زندگی چھوڑ دے ، یوں تماشا نہ کر(برائے اصلاح۔ ماہرین متوجہ ہوں)

ساقی۔

محفلین
زندگی چھوڑ دے ، یوں تماشا نہ کر
غم ہیں پہلے بہت، اور منشا نہ کر

دے خوشی کی خبر ، تو مجھے بھی کبھی
میں پریشان ہوں اور پریشاں نہ کر

راز کو راز رکھ، دے دغا نہ مجھے
ہیں بہت قیمتی ان کو افشا نہ کر

میں ستم کے ہوں قابل اگر ہم نشیں
دے سزا تو مجھے، مجھ کو بخشا نہ کر

تو جہاں بھی رہے میں ترے ساتھ ہوں
مجھ کو لے کے تو چل ایسے حاشا نہ کر
 

ساقی۔

محفلین
بہت خوب کوشش ہے ۔اب آپ بتائیں کے قوافی میں حرف ِ روی کیا ہے؟

جیسا کہ اصول کے مطابق حرف روی اس اصل حرف کو کہتے ہیں جس کے ہٹانے پر لفظ کا مطلب ختم ہو جائے۔یا اس کے معنی تبدیل ہو جائیں ۔
تو یہاں حرف روی میرے طفلانہ علم کے مطابق ا(الف) ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
جیسا کہ اصول کے مطابق حرف روی اس اصل حرف کو کہتے ہیں جس کے ہٹانے پر لفظ کا مطلب ختم ہو جائے۔یا اس کے معنی تبدیل ہو جائیں ۔
تو یہاں حرف روی میرے طفلانہ علم کے مطابق ا(الف) ہے
جی لفظ میں موجود آخری اصلی حرف کو روی کہتے ہیں
تو پریشان میں آخری اصلی حرف نون ہے تو پھر اس کو الف کے ساتھ متحد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ پریشاں کا نون غنہ تقطیع میں گرادیا جاتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ گرانے کے بعد آنے والا آخری حرف روی بن جائے گا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہاں ایک سے زیادہ حرف روی موجود ہیں ۔؟
جی نہیں پریشاں کا حرف روی ن ہی ہے بس نون غنہ کی صورت میں تقطیع سے گرا دینے کے باوجود حرف روی نون ہی رہے گا ۔حرف روی ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ مطلب پریشاں اور تماشا قوافی نہیں ہو سکتے
 

ابن رضا

لائبریرین
مزید یہ کہ قوافی کو اگر مزید دیکھا جائے تو تماشا اور منشا میں صوتی تغیر معلوم ہوتا ہے؟
 

ساقی۔

محفلین
جی نہیں پریشاں کا حرف روی ن ہی ہے بس نون غنہ کی صورت میں تقطیع سے گرا دینے کے باوجود حرف روی نون ہی رہے گا ۔حرف روی ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ مطلب پریشاں اور تماشا قوافی نہیں ہو سکتے
بہت شکریہ ۔
اب مصرع بھی آپ ہی نے فٹ کرنا ہے ۔
 
بہت اچھی کوشش ہے۔۔۔۔

پریشاں کے بارے میں ابن رضا صاحب نے درست فرمایا ہے ، مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ :) مگر تماشا اور منشا ہم قافیہ ہیں ، البتہ ”منشا کرنا“ کوئی محاورہ نہیں ہے۔

میری طرف سے کچھ تصحیح:

زندگی! مجھ سے تو یوں تماشا نہ کر
غم کے اصنام دل میں تراشا نہ کر

دے خوشی کی خبر تو مجھے بھی کبھی
یوں پریشاں مجھے بے تحاشا نہ کر

راز کو راز رکھ، دے نہ مجھ کو دغا
ہیں بہت قیمتی ان کو افشا نہ کر

میں ستم کے ہوں قابل اگر ہم نشیں!
دے دیا کر سزا ، مجھ کو بخشا نہ کر

کب سے میں جام خالی لیے ہوں کھڑا
ساقیا! کچھ تو دے ، یوں تماشا نہ کر


مزید تصحیح و اصلاح کے اساتذہ کا انتظار ہے۔
 

ساقی۔

محفلین
بہت اچھی کوشش ہے۔۔۔ ۔

پریشاں کے بارے میں ابن رضا صاحب نے درست فرمایا ہے ، مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ :) مگر تماشا اور منشا ہم قافیہ ہیں ، البتہ ”منشا کرنا“ کوئی محاورہ نہیں ہے۔

میری طرف سے کچھ تصحیح:

زندگی! مجھ سے تو یوں تماشا نہ کر
غم کے اصنام دل میں تراشا نہ کر

دے خوشی کی خبر تو مجھے بھی کبھی
یوں پریشاں مجھے بے تحاشا نہ کر

راز کو راز رکھ، دے نہ مجھ کو دغا
ہیں بہت قیمتی ان کو افشا نہ کر

میں ستم کے ہوں قابل اگر ہم نشیں!
دے دیا کر سزا ، مجھ کو بخشا نہ کر

کب سے میں جام خالی لیے ہوں کھڑا
ساقیا! کچھ تو دے ، یوں تماشا نہ کر


مزید تصحیح و اصلاح کے اساتذہ کا انتظار ہے۔

منشا مطلب ارادہ
منشا نہ کر ،ارداہ نہ کر۔
چار سال سے آئی لو اردو کا اوتار لگایا ہوا ہے اتنا تو حق بنتا ہے اردو سے چھیڑ چھاڑ کا ۔:p

ساقیا! کچھ تو دے:martiniglass:

اصلاح و توجہ کے لیے شکر گزار ہوں ۔
 
ارادہ کرنا مستعمل محاورہ ہے ، جبکہ ”منشاکرنا“ نہ کسی لغت میں ہے ، نہ کبھی نظر سے گزرا ، نہ کبھی کسی سے سنا۔
بہرحال آپ اردو سے لو کرتے ہیں۔
 
منشا مطلب ارادہ
منشا نہ کر ،ارداہ نہ کر۔
چار سال سے آئی لو اردو کا اوتار لگایا ہوا ہے اتنا تو حق بنتا ہے اردو سے چھیڑ چھاڑ کا ۔:p

ساقیا! کچھ تو دے:martiniglass:

اصلاح و توجہ کے لیے شکر گزار ہوں ۔
اردو سے محبت کرنی تھی نا۔۔۔ لو کرنے کا کس نے کہا تھا۔ اب بھگتیں نتیجہ۔۔۔:laugh:
 

ابن رضا

لائبریرین
ارادہ کرنا مستعمل محاورہ ہے ، جبکہ ”منشاکرنا“ نہ کسی لغت میں ہے ، نہ کبھی نظر سے گزرا ، نہ کبھی کسی سے سنا۔
بہرحال آپ اردو سے لو کرتے ہیں۔
آخری جمله اسامه بھائی نے شاید ادهورا چھوڑ دیا هے تو میں مکمل کر دیتاهوں

بہرحال آپ اردو سے لو کرتے ہیں تو اسکی ٹانگیں مت توڑیں:p
 
Top