بھاگ رہی ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ جو کہکشاں ہم سے جتنی زیادہ دور ہے وہ اتنی زیادہ تیزی سے ہم سے اور دُور ہوتی جارہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہکشاں ہم سے دگنے فاصلے پر ہے تو وہ دگنی رفتار سے مزید دور ہورہی ہے؛ اور اگر تین گنا فاصلے پر ہے تو تین گنا رفتار سے دور بھاگتی جارہی ہے… علیٰ ہٰذالقیاس۔ ہر چیز ہم سے دور بھاگ رہی ہے، آج ہم اس کُلئے کو ‘‘ ہبل کے قانون’’ (Hubble’s Law)کے نام سے جانتے ہیں۔
مگر ہبل کی یہ دریافت تو صرف ابتداء تھی۔ کہکشاؤں کے حرکت سے ہبل نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی کے کسی موقعے پر یہ ساری کی ساری کائنات یقیناً کسی ایک جگہ پر، یکجا ضرور رہی ہوگی۔ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار سے ماہرین فلکیات نے اندازہ لگایا کہ یہ تمام کا تمام مادّہ کب، آج سے کتنا عرصہ پہلے، یکجا رہا ہوگا۔
اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کائنات کی پیدائش کے وقت موجود ہی نہیں تھے تو ہمیں کیسے پتا چلا کہ کائنات کی عمر ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال کے لگ بھگ ہے۔ اس بات کو ہم ایک سادہ مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ہم جب کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم اسے روکنے (Stop) اور پیچھے (Rewind) کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ ہم اسے دوبارہ بھی چلا سکتے ہیں۔ کونیات میں بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم کونیاتی دھماکے کی بات کرتے ہیں تو یہ ویڈیو والی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ ماضی میں جھانکنے کے لئے ماہر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب آپ نگاہ اٹھا کر آسمان میں رات کو ستارے دیکھتے ہیں تو دراصل ان کی روشنی آپ تک کروڑوں نوری سال(Light Year) کا فاصلہ طے کر کے پہنچ رہی ہوتی ہے۔اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ان ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لئے کروڑوں سال درکار ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اور بھی دور تک دیکھنے کے قابل ہوجائیں، تو دراصل آپ اور بھی پرانی، اور بھی زیادہ قدیم کائنات کا نظارہ کررہے ہوں گے۔ کائنات کی گہرائی میں دیکھتے چلے جائیے، اور ہوتے ہوتے ایک مقام وہ بھی آئے گا جو ہم سے اربوں نوری سال دور ہوگا؛ اور وہاں آپ اس کائنات کو اس کے اوّلین وقت میں دیکھ سکیں گے۔ ہبل خلائی دوربین کے ذریعے (جسے ایڈوِن ہبل کی خدمات کے اعتراف میں یہ نام دیا گیا ہے) ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ خلائے بسیط میں، کائناتی ماضی کے جھروکوں میں جھانک سکیں (ملاحظہ کیجئے: تصویر نمبر۲)۔خلاء میں ہم جتنا زیادہ دور تک دیکھ سکیں، ہم اتنا ہی قریب سے بگ بینگ کوبھی دیکھ سکیں گے۔ سائنس دانوں کے لئے بگ بینگ کی ابتداء کو دیکھنا تو بس ابتدائے عشق جیسا معاملہ ہے!
عام آدمی جب بگ بینگ کے بارے میں سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ یہ کس جگہ وقوع پذیر ہوا تھا؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ یہ ہر جگہ وقوع پذیر ہوا تھا،کیونکہ کائنات اس وقت انتہائی مختصرسی جگہ تھی۔ کائنات کے متعلق ابھی ہمارا نظریہ بہت مبہم اور مشکل ہے۔ مگردماغ کی چولیں ہلا دینے والاسوال تو یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ قدیم زمانے کے اہلِ علم اکثر یہ کہتے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز عدم (Nothingness) سے اچانک وجود میں آ جائے! حیرت انگیز طور پر، قوانینِ طبیعیات کی روشنی میں ایسا ہونا بالکل ممکن ہے۔سیدھے لفظوں میں بات یہ ہے کہ ہماری پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شئے بشمول کھاناپینا،او ڑھنابچھونا، ہماری عزیز ترین چیزیں وغیرہ، سب کی سب اچانک عدم سے وجود میں آگئیں۔ آج بگ بینگ کو سمجھنے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ کائنات کا عدم سے وجود میں آنا ہی ہے۔
سال گزشتہ بقراعید کی پانچ چٹھیاں آ رہی تھیں ۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنی چھٹیوں میں کیا کروں گا لہٰذا بیگم کے ساتھ سی ڈ ی کی دکان پر کچھ موویز لینے چلا گیا ۔ وہاں پر ڈسکوری چینل کے پروگرام کی سی ڈ ی “How The Universe Works” نظر آ گئی۔ پہلی ہی قسط دیکھ کر مزہ آگیا کیونکہ یہ پروگرام ہائی ڈیفی نیشن ویڈیو (High Definition Video)میں ریکارڈڈ تھا ۔ پروگرام دیکھتے وقت خیال آیا کہ اگر یہ پروگرام اردو میں ہوتا تو زیادہ مزہ آتا۔ اگرچہ فلکیات سے متعلق کچھ پروگرام نیشنل جیوگرافک چینل انڈیا(National Geographic Channel – India) پر میں ہندی میں تو دیکھ چکا ہوں مگر یہ پروگرام مجھے ہندی زبان میں انٹرنیٹ پر بھی نہیں مل سکا۔ لہٰذا وقت گزاری کے لئے اس کا اردو ترجمہ شروع کیا۔ شروع میں سوچا کہ سب ٹائٹل (Subtitle)کی شکل میں اس کا ترجمہ کروں پھر خیال آیا کیوں نہ مضمون کی شکل میں کیا جائے اور انٹرنیٹ پر کسی بلاگ(Blog) پر اپلوڈ(Upload) کر دوں تاکہ فلکیات میں دلچسپی لینے والے بھی اس کو پڑھ سکیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ کبھی اردو ٹائپ نہیں کی تھی نہ ہی ان پیج(Inpage) چلانا آتا تھا۔ گوگل مترجم (Google Translator) ایک دفعہ استعمال کیا تھا اور اس میں موجود فونیٹک کی بورڈ(Google Phonetic) اردو لکھنے کے لئے شروع میں استعمال کیا مگر اس کا استعمال کافی مشکل تھا۔ پھر گوگل ڈاکس(Google docs) کا استعمال کیا اور ٦ اقساط اسی میں فونیٹک کی بورڈ کی مدد سے ٹائپ کیں۔ گوگل ڈاکس کے لئے ہر وقت آن لائن رہنا ضروری تھا ۔ اگر انٹرنیٹ دستیاب نہ ہو تو پھر کچھ کام نہیں ہو سکتا تھا ۔لہٰذا گوگل پر اردو آف لائن ٹائپنگ ٹول تلاش کیا اور یوں گوگل ان پٹ میتھڈ ایڈیٹر (Google Input Method – IME)سے روشنائی ہوئی اور اس نے زندگی کافی آسان کردی۔ پہلی قسط ترجمہ کرنے میں مجھے کوئی ١٢ دن لگے مگر گوگل کے اس ارود ٹول سے آخری قسط صرف دو دنوں میں مکمل ہوئی۔
اگرچہ ترجمہ کرنے کی یہ میری زندگی کی پہلی کاوش تھی (جبکہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ کرنے کی پہلی کوشش میچو کاکو کی "ناممکنات کی طبیعیات " ہے ) اور میں جانتا ہوں کہ نہ میں کوئی بڑا اردو داں ہوں ،نہ کوئی بڑا لکھاری اور نہ ہی کوئی بڑا مترجم ۔ مجھے ذخیرہ الفاظ کی کم مائیگی ہونے کا بھی احساس ہے بہرحال اپنے تئیں جتنی کوشش کر سکتا تھا کہ روانی اور سلاست کے ساتھ ترجمہ کروں نہ کہ لفظ با لفظ ،وہ میں نے کی ۔ پھر جہاں جہاں مجھے معلومات پرانی اور فرسودہ نظر آئیں ان کو بھی اپ ڈیٹ کردیا اور جہاں جہاں معلومات پر شک ہوا اس کی بھی تحقیق کی۔ انگلش الفاظ کا ترجمہ کے لئے میں نے www۔urduenglishdictionary۔org کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔
اس کے شروع کے پانچ ابواب کی ادارت جناب علیم احمد صاحب مدیر اعلیٰ "ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی " نے کی ہے ۔ ان سے مزید ابواب کی ادارت کی فرمائش کی ہے اگر انہوں نے اپنی گوں نا گوں مصروفیات سے وقت نکال لیا اور باقی بچے ہوئے ابواب کی بھی ادارت فرما دی تو میں ان کے تصحیح شدہ ابواب ہی پوسٹ کروں گا ورنہ ایسے ہی پوسٹ کر دوں گا ۔
اس پروگرام کی آٹھ اقساط ٢٥ اپریل ٢٠١٠ء سے لے کر ٢٤ مئی ٢٠١٠ء تک نشر ہوئی تھیں۔ ان مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ قوسین میں دیے گئے انگریزی کے نام اصل پروگرام کے عنوان ہیں:
1.بگ بینگ(Big Bang)
2.بلیک ہولز (Black Holes)
3.ملکی وے کہکشاں اور دوسری کہکشائیں (Alien Galaxies)
4.سورج اور دور دراز کے تارے (Extreme Stars)
5.سپرنووا (Supernovas)
6.کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے(Extreme Planets)
7.نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی(Alien Solar Systems)
8.چندا ماما اور ماورائے ارض چاند (Alien Moons)
ہر باب دو سے تین حصّوں میں پوسٹ کروں گا ۔ اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہیے گا ۔ نوٹ یہاں پر میں تصاویر کو شامل نہیں کررہا کیونکہ ان کی فائلوں کا حجم کافی زیادہ ہے۔ اور پھر مجھے یہاں پر ان کی فورمٹنگ بھی کرنی نہیں آرہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگ بینگ - Big Bang(انفجار عظیم یا دھماکہ عظیم) - حصّہ اوّل
How The Universe Works – Season 1, Episode 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات میں ارب ہا ارب کہکشائیں(Galaxies)موجود ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کائنات ہمارے تصور سے بھی زیادہ وسیع ہے۔اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال کلبلاتا ہے کہ یہ اتنی بڑی اور ہمہ دم وسعت پذیر کائنات کب اور کیسے وجود میں آئی؟ سائنس دانوں کے مطابق آج سے لگ بھگ ١٤ ارب سال پہلے کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ ماہرین فلکیات کی تحقیق و مطالعے کے مطابق، کائنات کی ابتداء آج سے تقریباً ۱۳ ارب ۸۰ کروڑ سال پہلے ہوئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ زمان و مکان (Time and Space) کا آغاز بگ بینگ (انفجار عظیم یا زبردست دھماکے) سے ہوا تھا۔ ہم اس باب میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی۔ہمارا یہ سفر، زمان و مکان کے راستے سے ہوتا ہوا، ابتدائے کائنات سے شروع ہوکر اس کے انجام تک پہنچے گا۔ تو آئیے، اس عظیم الشان سفر کی ابتداء کرتے ہیں۔
کرۂ ارض ہماری دنیا ہے۔ شہر، جنگل، سمندر اور لوگ، غرض ہر وہ چیز جو اس دنیا اور کائنات میں موجود ہے، اسی مادّے سے بنی ہے جو بگ بینگ کے ابتدائی چند سیکنڈوں میں تخلیق ہوگیا تھا۔ ہر ستارہ، ہر سیارہ، گھاس کا ہر پتّا، پانی کی ہر اِک بوند، ہر ایک جوہر، یہ سب کے سب اسی مادّے سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہائیڈروجن کے وہ ایٹم جو کائنات میں بکثرت پائے جاتے ہیں، ان کے مرکزے بھی بگ بینگ کے چند لمحوں بعد ہی وجود میں آگئے تھے ۔ بگ بینگ، کائنات کی پیدائش کا، اس عظیم الشان کارخانہ قدرت کی ابتداء کا معیّن واقعہ ہے۔ ہمارا ما ضی، حال اور مستقبل، سب کچھ اسی ایک اہم واقعے میں قید ہیں۔ لیکن یہ سب جاننے کے لئے ہمیں بہت دُورکا سفر کرنا ہوگا… ہمیں نظام شمسی کے پار، اپنی کہکشاں مِلکی وے (Milky Way) سے بھی بہت آگے جانا ہوگا۔
جب ہم خلاء میں دیکھتے ہیں تو دراصل ہم ما ضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ خلاء میں بہت دُور تک دیکھنے پر ہم اس قابل ہوتے ہیں کے زمانے کی، اس زمان و مکان کی، اس کائنات کی ابتداء کو دیکھ سکیں۔ پہلی نوزائیدہ کہکشاں اور اس میں موجود پہلے ستارے کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے، ہم کائنات کے بالکل ابتدائی دور میں آچکے ہیں۔
بگ بینگ اس وقت سائنس کی سب سے بڑی پہیلی ہے۔ دراصل ہم جاننا چاہتے ہیں کے بگ بینگ کے موقعے پر کیا ہوا ، کیسے ہوا ، اور کیوں ہوا تھا ؟ اور اس سے پہلے کیا تھا… اگر ہم واقعی جان سکیں۔ ان سب سوالوں کے جوابوں کے لئے سائنس داں ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بڑی بڑی عظیم الجثہ مشینیں اور طاقتور دوربینیں بنائیں، تاکہ وہ ان تمام حالات کی نقل کر سکیں کہ جب کائنات اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی؛ ان لمحوں کی باقیات دیکھ سکیں کہ جب ایک ننھی سی کائنات میں ہنگامہ بپا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اس حقیقت سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں کہ آخر ہم یہاں کیوں ہیں؛ اور کہاں سے آئے ہیں ۔کیا واقعی کائنات کا کوئی نقطہ آغاز تھا ؟ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اگر ہم نے ان سوالات کےمکمل جوابات حاصل کرلئے، تو یہ انسانیت کی سب سے شاندار فتح ہوگی۔ شاید تب ہم یہ جان سکیں کے خدا نے اسے کیوں تخلیق کیا ہے۔ بگ بینگ کی ابتداء ایک سربستہ راز ہے؛ اور جیسے جیسے ہمارا علم بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے یہ راز اور بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ سرِدست ہم پورے وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہماری کائنات ایک منفرد جگہ ہے۔ شاید ہماری کائنات، کئی دوسری کائناتوں میں سے ایک ہو۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بگ بینگ جس کے نتیجے میں ہماری کائنات ظہور پذیر ہوئی، وہ دوسرے کئی ‘‘بگ بینگوں’’ میں سے کوئی ایک ہو۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بگ بینگ تو ایک ہی رہا ہو مگر اس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی لاتعداد کائناتوں میں سے ایک، ہماری کائنات بھی ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کے ان لاتعداد کائناتوں میں کچھ جگہیں ایسی بھی ہوں جہاں اب بھی بگ بینگ وقوع پذیر ہورہا ہو؛ وہ کائناتیں ابھی اپنی ابتداء اور تخلیق کے مراحل ہی طے کررہی ہوں۔ لیکن فی الحال تو ہم صرف اپنی کائنات کے بارے میں ہی بات کر سکتے ہیں؛ اگرچہ اسے سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بقول آئن اسٹائن: ‘‘کائنات کی سب سے ناقابلِ فہم بات یہی ہے کہ یہ قابلِ فہم ہے۔’’
١٩٢٠ء کی دہائی کے اختتام سے ذرا پہلے تک جو کچھ ہم کائنات سے متعلق جانتے تھے، اس عشرے کے اختتام پر وہ سب کچھ بالکل تبدیل ہوکر رہ گیا۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پچھلی یعنی بیسویں صدی میں کائنات سے متعلق ہماری سوجھ بوجھ کس حد تک بدل گئی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہم سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی اور سا کن ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے، اور ایسی ہی ہے جیسی کہ یہ ہے۔ لیکن ۱۹۲۹ء میں یہ سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں مشہور زمانہ ماؤنٹ ولسن رصد گاہ (Mount Wilson Observatory) واقع ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ۱۹۲۹ء میں ماہر فلکیات ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) نے دریافت کیا کہ کائنات صرف ہماری کہکشاں، ملکی وے پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں ان گنت کہکشائیں ہیں۔ ان میں سے کوئی کہکشاں بھی اپنی جگہ پر ساکن نہیں۔ اس کے برعکس، کہکشائیں نہ صرف مسلسل تیزی سے حرکت کررہی ہیں بلکہ وہ نا قابل یقین رفتار کے ساتھ ہماری زمین سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔ دراصل یہ بگ بینگ سے متعلق پہلی شہادت تھی۔ اوسطاً تمام کہکشائیں ہم سے دور بھاگ رہی ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ جو کہکشاں ہم سے جتنی زیادہ دور ہے وہ اتنی زیادہ تیزی سے ہم سے اور دُور ہوتی جارہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہکشاں ہم سے دگنے فاصلے پر ہے تو وہ دگنی رفتار سے مزید دور ہورہی ہے؛ اور اگر تین گنا فاصلے پر ہے تو تین گنا رفتار سے دور بھاگتی جارہی ہے… علیٰ ہٰذالقیاس۔ ہر چیز ہم سے دور بھاگ رہی ہے، آج ہم اس کُلئے کو ‘‘ ہبل کے قانون’’ (Hubble’s Law)کے نام سے جانتے ہیں۔
مگر ہبل کی یہ دریافت تو صرف ابتداء تھی۔ کہکشاؤں کے حرکت سے ہبل نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی کے کسی موقعے پر یہ ساری کی ساری کائنات یقیناً کسی ایک جگہ پر، یکجا ضرور رہی ہوگی۔ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار سے ماہرین فلکیات نے اندازہ لگایا کہ یہ تمام کا تمام مادّہ کب، آج سے کتنا عرصہ پہلے، یکجا رہا ہوگا۔
اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم کائنات کی پیدائش کے وقت موجود ہی نہیں تھے تو ہمیں کیسے پتا چلا کہ کائنات کی عمر ۱۳ اَرب ۸۰ کروڑ سال کے لگ بھگ ہے۔ اس بات کو ہم ایک سادہ مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ہم جب کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم اسے روکنے (Stop) اور پیچھے (Rewind) کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ ہم اسے دوبارہ بھی چلا سکتے ہیں۔ کونیات میں بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم کونیاتی دھماکے کی بات کرتے ہیں تو یہ ویڈیو والی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ ماضی میں جھانکنے کے لئے ماہر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب آپ نگاہ اٹھا کر آسمان میں رات کو ستارے دیکھتے ہیں تو دراصل ان کی روشنی آپ تک کروڑوں نوری سال(Light Year) کا فاصلہ طے کر کے پہنچ رہی ہوتی ہے۔اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ان ستاروں کی روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لئے کروڑوں سال درکار ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اور بھی دور تک دیکھنے کے قابل ہوجائیں، تو دراصل آپ اور بھی پرانی، اور بھی زیادہ قدیم کائنات کا نظارہ کررہے ہوں گے۔ کائنات کی گہرائی میں دیکھتے چلے جائیے، اور ہوتے ہوتے ایک مقام وہ بھی آئے گا جو ہم سے اربوں نوری سال دور ہوگا؛ اور وہاں آپ اس کائنات کو اس کے اوّلین وقت میں دیکھ سکیں گے۔ ہبل خلائی دوربین کے ذریعے (جسے ایڈوِن ہبل کی خدمات کے اعتراف میں یہ نام دیا گیا ہے) ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ خلائے بسیط میں، کائناتی ماضی کے جھروکوں میں جھانک سکیں (ملاحظہ کیجئے: تصویر نمبر۲)۔خلاء میں ہم جتنا زیادہ دور تک دیکھ سکیں، ہم اتنا ہی قریب سے بگ بینگ کوبھی دیکھ سکیں گے۔ سائنس دانوں کے لئے بگ بینگ کی ابتداء کو دیکھنا تو بس ابتدائے عشق جیسا معاملہ ہے!
عام آدمی جب بگ بینگ کے بارے میں سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ یہ کس جگہ وقوع پذیر ہوا تھا؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ یہ ہر جگہ وقوع پذیر ہوا تھا،کیونکہ کائنات اس وقت انتہائی مختصرسی جگہ تھی۔ کائنات کے متعلق ابھی ہمارا نظریہ بہت مبہم اور مشکل ہے۔ مگردماغ کی چولیں ہلا دینے والاسوال تو یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ قدیم زمانے کے اہلِ علم اکثر یہ کہتے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز عدم (Nothingness) سے اچانک وجود میں آ جائے! حیرت انگیز طور پر، قوانینِ طبیعیات کی روشنی میں ایسا ہونا بالکل ممکن ہے۔سیدھے لفظوں میں بات یہ ہے کہ ہماری پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شئے بشمول کھاناپینا،او ڑھنابچھونا، ہماری عزیز ترین چیزیں وغیرہ، سب کی سب اچانک عدم سے وجود میں آگئیں۔ آج بگ بینگ کو سمجھنے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ کائنات کا عدم سے وجود میں آنا ہی ہے۔