شعیب سعید شوبی
محفلین
نوٹ: یہ تحریر مجھے ای میل کے ذریعے موصول ہوئی تھی جو ہاتھ کی لکھائی کی صورت میں کسی نے اسکین کر کے بھیجی دی۔ کافی پر اثر تحریر ہے۔ اس لیے اس کو ٹائپ کر کے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔
﴿سفر آخرت﴾
(ایک آدمی کی کہانی جو جدہ سے ریاض جا رہا تھا)
﴿سفر آخرت﴾
(ایک آدمی کی کہانی جو جدہ سے ریاض جا رہا تھا)
نحمده و نصلی علی رسوله الکریم فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿ رب اشرح لی صدري ويسرلی أمرِي واحلل عقدة من لسانی يفقهوا قولي﴾
ّّْْ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کشادہ کر دے اور میرے کام کو آسان فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھیں۔
﴿کل نفس ذائقة الموت﴾
ہرجاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے
٭۔ ۔ ۔ ٭
ایک بار ریاض جانے کے لیے میں ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا، لیکن راستے میں ٹریفک کے رش اور پولیس چیکنگ کی وجہ سے میں ایئرپورٹ تاخیر سے پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور دوڑتے ہوئے کاؤنٹر جا پہنچا۔ کاؤنٹر پر موجود ملازم سے میں نے کہا: مجھے ریاض جانا ہے۔ اس نے کہا:ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے۔ میں نے کہا: پلیز!۔۔۔مجھے آج شام تک لازمی ریاض پہنچنا ہے۔ اس نے کہا: جناب! زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپ کو کوئی بھی نہیں جانے دے گا۔ میں نے کہا: اللہ تمھارا حساب کر دے۔ اس نے کہا: اس میں میرا کیا قصور ہے؟
بہرحال میں ایئرپورٹ سے باہر نکلا، حیران تھاکیا کروں؟ریاض جانے کا پروگرام منسوخ کر دوں یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاؤں یا کسی ٹیکسی میں چلا جاؤں؟ آخرکار ٹیکسی میں جانے والی بات موزوں معلوم ہوئی۔
ایئرپورٹ کے باہر ایک پرائیویٹ گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا: ریاض کے لیے کتنے پیسےلوگے؟ اس نے کہا:500ریال۔ بڑی مشکل سے اسے 450ریال پر راضی کیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کیلئے روانہ ہوا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے اسے کہا: گاڑی تیز چلانی ہے۔ اس نے کہا: فکر مت کرواور واقعی اس نے خطرناک حد تک گاڑی دوڑانی شروع کر دی۔ راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے میرے ذریعہء روزگار اور خاندان سے متعلق سوالات کیے ۔ اسی طرح کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔
اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا کہ ان سے بات کر لوں۔ میں نے موبائل نکالا اور والدہ کو فون کیا۔ انھوں نے پوچھا: بیٹے کہاں ہو؟ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتا دی۔ ماں نے دعا دی: بیٹے اللہ تمھیں ہر قسم کے شر سے بچا ئے۔ میں نے کہا: انشاءاللہ! جب میں ریاض پہنچ جاؤں گا تو آپ کو اطلاع دے دونگا۔
اس وقت نہ جانے کیوں میرے دل میں قدرتی طور پرایک عجیب سی گھبراہٹ طاری ہونے لگی اور مجھے ایسا لگنے لگا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔
اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کوفون کیا۔ میں نے اسے بھی ساری بات بتا دی اور اسے ہدایت کی کہ بچوں کا خیال رکھے۔ بالخصوص چھوٹی بچی سلمیٰ کا۔ اس نے کہا: جب سے آپ گئے ہیںسلمیٰ مسلسل آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ سلمیٰ سے میری بات کرواؤ۔ بچی نے کہا: بابا!آپ کب آئیں گے۔ میں نے کہا: بیٹی! تھوڑی دیر میں آجاؤں گا، کوئی چیز چاہیئے؟ وہ بولی: ہاں بابا میرے لیے چاکلیٹ لے آؤ۔ میں ہنسا اور کہا: ٹھیک ہے۔
اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ اس نے پوچھا: کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟ میں نے کہا: بھائی! تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کو نقصان پہنچا رہے ہو؟ اس نے کہا: میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ نوشی چھوڑ دوں لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمھیں بڑی قوت عطا کی ہے، تم سگریٹ نوشی چھوڑنے جیسا معمولی سا کام نہیں کر سکتے؟ بہرحال اس نے کہا کہ آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ تمھیں ثابت قدمی عطا فرمائے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے ایک زوردار آواز آئی اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی کی رفتار کم کر دو اور گاڑی کو قابو کرو۔ اس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ گاڑی ڈرائیور سے بے قابو ہو کر ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ جا کر رک گئی۔ مجھے اس وقت اللہ نے توفیق دی اور میں نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔
مجھے سر میں چوٹ لگی تھی اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سر پھٹا جارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ حتیٰ کہ میری آنکھیں کھلی تھیں، لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں میں نےلوگوں کے قدموں کی آوازیں سنیں جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاؤنہیں، سر سے خون نکل رہا ہے اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاتھا اورمیں سانس لینے میں شدید دشواری محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میری موت واقع ہوگئی ہے۔ اس وقت مجھے گزری ہوئی زندگی پر جو ندامت ہوئی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
بہرحال میں ایئرپورٹ سے باہر نکلا، حیران تھاکیا کروں؟ریاض جانے کا پروگرام منسوخ کر دوں یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاؤں یا کسی ٹیکسی میں چلا جاؤں؟ آخرکار ٹیکسی میں جانے والی بات موزوں معلوم ہوئی۔
ایئرپورٹ کے باہر ایک پرائیویٹ گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا: ریاض کے لیے کتنے پیسےلوگے؟ اس نے کہا:500ریال۔ بڑی مشکل سے اسے 450ریال پر راضی کیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کیلئے روانہ ہوا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے اسے کہا: گاڑی تیز چلانی ہے۔ اس نے کہا: فکر مت کرواور واقعی اس نے خطرناک حد تک گاڑی دوڑانی شروع کر دی۔ راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے میرے ذریعہء روزگار اور خاندان سے متعلق سوالات کیے ۔ اسی طرح کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔
اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا کہ ان سے بات کر لوں۔ میں نے موبائل نکالا اور والدہ کو فون کیا۔ انھوں نے پوچھا: بیٹے کہاں ہو؟ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتا دی۔ ماں نے دعا دی: بیٹے اللہ تمھیں ہر قسم کے شر سے بچا ئے۔ میں نے کہا: انشاءاللہ! جب میں ریاض پہنچ جاؤں گا تو آپ کو اطلاع دے دونگا۔
اس وقت نہ جانے کیوں میرے دل میں قدرتی طور پرایک عجیب سی گھبراہٹ طاری ہونے لگی اور مجھے ایسا لگنے لگا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔
اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کوفون کیا۔ میں نے اسے بھی ساری بات بتا دی اور اسے ہدایت کی کہ بچوں کا خیال رکھے۔ بالخصوص چھوٹی بچی سلمیٰ کا۔ اس نے کہا: جب سے آپ گئے ہیںسلمیٰ مسلسل آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ سلمیٰ سے میری بات کرواؤ۔ بچی نے کہا: بابا!آپ کب آئیں گے۔ میں نے کہا: بیٹی! تھوڑی دیر میں آجاؤں گا، کوئی چیز چاہیئے؟ وہ بولی: ہاں بابا میرے لیے چاکلیٹ لے آؤ۔ میں ہنسا اور کہا: ٹھیک ہے۔
اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ اس نے پوچھا: کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟ میں نے کہا: بھائی! تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کو نقصان پہنچا رہے ہو؟ اس نے کہا: میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ نوشی چھوڑ دوں لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمھیں بڑی قوت عطا کی ہے، تم سگریٹ نوشی چھوڑنے جیسا معمولی سا کام نہیں کر سکتے؟ بہرحال اس نے کہا کہ آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ تمھیں ثابت قدمی عطا فرمائے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے ایک زوردار آواز آئی اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی کی رفتار کم کر دو اور گاڑی کو قابو کرو۔ اس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ گاڑی ڈرائیور سے بے قابو ہو کر ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ جا کر رک گئی۔ مجھے اس وقت اللہ نے توفیق دی اور میں نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔
مجھے سر میں چوٹ لگی تھی اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سر پھٹا جارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ حتیٰ کہ میری آنکھیں کھلی تھیں، لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں میں نےلوگوں کے قدموں کی آوازیں سنیں جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاؤنہیں، سر سے خون نکل رہا ہے اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاتھا اورمیں سانس لینے میں شدید دشواری محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میری موت واقع ہوگئی ہے۔ اس وقت مجھے گزری ہوئی زندگی پر جو ندامت ہوئی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔