محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے کہ جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ جس نے اردو محفل کو رونق بخشی اور اردو کی اس ویب سائیٹ کو اس قابل بنایا کہ اس محفل نے گیارہ سال کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیے۔
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ہم نے شعروں کا میلہ سجایا ہے۔ اردو تہذیب میں مشاعرے کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو محفل پر اس آن لائن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے جو ایک نئی روایت کو جنم دےگا۔
اس مشاعرے میں ایک کے بعد ایک شعراء کو اسی طرح دعوتِ کلام دی جائے گی جس طرح کسی بھی مشاعرے میں دی جاتی ہے۔
اردو محفل کی گیارہویں سالگرہ کی تقریبات کے سلسلہ کی آخری کڑی اردو محفل عالمی مشاعرہ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ جس کی صدارت فرما رہے ہیں محترم المقام جناب اعجاز عبید صاحب اور مہمان خصوصی ہیں محتم منیر انور صاحب۔ محفل کے باقاعدہ آغاز سے پہلے اتنہائی ادب سے ملتمس ہیں صدر محفل محترم جناب اعجاز عبید صاحب سے کے آپ مسند صدارت پر تشریف فرما ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ادب سے گزارش ہے محفل کے مہمان خصوصی محترم منیر انورصاحب آپ بھی اپنی مسند پر تشریف فرما ہوں۔ اب صدر محفل کی اجازت سے محفل مشاعرہ کا آغاز کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے پیش کرتے ہیں نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم۔ پڑھیے نبی کے نام پر۔ صلِ علیٰ، صلِ علیٰ
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادیئ برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی
اب عرض ہیں مصرع طرح پر دو شعر
غیر کے لب پر ہے اور شاید تمہارے دل میں ہے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"
اک نظر ہم پر پڑی اور نیم بسمل کردیا
زہر کی تاثیر کیسی اس سمِ قاتل میں ہے
ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
رات دن بس اِک تماشا چاہیے
دِل کے بہلانے کو کیا کیا چاہیے
اتفاقاً بھول جاتے ہیں تجھے
التزاماً یاد رکھنا چاہیے
کتنا زخمی آج انساں ہوگیا
اس کو اب کوئی مسیحا چاہیے
اجنبی ہیں راستے، تنہا سفر
شکل کوئی اب شناسا چاہیے
اِس بھری محفِل میں تنہا ہیں خلیل
آج تو بس کوئی اپنا چاہیے
حضرتِ داغ کی ضمین میں ایک غزل
’’حضرتِ دل آپ ہیں کِس دھیان میں‘‘
یوں بھی آتے ہیں کبھی میدان میں
وہ لجا کر کچھ اگر کہہ نہ سکے
کہہ دیا کِس نے ہماے کان میں
روکنے کا یوں بہانہ ہوگیا
ہم نے پیالہ رکھ دیا سامان میں
خلق اُن کے دیکھنا ہوں گر تمہیں
دیکھ لو بس جھانک کر قرآن میں
ہار کر بھی پالیا اُن کو خلیلؔ
فائدہ ہی فائدہ نقصان میں
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ہم نے شعروں کا میلہ سجایا ہے۔ اردو تہذیب میں مشاعرے کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو محفل پر اس آن لائن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے جو ایک نئی روایت کو جنم دےگا۔
اس مشاعرے میں ایک کے بعد ایک شعراء کو اسی طرح دعوتِ کلام دی جائے گی جس طرح کسی بھی مشاعرے میں دی جاتی ہے۔
اردو محفل کی گیارہویں سالگرہ کی تقریبات کے سلسلہ کی آخری کڑی اردو محفل عالمی مشاعرہ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ جس کی صدارت فرما رہے ہیں محترم المقام جناب اعجاز عبید صاحب اور مہمان خصوصی ہیں محتم منیر انور صاحب۔ محفل کے باقاعدہ آغاز سے پہلے اتنہائی ادب سے ملتمس ہیں صدر محفل محترم جناب اعجاز عبید صاحب سے کے آپ مسند صدارت پر تشریف فرما ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ادب سے گزارش ہے محفل کے مہمان خصوصی محترم منیر انورصاحب آپ بھی اپنی مسند پر تشریف فرما ہوں۔ اب صدر محفل کی اجازت سے محفل مشاعرہ کا آغاز کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے پیش کرتے ہیں نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم۔ پڑھیے نبی کے نام پر۔ صلِ علیٰ، صلِ علیٰ
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادیئ برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی
اب عرض ہیں مصرع طرح پر دو شعر
غیر کے لب پر ہے اور شاید تمہارے دل میں ہے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"
اک نظر ہم پر پڑی اور نیم بسمل کردیا
زہر کی تاثیر کیسی اس سمِ قاتل میں ہے
ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
رات دن بس اِک تماشا چاہیے
دِل کے بہلانے کو کیا کیا چاہیے
اتفاقاً بھول جاتے ہیں تجھے
التزاماً یاد رکھنا چاہیے
کتنا زخمی آج انساں ہوگیا
اس کو اب کوئی مسیحا چاہیے
اجنبی ہیں راستے، تنہا سفر
شکل کوئی اب شناسا چاہیے
اِس بھری محفِل میں تنہا ہیں خلیل
آج تو بس کوئی اپنا چاہیے
حضرتِ داغ کی ضمین میں ایک غزل
’’حضرتِ دل آپ ہیں کِس دھیان میں‘‘
یوں بھی آتے ہیں کبھی میدان میں
وہ لجا کر کچھ اگر کہہ نہ سکے
کہہ دیا کِس نے ہماے کان میں
روکنے کا یوں بہانہ ہوگیا
ہم نے پیالہ رکھ دیا سامان میں
خلق اُن کے دیکھنا ہوں گر تمہیں
دیکھ لو بس جھانک کر قرآن میں
ہار کر بھی پالیا اُن کو خلیلؔ
فائدہ ہی فائدہ نقصان میں
آخری تدوین: