میرا پیغام یہ تھا کہ جب مختلف قوموں کی زبانیں آپس میں ملتی ہیں تو یہ ایک دوسرے پر نظر انداز ہوتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔
اسے زبان کا قدرتی ارتقاء تو کہا جا سکتا ہے۔ فاش غلطی نہیں۔۔۔۔۔
اس پیغام کو اگر کوئی پختون کمیونٹی کیخلاف حملہ سمجھتا ہے تو پھر یہ اسکی اپنی محدود سوچ کا مسئلہ ہے۔
چوں کہ پشتو زبان میں تذکیر تانیث نہیں ہوتی چناں چہ پختون حضرات اردو بولتے وقت تذکیر تانیث کی جو غلطیاں کرتے ہیں اس معاملے میں ان کو معذور تو سمجھا جاسکتا ہے لیکن ان کی اتباع ہرگز نہیں کی جاسکتی ۔اگر اہل زبان ایسی غلطیاں کریں گے تو وہ یقینا قابل اصلاح ہوں گی۔
میں نے ’’درد ہورہی ہے‘‘ پنجابی بولنے والے حضرات کو استعمال کرتے سنا ہے۔
کسی بھی غیر اہل زبان کی غلطیاں قابل درگزر تو ہوسکتی ہیں قابل استہزا یا قابل اتباع نہیں۔
کسی بھی زبان میں پہلے سے رائج محاورات، روزمرے وغیرہ پر سند مقتدر اہل زبان ہوتے ہیں، عوام نہیں۔ ورنہ ’’ہمیں‘‘ اور ’’آپ کو ‘‘ کی جگہ ’’تنّے، منّے‘‘بھی اردو بولنے والے کا ایک طبقہ استعمال کرتا ہے۔ کیا ان الفاظ کو آج بھی اردو زبان میں پذیرائی حاصل ہوسکی ہے؟ کیا ہر گرے پڑے لفظ کو زبان کا ارتقاء قرار دے کر اس کے حق میں دلیل بنائی جاسکتی ہے؟
انگریزی کا کوئی بھی اہل زبان ’’He has‘‘ کی جگہ
‘‘He have’’
استعمال کرنے والے کا مذاق اڑائے گا یا اس کو انگریزی زبان میں شامل کرنےکے لیے زبان کا قدرتی ارتقاء قرار دے گا؟ اور اس کے لیے ایسے استدلال دے گا جو اب تک اس لڑی میں دیے جارہے ہیں؟