چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
نوٹ:۔ یہ تحریر جو آپ پڑھنے والے ہیں، یہ چھوٹے حیوانِ ظریف نے لکھی ہے
بعد میں کوئی نہ کہے کہ پتا نہیں چلا
بعد میں کوئی نہ کہے کہ پتا نہیں چلا
یہ ذکر جمیل ہے ان کا
جو عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں دل خواہ مخواہ حور وغلمان کے فراق میں لوٹن کبوتر ہوا رہتا ہے ،
لبوں پر ہر دم یہی دعا رقص کناں رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔
ربا میری اکو دعا، جلدی جلدی حور دکھا
نگاہیں دروازے کی دہلیز پر جمی رہتی ہیں کہ کب فرشتہ اجل آئے اور کب ان کی روح اس پنجرے سے رہائی حاصل کرکے وہاں پہ پہنچے جہاں ملکہ حور محل کے دروازے پر کھڑی ان کی آمد کی منتظر ہو
لیکن قربان جائیں اپنے ان بزرگوار کے جو ابھی تک جنت کی رنگینیوں پر دنیا کی سنگینیوں کو ترجیح دے رہے ہیں ۔
جب بھی پیمانہ زندگی چھلکنے لگتا ہے ، یہ فورا ًً اس میں سے دو چار چسکیاں لے کر اسے چھلکنے نہیں دیتے ۔
اب بھی نہیں پہچانا؟ حیرت ہے
خیر آپ کو کچھ اور نشانیاں دیتے ہیں ، شاید کہ تیری سمجھ میں آ جائے میری بات
دھاگہ نوجوانوں کا ہو، یا بوڑھوں کا
بچوں کا ہو یا خواتین کا ،
آپ الہٰ دین کے جن طرح بنا چراغ رگڑے حاضر
ایک تو بزرگ اوپر سے شاعر
یعنی کریلا اور نیم چڑھا والی مثل کی وجہ تسمیہ
قیامت پہ قیامت یہ کہ
اس قدر عروضی واقع ہوئے ہیں کہ ہنستے بھی مترنم بحروں میں ہیں
البتہ غصے کیلئے سنگلاخ زمینیں استعمال کرتے ہیں
دروازے پر سائل آ جائے تو پیسے دینے کی بجائے ایک شعر سنا دیتے ہیں
ایک دن ایک کی بجائے دو شعر سنا دئیے تو سائل کو یہ بھی کہا کہ اب کل نہیں ، پرسوں آنا
اردو محفل میں ان کی تصویر دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ابھی تصویر کیلئے تیار نہیں تھے ، ابھی کچھ سو چ رہے تھے کہ کیسا منہ بناؤں کہ کم بخت عجلت پسندکیمرے نے پٹاخ سے تصویر کھینچ لی
کبھی اللہ کی طرف سے چند صحت بخش گھنٹے عطا ہو جائیں تو موصوف اپنے ماضی کے سمندر میں غوطہ لگا کر ایسے ایسے در نایاب نکال لاتے ہیں کہ حیرت سے عقل گم ہو جاتی ہے ۔ پرانی یادوں کی راکھ سے وہ چنگاریاں نکالتے ہیں کہ علامہ صاحب کا وہ شعر نوک زباں پر آ جاتا ہے کہ
یارب ! یہ چنگاری بھی اپنے خاکستر میں تھی
سننے والا عش عش کر اٹھتا ہے اور یہ سنا کر غش غش کھا جاتے ہیں اور جب تک انہیں سیب کا مربہ نہ سونگھایا جائے ، ان کی طبیعت بحال نہیں ہوتی ۔
کئی بار ہم نےبھی ان سے ہم کلام ہونے کا شرف پا یا ، اور انہوں نے ہمیں اپنی بہادری ، جرات اور طاقت کے ایسے ایسے قصے سنائے ہیں کہ بھولو پہلوان کے رستم زماں ہونے پر سے ہمارا ایمان اٹھ گیا ہے ۔
مثال کے طور پر ایک دفعہ فرمانے لگے
"بھئی جوانی میں مین اتنا طاقتور تھا کہ سو کوس تک میرے جیسا جوان نہیں تھا ۔ گاؤں کے میلے میں وزن اٹھانے کا مقابلہ ہوا تو میں نے دو بوریاں گندم کی جن کا وزن مبلغ چھ من کے قریب تھا ، سر پر اٹھا کر مقابلہ جیت لیا ۔ کوئی دوسرا جوان میری گرد تک کو نہ پا سکا حتیٰ کہ نظامو تیلی کا گدھا بھی نہیں۔
حالانکہ میری طرح نظامو تیلی کے گدھے کا بھی دور دور تک کوئی مقابل نہیں تھا "
پھر چند لمحے کھانسنے کے بعد بولے
"یہ نہ پوچھو گے کہ اتنا طاقتور کیسے تھا؟"
ہم نے مجسم سوال بن کر پوچھا:۔"کیسے"
"بھئی روازانہ آدھا کلو خالص سرسوں کا تیل جو پیتا تھا۔"
ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا:۔ "کون ؟۔ گدھا۔۔۔۔۔۔۔؟"
گھور کر بولے :۔"میں اپنی بات کر رہا ہوں۔"
اب ان کا یہ حال ہے کہ دو خالی بوریاں ہی ان کی پیٹھ پر رکھ دی جائیں تو یہ فی الفور خدا کے حضور سر بسجود ہو جائیں ۔
ہمیں یقین تو نہیں البتہ شک ضرور ہے کہ ضرور ان "چھ من گندم" والی بوریوں میں بجائے گندم کے روئی بھری ہوئی ہوگی ۔
اس تمام گپ بازی کے باوجود چھوٹے غالبؔ کو اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے
کہ یہ وہی رشک ِ جواناں ، اور رشکِ پیراں ہیں ، جنہیں دیکھ کر میں خود کو "ننگ پیری ہے جوانی میری" والا قبلہ غالبؔ کا شعر سنا کر شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں ۔
اور جب سے میں ان سے ملا ہوں ۔ دل میں تہیہ کیا ہواہے کہ جب میں ان کی عمر کو پہنچوں گا انشاء اللہ انہی کے جیسا بنوں گا۔(اردو محفل کے باقی سب روایتی بابوں کو بھی مشورہ)
اردو محفل میں حقیقت پسندی کی آخری حد پر کسی کو ہم نوا پایا تو وہ کوئی عندلیب نہیں یہی چکور تھا
ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ، اور یقیناً بہت اچھا لکھا جا چکا ہے ، میرے لیے بہت مشکل تھا کہ میں ان پر کچھ الگ لکھ پاؤں