احباب کا تعارف دوست کی زبانی

دوست

محفلین
ہمارے بہت ہی قابل احترام دوست محب علوی صاحب نے کبھی اردو ویب کی تاریخ کے حوالے سے ایک دھاگہ شروع کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں زمانی ترتیب کے لحاظ سے اردو ویب کے اراکین کا تعارف پیش کرنا شروع کیا تھا۔ یہ دھاگہ بہت مقبول ہوا محب بھائی نے بہت سے اراکین کا تعارف لکھا بھی، لیکن پھر شاید مصروفیت کی وجہ سے وہ اس سے دور ہوتے گئے۔ انھیں دنوں جب کہ ان کا ارادہ مجھ پر بھی طبع آزمائی کا تھا میں نے جواب شکوہ لکھنے کی دھمکی دی تھی انھیں۔ نہ شکوہ آیا اور نہ میں نے جواب شکوہ لکھا۔پھر محترمہ امن ایمان محفل پر وارد ہوئیں اور آگیا چھاگیا کی طرح ہر طرف بس امن ایمان امن ایمان ہوگئی۔ محترمہ نے اپنے مخصوص انداز میں‌ کئی بڑی بڑی ہستیوں کے انٹرویو کیے۔
یہ سب دیکھ کر ہمارا من بھی مچلا کہ ان بڑی بڑی ہستیوں کی تقلید میں ہم بھی کچھ کریں۔ چناچہ اسی خیال کا تسلسل یہ دھاگہ ہوگا۔
یہاں شاکر جی اپنے مخصوص اور خالص ذاتی انداز میں جس رکن کا چاہے تجزیہ فرمائیں گے۔ اب آپ کہیں گے کیا زبردستی ہے تو جی زبردستی ہی ہے۔ خیالات ہمارے اپنے ہونگے اور کسی کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ہمارا انداز کسی کو برا لگے تو پیشگی معذرت۔۔
اور ہاں اس دھاگے پر تبصروں کے لیے ایک الگ دھاگہ بنام تبصرے بنا دیتے ہیں جو اس دھاگے کے موضوعات کا ہائیڈ پارک ہوگا اور متاثرہ اراکین کو بھی وہاں بولنے کی پوری آزادی ہوگی۔

احباب تبصرہ جات کے لئے علیحدہ دھاگے کی جانب رخ کریں۔
 

دوست

محفلین
حکیم صاحب

ارادہ تو ہمارا محب بھائی سے شروع کرنے کا تھا لیکن ان کی قسمت اچھی فی الحال تختہ مشق وہ نہیں۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ بسم اللہ حکیم صاحب سے ہورہی ہے۔
حکیم صاحب لاہوریے ہیں۔ مئی کے مہینے میں محفل میں شمولیت اختیار کی لیکن اب ایسے لگتا ہے جیسے مدتوں سے یہیں تھے۔
حکیم صاحب کو پہلی بار محفل پر دیکھا تو پہلے محفل پھر اپنی نبض چیک کرکے تسلی کی کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔
جانے کیوں جب بھی حکماء کا خیال آئے تو آنکھوں کے سامنے حسین منجن آجاتا ہے۔ حکیم صاحب کے اوتار میں اگرچہ کچھ جڑی بوٹیاں ٹائپ چیزوں کی تصویر موجود ہے لیکن ان کا خیال آتے ہی نظروں کے سامنے وہی ڈبیا دھمال ڈالنے لگتی ہے۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ حسین منجن بھی تھک ہار کر غائب ہوجاتا۔ لیکن جب سے ان کا بلاگ دیکھا ہے رش بڑھ گیا ہے۔ یہاں رش سے مراد کیا ہے آپ بلاگ پر جاکر بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے اکیلی ڈبیا دھمال نہیں ڈالتی ان کے بلاگ کی سرورقی تصویر کی ساری شیشیاں باقاعدہ خٹک ڈانس کرتی ہیں۔
خیر یہ تو اپنے اپنے تصور کی بات تھی۔ حکیم صاحب ماشاءاللہ اپنے شعبے کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اس لیے آتے ہی انھوں نے جو فرمائش کی وہ طب و صحت کے فورم کا قیام تھا۔ ان کی تحاریر واقعی صحت کے لیے بہت اچھی ہیں اگر بندہ انھیں پڑھ کر ٹینشن نہ لے۔
حکیم صاحب کے کارنامے دیکھ کر ہمارا دل کرتا ہے کہ انھیں حکیم صاحب نہیں‌ بلکہ ویب حکیم صاحب کہا جائے۔ ان کا بلاگیاتی مطب تو آپ دیکھ ہی چکے ہونگے مشوروں کے لیے خیر سے ان کا ایک عدد فورم بھی ہے۔ جہاں ہر قسم کے امراض خصوصًا خالص “حکیمی“ امراض کے بارے میں رازداری کی شرط کے ساتھ مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ ورلڈ پیس فورم بلاشبہ ایک اچھی کاوش ہے عام ڈگر سے ہٹ کر یہ فورم اور اس کے منتظم دونوں داد کے مستحق ہیں۔
حکیم صاحب بہت تعاون کرنے والے بندے ہیں، سیکھنے سکھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بلاگ سیٹ اپ کرنے کے سلسلے میں انھوں نے مابدولت کی خاطر خواہ مدد کی۔ آج کل ان پر خدمت خلق کا بھوت سوار ہے اور فری ہوسٹ پر بلاگ بنا کر اراکین محفل کو بلا معاوضہ فراہم کررہے ہیں۔ اس سلسلے کی آخری دیگ ختم ہوچکی ہے، امید ہے کہ لنگر پھر کھل جائے گا۔
فری ویب ہوسٹ پر حکیم صاحب کے تجربات نے ہمیں بھی اس طرف متوجہ کیا۔ حکیم صاحب اب ویب ماسٹر بنتے جارہے ہیں ہمیں ڈر ہےکہ کہیں ویب ماسٹر بننے کے بعد یہ اپنے مریضوں کو نسخے میں خمیرہ گاؤ زبان عنبری کی جگہ ueuo.com اور شربت مصفی خون کی جگہifastnet.com لکھ کردینا شروع نہ کردیں۔
حکیم صاحب نے آتے ہی شعبہ طب و صحب بنوایا اور اس کے صدر بن بیٹھے۔ اب اردو محفل کے اکثر اراکین کو مختلف قسم کے طبی مشورے مفت دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ حکیم صاحب شعبہ طب و صحت کے صدر تو ہیں ہی ہم انھیں آج سے اردو ویب کے شاہی حکیم کا خطاب دیتے ہیں۔
اور اس کے ساتھ ہی حکیم صاحب کی جان بخشی۔ اگلی بار کوئی اور ہوسکتا ہے آپ ہی ہوں۔۔۔۔۔۔سو دل تھام کر بیٹھیں۔
 

دوست

محفلین
قیصرانی

ہمارا اگلا شکار قیصرانی ہیں۔ قیصرانی اتنے قیصرانی ہیں کہ ہر کوئی انھیں قیصرانی کہتا ہے منصور کوئی نہیں کہتا۔ قیصرانی ہم سے جونیر ہیں۔ لیکن پیغامات پوسٹ کرنے میں شاہد آفریدی کے کزن ہیں۔اس لیے اب محفل میں ہم سے اونچے عہدے پر براجمان ہیں۔
قیصرانی نے جس طرح ممتاز کا عہدہ حاصل کیا ہمیں دو طرح کے شک پڑے۔ ایک یہ کہیں یہ زنانہ قسم کی ممتاز تو نہیں۔ دوسرا شک یہ تھا کہ اردو محفل کے پہلے ممتاز کی غیر موجودگی میں ان کا تختہ الٹنے کی سازش تو نہیں۔ لیکن غور کرنے پر اول الذکر نظریہ غلط ثابت ہوا قیصرانی محترمہ ممتاز کو کیا کریں گے ان کے آگے پیچھے تو جینی، ہلڈا، گلڈا، اور ڈالڈا جیسی خواتین گھومتی پھرتی ہوں گی تمپرے فن لینڈ میں۔ سو سامعین پہلے نظریے کے استرداد کی وجہ سے ہم نے دوسرے نظریے کو ہی اپنا لیا۔ لیکن یہ نظریہ بھی مشرف کی حکومت الٹنے جیسی افواہ کی طرح نکلا۔ اردو محفل کے پہلے ممتاز اور سب سے ممتاز شمشاد واپس آکر اپنا عہدہ پورے طمطراق سے سنبھال چکے ہیں۔ اور قیصرانی۔۔۔؟
قیصرانی آج کل پاکستان، بنگہ دیش اور کئی دوسرے دیسوں کے دورے پر رواں ہیں۔ حاسد کا کہنا ہے کہ یہ دورہ صرف بہانہ ہے ورنہ اندر کی بات کچھ اور ہے۔ خیر یہ تو حاسد کا خیال ہے ہمارا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قیصرانی جب اردو محفل پر آئے تو ہمیں بھی صرف قیصرانی لگے۔ اس وقت جب ہم نے قیصرانی اور ہوا کی مشترکہ خصوصیات نکالیں تو جواب یہ آیا۔
دونوں بے بوُ
دونوں بے ذائقہ
دونوں بے رنگ
دونوں ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں ہوتے۔
قیصرانی اتنی بے ضرر چیز ہیں کہ جب ہوں تب احساس نہیں ہوتا اب جب نہیں تو بے اختیار ایک کمی کا سا احساس ہوتا ہے۔
بہت ہنس مکھ اور شریف ہیں۔ اتنے شریف ہیں کہ جاوید اقبال جب احادیث سنارہے ہوتے ہیں تو وہاں صرف یہ موجود ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو جاوید بھائی کے ہر پیغام کے بعد ان کا ماشاءاللہ، جزاک اللہ بہت خوب کا نعرہ نما پیغام پڑھ لیجیے۔
قیصرانی کا اردو محفل پر پیغامات کھیلنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ کسی بال کو خالی نہیں جانے دیتے۔ چوکا چھکا ممکن نہ ہو تو “بہت خوب“ کی سنگل لے ہی لیتے ہیں۔ لگتا ہے انھوں نے قطرہ قطرہ دریا یا کچھوے خرگوش جیسی کوئی کہانی پڑھ رکھی ہے اس لیے ہر وقت قطرہ قطرہ جوڑنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
سیانے سچ کہتے ہیں مُچھ نئیں تے کُچھ نئیں۔ اس سیانی بات کا ثبوت قیصرانی کا موجودہ اوتار ہے۔ یہ ان کے اوتار کی برکت ہے کہ اب ہم قیصرانی اور ہوا میں سے کامن نکالنا چاہیں تو جواب آتا ہے۔
صفر۔
قیصرانی اردو محفل کے ممتاز ہی نہیں ہم میں بھی ممتاز ہیں۔ ان کی صلح جو فطرت، پر احترام انداز اور تعاون کرنے کی عادت کی وجہ سے سب انھیں پسند کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ قیصرانی اور محفل اور ہمارا ساتھ ہمیشہ برقرار رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

دوست

محفلین
تلمیذ صاحب کا شکریہ۔
بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلا کرتے تھے۔ اردو کی کتاب کی فہرست کھول کر ایک ساتھی آنکھیں بند کرکے اس پر انگلی پھیرنے لگتا اور دوسرا کسی بھی وقت سٹاپ کہہ کر روک دیتا۔ پھر وہ کہانی ایک خاص انداز میں‌ پڑھی جاتی۔ خیر یہ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم نے بھی آج سٹاپ سٹاپ کھیلا اور ہمارے سامنے جو نام آیا ہے وہ ہے شمشاد۔
شمشاد سے مستنصر حسین تارڈ کا سفرنامہ شمشال بے مثال یاد آجاتا ہے لیکن ہمارے شمشاد بھی بے مثال ہیں کیا ہوا جو ل کی جگہ د ہے ان کے نام میں۔
شمشاد بھی ہم سے جونیر ہیں لیکن اس وقت محفل کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ ان میں اور بابے مشرف میں صرف اتنا فرق ہے کہ وہ فوج کے بل پر اور یہ پیغامات کے بل پر اتنے اونچے عہدے پر فائز ہیں۔
شمشاد اردو محفل کے ٹنڈولکر ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں ٹنڈولکر اور شاہد آفریدی کا کلون ہیں۔ شاہد آفریدی کی طرح چوکے چھکے لگاتے ہیں اور ٹنڈولکر کی طرح ان کی بے شمار سنچریاں موجود ہیں۔
شمشاد کا نام ذہن میں آتے ہی جن دھاگوں کا خیال آتا ہے ان میں کس نے آنا ہے، کس نے جانا ہے،بیت بازی، شہر کا نام بتائیں وغیرہ وغیرہ۔ ایک دو بار ہم نے شمشاد کے ساتھ کچھ اور دھاگوں جیسے ترجمہ مطلوب ہے کو نتھی کرنے کے کوشش کی تو نتیجہ الٹ نکلا۔ ہم ایک کو پکڑتے تو دوسرا بھاگ جاتا دوسرے کو پکڑتے تو پہلا۔ اسی کوشش میں ہلکان ہوکر ہم نے ایسا کرنا ہی چھوڑ دیا۔ سامعین اتنی مشقت کے بعد ہم نے نتیجہ نکالا کہ شمشاد اور اردو کمپیوٹنگ سے متعلقہ فورم دو متضاد چیزیں ہیں۔ ایک مشرق تو دوسرا مغرب۔
شمشاد شاید اس مقولے کے قائل ہیں کہ جس شہر جانا ہی نہیں اس کا رستہ پوچھ کے کیا کرنا۔
شمشاد اردو محفل کے ٹرینڈ میکرز میں سے ہیں۔ انھوں نے اس وقت آکر یہاں ہنسی مذاق کے پھول کھلائے جب نبیل بھائی، منہاجین بھائی، افتخار راجہ صاحب جیسے اراکین محفل پر بیٹھے مکھیاں مارا کرتے اور دنیا کی بےثباتی و اردو والوں کی بے اعتنائی کا ذکر بڑی رقت سے کیا کرتے تھے۔
شمشاد کے آنے کے بعد محفل پہلے دوڑی پھر ٹیک آف کا اور اب فضاؤں میں محو پرواز ہے۔شمشاد نہ ہوں تو محفل ایک فوکسی (جسے ہم پنجابی میں پیار سے ڈڈُّو کار بھی کہتے ہیں) بن جاتی ہے یعنی ہر دس قدم کے بعد ایک “مناسب“ وقفہ۔
شمشاد ہوں تو جھنجلاہٹ ہوتی ہے نہ ہوں تو اس سے زیادہ جھجنھلاہٹ ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں جب محفل سے غیر حاضر تھے تو محفل کی گلیاں ایسی سنسان تھیں جیسے جمعہ کو فیصل آباد کے آٹھ بازار سنسان ہوتے ہیں۔ اب جبکہ دوبارہ واپس آگئے ہیں تو ہم لاگ ان ہونے کے بعد دائیں‌طرف جب نظر ڈالیں تو لکھا نظر آتا ہے
“آپ کی آخر آمد کے بعد کے خطوط 204“ اور یقین مانیں اتنے پیغامات دیکھنے کے بعد ہمارے پاس ایک ہی حل ہوتا ہے کہ مصروف ڈاکٹروں کے انداز میں Next Next پکارتے جائیں۔
شمشاد اردو لائبریری کے چاچا جی ہیں۔ اب تو امن ایمان بھی انھیں چاچا جی کہتی ہیں۔ آنے جانے اور شعر سنانے کے علاوہ محفل پر شمشاد کا مشغلہ اردو کتابوں کی ٹائپنگ ہے۔ لگتا ہے شمشاد ٹائپنگ کو ٹائپنگ نہیں‌ کھیر سمجھتے ہیں۔ اپنا حصہ کھا کر پھر مانگنا شروع کردیتے ہیں۔
شمشاد اردو محفل کے فعال نہیں فعال ترین رکن ہیں۔ شمشاد اتنے فعال ہیں کہ ہم بڑی سنجیدگی سے Active کا ترجمہ “فعال“ کی بجائے “شمشاد“ کرنے پر غور کررہے ہیں۔ہمیں پورا یقین ہے جب شمشاد سے پوچھا جائے گا
“بھائی آپ تھکتے نہیں؟“
تو ان کا جواب ہوگا
“ میں سگریٹ نہیں پیتا“۔
شمشاد کے بارے اب اور کیا کہیں ہم، شمشاد کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ یہ شمشاد ہیں۔
 

دوست

محفلین
سامعین قارئین و غیر قارئین سیدھے ہوجائیں۔ اب جس ہستی کا ‘تذکرہ‘ ہونے جارہا ہے وہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باجو۔ جی The One And Only باجو۔
باجو کا محفل پر نک بوچھی ہے۔ چونکہ انگلینڈ میں رہتی ہیں اس لیے شروع میں ان کی عرفیت بھی بوچھی نہیں bouche تھی۔ کئی بار احباب نے اسے بوچھی کی بجائے بوچی پڑھ ڈالا۔ حاسد کا کہنا ہے انھوں نے اپنا نک انگریزی سے اردو میں اس لیے نہیں کیا کہ انھیں اردو سے محبت ہے بلکہ اس طرح ان کی “سنیارٹی“ متاثر ہورہی تھی۔
بوچھی جب محفل میں آئیں تو محفل کی دوسری ششماہی شروع ہوچکی تھی۔ کہتے ہیں ____ جب آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی کیسے اتفاق کی بات ہے بوچھی بھی جب محفل میں آئیں تو اکیلی نہیں آئیں۔ ان کے ساتھ بونس میں کئی دوسرے اراکین بھی تھے۔ بوچھی کے آنے کے بعد محفل کو کئی نئی جہات ملیں۔ اگر ہم اس دور کا تجزیہ کریں تو یہ جواب آتا ہے۔
محفل پر لمبے لمبے دھاگے عام ہوگئے۔
معیاری پیغام جو کم از کام چار لائنوں کا گنا جاتا تھا کم ہو کر “اچھا“، ٹھیک ہے، lol پر آگیا۔
گفتگو کے لیے خصوصی “کوڈ ورڈز“ تشکیل پائے۔
دھاگے پندرہ بیس صفحوں تک یونہی جانے لگے۔
وغیرہ وغیرہ۔
ان حالات کو اردو محفل کے عام صارف جیسے کہ مابدولت نے بڑی عجیب نگاہوں سے دیکھا۔ ہم جو دس بارہ پیغامات فی دن کے عادی تھے یکدم ہی پچاس ساٹھ کو دیکھ کر بدہضمی کا شکار ہونے لگے۔ اوپر سے پیغامات کی ہیئت بھی تبدیل ہوگئی تھی۔ اب پیغامات پیغامات نہیں کچھ اور ہی تھے۔ پندرہ پندرہ صفحوں پر مشتمل ایک دھاگہ پڑھنے کے بعد بھی پلے نہ پڑتا کہ “بات“ کیا ہورہی ہے۔ پہلے پہل ہم نے بہت کوشش کی کہ اس مورس کوڈ کو سمجھا جائے۔ ہم پورے پورے دھاگے کو بڑے غور سے پڑھ کر اس کا تجزیہ کرتے۔ لفظ کے معنوی ظاہری اور باطنی پہلوؤں پر غور کرتے اور اس کے معنی نکال کے بقیہ گفتگو کے تسلسل میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن اس میں ناکامی کے بعد ہم نے باقاعدہ دماغی کمزوری دور کرنے کی دوا لینا شروع کردی۔ لیکن سامعین وللہ ہم پھر بھی یہ کوڈ حل کرنے میں ناکام رہے ۔ہماری کم علمی و کم عقلی پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوئی جب ہم نے زکریا بھائی جیسے ثابت شدہ عالم فاضل کو یہ کہتے سنا کہ اتنے لمبے لمبے دھاگے ہوتے ہیں اور بات کچھ بھی نہیں‌ ہوتی۔ ہم نے اپنے سر پر ایک چپت لگائی اور سکون کا سانس لیا ہم بھی کتنے بے عقل تھے جس میں کچھ تھا ہی نہیں اس میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے۔
خیر یہ تو ہمارا تجزیہ تھا جس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔بات بوچھی کی ہورہی تھی۔بوچھی نے نیٹ پر بلاشبہ ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ محلوں میں ایک خالہ، ماسی چاچی ٹائپ چیز ہوتی تھی جسے سب بڑے چھوٹے ماسی فلاں، چاچی فلاں وغیرہ کہتے تھے۔ یعنی وہ جگت خالا وغیرہ کہلواتی تھیں۔ بوچھی محفل کی جگت باجو ہیں۔ کسی نئے رکن سے ان کا بے ضرر سا مطالبہ ہوتا ہے کہ انھیں باجو کہا جائے۔
اس کے علاوہ بھی بوچھی کا ایک “بے ضرر“ سا مطالبہ ہوتا ہے اور وہ ہے مٹھائی۔ بوچھی کی اپنی سالگرہ ہو یا محفل کے کسی رکن کی سالگرہ یا خاص موقع یہ مبارک باد دینے کے بعد جو پہلا کام کرتی ہیں وہ ہے مٹھائی مانگنا۔ اب تک اتنی مٹھائی مانگ چکی ہیں کہ walthamstow میں باآسانی نرالا سویٹس کی ایک برانچ کھول سکتی ہیں۔ ہمارا تو خیال ہے کہ اگر محفل پر یہ مٹھائی کی اتنی شوقین ہیں تو عام زندگی میں تو اس سے کئی گنا زیادہ ہونگی۔ ہم تصور کرسکتے ہیں کہ walthamstow کی گلیوں سے جب یہ گزرتی ہونگی تو مٹھائی اور سویٹس والے دور ہی سے انھیں دیکھ کر دروازے بند کرکے بھاگ جاتے ہونگے۔ لیکن حاسد کا کہنا ہے کہ بوچھی کا مٹھائی سے اتنی رغبت کا اظہار ان کا “سیاسی بیان“ ہے۔
خیر یہ تو حاسد کا کہنا ہے حقیقت تو رب جانے یا بوچھی جانیں۔
بوچھی پردے کی سخت قائل ہیں۔ ان کے اوتار پر نہیں جائیے یہ تصویر تو انھوں نے اب آ کر لگائی ہے۔ ہماری مراد دوسرے پردے سے ہے۔ محفل پر خفیہ رہنا پسند کرتی ہیں۔ آج رات محفل پر آنلائن رہتے ہوئے ہمیں احساس ہوا کہ بوچھی آنلائن ہوں تو اندھیرے کا تیر ہیں۔ بظاہر کسی کو پتہ نہیں کہ آنلائن ہیں۔ لیکن ان کے پیغامات ناگہانی آفت کی طرح مسلسل نازل ہوتے رہتے ہیں جو ان کی موجودگی کا ثبوت ہوتے ہیں۔
بوچھی بہت “Emotional“ ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے پیغامات میں Emotions کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔
ہنستی ہنساتی رہتی ہیں۔ ان کا ریکارڈ ہے کہ جس سنجیدہ دھاگے میں یہ چلی جائیں وہاں سنجیدگی رہ ہی نہیں سکتی۔اچھی بھلی، علمی ادبی، سیاسی گفتگو ہورہی ہوتی ہے۔ اراکین میں بس لڑنے کی کسر رہ گئی ہوتی ہے کہ بوچھی آن وارد ہوتی ہیں اور دھاگے کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔ بات جنات سے ہنسی مذاق پر آجاتی ہے۔
بوچھی محفل کی باجو ہیں۔ اللہ کرے محفل اور ان کا ساتھ سدا قائم رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احباب سے گزارش ہے کہ تبصروں کے لیے اس دھاگے کو استعمال کریں۔ شاہد احمد خان صاحب آپ کا شکریہ۔ بس لکھ ہی لیتا ہو کچھ ٹوٹا پھوٹا جس موضوع پر دل مچل جائے۔
 

دوست

محفلین
ہمارے نبیل بھائی

کہنے کو تو سارے انھیں نبیل بھائی کہتے ہیں لیکن ان کا نام میٹھی چھری ہونا چاہیے تھا۔ بہت شفیق ہستی ہیں۔ محفل پر آنے کے بعد ہمارے پہلے باضابطہ بھائی نبیل ہی تھے۔
جتنے شفیق یہ بھائی کے روپ میں ہیں اتنے ہی ایڈمن بھی ہیں۔ یہاں صرف ایڈمن کا خاکہ دیا گیا ہے اور ساتھ یہ لکھا سمجھ لیں “رنگ خود بھریں“۔
نبیل بھائی ماشاءاللہ جرمنی میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک کمپنی میں آئی ٹی سپیشلسٹ کے طور پر تعینات ہیں۔ محفل پر ان کا کام اکثر یہ ہوتا ہے کہ اراکین کی فرمائشیں پوری کریں۔مثلًا کوئی نیا فورم بنا دیا، کوئی اطلاقیہ لکھ ڈالا۔ ان کے ہاتھوں کے اتنے سارے اطلاقیے دیکھ کر لگتا ہے کہ اب یہ چھینکتے بھی ہونگے تو ایک اطلاقیہ برآمد ہوتا ہوگا۔
ماشاءاللہ جس طرح اور جس حساب سے نبیل بھائی فرمائشیں پوری کرتے ہیں اگر ہمیں‌ یہ نہ پتہ ہوتا کہ آئی ٹی سپیشلسٹ ہیں ہم انھیں کسی فرمائشی پروگرام کا کمپئیر سمجھتے۔
نبیل بھائی کو پیار سے گھر والے پونم کہتے ہیں۔ یونہی ایک دن افتخار راجہ کے ہاتھوں ان کا انٹرویو پڑھا تو یہ بات علم میں آئی۔ لیکن ہماری یادیں پونم سے کچھ اس طرح کی وابستہ ہیں۔
اب کی بار پونم میں
جب تو آئے گا تو
ہم نے سوچ رکھا ہے
رات یوں گزاریں گے۔
اب سامعین آپ خود انصاف کریں کہاں اس گانے کا ماحول کہاں نبیل بھائی جیسی سنجیدہ و متین شخصیت۔ لیکن ہمارا تصور بہت اُنترا ہے زبردستی نبیل بھائی کو اس گانے میں گھسیڑ دیا اب یوں ہوتا ہے کہ جب ہم یہ گانا کہیں سن لیں تو آواز ان فنکاروں کی ہوتی ہے گانا فلمایا گیا ہوتا ہے نبیل بھائی و “ہمنواؤں‌“ پر۔ ہمنوا میں اب کون کون شامل ہے یہ ہم نہیں بتائیں گے یہ تو ہیرو صاحب جانیں اور ہمنوا جانیں۔
ہم نے شروع میں کہا تھا نبیل بھائی میٹھی چھری ہیں۔ یہ واقعی سچ بات ہے۔ اصل میں یہ لکھنےکا مقصد بھی ان کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔
نیبل بھائی کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ صاحب ایسے بھی ہوسکتے ہیں۔ نبیل بھائی کو اللہ میاں نے اگر اتنی مصروفیت عطاء کی ہے تو جانے کتنوں کا بھلا کیا ہے ورنہ یہ حال پتا نہیں کس کس کا ہوتا۔ ایسا لکھنا کہ بندہ ہنس ہنس کر دوہرا ہوجائے، بے ساختہ انداز اور ہنسی کا انار چلا کر بے نیازی سے آگے بڑھ جانا نبیل بھائی کی تحریر کی خصوصیات ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ بندہ ایک آئی ٹی سپیشلسٹ ہے ادیب نہیں۔
نبیل بھائی آجائیں تو بہہ جا بہہ جا ہوجاتی ہے، بلکہ لوگ بیٹھے کے بیٹھے اور کھڑے کے کھڑے ہی رہ جاتے ہیں۔ اب ان کا تازہ کارنامہ ہی دیکھ لیں جس نے بھی دیکھنا ہے “ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ کہہ کر انگلی دانتوں میں داب لینی ہے۔
اب اور ہم کیا کہیں ان کے بارے کہ قلم بھی لرزتا ہے۔دعا ہے بس یونہی ہمارے لیے سائباں بنے رہیں محفل پر۔ آمین۔
 

دوست

محفلین
اللہ ہمیں معاف کرے۔ ہمارے پاپی من میں جس ہستی پر لکھنے کا خیال آیا وہ ہماری بہت ہی محترم ہستی یعنی جنابہ سیدہ شگفتہ ہیں۔
ان کے ذاتی تعارف کے مطابق محترمہ 16 دسمبر 2005 کو محفل پر وارد ہوئیں۔
کہتے ہیں پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں ان کی قابلیتیں پہلے خط ہی سے عیاں ہیں۔اس زباندانی کو کیا کہیے۔
سامعین صرف چند خطوط پڑھنے کے گناہگار ہوئے اور اب واقعی لگنے لگا ہے کہ دنیا فانی ہے۔
نبیل بھائی! زبانوں سے دلچسپی ہے لیکن لسانیاتی علم محدود ہے دوست داشتم حدِاقل فارسی و عربی یاد بیگیرم سعی کردم فارسی یک کم میتوانم حرف بزنم ولی عربی سعیِ بیشتر می خواھد۔ ھمم۔۔۔ ڈِڈ آئی آنسر دا کوئسچن ؟
انصاف فرمائیے کوئی نارمل بندہ اسے پڑھ کر نارمل رہ سکتا ہے۔
اسے پڑھنے کے بعد پہلے ایک ٹھوکر فارسی نے لگائی پھر انگریزی نے فٹ بال کی طرح اچھالا اور اب ہمارا دل کررہا ہے کہ سر کے بل کھڑے ہوجائیں اور فارسی و انگریزی دونوں زبانوں کی مشترکہ گردان شروع کردیں ساتھ کتنی معصومیت سے کہا جا رہا ہے زباندانی کا علم محدود ہے۔ یا اللہ اگر یہ محدود ہے تو لامحدود کیا ہوگا۔
خیر یہ تو چلتا رہے گا۔ محترمہ نے آتے ہی جو سوال پوچھا تھا وہ اسراع کے بارے میں تھا۔
ان کے خطوط کا اگر معائنہ کیا جائے تو جو پہلی بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اسراع + خطاطی سے کافی لگاؤ رکھتی ہیں۔ نئے دھاگے شروع کرنے کا بہت شوق ہے بہت سرعت سے یہ کام کرتی چلی جاتی ہیں لیکن وہ دھاگہ /پیغام اکثر کچھ اس قسم کا ہوتا ہے
اراکینِ محفل پر سکتہ !
ان کے علم و فضل کے قائل ہوکر شروع شروع میں ہم ان کے پیغامات بہت شوق سے تلاش تلاش کر پڑھا کرتے تھے۔ اکثر ایسے ہوتا کہ یہ آنلائن ہوتیں اور ہم ان کے پیغامات جو پڑھنا شروع کرتے تو ختم ہونے میں ہی نہ آتے۔ ایک منٹ میں پانچ سات نئے پیغام آموجود ہوتے ہم ان سے فارغ نہ ہوتے مزید آجاتے۔ نمونہ آپ اوپر ملاحظہ کرچکے ہیں۔یہ صورت حال دیکھ کر ہمیں اپنا ڈاکخانے کا کلرک یاد آجاتا ہے جو ٹھکا ٹھک خطوں پر مہریں‌ لگاتا چلا جاتا ہے۔
محترمہ کے نام کے ساتھ سیدہ لگا دیکھا تو ہم الرٹ ہوگئے۔ جب دوسرے اراکین نے انھیں محترمہ کہہ کر مخاطب کرنا شروع کیا تو ہم مزید الرٹ ہوگئے۔ہم نے سوچا کہ اب ان سے بات کرتے وقت انتہائی ادب سے ہاتھ باندھ لیا کرنے ہیں۔ ہم نے دو تین بار ایسا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اس طرح پیغام ٹائپ کرنے میں دقت دیکھ کر ہم نے اس آئیڈیے کو ڈراپ کردیا۔ اب ہمارا دل کرتا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ محترمہ کے ساتھ ساتھ، میڈم،جنابہ عالیہ، میم، سینیوریتا،۔۔۔۔۔ جیسے کئی القاب لگائیں لیکن افسوس پیغام کی بے جا طوالت اور ہاتھوں کی ناتوانی سے مجبور ہیں۔ خیر اپنا شوق ہم یہاں بتا کر پورا کررہے ہیں کہ ہم ان کا کتنا احترام کرتے ہیں۔
محترمہ نے محفل کا اپنا چینل سٹارٹ کیا جہاں سے بریکنگ نیوز نشر کی جاتی ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں لگتا ہے محترمہ کوئی جنگی رپورٹر قسم کی چیز ہیں جو خبر نہ ملے تو بنا لیا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں محترمہ محفل پر کسی سٹیلتھ طیارے کی طرح پرواز کرتی ہیں اور سُوہ (سراغ) لینے کے بعد سیدھے بریکنگ نیوز کے دھاگے میں جاکر بم گراتی ہیں۔ لیکن ان کا بم گرانے کا طریقہ بھی انوکھا ہے۔ کبھی تو بم فورًا پھٹ جاتا ہے اور کبھی ایسے ہوتا ہے کہ اسے خود پھاڑنا پڑتا ہے۔ ہم نے اکثر اراکین کو ان گناہگار آنکھوں سے بم کی منتیں کرتے دیکھا ہے یار اب تو پھٹ جا دیکھیں تیرے اندر کیا خبر ہے۔ حاسد کا کہنا ہے کہ محترمہ سسپنس پر مشتمل ناول پڑھ پڑھ کر اتنی عادی ہوچکی ہیں کہ دوسروں کو سسپنس میں ڈال دیتی ہیں۔ حاسد کا یہ بھی کہنا ہے کہ محترمہ بم گرا کر پسوڑی ڈال دیتی ہیں اور خود اس کے ریموٹ کنٹرول سمیت سونے چلی جاتی ہیں پھر آرام سے آکر اسے اس وقت پھاڑتی ہیں جب سب مایوس ہوگئے ہوتے ہیں۔
محترمہ اردو لائبریری کی اکلوتی اور متفقہ صدر ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے کوئی کام اتنے اتفاق سے ہوتے دیکھا ہے۔ ان کے آنے سے اردو لائبریری نے ایک نیا جنم لیا اور اب ڈگر ڈگر کرکے دوڑ رہی ہے۔کتابیں آرہی ہیں، فورم بن رہے ہیں اور وکی پر پوسٹنگ ہورہی ہے۔ یہ سب ان کی برکت سے ہوا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ان کا اور محفل کا خصوصًا لائبریری کا ساتھ ہمیشہ قائم رہے۔ آمین۔
 

دوست

محفلین
بہت دنوں کی غیر حاضری کے بعد آج ہماری حمیت و غیرت جاگی اور ہم نے اس دھاگے کو پھر سے فعال کرنے کا فیصلہ فرما لیا۔ اب ہمارے قلم تلے جو شخصیت آرہی ہیں ہمیں سب سے زیادہ ڈر ان کی طرف سے ہے کہ ان کا دل بڑا “نازک“ ہے۔
جی آپ ٹھیک سمجھے محترمہ جیہ، جوجو اور جویریہ مسعود۔ آپ سمجھ رہے ہونگے کہ ہم تین تین شخصیات کا تعارف لکھنے بیٹھ گئے ہیں۔۔
نہیں جناب یہ ایک ہی شخصیت ہیں۔ جب محفل پر نئی نئی وارد ہوئیں تو ان کو جویریہ مسعود کہتے تھے۔ پھر اعجاز صاحب نے ان کو جوجو کہنا شروع کردیا۔ یقین مانیے ہم اس نام کے ہمیشہ سے خلاف ہیں جانے ہماری بدقسمتی کہ ہمیشہ جوجو کو جو جو پڑھا جاتا ہے۔ جیسے جو جو سکول کا کام کرکے نہیں آیا وہ کھڑا ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔
خیر جوجو سے کم ہوتے ہوتے ان کا نام آج کل جیہ رہ گیا ہے۔
اوپر سکول کا ذکر کردیا تو یہ بھی بتاتے چلیں محترمہ بڑے عرصے تک محفل کے سکول کی بغیر تنخواہ کے استانی رہی ہیں۔ لیکن پھر جب بچے زیادہ ہوگئے تو بجائے کہ انھیں کنٹرول کرتیں خود استعفٰی دے دیا۔
آج کل خود وہاں حاضری لگواتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔
شروع میں ذکر کیا گیا تھا کہ محترمہ کا دل بڑا نازک ہے۔ ان کی باتوں سے واقعی ایسا لگتا ہے کہ ان کا دل بڑا نازک ہوگا۔ لیکن جب سے ہمیں پتا چلا کہ یہ سوات سے تعلق رکھتی ہیں تب سے ہم ان کے اس بیان کو سیاسی بیان سمجھتے ہیں۔
دیکھیں جی نازک تو وہ ہوا نا جو مرغی کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی آنکھیں بند کرلے اور کہاں یہ کہ پورا پورا بکرا سالم ہی بھون کر کھاجانا عام سی بات ہو نازک دلوں کی نشانی ہے؟؟
ان کے نازک دل ہونے پر شک اس وقت اکثر پڑتا ہے جب کسی جگہ انتہائی رقت بھرے انداز میں اور جتاتے ہوئے شمشاد بھیا سے کہتی ہیں “خیال رہے میرا دل بڑا نازک ہے“۔ اب آپ ہی بتائیے یہ نازکی ہے یا بلیک میلنگ۔
خیر یہ تو حاسدانہ باتیں تھیں جو ہم نے حاسد کے کہنے پر مجبور ہو کر لکھ دیں۔ ویسے محترمہ بڑی شریف شخصیت ہیں۔اردو لائبریری کی بڑی فعال رکن، استاد محترم کی چہیتی شاگرد اور بقول امن ایمان “غالب کو سمجھنے والی“۔۔
امن ایمان کا کہنا بالکل ٹھیک ہے۔ یہ واقعی غالب کو سمجھتی ہیں۔ غالب کے اشعار کی تشریح اس طرح فرماتی ہیں جیسے چچا نے شعر ان سے پوچھ کر ہی لکھے تھے۔ ہم ذاتی طور پر ان کے تشریح کیے ہوئے اشعار پڑھ چکے ہیں اور اب ہمیں‌ یہ دنیا واقعی فانی لگنے لگی ہے۔
شمشاد بھائی کی چہیتی بہن ہیں۔ اتنی چہیتی کہ انھیں شمشاد بھائی کی بجائے شمشاد بھائی بھائی کہتی ہیں۔ سب سے پہلے محفل میں مخل ہونے کی اجازت انھی سے لی اور اب محفل میں ایسے گھسی بیٹھی ہیں جیسے بدو کا اونٹ خیمے میں گھس گیا تھا۔کہتے ہیں سردی سے بچنے کے لیے ایک بدو کے اونٹ نے اس
سے خیمے میں گردن کرنے کی اجازت مانگی۔ بدو نے اجازت دے دی تھوڑی دیر بعد اس نے تھوڑا اور اندر ہونے کی اجازت مانگی اور آخر یہ وقت آیا بدو خیمے سے باہر ٹھٹھر رہا تھا اور اونٹ خیمے کے اندر۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کا اور محفل کا ساتھ ہمیشہ قائم رکھے۔
آمین۔
 

دوست

محفلین
کہنے کو تو ابن سعید محفل میں ہم سے جونئیر ہیں۔ اور بخدا ہمیں ایک عرصے تک یہ زعم بھی رہا کہ عمر میں بھی ہم سے جونئیر ہیں۔ جب پہلی پہلی بار محفل پر آئے تو ہم نے دل ہی دل میں بزرگانہ انداز اختیار کرنے کی پریکٹس شروع کر دی کہ چلو نواں بچہ ہے ذرا انگلی پکڑ کر محفل پر گھمائیں پھرائیں گے۔ کسی بہانے سے کان مروڑیں گے اور اپنے اوپر کیے گئے تجربات اب چھوٹوں پر کرنے کی ابتدا کریں گے۔ لیکن صاحب کیا بتائیں کہ یہ بچہ، بچہ نہیں جن بچہ ثابت ہوا۔ کہاں ہم ابھی دل میں ہی پریکٹس فرما رہے تھے کہ بیٹا کہہ کر مخاطب کریں کہاں انہوں نے دوسروں کو بٹیا وغیرہم سے بلانا شروع کر دیا۔ اور عوام الناس بھی دھڑا دھڑ چھوٹی بہن وغیرہم بننے میں فخر محسوس کرنے لگی۔ اور ہم جو اپنے بال تصور ہی تصور میں سفید کرکے، مونچھیں (جو ان دنوں کچھ کچھ ہوتی تھیں، آج کل ملک خداداد میں ایمانداری کی طرح چہرے سے ناپید ہو چکی ہیں) ذرا گھنی کرکے، آواز بھاری کرکے بیٹا ابن سعید کہنے کی جسارت کے لیے اندر ہی اندر تیار ہو رہے تھے، یہ پڑھ کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اور اب اتنے عرصے کے بعد لگتا ہے کہ ابن سعید پچاس فٹ اونچا دیو ہے اور ہم اس کے ٹخنے تک آنے والی بالشت بھر کی مخلوق۔ ایک بات تو ہمیں اچھی بھلی آگ لگی کہ غضب خدا کا کل کا لونڈا اور سب کا بڑا بنا بیٹھا ہے، یہ تو ہمارا حق تھا، (بیچ میں یہ خیال بھی آیا کہ چلو مذاکرات فرما کر اسے "نائب بڑے" کا خطاب عطا کر دیتے ہیں) لیکن پھر ہماری جلالی طبیعت آڑے آئی کہ نہیں، کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا۔ اور پھر یہ ہوا کہ ابن سعید کی دیکھتے ہی دیکھنے محفل پر ترقی ہوگئی، ناظم، اور ناظموں کے ناظم یعنی ایڈمن، او تہاڈی خیر، اور ہماری میں کے غبارے سے رہی سی ہوا اس وقت نکلی جب ہمیں پتا چلا کہ ابن سعید گھر بار والا ہو چکا ہے۔ لو دسو، ہم جو آس لگائے بیٹھے تھے کہ بیٹا کہہ کر بلائیں گے یہ حسرت ہی رہ گئی اور ہمیں اپنی معصوم تمناؤں کا گلہ گھونٹ دینا پڑا۔ ارے بابا کہاں ایک عام محفلین، کہاں بابا ایڈمن شاہ سائیں سرکار المعروف ابن سعید، اور اب ماشا اللہ گھر بار والے ہو چکے ہیں جبکہ ہم تو عرصہ ہوا تارے گننا بھی بھول چکے (جو یار لوگوں کی چھڑے پن میں عادت عام و عادت بد ہوا کرتی ہے)۔ تو جناب عرصہ ہوا ہم نے ابن سعید کے لیے پدرانہ جذبات دل سے نکال پھینکے اب ہم اسے بڑا بھائی سمجھتے ہیں اور بھائی کہہ کر ہی بلاتے ہیں۔ بڑی باغ و بہار شخصیت ہے۔ ابن سعید کی مثال مفت مٹھائی کھانے جیسی ہے، اتنی اچھی اتنی میٹھی کھاتے جاؤ کھاتے جاؤ، مٹھائی ختم نہیں ہوگی لیکن آپ ناک تک فُل ہو جائیں گے۔ ابن سعید سے جب بھی چیٹ شروع کی اس نے جتنے پیغامات بھیجے اتنی ہی مسکراہٹیں بھیجیں۔ اب پتا نہیں منہ پر بھی ایسے ہی مسکراہٹ طاری رہتی ہے۔ (یہ الگ سوال ہے کہ اگر طاری رہتی ہے تو منہ وہیں پر سیٹ کیسے ہے ابھی تک، نیچے کیوں نہیں گر جاتا)۔ راقم کو شک ہے کہ بھابھی اسی مسکراہٹ کی وجہ سے دام فریب میں آئی ہوں گی۔ توبہ، اتنا ٹھنڈا بندا، یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی برف سے نکال کر لائے ہیں، تازہ تازہ ٹھنڈا ٹھنڈا۔ اتنا ٹھنڈا ناظم میں نے ابن سعید کے علاوہ اردو محفل پر زیک کو ہی دیکھا ہے۔ ہر مسئلے پر ابن سعید کا انداز منطقی اور حتمی ہوتا ہے اور صارفین کی چوں چاں خود ہی بند ہو جاتی ہے۔ اور جب معاملہ بحث پر اتر آئے تو دہلوی اردو میں میں کی بجائے ہم کا صیغہ استعمال کر کے وہ دھو دھو کر مارتا ہے کہ اگلا بندہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ ایک ایڈمن اوپر سے اردو دان، یعنی صارف کے لیے مرے پر سو درے۔ بندہ اس کے عہدے کے رعب سے نہ مرے تو اردو کی مار ہی مار دیتی ہے۔ شروع شروع میں جب ہمارا اس سے واسطہ پڑا تو اردو بولنے کی کوشش کی لیکن ٹائپ کرتے ہوئے ہی ساری ہوا نکل جاتی تو ہم نے اپنے پنجابی مارکہ اسٹائل میں لکھنے میں ہی عافیت جانی۔ بھئی کہاں اہل زبان کہاں ماجھا گاما المعروف دوست۔ ابن سعید بلا کی چیز ہے، بلکہ بلا کی چیز کیا خود کسی بلا کا کزن شزن لگتا ہے۔ خدا کی پناہ جب دیکھو کبھی فورم کھول رکھا ہے، کبھی سیارہ کے حصے بخرے یہاں وہاں پڑے ہوئے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ابن سعید گھر میں بھی رینچ، پلاس، ہتھوڑا پکڑے کچھ نہ کچھ ٹھیک ہی کرتا رہتا ہے۔ اللہ بھلا کرے عزیزی کا، اس کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ اس نے کیا مستری طبیعت پائی ہے۔ یہی خیال راقم کا ابن سعید کے بارے میں ہے کہ اس نے کیا مستری طبیعت پائی ہے، اور ایسی مستری طبیعت کے جو تھکتی بھی نہیں ہے۔ اردو محفل کے بابے تو اب بس نظر مارنے آتے جاتے ہیں، زیک کبھی کبھار ایک آدھ پیغام کے ساتھ اور نبیل اس وقت جب کوئی شدید قسم کی "بات" ہو جائے جو نبیل کے اپنے خیال میں ہی اس قابل ہو کہ وہاں ایک پیغام سے نوازا جانا ضروری ہو جائے، یا پھر اردو ویب ایڈیٹر وغیرہم کے بارے میں کوئی اپڈیٹ دینی ہو تو نبیل کی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے ورنہ محفل جس مستری کے دم سے چل رہی ہے وہ ابن سعید ہے۔ اور کیا کمال کا مستری ہے، تھکتا نہیں، چائے نہیں مانگتا، دوپہر کا لنچ کرنے کی چھٹی نہیں مانگتا اور پانچ بجتے ہی سامان سمیٹنے نہیں بیٹھ جاتا۔ شمشاد کے بعد اردو محفل پر اپنی مثال آپ اگر کوئی چیز ہے تو وہ ابن سعید ہے۔ اور بخدا ابن سعید نہ ہوتا تو محفل، محفل نہ ہوتی "اجڑی ہوئی ہو داستاں" جیسی کوئی چیز ہوتی۔ ابن سعید سے سب پیار کرتے ہیں، اس کا احترام کرتے ہیں۔ ویل ڈن پاء جی، کیپ اٹ اپ۔ ہم تو بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ کی فرمائش پر لکھا گیا، اس نے کہ کہیں اس دھاگے کو پڑھ لیا اور کہنے لگی آپ کیسے اتنا اچھا لکھ لیتے ہیں۔ تو میرے اندر ذرا غرور پیدا ہوا کہ تعریف ہو رہی ہے تو لکھا جانا چاہیے۔ ایک عرصے بعد کسی محفلین کے بارے شافی قسم کا کچھ لکھا ہے۔ امید ہے پسند آئے گا۔
 

نکتہ ور

محفلین
اکتوبر پھر سے آنے والا ہے نئی تحریروں کی تیاری پکڑ لیں۔:LOL:
اکتوبر نومبر میں ہی یہ سب لکھا، سال چاہے کوئی بھی ہو:)

میرا خیال ہے کہ ربط خراب ہو گئے ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
کہنے کو تو ابن سعید محفل میں ہم سے جونئیر ہیں۔ اور بخدا ہمیں ایک عرصے تک یہ زعم بھی رہا کہ عمر میں بھی ہم سے جونئیر ہیں۔ جب پہلی پہلی بار محفل پر آئے تو ہم نے دل ہی دل میں بزرگانہ انداز اختیار کرنے کی پریکٹس شروع کر دی کہ چلو نواں بچہ ہے ذرا انگلی پکڑ کر محفل پر گھمائیں پھرائیں گے۔ کسی بہانے سے کان مروڑیں گے اور اپنے اوپر کیے گئے تجربات اب چھوٹوں پر کرنے کی ابتدا کریں گے۔ لیکن صاحب کیا بتائیں کہ یہ بچہ، بچہ نہیں جن بچہ ثابت ہوا۔ کہاں ہم ابھی دل میں ہی پریکٹس فرما رہے تھے کہ بیٹا کہہ کر مخاطب کریں کہاں انہوں نے دوسروں کو بٹیا وغیرہم سے بلانا شروع کر دیا۔ اور عوام الناس بھی دھڑا دھڑ چھوٹی بہن وغیرہم بننے میں فخر محسوس کرنے لگی۔ اور ہم جو اپنے بال تصور ہی تصور میں سفید کرکے، مونچھیں (جو ان دنوں کچھ کچھ ہوتی تھیں، آج کل ملک خداداد میں ایمانداری کی طرح چہرے سے ناپید ہو چکی ہیں) ذرا گھنی کرکے، آواز بھاری کرکے بیٹا ابن سعید کہنے کی جسارت کے لیے اندر ہی اندر تیار ہو رہے تھے، یہ پڑھ کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اور اب اتنے عرصے کے بعد لگتا ہے کہ ابن سعید پچاس فٹ اونچا دیو ہے اور ہم اس کے ٹخنے تک آنے والی بالشت بھر کی مخلوق۔ ایک بات تو ہمیں اچھی بھلی آگ لگی کہ غضب خدا کا کل کا لونڈا اور سب کا بڑا بنا بیٹھا ہے، یہ تو ہمارا حق تھا، (بیچ میں یہ خیال بھی آیا کہ چلو مذاکرات فرما کر اسے "نائب بڑے" کا خطاب عطا کر دیتے ہیں) لیکن پھر ہماری جلالی طبیعت آڑے آئی کہ نہیں، کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا۔ اور پھر یہ ہوا کہ ابن سعید کی دیکھتے ہی دیکھنے محفل پر ترقی ہوگئی، ناظم، اور ناظموں کے ناظم یعنی ایڈمن، او تہاڈی خیر، اور ہماری میں کے غبارے سے رہی سی ہوا اس وقت نکلی جب ہمیں پتا چلا کہ ابن سعید گھر بار والا ہو چکا ہے۔ لو دسو، ہم جو آس لگائے بیٹھے تھے کہ بیٹا کہہ کر بلائیں گے یہ حسرت ہی رہ گئی اور ہمیں اپنی معصوم تمناؤں کا گلہ گھونٹ دینا پڑا۔ ارے بابا کہاں ایک عام محفلین، کہاں بابا ایڈمن شاہ سائیں سرکار المعروف ابن سعید، اور اب ماشا اللہ گھر بار والے ہو چکے ہیں جبکہ ہم تو عرصہ ہوا تارے گننا بھی بھول چکے (جو یار لوگوں کی چھڑے پن میں عادت عام و عادت بد ہوا کرتی ہے)۔ تو جناب عرصہ ہوا ہم نے ابن سعید کے لیے پدرانہ جذبات دل سے نکال پھینکے اب ہم اسے بڑا بھائی سمجھتے ہیں اور بھائی کہہ کر ہی بلاتے ہیں۔ بڑی باغ و بہار شخصیت ہے۔ ابن سعید کی مثال مفت مٹھائی کھانے جیسی ہے، اتنی اچھی اتنی میٹھی کھاتے جاؤ کھاتے جاؤ، مٹھائی ختم نہیں ہوگی لیکن آپ ناک تک فُل ہو جائیں گے۔ ابن سعید سے جب بھی چیٹ شروع کی اس نے جتنے پیغامات بھیجے اتنی ہی مسکراہٹیں بھیجیں۔ اب پتا نہیں منہ پر بھی ایسے ہی مسکراہٹ طاری رہتی ہے۔ (یہ الگ سوال ہے کہ اگر طاری رہتی ہے تو منہ وہیں پر سیٹ کیسے ہے ابھی تک، نیچے کیوں نہیں گر جاتا)۔ راقم کو شک ہے کہ بھابھی اسی مسکراہٹ کی وجہ سے دام فریب میں آئی ہوں گی۔ توبہ، اتنا ٹھنڈا بندا، یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی برف سے نکال کر لائے ہیں، تازہ تازہ ٹھنڈا ٹھنڈا۔ اتنا ٹھنڈا ناظم میں نے ابن سعید کے علاوہ اردو محفل پر زیک کو ہی دیکھا ہے۔ ہر مسئلے پر ابن سعید کا انداز منطقی اور حتمی ہوتا ہے اور صارفین کی چوں چاں خود ہی بند ہو جاتی ہے۔ اور جب معاملہ بحث پر اتر آئے تو دہلوی اردو میں میں کی بجائے ہم کا صیغہ استعمال کر کے وہ دھو دھو کر مارتا ہے کہ اگلا بندہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ ایک ایڈمن اوپر سے اردو دان، یعنی صارف کے لیے مرے پر سو درے۔ بندہ اس کے عہدے کے رعب سے نہ مرے تو اردو کی مار ہی مار دیتی ہے۔ شروع شروع میں جب ہمارا اس سے واسطہ پڑا تو اردو بولنے کی کوشش کی لیکن ٹائپ کرتے ہوئے ہی ساری ہوا نکل جاتی تو ہم نے اپنے پنجابی مارکہ اسٹائل میں لکھنے میں ہی عافیت جانی۔ بھئی کہاں اہل زبان کہاں ماجھا گاما المعروف دوست۔ ابن سعید بلا کی چیز ہے، بلکہ بلا کی چیز کیا خود کسی بلا کا کزن شزن لگتا ہے۔ خدا کی پناہ جب دیکھو کبھی فورم کھول رکھا ہے، کبھی سیارہ کے حصے بخرے یہاں وہاں پڑے ہوئے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ابن سعید گھر میں بھی رینچ، پلاس، ہتھوڑا پکڑے کچھ نہ کچھ ٹھیک ہی کرتا رہتا ہے۔ اللہ بھلا کرے عزیزی کا، اس کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ اس نے کیا مستری طبیعت پائی ہے۔ یہی خیال راقم کا ابن سعید کے بارے میں ہے کہ اس نے کیا مستری طبیعت پائی ہے، اور ایسی مستری طبیعت کے جو تھکتی بھی نہیں ہے۔ اردو محفل کے بابے تو اب بس نظر مارنے آتے جاتے ہیں، زیک کبھی کبھار ایک آدھ پیغام کے ساتھ اور نبیل اس وقت جب کوئی شدید قسم کی "بات" ہو جائے جو نبیل کے اپنے خیال میں ہی اس قابل ہو کہ وہاں ایک پیغام سے نوازا جانا ضروری ہو جائے، یا پھر اردو ویب ایڈیٹر وغیرہم کے بارے میں کوئی اپڈیٹ دینی ہو تو نبیل کی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے ورنہ محفل جس مستری کے دم سے چل رہی ہے وہ ابن سعید ہے۔ اور کیا کمال کا مستری ہے، تھکتا نہیں، چائے نہیں مانگتا، دوپہر کا لنچ کرنے کی چھٹی نہیں مانگتا اور پانچ بجتے ہی سامان سمیٹنے نہیں بیٹھ جاتا۔ شمشاد کے بعد اردو محفل پر اپنی مثال آپ اگر کوئی چیز ہے تو وہ ابن سعید ہے۔ اور بخدا ابن سعید نہ ہوتا تو محفل، محفل نہ ہوتی "اجڑی ہوئی ہو داستاں" جیسی کوئی چیز ہوتی۔ ابن سعید سے سب پیار کرتے ہیں، اس کا احترام کرتے ہیں۔ ویل ڈن پاء جی، کیپ اٹ اپ۔ ہم تو بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ کی فرمائش پر لکھا گیا، اس نے کہ کہیں اس دھاگے کو پڑھ لیا اور کہنے لگی آپ کیسے اتنا اچھا لکھ لیتے ہیں۔ تو میرے اندر ذرا غرور پیدا ہوا کہ تعریف ہو رہی ہے تو لکھا جانا چاہیے۔ ایک عرصے بعد کسی محفلین کے بارے شافی قسم کا کچھ لکھا ہے۔ امید ہے پسند آئے گا۔
واہ واہ!! انتہائی دلچسپ تبصرہ!! اردو محفل میں کسی کی شخصیت پر اتنا شاندار تبصرہ شاید ہی پہلے پڑھا ہو۔۔ ہماری طرف سے ڈھیروں داد!! :):)
 
Top