با ادب
محفلین
بعض خبط اگر سوار ہو جائیں تو خبطی کئیے بغیر جانے کا نام نہیں لیتے ۔ اب خبط اور خبطی کا کیا ربط کیا تعلق ، اس بارے میری معلومات ہمیشہ ناقص ہی رہیں ۔
لیکن خبط سے میری اتنی واقفیت ضرور تھی کہ مجھے پڑھنے لکھنے کا خبط تھا اور ایسے تمام عارضے صغر سنی سے لا حق تھے اور صغر سنی کا یہ عارضہ کبر سنی کے عارضوں کی طرح لاعلاج و لا دوا تھا۔
گو پڑھے لکھوں کی دنیا میں پڑھنا لکھنا عارضہ نہیں لیکن مجھے ایسی پڑھی لکھی دنیا سے کبھی واسطہ پڑا ہی نہیں تھا اور میرے لئیے یہ انتہائ خطرناک قسم کا عارضہ تھا۔
خبطی پن کی بیماری وہ بیماری جس کے اثرات ایک دم ظاہر نہیں ہوتے ۔ مریض کی صحت آہستہ آہستہ بگڑنے لگتی ہے ۔ اگر دوسرے خبطیوں کی صحبت میسر آجائے تو رنگ اور بھی چوکھا آتا ہے ۔
قلم پکڑنا آتا یا نہ آتا ، دیگر بات ہے ۔ میں عرض کر چکی ہوں کہ کہ مجھے خبط لا حق تھا اور خبط کی بلا تب تک نہیں ٹلتی جب تک انسان خبطی پنے میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ اسی خبطی پن کے زیر اثر قلم پکڑا اور امامیات کی ابتدا کی ۔
تاریخ کے سنہری اوراق پہ اگر نگاہ ڈالی جائے تو مشکل کام "ابتداء " ہی ہے ۔ ایک بار آغاز ہو جائے انجام کی پروہ پھر کسے ہے ۔ اور یہی رویہ زندگی کے تمام اصناف اور شعبوں میں میرا ساتھی ہے ۔
پر بات یہاں رویے کی نہیں آغاز کی تھی ۔ اور آغاز کرنے کی دیر تھی جوش و خروش دیدنی تھا۔ اب جہاں زندگی کی ہر جہت امام صاحب کے بغیر ادھوری تھی وہاں لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی ان ہی سے جا جڑا ۔
اب موضوع خواہ کیسا ہی دقیق اور معاملہ کتنا ہی غور طلب کیوں نہ ہوتا ، جس جس صاحب علم کی رائے اس پہ لی جا چکی ہوتی ، اس سب سے قطع نظر بلکہ صرف نظر کر کے گرفت ہوئ تو امام صاحب پہ ۔ ارے جناب لکھا تو بہت خوب بہت اعلی پر یہ امام کون ہیں ؟
ارے واہ تحریر تو خوب ہے پر امام سمجھ نہ آئے ۔
بھئ انداز تو اچھا ہے پر ذرا امام کی وضاحت کر دیجیئے۔
ارےکیوں کریں وضاحت ۔ جب لکھا خوب ہے تحریر بہتر ہے تو امام سے کیا لینا دینا ۔
حضرت اقبال سے تو آج تک کسی نے شیخ صاحب کا پتہ نہ مانگا تھا ۔ اور کون سا قاری تھا کہ اشفاق احمد سے بابوں کا ایڈریس لے آیا تھا ۔ ؟
تو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ امام صاحب کے گھر جانا ضروری ٹھرا ۔ ؟
اور کون سا امام صاحب منبر پہ براجمان دنیا کے تمام مسائل کا حل لئیے بیٹھے ہیں ؟
اور چلیئے اگر بات چل ہی نکلی ہے امام صاحب کے محل وقوع اور حدود اربعہ کی تو بتائےہی دیں کہ امام کا تعلق ہر ایک کے اپنے ایمان سے ہے ۔ جہاں ایمانیات کا فرق وہیں امامیات کا فرق ۔
اب خدا جانے امام صاحب اتنے بڑے عالم ہیں یا نہیں کہ سب کی تشفی کروا دیں یا فقط میرے مسائل کے امام ٹھرے ۔
اور ہاں خدا لگتی کہیں تو میں خود بھی نہیں جانتی کہ کس محلے میں ہے مکان ان کا ۔ تو دوستوں آپ کو پتہ کیسے دے دوں۔ ؟
ھاں ایک بات ضرور ہے کہ امام صاحب نے جو بھی سکھایا وہ تمام اسباق مجھے ازبر ہیں جن کا ذکر میں آپ سے وقتا فوقتا کرتی رہتی ہوں اور کرتی رہوں گی ۔ اور یقین جانئے ان میں سے اگر ایک بھی بات دل میں اتر گئ تو امام صاحب کا مقصد پورا ہو جائے گا ۔
اب واللہ اعلم مجھے لکھنے کا خبط تھا یا خبطی ہو کے کچھ لکھ دیا ۔
کون دلاں دیاں جانے ہو ۔ ۔ ۔
لیکن خبط سے میری اتنی واقفیت ضرور تھی کہ مجھے پڑھنے لکھنے کا خبط تھا اور ایسے تمام عارضے صغر سنی سے لا حق تھے اور صغر سنی کا یہ عارضہ کبر سنی کے عارضوں کی طرح لاعلاج و لا دوا تھا۔
گو پڑھے لکھوں کی دنیا میں پڑھنا لکھنا عارضہ نہیں لیکن مجھے ایسی پڑھی لکھی دنیا سے کبھی واسطہ پڑا ہی نہیں تھا اور میرے لئیے یہ انتہائ خطرناک قسم کا عارضہ تھا۔
خبطی پن کی بیماری وہ بیماری جس کے اثرات ایک دم ظاہر نہیں ہوتے ۔ مریض کی صحت آہستہ آہستہ بگڑنے لگتی ہے ۔ اگر دوسرے خبطیوں کی صحبت میسر آجائے تو رنگ اور بھی چوکھا آتا ہے ۔
قلم پکڑنا آتا یا نہ آتا ، دیگر بات ہے ۔ میں عرض کر چکی ہوں کہ کہ مجھے خبط لا حق تھا اور خبط کی بلا تب تک نہیں ٹلتی جب تک انسان خبطی پنے میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ اسی خبطی پن کے زیر اثر قلم پکڑا اور امامیات کی ابتدا کی ۔
تاریخ کے سنہری اوراق پہ اگر نگاہ ڈالی جائے تو مشکل کام "ابتداء " ہی ہے ۔ ایک بار آغاز ہو جائے انجام کی پروہ پھر کسے ہے ۔ اور یہی رویہ زندگی کے تمام اصناف اور شعبوں میں میرا ساتھی ہے ۔
پر بات یہاں رویے کی نہیں آغاز کی تھی ۔ اور آغاز کرنے کی دیر تھی جوش و خروش دیدنی تھا۔ اب جہاں زندگی کی ہر جہت امام صاحب کے بغیر ادھوری تھی وہاں لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی ان ہی سے جا جڑا ۔
اب موضوع خواہ کیسا ہی دقیق اور معاملہ کتنا ہی غور طلب کیوں نہ ہوتا ، جس جس صاحب علم کی رائے اس پہ لی جا چکی ہوتی ، اس سب سے قطع نظر بلکہ صرف نظر کر کے گرفت ہوئ تو امام صاحب پہ ۔ ارے جناب لکھا تو بہت خوب بہت اعلی پر یہ امام کون ہیں ؟
ارے واہ تحریر تو خوب ہے پر امام سمجھ نہ آئے ۔
بھئ انداز تو اچھا ہے پر ذرا امام کی وضاحت کر دیجیئے۔
ارےکیوں کریں وضاحت ۔ جب لکھا خوب ہے تحریر بہتر ہے تو امام سے کیا لینا دینا ۔
حضرت اقبال سے تو آج تک کسی نے شیخ صاحب کا پتہ نہ مانگا تھا ۔ اور کون سا قاری تھا کہ اشفاق احمد سے بابوں کا ایڈریس لے آیا تھا ۔ ؟
تو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ امام صاحب کے گھر جانا ضروری ٹھرا ۔ ؟
اور کون سا امام صاحب منبر پہ براجمان دنیا کے تمام مسائل کا حل لئیے بیٹھے ہیں ؟
اور چلیئے اگر بات چل ہی نکلی ہے امام صاحب کے محل وقوع اور حدود اربعہ کی تو بتائےہی دیں کہ امام کا تعلق ہر ایک کے اپنے ایمان سے ہے ۔ جہاں ایمانیات کا فرق وہیں امامیات کا فرق ۔
اب خدا جانے امام صاحب اتنے بڑے عالم ہیں یا نہیں کہ سب کی تشفی کروا دیں یا فقط میرے مسائل کے امام ٹھرے ۔
اور ہاں خدا لگتی کہیں تو میں خود بھی نہیں جانتی کہ کس محلے میں ہے مکان ان کا ۔ تو دوستوں آپ کو پتہ کیسے دے دوں۔ ؟
ھاں ایک بات ضرور ہے کہ امام صاحب نے جو بھی سکھایا وہ تمام اسباق مجھے ازبر ہیں جن کا ذکر میں آپ سے وقتا فوقتا کرتی رہتی ہوں اور کرتی رہوں گی ۔ اور یقین جانئے ان میں سے اگر ایک بھی بات دل میں اتر گئ تو امام صاحب کا مقصد پورا ہو جائے گا ۔
اب واللہ اعلم مجھے لکھنے کا خبط تھا یا خبطی ہو کے کچھ لکھ دیا ۔
کون دلاں دیاں جانے ہو ۔ ۔ ۔
آخری تدوین: