نور وجدان
لائبریرین
ایک دن میں اپنے گھر بیٹھی تھی وہ اچانک آگیا سب اس سے مل کر بہت خوش تھے میں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی ۔وہ میرے پاس آیا اور کہا بہت مغرور ہو تم پر یہ سجتا ہے مگر مجھے یہ پسند نہیں ۔ میں نے اس کو دیکھا اس کو چہرا بابا سے مشابہ تھا میں نے کہا تمہارے چہرے پر جو تل ہے مجھے اچھا لگتا ہے میرے چہرے پر بھی ہے ۔ اس تل کو سنبھال کر رکھنا ۔ وہ ہنس دیا اور کچھ دنوں بعد آیا تو چہرے پر کوئی نشان تل کا نہیں تھا ۔میں ہنس دی وہ بولا ہنسنا بھی جچتا ہے مگر مجھے مسکراتی لڑکیاں زہر لگتی ہیں ۔ میں نے کہا میرے پاس بہتر جواب مسکراہٹ ہی ہے ۔ کہنے لگا تمہیں پتا ہے میں تم سے بچپن سے محبت کرتا ہوں ۔ میں نے استہزائیہ لہجے میں اس کو دیکھا اور کہا محبت اتنی سستی ہے ۔ یہ بچپن سے ہوجاتی ہے اور ہر دوسری سے کہ رہے ہوتے ہو میں تم اتنے سالوں سے چاہتا ہوں ۔
حیران ہو کر مجھے دیکھا کہا ارے تم تو بڑی منہ پھٹ ہو ۔ مجھے منافقت پسند نہیں مگر اتنا کھرا سچ مجھے جلا دیتا ہے ۔اس سے پہلے کے میں تمہیں خاکستر کردوں آگ کی بھٹی میں رہنا چھوڑ دو۔
اچھا ۔۔!!!! میں تو آگ ہوں اور میرا کام بھسم کرنا ہے میرے قریب آؤ گے تو بھسم ہوجاؤ گے ۔ مجھے تو یقین نہیں آتا محبت میں تم خاکستر ہونے کے بجائے مجھے جلا ڈالو گے ۔ کمال کی محبت ہے تمہاری ۔۔۔ مجھے ایسی محبتیں اٹریکٹ کرتی دل کرتا ان لوگوں کے چہرے نوچ لوں جو ماسک لگا کر کہتے ہیں میں منافق نہیں ہوں ۔
اچھا لڑائی چھوڑو ، یہ بتاؤ مجھ سے شادی کر وگی ۔بہت خوش رکھوں گا ۔ میں بہت دھیمے مزاج کا آدمی ہوں ۔ہنستے کھیلتے زندگی گزارو گی ۔
میں نے جواب دیا چلو محبت کرکے دیکھتے ہیں ، محبت آزما کے دیکھ لیتے ہیں ۔ میرا بھروسہ نہیں کرنا میں سمندر کی تیز لہر ہوں گھروندے گرادیتی ہوں ۔
وہ بولا مجھے بڑا اعتماد ہے کنکریٹ کے گھروندے بناتا ہوں ساحل میں ڈوبتے نہیں اور اگر ڈوب گئے تو میں خود ڈوب جاؤں گا ۔
پھر اسکی محبت میں ڈوب گئی اور میرے ساتھ وہ گھروندے سمندر کی تہوں میں مٹی ہوگئے وہ ساحل پر بیٹھ کر انتظار کرتا رہا پھر چلا گیا یہ کہتے ہوئے تمہارا انتظار بے سود ہے کسی اور ساحل پر چلوں گا۔
ساحل پر ایک عنابی پودا نمو پاگیا ۔ ایسا لگا محبت کا خون ہوگیا ہے اور وہ خون عنابی رنگ میں ڈھل گیا ہو۔آہستہ آہستہ وہ مرجھا گیا ۔ اور اس کا نشان باقی رہا ۔وہ کبھی کبھی اس جگہ آتا اور اس مرجھائے ہوئے پودے کو دیکھ کر گردن تان لیتا اور مسکرا کہتا میں کہتا تھا مجھ سے مٹ الجھو ورنہ نہ جی سکو گی نہ ہی مر سکو گی
حیران ہو کر مجھے دیکھا کہا ارے تم تو بڑی منہ پھٹ ہو ۔ مجھے منافقت پسند نہیں مگر اتنا کھرا سچ مجھے جلا دیتا ہے ۔اس سے پہلے کے میں تمہیں خاکستر کردوں آگ کی بھٹی میں رہنا چھوڑ دو۔
اچھا ۔۔!!!! میں تو آگ ہوں اور میرا کام بھسم کرنا ہے میرے قریب آؤ گے تو بھسم ہوجاؤ گے ۔ مجھے تو یقین نہیں آتا محبت میں تم خاکستر ہونے کے بجائے مجھے جلا ڈالو گے ۔ کمال کی محبت ہے تمہاری ۔۔۔ مجھے ایسی محبتیں اٹریکٹ کرتی دل کرتا ان لوگوں کے چہرے نوچ لوں جو ماسک لگا کر کہتے ہیں میں منافق نہیں ہوں ۔
اچھا لڑائی چھوڑو ، یہ بتاؤ مجھ سے شادی کر وگی ۔بہت خوش رکھوں گا ۔ میں بہت دھیمے مزاج کا آدمی ہوں ۔ہنستے کھیلتے زندگی گزارو گی ۔
میں نے جواب دیا چلو محبت کرکے دیکھتے ہیں ، محبت آزما کے دیکھ لیتے ہیں ۔ میرا بھروسہ نہیں کرنا میں سمندر کی تیز لہر ہوں گھروندے گرادیتی ہوں ۔
وہ بولا مجھے بڑا اعتماد ہے کنکریٹ کے گھروندے بناتا ہوں ساحل میں ڈوبتے نہیں اور اگر ڈوب گئے تو میں خود ڈوب جاؤں گا ۔
پھر اسکی محبت میں ڈوب گئی اور میرے ساتھ وہ گھروندے سمندر کی تہوں میں مٹی ہوگئے وہ ساحل پر بیٹھ کر انتظار کرتا رہا پھر چلا گیا یہ کہتے ہوئے تمہارا انتظار بے سود ہے کسی اور ساحل پر چلوں گا۔
ساحل پر ایک عنابی پودا نمو پاگیا ۔ ایسا لگا محبت کا خون ہوگیا ہے اور وہ خون عنابی رنگ میں ڈھل گیا ہو۔آہستہ آہستہ وہ مرجھا گیا ۔ اور اس کا نشان باقی رہا ۔وہ کبھی کبھی اس جگہ آتا اور اس مرجھائے ہوئے پودے کو دیکھ کر گردن تان لیتا اور مسکرا کہتا میں کہتا تھا مجھ سے مٹ الجھو ورنہ نہ جی سکو گی نہ ہی مر سکو گی