سامعین قارئین و غیر قارئین سیدھے ہوجائیں۔ اب جس ہستی کا ‘تذکرہ‘ ہونے جارہا ہے وہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باجو۔ جی The One And Only باجو۔
باجو کا محفل پر نک بوچھی ہے۔ چونکہ انگلینڈ میں رہتی ہیں اس لیے شروع میں ان کی عرفیت بھی بوچھی نہیں bouche تھی۔ کئی بار احباب نے اسے بوچھی کی بجائے بوچی پڑھ ڈالا۔ حاسد کا کہنا ہے انھوں نے اپنا نک انگریزی سے اردو میں اس لیے نہیں کیا کہ انھیں اردو سے محبت ہے بلکہ اس طرح ان کی “سنیارٹی“ متاثر ہورہی تھی۔
بوچھی جب محفل میں آئیں تو محفل کی دوسری ششماہی شروع ہوچکی تھی۔ کہتے ہیں ____ جب آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی کیسے اتفاق کی بات ہے بوچھی بھی جب محفل میں آئیں تو اکیلی نہیں آئیں۔ ان کے ساتھ بونس میں کئی دوسرے اراکین بھی تھے۔ بوچھی کے آنے کے بعد محفل کو کئی نئی جہات ملیں۔ اگر ہم اس دور کا تجزیہ کریں تو یہ جواب آتا ہے۔
محفل پر لمبے لمبے دھاگے عام ہوگئے۔
معیاری پیغام جو کم از کام چار لائنوں کا گنا جاتا تھا کم ہو کر “اچھا“، ٹھیک ہے، lol پر آگیا۔
گفتگو کے لیے خصوصی “کوڈ ورڈز“ تشکیل پائے۔
دھاگے پندرہ بیس صفحوں تک یونہی جانے لگے۔
وغیرہ وغیرہ۔
ان حالات کو اردو محفل کے عام صارف جیسے کہ مابدولت نے بڑی عجیب نگاہوں سے دیکھا۔ ہم جو دس بارہ پیغامات فی دن کے عادی تھے یکدم ہی پچاس ساٹھ کو دیکھ کر بدہضمی کا شکار ہونے لگے۔ اوپر سے پیغامات کی ہیئت بھی تبدیل ہوگئی تھی۔ اب پیغامات پیغامات نہیں کچھ اور ہی تھے۔ پندرہ پندرہ صفحوں پر مشتمل ایک دھاگہ پڑھنے کے بعد بھی پلے نہ پڑتا کہ “بات“ کیا ہورہی ہے۔ پہلے پہل ہم نے بہت کوشش کی کہ اس مورس کوڈ کو سمجھا جائے۔ ہم پورے پورے دھاگے کو بڑے غور سے پڑھ کر اس کا تجزیہ کرتے۔ لفظ کے معنوی ظاہری اور باطنی پہلوؤں پر غور کرتے اور اس کے معنی نکال کے بقیہ گفتگو کے تسلسل میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن اس میں ناکامی کے بعد ہم نے باقاعدہ دماغی کمزوری دور کرنے کی دوا لینا شروع کردی۔ لیکن سامعین وللہ ہم پھر بھی یہ کوڈ حل کرنے میں ناکام رہے ۔ہماری کم علمی و کم عقلی پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوئی جب ہم نے زکریا بھائی جیسے ثابت شدہ عالم فاضل کو یہ کہتے سنا کہ اتنے لمبے لمبے دھاگے ہوتے ہیں اور بات کچھ بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے سر پر ایک چپت لگائی اور سکون کا سانس لیا ہم بھی کتنے بے عقل تھے جس میں کچھ تھا ہی نہیں اس میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے۔
خیر یہ تو ہمارا تجزیہ تھا جس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔بات بوچھی کی ہورہی تھی۔بوچھی نے نیٹ پر بلاشبہ ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ محلوں میں ایک خالہ، ماسی چاچی ٹائپ چیز ہوتی تھی جسے سب بڑے چھوٹے ماسی فلاں، چاچی فلاں وغیرہ کہتے تھے۔ یعنی وہ جگت خالا وغیرہ کہلواتی تھیں۔ بوچھی محفل کی جگت باجو ہیں۔ کسی نئے رکن سے ان کا بے ضرر سا مطالبہ ہوتا ہے کہ انھیں باجو کہا جائے۔
اس کے علاوہ بھی بوچھی کا ایک “بے ضرر“ سا مطالبہ ہوتا ہے اور وہ ہے مٹھائی۔ بوچھی کی اپنی سالگرہ ہو یا محفل کے کسی رکن کی سالگرہ یا خاص موقع یہ مبارک باد دینے کے بعد جو پہلا کام کرتی ہیں وہ ہے مٹھائی مانگنا۔ اب تک اتنی مٹھائی مانگ چکی ہیں کہ walthamstow میں باآسانی نرالا سویٹس کی ایک برانچ کھول سکتی ہیں۔ ہمارا تو خیال ہے کہ اگر محفل پر یہ مٹھائی کی اتنی شوقین ہیں تو عام زندگی میں تو اس سے کئی گنا زیادہ ہونگی۔ ہم تصور کرسکتے ہیں کہ walthamstow کی گلیوں سے جب یہ گزرتی ہونگی تو مٹھائی اور سویٹس والے دور ہی سے انھیں دیکھ کر دروازے بند کرکے بھاگ جاتے ہونگے۔ لیکن حاسد کا کہنا ہے کہ بوچھی کا مٹھائی سے اتنی رغبت کا اظہار ان کا “سیاسی بیان“ ہے۔
خیر یہ تو حاسد کا کہنا ہے حقیقت تو رب جانے یا بوچھی جانیں۔
بوچھی پردے کی سخت قائل ہیں۔ ان کے اوتار پر نہیں جائیے یہ تصویر تو انھوں نے اب آ کر لگائی ہے۔ ہماری مراد دوسرے پردے سے ہے۔ محفل پر خفیہ رہنا پسند کرتی ہیں۔ آج رات محفل پر آنلائن رہتے ہوئے ہمیں احساس ہوا کہ بوچھی آنلائن ہوں تو اندھیرے کا تیر ہیں۔ بظاہر کسی کو پتہ نہیں کہ آنلائن ہیں۔ لیکن ان کے پیغامات ناگہانی آفت کی طرح مسلسل نازل ہوتے رہتے ہیں جو ان کی موجودگی کا ثبوت ہوتے ہیں۔
بوچھی بہت “Emotional“ ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے پیغامات میں Emotions کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔
ہنستی ہنساتی رہتی ہیں۔ ان کا ریکارڈ ہے کہ جس سنجیدہ دھاگے میں یہ چلی جائیں وہاں سنجیدگی رہ ہی نہیں سکتی۔اچھی بھلی، علمی ادبی، سیاسی گفتگو ہورہی ہوتی ہے۔ اراکین میں بس لڑنے کی کسر رہ گئی ہوتی ہے کہ بوچھی آن وارد ہوتی ہیں اور دھاگے کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔ بات
جنات سے ہنسی مذاق پر آجاتی ہے۔
بوچھی محفل کی باجو ہیں۔ اللہ کرے محفل اور ان کا ساتھ سدا قائم رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احباب سے گزارش ہے کہ تبصروں کے لیے
اس دھاگے کو استعمال کریں۔ شاہد احمد خان صاحب آپ کا شکریہ۔ بس لکھ ہی لیتا ہو کچھ ٹوٹا پھوٹا جس موضوع پر دل مچل جائے۔