نور وجدان
لائبریرین
ایک بیس سالہ نوجوان ، جس کا باپ دریائے فرات کے ساحلی علاقوں میں اون کی بنائی کا کام کرتا تھا اور یوں 'الحلاج ' پیشہ ورانہ نام ہوگیا۔ بصرہ سے ہوتا ہوا بغداد پہنچا۔سہل التستری کی کارگہ تصوف کا یہ مزدور حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں حاضر ہوا۔وجود، عدم ، بقا ، فنا ۔ توحید ، عشق ، رسالت و وحی ، حضور و نور ، سرشاری و دیوانگی ، وارفتگی و دیوانگی ، وارفتگی و مستی ، حجاب و انکشاف ،فصل و وصل اور تشبیہ و تنزیہیہ ۔۔۔۔ یہ سارے معاملات یہ سارے سر بستہ راز اس نوجوان کو دلگیر کیے ہوئے تھے ۔ امید تھی حضرت جنید بغدادی جن پر گرہ کشائی فرض ہے کچھ گرہ کشائی کریں گے ۔ چنانچہ چند سوال ان کے آگے رکھ کر جواب طلب کیے ۔
بغداد کے اس دانشمند صوفی نے کوئی جواب نہ دیا صرف ایک مختصر سی بات کہی مگر ایسی کہی کہ حلقے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کا رنگ اڑ گیا۔
''وہ دن جلد آنے والا ہے ، جب تم لکڑی کے ایک ٹکرے کو لہو کے سرخ رنگ سے بھر دوگے ۔''
اور جواب میں اس نوجوان نے فرمایا
''جس دن میں لکڑی کے اس ٹکرے کو سرخی سے بھروں گا ، اس دن آپ کے جسم پر اہل صوف کی قبا ہوگی ''
حلاج کی داستان حضرت بابا فرید الدین نے تذکرت الاؤلیاء میں بیان کی ہے۔خدا جانے اس میں تاریخی صداقت کتنی ہے لیکن حلاج کی شخصیت تاریخ کی حدود سے نکل کر ایک ایسی علامت اور تمثیل بن گئی ہے اور اس کا سایہ اسلام کے سارے ادبی و فکری تمدنوں پر اتنا گھٹا اور گہرا ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے امورِ واقعہ اور تاریخی حقائق سے سے قطع نظر کرنا گویا لازم ہوگیا ہے ۔ابن منصور ، جس کو اردو اور فارسی حلقے میں صرف منصور کہتے ہیں ، زمان و مکان سے ماورا ہو چکا تھا۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس وارفتہ ، خدا مست عاشق کے بارے میں صوفیاء کے ہاں جو باتیں مذکور ہیں اور مشہور ہیں وہ سب کی سب دیو مالائی ،فرضی اور تخییلاتی ہیں ۔ شاعروں اور صوفیوں کی دنیا میں منصور ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے مگر یہ استعارہ تاریخی حقائق کی پائیدار اساس پر تعمیر ہوا ۔ حلاج کا نعرہ '' انا الحق '' ان کا سفر سندھ ، درباری اور فرقہ بند سیاست کی انا کی خلاف تاریک سازشیں ، ان کی مستیِ الست ، 24 ذو العقد 309 ہجری کو نخل دار پر ان کا سفاکانہ قتل۔۔۔۔۔ یہ سارے امور تاریخ سے ثابت ہیں ۔
حلاج کی زیادہ تر شاعری بھی انہی کی وارفتگی اور جذب کی تخلیق ہیں اس نے لوگوں کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑا ہے اور ان کا اثر اتنا پھیلا کہ ہنگامہ ''ہائے ہو'' کی شورشوں میں بہت سی مافوق الفطرت باتیں بھی ان سے منسوب ہوگئی ۔ان کا ھیولیٰ ایسا تخم بن گیا جس سے ادب و فکر اور تخیل وتخلیق کاری کے بہت سے بار ۔بہت سے لہلہاتے بیل بوٹے نکلے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ماورائی حلاج کو تاریخی حلاج سے علیحدہ کرنا عبث بھی نہیں ہے اور نامناسب بھی نہیں ۔لیکن اس کے باوجود تاریخی حقائق ایسے ہیں کہ عام تاریخ سے ہٹ کر ان کی توضیع ضروری ہے ۔یہ اس لیے کہ ان کے نتائج دوربین ہیں ۔
پہلی تاریخی حقیقت ، پہلا امر ِ واقعہ تو یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام اور مشہور روایات اور داستانوں کے برخلاف ۔۔۔ حلاج کو محض اس بات پر دار پر نہیں لٹکایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ''انا الحق '' کہا تھا حلاج سے پہلے بایزید کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ بایزید نے '' حالتِ سکر'' میں کیا کہا نہیں کیا ۔ سبحان اللہ کے بجائے ''سبحانی '' اور اس سے بڑھ کر طواف ِ کعبہ کے بجائے اپنے گرد طواف کی ترغیب دی اور یہ نعرہ کہ۔۔
کعبہ را ایک بار ، ''بیتی''گفت باد۔
گفت ''یا عبدی'' مرا ہفتاد باد
سوچتا ہوں کہ بایزید کی گرفت کیوں نہیں ہوئی ؟
دوسری تاریخی حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام روایت اور بعض صوفیاء کے الزامات کے برخلاف ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ حلاج نے الوہیت کا دعوی ہر گز نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے خالق اور مخلوق کے باہمی ''حلول '' کی بات کبھی نہیں کی تھی نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہوجانے کا اعلان کیا تھا۔ حلاج عبد ہی رہے اور معبود ، معبود۔۔۔ قطرہ اپنی ذات میں قطرہ ہی رہا اور دریا ، دریا۔۔ لاہوت اور ناسوت کی دوئی ختم نہیں ہوئی تھی اور یہ بات علامہ اقبال سمجھ گئے اور حلاج کی زبان سے '' جاوید نامہ '' میں سمجھا بھی گئے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغداد کے اس دانشمند صوفی نے کوئی جواب نہ دیا صرف ایک مختصر سی بات کہی مگر ایسی کہی کہ حلقے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کا رنگ اڑ گیا۔
''وہ دن جلد آنے والا ہے ، جب تم لکڑی کے ایک ٹکرے کو لہو کے سرخ رنگ سے بھر دوگے ۔''
اور جواب میں اس نوجوان نے فرمایا
''جس دن میں لکڑی کے اس ٹکرے کو سرخی سے بھروں گا ، اس دن آپ کے جسم پر اہل صوف کی قبا ہوگی ''
حلاج کی داستان حضرت بابا فرید الدین نے تذکرت الاؤلیاء میں بیان کی ہے۔خدا جانے اس میں تاریخی صداقت کتنی ہے لیکن حلاج کی شخصیت تاریخ کی حدود سے نکل کر ایک ایسی علامت اور تمثیل بن گئی ہے اور اس کا سایہ اسلام کے سارے ادبی و فکری تمدنوں پر اتنا گھٹا اور گہرا ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے امورِ واقعہ اور تاریخی حقائق سے سے قطع نظر کرنا گویا لازم ہوگیا ہے ۔ابن منصور ، جس کو اردو اور فارسی حلقے میں صرف منصور کہتے ہیں ، زمان و مکان سے ماورا ہو چکا تھا۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس وارفتہ ، خدا مست عاشق کے بارے میں صوفیاء کے ہاں جو باتیں مذکور ہیں اور مشہور ہیں وہ سب کی سب دیو مالائی ،فرضی اور تخییلاتی ہیں ۔ شاعروں اور صوفیوں کی دنیا میں منصور ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے مگر یہ استعارہ تاریخی حقائق کی پائیدار اساس پر تعمیر ہوا ۔ حلاج کا نعرہ '' انا الحق '' ان کا سفر سندھ ، درباری اور فرقہ بند سیاست کی انا کی خلاف تاریک سازشیں ، ان کی مستیِ الست ، 24 ذو العقد 309 ہجری کو نخل دار پر ان کا سفاکانہ قتل۔۔۔۔۔ یہ سارے امور تاریخ سے ثابت ہیں ۔
حلاج کی زیادہ تر شاعری بھی انہی کی وارفتگی اور جذب کی تخلیق ہیں اس نے لوگوں کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑا ہے اور ان کا اثر اتنا پھیلا کہ ہنگامہ ''ہائے ہو'' کی شورشوں میں بہت سی مافوق الفطرت باتیں بھی ان سے منسوب ہوگئی ۔ان کا ھیولیٰ ایسا تخم بن گیا جس سے ادب و فکر اور تخیل وتخلیق کاری کے بہت سے بار ۔بہت سے لہلہاتے بیل بوٹے نکلے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ماورائی حلاج کو تاریخی حلاج سے علیحدہ کرنا عبث بھی نہیں ہے اور نامناسب بھی نہیں ۔لیکن اس کے باوجود تاریخی حقائق ایسے ہیں کہ عام تاریخ سے ہٹ کر ان کی توضیع ضروری ہے ۔یہ اس لیے کہ ان کے نتائج دوربین ہیں ۔
پہلی تاریخی حقیقت ، پہلا امر ِ واقعہ تو یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام اور مشہور روایات اور داستانوں کے برخلاف ۔۔۔ حلاج کو محض اس بات پر دار پر نہیں لٹکایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ''انا الحق '' کہا تھا حلاج سے پہلے بایزید کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ بایزید نے '' حالتِ سکر'' میں کیا کہا نہیں کیا ۔ سبحان اللہ کے بجائے ''سبحانی '' اور اس سے بڑھ کر طواف ِ کعبہ کے بجائے اپنے گرد طواف کی ترغیب دی اور یہ نعرہ کہ۔۔
کعبہ را ایک بار ، ''بیتی''گفت باد۔
گفت ''یا عبدی'' مرا ہفتاد باد
سوچتا ہوں کہ بایزید کی گرفت کیوں نہیں ہوئی ؟
دوسری تاریخی حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام روایت اور بعض صوفیاء کے الزامات کے برخلاف ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ حلاج نے الوہیت کا دعوی ہر گز نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے خالق اور مخلوق کے باہمی ''حلول '' کی بات کبھی نہیں کی تھی نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہوجانے کا اعلان کیا تھا۔ حلاج عبد ہی رہے اور معبود ، معبود۔۔۔ قطرہ اپنی ذات میں قطرہ ہی رہا اور دریا ، دریا۔۔ لاہوت اور ناسوت کی دوئی ختم نہیں ہوئی تھی اور یہ بات علامہ اقبال سمجھ گئے اور حلاج کی زبان سے '' جاوید نامہ '' میں سمجھا بھی گئے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: