باب 2
سیارہ زمین
سیارہ زمین پر پتھریلا خول ہے جسے لیتھو سفیئر کہتے ہیں، آتش فشانی چٹانوں پر مشتمل ہے جن میں گرینائٹ یعنی سنگِ خارا اور بسالٹ یعنی مرمر سیاہ اور دیگر رسوبی چٹانیں اس کی بالائی تہہ بناتی ہیں۔ زمین کی بالائی سطح اصل میں آتش فشانی چٹانوں سے بنی ہے جبکہ رسوبی چٹانیں بعد میں پانی کی وجہ سے جمع ہوئیں۔
زمین کی اندرونی ساخت کا زیادہ علم نہیں۔ سائزمک یعنی بھونچالی لہروں کے مشاہدے سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ زمین کی بیرونی تہہ 2٫000 میل سے زیادہ موٹی ہے جبکہ پہاڑوں کے حجم کی بنیاد پر لگائے گئے اندازوں کے مطابق یہ موٹائی محض 60 میل ہے۔
بیرونی تہہ میں لوہے کی موجودگی ہو یا مرکزے سے اوپر اس تہہ تک آنے والی بھاری دھاتیں، ان کی درست طور پر وضاحت نہیں دی جا سکی۔ مرکزے سے نکلنے والی دھاتیں ظاہر ہے کہ دھماکے سے خارج ہوئی ہوں گی تاکہ وہ بیرونی تہہ میں پھیل سکیں اور دھماکے کے فوراً بعد ہی وہ ٹھنڈی ہو گئی ہوں گی۔
سحابی اور مدوجزر نظریے کے مطابق اگر ابتدا میں سیارہ مختلف عناصر کا گرم ملغوبہ ہوتاتو اس میں موجود لوہا عملِ تکسید کا شکار ہو جاتا اور تمام تر دستیاب آکسیجن اس پر لگ جاتی۔ مگر نامعلوم وجوہات پر ایسا نہ ہو سکا اور اس لیے فضا میں موجود آکسیجن کی موجودگی ناقابلِ وضاحت ہے۔
سمندری پانی میں عام نمک یعنی سوڈیم کلورائیڈ کی بہت بڑی مقدار موجود ہے
سوڈیم تو شاید چٹانوں سے بارش کے ساتھ بہہ کر آئی ہو مگر کلورین تو چٹانوں میں نہیں پائی جاتی اور جتنی مقدار میں نمک سمندری پانی میں موجود ہے، وہ چٹانوں میں موجود کلورین کی مقدار سے 50 گنا زیادہ ہے۔
گہرائی میں موجود آتش فشانی چٹانی تہوں میں کوئی رکازات نہیں ملے۔ تاہم رسوبی چٹانوں میں مقید بحری اور زمینی جانوروں کے خول تہہ در تہہ ملتے ہیں۔ بہت جگہوں پر آتش فشانی چٹانیں رسوبی چٹانوں میں گھسی دکھائی دیتی ہیں یعنی زمین پر حیات کے ظہور کے بعد بھی یہ چٹانیں پگھلتی اور پھیلتی رہی تھیں۔
جن تہوں پر حیات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ان کے اوپر جانداروں کے خول اور رکاز ملتے ہیں جن کی تعداد بعض اوقات اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ تقریباً پوری چٹان ہی انہی سے بنتی تھی۔ اکثر یہ سخت ترین چٹانوں میں ملتے ہیں۔ زیادہ بلند تہوں پر خشکی کے جانوروں کے ڈھانچے ملتے ہیں جن کی اکثریت اب ناپید ہو چکی ہے اور بہت مرتبہ ان تہوں کے اوپر کی تہوں میں آبی جانوروں کے ڈھانچے ملتے ہیں۔
جانوروں کی انواع اور ان کے جینرا تہوں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تہیں ترچھی ہوتی ہیں تو بعض اوقات بالکل عمودی بھی ہو جاتی ہیں اور کئی مرتبہ تو ٹوٹ پھوٹ کے بعد الٹی بھی ہو گئی ہوتی ہیں۔
کوویئے (1769–1832) فقاریہ جانوروں کے رکازات کا ماہر تھا جو مچھلی سے انسان تک مشتمل ہوتے ہیں، یہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا تھا کہ کیسے حیات کی تصاویر اس طرح ترتیب سے زمین کے اندر محفوظ ہیں۔
‘جب مسافر ان زرخیز علاقوں سے گزرتا ہے کہ جہاں سے آہستگی سے ندیاں بہہ رہی ہوں اور سبزے کی بہتات ہو اور جہاں بکثرت آبادیاں بھی پائی جاتی ہوں، دیہات، قصبے، شہر، جہاں جنگ کے سوا کبھی کوئی تباہ نہ دکھائی دی ہو، تو اسے اس بات کا احساس نہیں ہو پاتا کہ فطرت نے اپنے اندر کیسی کیسی تباہیاں چھپائی ہوئی ہیں اور کس طرح زمین کی سطح مختلف انقلابات اور آفتوں کا شکار ہو چکی ہے۔ تاہم جب پرسکون دکھائی دینے والی زمین کو کھدائی کرتے ہی اس کے نظریات بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘ کوویئے نے سوچا کہ زمین پر بڑی آفات آئی ہیں اور انہی کی وجہ سے سمندری تہیں براعظم اور براعظم سمندری تہیں بنے ہیں۔ پہلے اس کا خیال تھا کہ ازل سے تمام انواع اور جینرا ویسے ہی آ رہے ہیں مگر زمین کی مختلف گہرائیوں میں پائے جانے والے جانوروں کے مشاہدے سے اس نے دیکھا کہ انہیں کسی بہت بڑی آفت نے ناپید کیا ہوگا اور زندگی کی نئی اقسام کے لیے جگہ خالی کر دی ہوگی۔ تو پھر یہ دوسرے جینرا کہاں سے آئے؟ یا تو وہ نئے پیدا ہوئے یا پھر وہ دنیا کے دوسرے ایسے حصوں سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے کہ جہاں یہ آفات نہیں آئی ہوں گی۔
تاہم اسے ان آفات کی وجہ نہ مل سکی۔ اس نے ان علامات سے جانا کہ ‘ارضیات میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ حل ہونے کا مستحق ہے‘ مگر اسے احساس ہوا کہ ‘اس کا بہتر حل تبھی مل سکتا ہے جب ان واقعات کی وجوہات کو دریافت کیا جائے‘، جو بذاتِ خود ایک اور مسئلہ تھا۔ اس نے ‘بہت ناکام کوششیں‘ دیکھیں اور خود بھی کوئی حل نہ پیش کر سکا۔ ‘رکازات کی تحقیق کے دوران مجھے یہ سوال ہمیشہ ستاتے رہے۔‘ کوویئے کا یہ نظریہ کہ حیات ہمیشہ سے ایسی ہی تھی اور آفات کے نتیجے میں اقسام کا ناپید ہونا، کی حمایت ہمیں ارضیات (لائل) اور حیاتیات (ڈارون) کے علم میں ہونے والی ترقی سے ملتی ہے۔ پہاڑ دراصل سطح مرتفع کے وہ بچے کچھے نشانات ہیں جو پانی اور ہوا کے کٹاؤ اور رگڑ کی وجہ سے باقی بچ گئے ہیں۔ یہ علم بہت سست ہوتا ہے۔ رسوبی چٹانیں دراصل آتش فشانی چٹانوں کا وہ حصہ ہے جو بارش کی وجہ سے الگ ہو کر سمندر تک پہنچتا ہے اور وہاں بتدریج جمع ہوتا ہے۔ ان چٹانوں میں پرندوں اور ارضی جانوروں کے ڈھانچے دراصل ایسے پرندوں اور جانوروں سے متعلق ہیں جو تیرتے تیرتے ساحلوں کے قریب پہنچ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مگر قبل اس کے کہ مچھلیاں انہیں کھا جاتیں یا سمندری لہریں ان کی ہڈیاں بکھیر دیتیں، ان پر تلچھٹ جمع ہوتی گئی۔ اس بتدریج عمل کو متاثر کرنے کے لیے کوئی عالمگیر آفت نہیں آئی۔ ارتقا کا نظریہ جو کہ ارسطو سے شروع ہوتا ہے، کوویئے کے دور میں لامارک اور ڈارون نے پیش کیا تھا اور ایک صدی کے دوران آہستہ آہستہ نیچرل سائنس میں اسے قبولیت ملتی گئی۔
رسوبی چٹانیں اونچے پہاڑوں پائی جاتی ہیں اور سب سے اونچا کوہ ہمالیہ ہے۔ یہاں سمندری جانوروں کے ڈھانچے اور خول بکثرت ملتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شروع میں یہ مچھلیاں ان پہاڑوں کے اوپر تیرتی تھیں۔ پھر یہ پہاڑ کیسے بلند ہوئے؟ اندر سے انہیں دھکیلنے والی کوئی طاقت یا اطراف سے پڑنے والا دباؤ ہی انہیں بلند کرنے کا سبب بنا ہوگا اور سمندر کی تہہ سے یہ پہاڑ ابھرے اور سمندری تہہ براعظم بنی اور پہلے سے موجود خشکی پانی میں ڈوب گئی۔
اگر ہمیں ان قوتوں کا علم نہیں ہے تو ہم پہاڑوں اور براعظموں کی ابتدا کے بارے کچھ نہیں جان سکتے، چاہے وہ نقشے پر کہیں بھی پائے جاتے ہوں۔
اب دیکھیے کہ شمالی امریکہ کا مشرقی ساحل کیسا سوال اٹھاتا ہے۔ ‘جغرافیائی اعتبار سے ماضی قریب میں نیو جرسی سے فلوریڈا کا علاقہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وقت سمندر کی لہریں پرانے اپالاچین پہاڑوں سے ٹکراتی ہوں گی۔ اس سے پہلے جنوب مشرقی پہاڑی علاقہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا اور اس پر ریت اور کیچڑ کی تہہ موٹی ہو رہی تھی۔ فانے کی شکل کی بحری تلچھٹ اوپر اٹھی اور اسے دریاؤں نے کاٹنا شروع کیا اور اس طرح ریاست ہائے متحدہ کا بحرِ اوقیانوس کا ساحل بنا۔ یہ اوپر کو کیوں اٹھا؟ مغربی جانب اپلاچین پہاڑ ہیں۔ ارضیات دان ہمیں اس دباؤ والے وقت کے بارے بتاتے ہیں کہ جب الاباما سے نیوفاؤنڈ لینڈ تک کی چٹانی پٹی اپنے اندر گھسی اور پہاڑی سلسلہ بنایا۔ کیوں؟ ایسا کیسے ہوا؟ پرانے دور میں میکسیکو کے میدانوں سے لے کر الاسکا تک سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ پھر یہ تبدیلی کیسے؟ پہاڑی سلسلے کی پیدائش ہوئی جو کہ ‘ایک اور مسئلہ ہوا کیونکہ پہاڑی سلسلے کی پیدائش ابھی تک نہیں سمجھی جا سکی‘۔ یہ عمل دنیا بھر میں جاری و ساری ہے۔ ہمالیہ سمندر کے نیچے تھا۔ اب یوریشیا بحرالکاہل کی تہہ سے 3 میل اوپر ہے۔ کیوں؟ ‘پہاڑوں کی پیدائش ایک مسئلہ ہے: ان کی اکثریت کی بناوٹ میں دبی ہوئی اور دھکے سے سلوٹ کی مانند پیدا ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ زمین کی بیرونی تہہ سے کئی کلومیٹر گم ہونے چاہیئں۔ گولائی کی شکل میں ہونے والا سکڑاؤ ایسی سلوٹیں پیدا نہیں کر سکتا۔ پہاڑوں کی تشکیل کا یہ مسئلہ اصل اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کو آج تک اس مسئلے کا حل نہیں مل سکا۔‘ درسی کتب کے مصنفین بھی اس ضمن میں اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘بہت پرانے دور کے سمندر کی تہیں آج کیسے اونچے علاقے بن گئے ہیں؟ یہ سوال ابھی تک اطمینان بخش جواب کے منتظر ہیں۔‘
پہاڑوں کے بلند ہونے کا عمل بہت سست اور بتدریج خیال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ آتش فشانی چٹانیں جو کہ پہلے سے ہی ٹھوس ہو چکی ہیں، کو پگھلنا چاہیے تاکہ وہ رسوبی چٹانوں کے اندر گھسنے یا اس کو ڈھانپنے کے قابل ہو سکیں۔ اس عمل کی ابتدا کے بارے کوئی علم نہیں مگر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چیز انسان کی آمد سے بہت پہلے ہوا ہوگا۔ اسی وجہ سے جب بعد کے ذخائر سے اولین انسانوں اور اولین ذخائر سے جدید انسان کی ہڈیوں کے ساتھ ناپید جانوروں کی ہڈیاں ملتی ہیں تو مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات کان کنی کے دوران پہاڑ کی وسط سے انسانی کھوپڑی ملتی ہے جس پر گرینائٹ یا بسالٹ کی بہت موٹی تہہ چڑھی ہوتی ہے، جیسا کہ کالاویراس کھوپڑی کیلیفورنیا سے ملی۔ انسانی باقیات، انسان کے بنائے ہوئے ہڈیوں کے اوزار، چمکدار پتھر یا ٹھیکریاں مٹی یا کنکروں کے بہت بڑے ڈھیر سے نکلتے ہیں جو بعض اوقات سو فٹ اونچے بھی ہو سکتے ہیں۔ مٹی، ریت اور کنکروں کے ڈھیر جو کہ آتش فشانی اور رسوبی چٹانوں پر موجود ہوتے ہیں، ایک اور مسئلہ ہیں۔ آئس ایج یعنی برفانی دور کا نظریہ 1840 میں پیش کیا گیا تاکہ اس اور اس جیسے دیگر مسائل کا حل تجویز کیا جا سکے۔ قطبی دائرے میں سپٹزبرگن جتنے شمال تک کورل ریف یعنی مونگے کی چٹانیں پائی جاتی تھی جبکہ یہ چٹانیں استوائی علاقے میں ہی پائی جاتی ہیں، سپٹزبرگن میں کھجور کے درخت پائے جاتے تھے۔ انٹارکٹیکا کے براعظم میں آج ایک بھی درخت نہیں پایا جاتا جبکہ اس میں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر یہ ثابت کرتے ہیں کہ کبھی یہاں جنگلات پائے جاتے تھے۔ ہمارا سیارہ رازوں سے بھرا پڑا ہے۔ نظامِ شمسی کی ابتداء کو سمجھنے کے لیے کرہ ارض کا مطالعہ ہمارے لیے ہرگز مفید نہیں ثابت ہوا کیونکہ ہمیں لتھو سفیئر، ہائیڈرو سفیئر اور فضا میں ہی بے شمار لاینحل مسائل دکھائی دیے ہیں۔ کیا ہم کبھی ارضیاتی اعتبار سے ماضی قریب کے ہی کچھ اسرار حل کر سکیں گے جو کہ پچھلے گلیشیل دور سے متعلق ہیں؟
برفانی دور
ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ چند ہزار سال قبل یورپ اور شمالی امریکہ کے بہت بڑے علاقوں پر گلیشیر موجود تھے۔ مستقل برف نہ صرف اونچے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر پڑی رہتی تھی بلکہ جمع ہوتے ہوتے بڑے تودوں کی شکل میں معتدل علاقوں تک پہنچ گئی تھی۔ آج جس جگہ ہڈسن، البے اور نیپئر کا بالائی بہاؤ ہے، تب یہ جگہیں یخ بستہ صحرا تھے۔ ان کی شکل گرین لینڈ کے بہت بڑے گلیشیر جیسی تھی۔ اس بات کی شہادتیں بھی ملتی ہیں کہ ان گلیشیروں کے سکڑاؤ کے عمل کو بار بار نئی جمع ہوتی برف سے روکا گیا اور ان کی حدود بدلتی رہیں۔ ماہرینِ ارضیات ان گلیشیروں کی حدود کو تلاش کر سکتے ہیں۔ برف بہت آہستگی سے حرکت کرتی ہے اور اپنے آگے پتھروں کو دھکیلتی جاتی ہے۔ سو جہاں جہاں گلیشیر پگھلے، ان جگہوں پر پتھروں اور کنکروں کے ڈھیر ملتے ہیں۔
برفانی دور میں 5 یا 6 مسلسل گلیشیر ادوار کے ثبوت ملتے ہیں۔ بعض قوتوں نے بار بار برفانی تہوں کو معتدل علاقوں کو دھکیلا۔ نہ تو برفانی دور کی آمد اور نہ ہی اس کی رخصت کی وجوہات کا علم ہے اور ان کی آمد و رخصت کے وقت کا تعین بھی محض اندازوں پر مبنی ہے۔
برفانی ادوار کے آغاز اور ان کے اختتام کے بارے بہت سارے نظریات پیش کیے گئے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بعض کے مطابق سورج سے خارج ہونے والی حرارت وقت کے ساتھ کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے زمین پر گرم اور سرد ادوار آتے ہیں مگر سورج کے ‘متغیر ستارہ‘ ہونے کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔
دیگر نظریات کے مطابق خلا میں سرد اور گرم علاقے پائے جاتے ہیں اور جب ہمارا نظامِ شمسی سرد علاقوں سے گزرتا ہے تو برف خطِ استوا تک پھیل جاتی ہے۔ مگر اس نظریے کی تصدیق میں کوئی طبعی ثبوت نہیں مل سکا۔
بعض کے خیال میں اعتدال (شب و روز کی یکساں طوالت) یا زمین کی محوری گردش میں آنے والی سست تبدیلی کی وجہ سے موسم بدلتا ہے۔ تاہم یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ صرف یہ تبدیلیاں گلیشیر ادوار نہیں پیدا کر سکتیں۔
بعض کے خیال میں زمین کے بیضوی مدار کے انتہائی سرے پر گلیشیر پیدا ہوتے ہیں۔ بعض نے اس مقام پر آنے والی سردیوں تو بعض نے اس مقام پر آنےو الی گرمیوں کو اس چیز کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
بعض محققین نے زمین کے محور کے مقام کی تبدیلی کے بارے بات کی ہے۔ اگر زمین سخت ہے، جیسا کہ یقین کیا جاتا ہے تو اس سارے عرصے میں یہ 3 ڈگری سے زیادہ اپنا مقام نہیں بدل سکتی اور اگر یہ لچکدار ہے تو 10 سے 15 ڈگری منتقل ہو سکتی ہے۔
بعض ماہرین کے خیال میں کرہ ارض کے درجہ حرارت میں ہونے والی کمی برفانی دور کا پیش خیمہ بنی۔ برفانی ادوار کے درمیان آنے والے گرم اوقات کے بارے خیال کیا جاتا تھا کہ وہ زمین کی سطح کے قریب موجود مردہ جانوروں کے گلنے سے وجود میں آئے۔ اس کے علاوہ گرم چشموں کی کمی بیشی پر بھی غور کیا گیا۔
بعض کے خیال میں آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ سے فضا سے سورج کی روشنی گزرنے کی بجائے منعکس ہوتی رہی اور اس کے الٹ یوں کہہ لیں کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اضافی مقدار سے زمین سے حرارت کا فرار ممکن نہ رہا۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی سے درجہ حرارت گرتا مگر محتاط حساب سے پتہ چلتا ہے کہ اکیلی یہ وجہ برفانی دور کا سبب نہیں بن سکتی۔
بحرِ اوقیانوس میں گرم پانی کی رو کے رخ کی تبدیلی پر بھی غور کیا گیا اور پاناما کو سطح سمندر سے نیچے فرض کر کے خلیجی رو کو بحرالکاہل بھیجا گیا مگر یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ برفانی دور سے قبل ہی بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس الگ الگ ہو چکے تھے، ویسے بھی خلیجی رو کا ایک حصہ تو بحرِ اوقیانوس میں ہی رہتا۔ اس کے علاوہ بار بار گلیشیل ادوار کی آمد و رفت سے پاناما کو مسلسل پانی سے اوپر نیچے ہونا پڑتا۔
دیگر نظریات کے اسی طرح کے مفروضوں پر بنائے گئے ہیں مگر ایسے عوامل کا وجود ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا یا پھر ان سے مطلوبہ اثرات پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔
اوپر بیان کیے گئے تمام تر نظریات اور مفروضات اگر ایک اہم ترین شرط کو پورا نہ کر سکیں تو انہیں ناکام سمجھا جائے گا: زیادہ برف گرنے کے لیے زیادہ بارش یا برف کا گرنا ضروری تھا۔ اس کے لیے زیادہ مقدار میں آبی بخارات کا فضا میں جانا ضروری تھا جو بذاتِ خود سمندروں سے زیادہ مقدار میں پانی کے آبی بخارات بننے سے مشروط تھا اور اس چیز کے لیے زیادہ حرارت درکار تھی۔ بہت سے سائنس دانوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حساب بھی لگایا ہے کہ برفانی دور کی برف کی تہہ کی خاطر تمام تر سمندروں سے بہت فٹ جتنا پانی بخارات بننا لازمی ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں پانی کا بخارات بننا اور پھر معتدل علاقوں میں بھی اچانک جمنے کے عمل سے ہی برفانی دور پیدا ہو سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے: کس وجہ سے اتنا زیادہ عملِ تبخیر ہوا اور پھر فوراً بعد جماؤ؟ کس وجہ سے اتنی تیزی سے حرارت اور جماؤ آئے کہ انہوں نے زمین کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا۔ سو فیصلہ کیا گیا کہ ‘موجودہ صورتحال میں اتنی بڑی مقدار میں برف بننے کے عمل کی وضاحت ممکن نہیں اور یہ سوال مستقبل کے ارضیاتی ماہرین کے لیے حل طلب چھوڑا جا رہا ہے۔‘ نہ صرف یہ کہ اتنی بڑی مقدار میں برف کے آنے اور جانے کی وجوہات کا علم نہیں بلکہ جن جغرافیائی علاقوں پر برف موجود تھی، وہ بھی ایک مسئلہ ہیں۔ جنوبی نصف کرے سے برفانی چادر افریقہ کے استوائی علاقوں سے ہوتی ہوئی قطب جنوبی کو پہنچی اور مخالف سمت کو کیوں نہیں گئی اور اسی طرح شمالی نصف کرے میں برف کی چار کا رخ خِط استوا سے انڈیا اور ہمالیہ کے بلند علاقوں کو ہوا؟ برفانی دور کے گلیشیر نے شمالی امریکہ اور یورپ کے بڑے حصے کو کیوں ڈھانپا جبکہ شمالی ایشیا برف سے پاک رہا؟ امریکہ میں برفانی چادر 40 ڈگری عرض بلد سے بھی آگے اور یورپ میں 50 ڈگری تک پہنچی جبکہ شمال مشرقی سائبیریا، قطب شمالی کے اوپر اور 75 ڈگری عرض بلد پر بھی مستقل برف موجود نہیں تھی؟ تمام مفروضہ جات جو سورج میں ہونے والی تبدیلیوں، خلا کے سرد اور گرم علاقوں اور اسی طرح کے دیگر جواز پر مبنی ہیں، اس کا جواب نہیں دے سکتے۔
گلیشیر مستقل برفانی علاقوں میں بنتے ہیں، اسی وجہ سے وہ اونچے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر ہوتے ہیں۔ سائبیریا کا شمال دنیا کا سرد ترین مقام ہے۔ پھر اس جگہ برفانی دور کیوں نہ پہنچا جبکہ اس نے مسی سپی کے علاوہ خطِ استوا سے جنوب کے سارے افریقہ کو جکڑے رکھا تھا؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
میمتھ
شمالی مشرقی سائبیریا برفانی دور میں برف سے پاک رہا، میں ایک اور اسرار چھپا ہے۔ برفانی دور کے بعد بظاہر یہاں کا موسم بہت تیزی سے بدلا ہے اور ہر سال درجہ حرارت پچھلے سال کی نسبت کئی ڈگری کم ہوتا رہا۔ تب یہاں پائے جانے والے جانور اب وہاں نہیں رہتے اور اُس دور کے پودے اب یہاں نہیں اُگ سکتے۔ یہ تبدیلیاں بہت اچانک ہوئیں۔ درجہ حرارت میں ہونے والی یہ تبدیلی جو برفانی دور پر منتج ہو، کی وضاحت نہیں کی جا سکی۔
ماحول کی یہ تباہ کن تبدیلی اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر سائبیریا کے تمام میمتھ مر گئے۔
میمتھ کا تعلق ہاتھیوں کے خاندان سے تھا۔ اس کے بیرونی دانت بعض اوقات دس فٹ طویل ہو جاتے تھے۔ دیگر ہاتھیوں کی نسبت ان کے دانت زیادہ جدید اور زیادہ بھاری ہوتے تھے اور ان کی موت کی وجہ محض ارتقا کی جدوجہد میں ناکامی نہیں ہو سکتی۔ میمتھ کا ناپید ہونا آخری گلیشیل دور کے خاتمے سے منسلک کیا جاتا ہے۔
بہت بڑی تعداد میں میمتھ کے بیرونی دانت شمال مشرقی سائبیریا میں پائے جاتے ہیں۔ سائبیریا پر روس کے قبضے کے بعد سے ہی انتہائی اچھی حالت میں محفوظ شدہ یہ دانت چین اور یورپ برآمد کیے جاتے ہیں اور اس سے قبل بھی ان کو بیچا جاتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہاتھی دانت کا بڑا حصہ شمال مشرقی سائبیریا کے ٹنڈرا سے آتا ہے۔
1799 میں میمتھ کی جمی ہوئی لاشیں ٹنڈرا سے برآمد ہوئیں۔ یہ لاشیں بہت اچھی حالت میں تھیں اور گاڑیاں کھینچنے والے کتوں نے جب ان کا گوشت کھایا تو انہیں کچھ نہیں ہوا۔ ‘ان کا گوشت ریشے والا اور چربیلا تھا‘ اور ‘جمے ہوئے بڑے گوشت کی مانند تازہ‘ تھا۔ کس وجہ سے یہ میمتھ مرے اور ان کی نسل ہی ناپید ہو گئی؟ کاویئے نے میمتھ کے ناپید ہونے پر لکھا: ‘بار بار ہونے والی مداخلت اور سمندروں کی پسپائی نہ تو سست تھی اور نہ ہی بتدریج، بلکہ ان پر آنے والی یہ آفت ناگہانی تھی اور ان آفتوں میں سے آخری کو ثابت کرنا انتہائی سہل ہے کہ پہلے سیلاب ایا اور پھر خشکی جو موجودہ دور کی زمین کے کافی حصے پر محیط تھا۔ شمالی علاقوں میں اس نے چوپایوں کے لاشے چھوڑے جو برف میں دفن ہو گئے جو ہماری دور تک بالکل محفوظ رہے اور ان کی ہڈیاں، ان کا گوشت اور ان کے بال بھی بعینہٖ محفوظ رہے۔ اگر ان کی موت کے فوراً بعد ہی یہ جم نہ گئے ہوتے تو ان کے گلنے کا عمل شروع ہو چکا ہوتا۔ دوسری جانب یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ جگہ پہلے سے ہی یخ بستہ نہیں تھی ورنہ یہ جانور وہاں زندہ نہ رہ پاتے۔ سو یہ بات واضح ہے کہ پہلے یہ جانور مرے اور فوراً بعد ہی اس جگہ کو برف نے ڈھانپ لیا۔
یہ واقعہ اچانک اور لمحاتی تھا اور اس سے پہلے والی آفتیں نسبتاً بتدریج تھیں۔ زمین پر آنے والی متواتر آفتوں سے حیات کے ناپید ہونے اور نئی انواع کی پیدائش کے بارے نظریہ ڈیلک نے پیش کیا اور کاویئے نے اسے ترقی دی، مگر سائنسی دنیا اسے قبول نہ کر سکی۔ کاویئے سے قبل لامارک اور اس کے بعد ڈارون نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ارتقا کا عمل انتہائی سُست اور جین سے منسلک ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی آفت بھی اس طرح کی تبدیلیاں نہیں لا سکتی۔ سو ارتقا کے نظریے کے مطابق یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں اس لیے پیش آئیں کہ جاندار اپنے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنے آپ کی بقا کی خاطر خود کو تبدیل کرتے رہے۔
لامارک اور ڈارون کے نظریات کے مطابق جانوروں میں بتدریج تبدیلیاں آتی ہیں اور دسیوں ہزاروں سال بعد ایک معمولی سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ 18ویں اور 19ویں صدی کے ارضیاتی نظریات کے مطابق ارضیاتی عمل بہت آہستگی سے ہوتے ہیں اور ان کا انحصار بارش، ہوا اور مدوجزر سے ہونے والے کٹاؤ پر ہے۔
ڈارون نے یہ بات تسلیم کی تھی کہ اسے معلوم نہیں میمتھ جیسا بہتر جانور کیسے ناپید ہو گیا جبکہ اس سے کم تر جانور ہاتھی بچ گیا؟ تاہم اس کی حمایت میں ڈارون کے پیروکاروں نے یہ فرض کر لیا کہ بتدریج زمین دھنسنے سے میمتھ کو پہاڑیوں پر منتقل ہونا پڑا اور وہ نئی پیدا ہونے والی دلدلوں کے سبب پہاڑیوں پر پھنس گئے۔ تاہم اگر ارضیاتی عمل آہستگی سے ہوتے ہیں تو میمتھ کبھی بھی اس طرح پہاڑیوں پر نہ پھنستے۔ یہ بات بھی اس نظریے کے خلاف ہے کہ میمتھ خوراک کی کمی سے ناپید نہیں ہوئے۔ ان کے معدوں اور دانتوں میں غیر ہضم شدہ گھاس اور ٹہنیاں پائی گئی ہیں جو میمتھ کی ہلاکت کے مقام سے لگ بھگ 1٫000 میل جنوب میں پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہوتا ہے کہ میمتھ کے ناپید ہونے کے فوراً بعد موسم میں شدید نوعیت کی تبدیلیاں آئیں کیونکہ میمتھ کی لاشیں بالکل بھی خراب نہیں ہوئیں اور برف کے اندر بہترین حالت میں محفوظ رہی ہیں۔ یعنی ان کی موت کے فوراً بعد ہی درجہ حرارت اچانک بہت زیادہ گرا یا پھر ان کی موت کی وجہ ہی درجہ حرارت کی یہ کمی رہی ہو۔
مزید یہ بھی کہ آرکٹک یا قطب شمالی میں میمتھ کے دانت سمندری لہروں سے ساتھ بہہ کر ان جزائر تک پہنچے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس زمین پر میمتھ رہتے تھے اور ڈوبے، اب وہاں بحرِ منجمد شمالی ہے۔
برفانی دور اور انسان کی قدامت
میمتھ انسانی ظہور کے بعد بھی زندہ رہے ہیں۔ قدیم غاروں میں انسان کی بنائی ہوئی تصاویر وسطی یورپ میں ملتی ہیں اور میمتھ کی باقیات بھی وہیں پائی جاتی ہیں۔ پتھر کے دور کے یورپیی انسان کی عارضی قیام گاہوں میں میمتھ کی ہڈیاں بکثرت ملتی ہیں۔ جب یورپ پر برفانی چادر چھا گئی تو انسان نے جنوب کا رخ کیا اور برف کے ہٹنے پر واپس لوٹ گیا۔
قدیم انسان نے موسم میں انتہائی تبدیلیاں دیکھیں۔ سائبیریا کا میمتھ، جس کا گوشت ابھی تک تازہ ہے، کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ (موراویا میں مستقل منجمد مقام پر قدیم انسان کی رہائش کے آثار ملتے ہیں اور وہاں سے 800 سے 1٫000 میمتھ کے ڈھانچے ملے ہیں۔ میمتھ کے کندھے کی ہڈی انسانی قبر کے لیے استعمال ہوتی تھی۔) کہ وہ آخری گلیشیل دور کے اختتام پر ناپید ہوئے اور عین اسی وقت ان کے ساتھ ساتھ الاسکا اور یورپ کے میمتھ بھی ناپید ہوئے۔ اگر یہ بات درست ہے تو سائبیریا کے میمتھ نسبتاً جدید انسان کے ہم عصر رہے ہوں گے۔ جب یورپ میں برفانی چادر کے قریب رہنے والا انسان ابھی پتھر کے دور میں تھا، اس وقت مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ قریب کے انسان دھاتی عہد تک پہنچ چکے تھے۔ پتھر کے دور کے بارے ہمیں کوئی تاریخی معلومات نہیں کیونکہ تحریر کا نظام تانبے کی دریافت کے ساتھ شروع ہوا تھا جو کانسی کے عہد کا آغاز تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ یورپ میں پتھر کے دور کا انسان اپنے پیچھے تحریر کی بجائے تصویری معلومات چھوڑ گیا تھا، سو برفانی عہد کے خاتمے کا ہمیں درست وقت نہیں معلوم۔
ارضیات دانوں نے آخری گلیشیل دور کا وقت معلوم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں انہوں نے گلیشیر سے نکلے دریاؤں میں بہہ کر آنے والے ملبے کو جھیلوں کی مقدار کو ماپنے کی کوشش کی ہے۔ ایلپس سے نکلنے والے دریائے رون میں بہنے والے ملبے اور اس کے راستے میں آنے والی جھیل جینیوا کی تہہ میں موجود تلچھٹ کی پیمائش سے اندازہ لگایا گیا کہ یہ ملبہ کتنے عرصے میں اور کس مقدار میں بہہ کر آیا ہوگا۔ اس طرح آخری گلیشیل دور میں برفانی چادر کے ہٹنے کے بارے اندازہ لگایا گیا۔ ایک سوئس محقق فرانکوئس فوریل کے مطابق آخری گلیشیل دور میں برفانی چادر کے پگھلنے کا عمل لگ بھگ آج سے 12٫000 سال قبل شروع ہوا تھا۔ یہ تخمینہ حیران کن ہے کہ آخری برفانی دور کے خاتمے کے بارے پچھلا اندازہ 30٫000 سے 50٫000 سال قبل کا تھا۔
تاہم ایسے حساب کتاب میں بالواسطہ مشاہدات کی وجہ سے گربڑ ہوتی ہے کیونکہ جھیلوں میں آنے والے ملبے اور تلچھٹ کی مقدار بدلتی رہتی ہے۔ جب گلیشیر پگھلنا شروع ہوا ہوگا تو بہت بڑا ہوگا اور ابتدا میں آنے والی مٹی وغیرہ بھی بہت زیادہ رہی ہوگی اور اگر برفانی عہد اچانک ختم ہوا تو شروع میں آنے والی مٹی کی مقدار بہت زیادہ رہی ہوگی جو ایلپس میں پگھلنے والی برف کی مقدار سے آنے والی مٹی سے بہت زیادہ رہی ہوگی۔ سو، آخری گلیشیل دور ہمارے اندازوں سے بھی بعد میں ختم ہوا ہوگا۔
ارضیات دانوں کے خیال میں امریکہ کی عظیم جھیلیں برفانی عہد کے خاتمے پر بنیں اور گلیشیر کے پگھلنے پر دبی ہوئی زمین نے جھیلوں کی شکل اختیار کر لی۔
پچھلے دو سو سال میں آبشار نیاگرا جھیل اونٹاریو سے جھیل ایری کی جانب سالانہ 5 فٹ کی رفتار سے منتقل ہو رہی ہے اور کٹاؤ سے چٹانی آبشار کی تہہ میں جمع ہو رہی ہیں۔ اگر یہ رفتار آخری گلیشیل دور سے برقرار ہے تو نیاگرا کو کوئینز ٹن سے موجودہ مقام تک آنے میں لگ بھگ 7٫000 سال لگے ہوں گے۔
چونکہ یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ برفانی دور کے خاتمے سے اب تک نیاگرا میں بہنے والے پانی کی مقدار یکساں ہے، اس لیے اندازہ کیا جاتا ہے کہ 7٫000 سال زیادہ سے زیادہ عرصہ ہوگا۔ شروع میں جب گلیشیر پگھلنا شروع ہوا ہوگا تو پانی کی مقدار بہت زیادہ رہی ہوگی۔ سو بعض اوقات یہ مدت کم کر کے 4 سے 5 ہزار سال کہی جاتی ہے۔ جھیل مشیگن کے ساحل اور تہہ میں موجود تلچھٹ اور کٹاؤ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کا دورانیہ اگر دسیوں ہزاروں کی بجائے محض ہزاروں سال پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں کی جانے والی رکازی تحقیق کے شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شمالی امریکہ کے مشرقی ساحل پر جدید نسلِ انسانی یعنی امریکی انڈین آخری گلیشیل دور سے قبل آباد تھے۔ سوچا جاتا ہے کہ آخری گلیشیل دور کے ساتھ یہ انسان جنوب کو منتقل ہوتے گئے اور شمال کو تب لوٹے جب برفانی چادر ہٹ گئی تھی اور عظیم جھیلیں وجود میں آ چکی تھیں، سینٹ لارنس کا طاس وجود میں آ چکا تھا اور نیاگرا آبشار نے جھیل ایری کی جانب منتقل ہونا شروع کر دیا تھا۔
اگر آخری گلیشیل دور محض چند ہزار سال قبل گزرا تو عین ممکن ہے کہ اس وقت تک قدیم تہذیب کے مرکز میں تحریر رواج پا چکی ہو۔ سو انسانی تحاریر اور چٹانوں پر موجود قدرتی شواہد سے ہمیں ایک جیسے ثبوت ملنے چاہیئں۔ سو اب ہم قدیم انسان کی روایات اور اس کے تحریری ریکارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کا مقابلہ آثارِ قدرت سے کرتے ہیں۔
زمینی ادوار
دنیا بھر میں مختلف ادوار کا تذکرہ ملتا ہے جو قدرتی طور پر آنے والی تبدیلیوں سے ختم ہوئے۔ مختلف اقوام اور مختلف روایات میں ان ادوار کی تعداد مختلف ہے۔ یہ فرق ان آفات کی تعداد جو لوگوں کو یاد رہی یا جس طرح ایک عہد کا خاتمہ ہوا، کی وجہ سے ہے۔
قدیم ایٹروریا (وسطی اٹلی کا علاقہ) میں ورو کے مطابق 7 گذشتہ ادوار کا تذکرہ ملتا ہے۔ سینسورینس جو تیسری صدی عیسوی کا مصنف اور ورو کو جمع کرنے کی وجہ سے مشہور ہے، نے لکھا ہے: ‘انسان کا خیال ہے کہ مختلف اوقات میں دیوتاؤں نے مختلف عوامل کی مدد سے فانی انسانوں کو ختم کیا ہے۔ وسطی اٹلی کے باسی علم الفلکیات میں ماہر تھے اور انہوں نے ان آفات کا توجہ سے مشاہدہ کیا ہے اور ان کے بارے تفصیلی مشاہدات اپنی کتب میں لکھے۔‘ یونانیوں میں بھی ایسی روایات ملتی ہیں۔ ‘ایک دور ایسا آتا ہے جسے ارسطو نے عظیم ترین سال کا نام دیا ہے اور اس کے آخر پر سورج، چاند اور سیارے اپنے اصل مقامات کو لوٹ جاتے ہیں۔ یہ عظیم سال میں بہت شدید موسمِ سرما اور بہت گرم موسمِ گرما آتا ہے۔ ان مواقع پر دنیا باری باری ایک طرح سے ڈوبتی اور پھر جلتی ہے۔‘ سینسورینس نے لکھا۔
چھٹی صدی قبل مسیح کے اناکسی مینس اور اناکسی میندر اور پانچویں صدی قبل مسیح میں اپالونیا کے دیوجانس نے یہ فرض کیا کہ دنیا کی تباہی اس کی دوبارہ تعمیر سے منسلک ہے۔ ہرقلیطس نے بتایا کہ دنیا ہر 10٫800 سال بعد آگے سے تباہی کا شکار ہوتی ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں ساموس کے ارسطاخرس کا خیال تھا کہ ہر 2٫484 سال بعد دنیا پر دو تباہیاں آتی ہیں، ایک آگ سے اور دوسری سیلاب سے۔ رواقیوں کے خیال میں دنیا مخصوص عرصے بعد آگ کا شکار ہوتی ہے تاکہ نئی شکل سے ظاہر ہو۔ زمین کو آگ لگنے سے ہونے والی تباہی پر فیلون کا تبصرہ کچھ یوں تھا: ‘ہر چیز کے اندر آگ موجود ہے جس کی وجہ سے طویل عرصے بعد ہر چیز اپنے آپ میں گم ہو کر نئی دنیا کو جنم دیتی ہے۔‘
اسی طرح کے ایک واقعے میں ہماری دنیا پر آخری تباہی آئے گی اور وہ ایک اور دنیا سے ٹکرا کر ایٹموں میں بٹ جائے گی اور طویل عرصے بعد انہی ایٹموں سے ایک نئی دنیا کائنات میں کسی اور جگہ پیدا ہو جائے گی۔
فیلون کا خیال تھا، ‘دیموقراطین اور ایپکور کئی دنیاؤں کے بارے نظریہ رکھتے ہیں جو ایٹموں کے باہمی تصادم اور ملاپ سے بنی ہیں اور اس طرح بننے والی دنیائیں آپس میں ٹکرا کر ختم بھی ہوتی ہیں۔‘ جب ہماری زمین پر آخری تباہی آئے گی تو یہ بار بار آنے والی کائناتی تباہی سے گزرے گی اور پھر اس کا اور اس پر رہنے والی ہر زندہ شئے کا دوبارہ جنم ہوگا۔
قدیم ترین یونانی فلسفیوں میں سے ایک ہزیود نے چار ادوار اور انسان کی چار نسلوں کے بارے لکھا ہے جو سیاراتی دیوتاؤں نے تباہ کیے۔ تیسرا دور کانسی کا تھا جسے زیوس نے تباہ کیا اور انسان کی نئی نسل نے زمین کو آباد کیا اور کانسی سے ہتھیار اور اوزار بنانے کے علاوہ لوہے کو بھی استعمال کرنے لگے۔ ٹروجن جنگ کے ہیرو اسی چوتھی نسل سے تھے۔
پھر ایک نئی تباہی کا پروانہ جاری ہوا اور اسکے بعد انسان کی ایک اور نسل آئی جو پانچویں نسل کہلائی۔ یہ نسل لوہے کے دور سے تعلق رکھتی تھی۔ ہزیود نے اپنی ایک اور تحریر میں ایک دور کے خاتمے کا لکھا ہے۔ حیات بخش زمین جلنے لگی، سمندر اُبلنے لگے اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے زمین اور آسمان قریب ہو رہے ہوں، جیسے آسمان نے زمین کو کچل دینا ہو۔‘
اس سے مماثل روایات جن میں چار ادوار کی تباہی اور موجودہ پانچویں دور کا ذکر ہو، خلیجِ بنگال اور تبت کے بلند مقامات پر بھی ملتی ہیں۔
مقدس ہندو کتاب بھگوت پرانا کے مطابق چار ادوار آئے تھے اور ان کے متعلق تباہیاں بھی، بنی نوع انسان تباہی کے مختلف ادوار میں معدوم ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ پانچواں دور اب چل رہا ہے۔ دنیا کے ان ادوار کو کلپا یا یوگ کہا جاتا ہے۔ ان ادوار کا خاتمہ آتش زدگی، سیلاب اور طوفانوں سے ہوتا تھا۔ ایزور وید اور بھگا وید جو مقدس ہندو کتب ہیں، میں چار ادوار کا حساب لکھا گیا ہے اور ان میں محض ہر دور میں برسوں کی تعداد کا فرق ہے۔ زمینی ادوار نامی باب میں لکھا ہے کہ ‘تین اقسام کی تباہیاں آئی تھیں: پانی، آگ اور ہوا سے آنی والی تباہیاں،‘ مگر سات ادوار ہوئے ہیں اور ہر دور دوسرے سے تباہی کے عوامل کی وجہ سے مختلف ہے۔
اوستا میں ان ادوار اور آفات کے حوالے ملتے ہیں اور ایرانیوں کے قدیم مذہب زرتشتیت کی مقدس تحاریر میں بھی اس بارے معلومات موجود ہیں۔
اوستا کی ایک جلد میں دس ادوار کا ذکر ملتا ہے۔ زرتشت جو کہ زرتشتیت کے بانی ہیں، ‘ہر دور کے اختتام کی علامات، عجائب اور الجھنوں کے بارے‘ بات کرتے ہیں۔
چینی ہر گزرے ہوئے عہد کو کیس کہتے ہیں اور ان کے مطابق دنیا کے آغاز سے کنفیوشس کی آمد تک دس ادوار گزرے ہیں۔ قدیم چینی دائرۃ المعارف سنگ لی تا سیوئن چو میں قدرتی آفات کے بارے بات کی گئی ہے۔ ان آفات کے معیادی ہونے کی وجہ سے ہر دو آفات کے درمیانی عرصے کو ‘عظیم سال‘ کہا گیا۔ اس سال میں جو کہ ایک عہد یا دور ہوتا تھا، فلکیاتی عمل پورا ہوتا اور فطرت کے ایک جھٹکے سے سمندر کا پانی باہر نکل آتا، پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیتے، دریاؤں کا رخ بدل جاتا، انسان اور دیگر تمام جاندار تباہ ہو جاتے اور قدیم اثرات مٹ جاتے۔ ایک قدیم اور بہت مضبوط روایت جس کے مطابق دنیاوی ادوار عالمی آفات سے تباہ ہوتے تھے، امریکہ میں انکا، ازٹیک اور مایا لوگوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ یوکاٹین میں پائے جانے والے پتھروں میں عالمی آفات کے بارے تحاریر درج ہیں۔ ‘ان پتھروں پر امریکی براعظم پر آنے والی معیادی آفات کے بارے درج ہے جو یہاں تباہی کا سبب بنتی رہی ہیں اور ہر قوم میں ان کے بارے باقاعدہ داستانیں پائی جاتی ہیں۔ میکسیکو کی قدیم تحاریر اور ہندوستانی مسنفین نے ماضی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے، اس میں ان آفات کا واضح تذکرہ ہوتا ہے جن کی وجہ سے زمین پر تبدیلیاں آئیں اور انسانیت کو بہت تباہی ملی۔
میکسیکو کی قدیم تحاریر میں درج ہے: ‘قدما جانتے تھے کہ موجودہ آسمان اور زمین سے قبل انسان پہلے ہی موجود تھا اور زندگی بھی، اور ایسا چار مرتبہ ہو چکا تھا۔‘ متواتر تخلیق اور تباہی کی ایک روایت ہمیں بحرالکاہل میں ہوائی اور پولی نیشیا سے بھی ملتی ہے کہ نو ادوار آئے اور ہر دور میں زمین پر ایک مختلف آسمان ہوتا تھا۔ آئس لینڈ کے لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں نو مختلف ادوار آئے اور یہ روایت ان کی قدیم کتاب ایڈا میں درج ہے۔
تالمودی تصورات میں بھی قدیم ادوار کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہماری موجودہ زمین کی تخلیق سے قبل بہت مرتبہ دنیا بنی اور تباہ ہوئی۔
‘اس نے ہم سے قبل بہت ساری دنیائیں بنائیں اور انہیں تباہ کر دیا۔‘ یہ زمین بھی خدائی منصوبے کے مطابق نہیں بنائی گئی۔ اس کی شکل بہت مرتبہ تبدیل ہوئی۔ ہر تباہی کے بعد نئے حالات پیدا ہوئے۔ چوتھی زمین پر بابل کے معلق باغات والے انسان آباد تھے۔ ہمارا تعلق ساتویں دور سے ہے۔ ہر دور یا ‘زمین‘ کا ایک الگ نام ہے۔
سات آسمان اور سات زمینیں تخلیق ہوئیں: زیادہ تر ختم ہو گئیں اور ساتویں اریتز، چھٹی آدمہ، پانچویں آرکہ، چوتھی ہرابہ، تیسری یباشہ، دوسری تیول اور ہماری اپنی زمین ہیلید کہلاتی ہے۔ ہر دو کے درمیان تباہی، بے ترتیبی اور پانی پائے جاتے ہیں۔ عظیم آفات سے زمین کی صورت تبدیل ہوئی۔ ایک یہودی فلسفی فیلو نے لکھا: ‘کچھ تو سیلاب میں ڈوب گئیں اور کچھ کو آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا۔‘ ایک مذہبی عالم رشی کے مطابق قدیم روایات میں متواتر تباہی کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے ایک تو عالمگیر سیلاب سے ہوئی تھی۔ یہ تباہیاں ہر 1٫656 سال بعد آتی رہی ہیں۔ آرمینین اور عرب روایات میں ہر دور کی معیاد مختلف ہے۔
شمسی ادوار
ایک متواتر دہرائی جانے والی روایت یہ بھی ہے کہ ہر دور کے آغاز پر ایک نیا سورج آسمان پر ابھرتا ہے۔ دنیا بھر میں بہت ساری اقوام سورج کی جگہ دور کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔
مایا نے ادوار کی گنتی کا کام سورج کے ناموں کی ترتیب سے شمار کیا ہے۔ ان کے نام ‘آبی سورج‘، ‘زلزلہ سورج‘، ‘بحری طوفان سورج‘ اور ‘آتشی سورج‘ تھے۔ یہ نام ہر دور کی تباہی کا سبب بننے والے عوامل کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ایکستلل ساکاتل (1568–164
ایک مشہور ہندوستانی محقق گزرا ہے۔ اس نے تزکوکو کے بادشاہوں کے بارے لکھا ہے اور دنیا کے ادوار کو ‘سورج‘ کے نام سے پکارا ہے۔ آبی سورج یعنی پانی کا سورج سب سے پہلا دور تھا جو سیلاب پر منتج ہوا اور تقریباً تمام تر مخلوقات جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ زلزلہ سورج نامی دور کا اختتامایک بہت بڑے زلزلے سے ہوا جس سے زمین میں دراڑیں پڑ گئیں اور پہاڑ گر پڑے۔ بحری طوفان سورج کا خاتمہ انتہائی بڑے سمندری طوفان سے ہوا۔ شمسی سورج میں دنیا کے خاتمے کے لیے آتشی بارش ہوئی۔ ‘میکسیکو کی اقوام کا عقیدہ ہے کہ ان کی قدیم تصاویر کے مطابق موجودہ دور کے سورج سے قبل چار ایسے سورج بجھ چکے ہیں۔ ہر سورج ایک دور کی نمائندگی کرتا تھا اور وہ ادوار سیلاب، زلزلوں، آگ اور طوفان سے ختم ہوئے۔ چاروں عناصر میں سے ہر ایک باری باری ان آفات کی شکل میں نازل ہوا اور متعلقہ دور کی تباہی کا سبب بنا۔
میکسیکو کے قبل از کولمبین دور کی ادبی دستاویزات میں ان سورجوں کی علامات چھاپی گئی ہیں۔ گومارا نے میکسیکو کی جیت پر لکھا کہ سورجوں کے پانچ ادوار تھے۔ ایک رومن مصنف Lucius Ampelius نے گومارا کی بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ‘وہاں پانچ سورج تھے۔‘ گومارا نے یہی تصور جدید دنیا میں بھی پایا۔
میکسیکو کی تاریخی دستاویزات جو 1570 عیسوی میں لکھی گئی تھیں اور قدیم ماخذ کے حوالے سے تھیں، میں سات ادوار کا ذکر ملتا ہے۔ ان سات ادوار کو فلکیاتی ڈرامے کے سات حصے بھی کہا جاتا ہے۔ بدھ مت کی مقدس کتاب وسودھی مگا میں دنیاوی ادوار پر ایک باب موجود ہے۔ پھر ہمیں تین تباہیاں بھی ملتی ہیں، ایک پانی سے، ایک آگ سے اور ایک ہوا سے۔ سیلاب کی تباہی کے بعد جب طویل عرصہ بارشیں نہ ہوئیں تو دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ درمیانی عرصے میں دنیا مایوسی سے گھری رہی تھی۔ جب دوسرا سورج نمودار ہوا تو دن اور رات کا فرق مٹ گیا اور بے رحم گرمی نے دنیا کو جکڑ لیا۔ پانچویں سورج کی نموداری کے بعد سمندروں کا پانی بتدریج خشک ہوتا گیا۔ چھٹے سورج کے ساتھ دنیا دھوئیں سے بھر گئی۔ ایک اور طویل مدت کے بعد ساتواں سورج نمودار ہوا اور پوری دنیا کو آگ لگ گئی۔ بدھ مت کی کتاب میں ایک اور قدیم سات سورجوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ برہمن ہر دو تباہیوں کے درمیانی عرصے کو عظیم دن کے نام سے پکارتے تھے۔ الہامی کتاب میں ادوار کے بارے تذکرے ہیں جن کے دوران دنیا میں تباہی اور پھر نمو ہوئی۔
ایک پیشین گوئی کے مطابق: ‘نو سورج نو ادوار ہیں۔۔۔۔ اب ساتواں سورج ہے۔‘ اس پیشین گوئی کے مطابق ابھی مزید دو ادوار آنے باقی ہیں جو آٹھواں اور نواں دور ہوں گے۔ شمالی بورنیو کے قدیم قبائل آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل میں آسمان کافی نیچے تھا اور چھ سورج ختم ہو چکے ہیں اور موجودہ دنیا کو ساتواں سورج منور کر رہا ہے۔ مایا کی تحاریر کے علاوہ بدھ مت کی مقدس کتب اور پیشین گوئیوں کی کتب میں بھی سات شمسی ادوار کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہر جگہ ان سورجوں سے مراد اہم ادوار لیے گئے ہیں اور ہر دور کا خاتمہ بہت بڑی اور عام تباہی کی صورت میں نمودار ہوا۔
کیا دونوں نصف کُرّوں میں سورج سے دور مراد لیا جانا سورج کی چمک دمک اور آسمان پر اس کے راستے سے متعلق ہے؟