سیّد ادیؔب رائے پوری کا منفرد کلام (راگ ہے باگیری کا اور بیاں شانِ رسول)

راگ ہے ’’باگیشری‘‘ کا اور بیاں شانِ رسول
ہو رہا ہے آج ’’سرگم‘‘ کو بھی عرفانِ رسول

’’انترہ‘‘ کی تان جویائے شبِ معراج ہے
اور ’’استائی‘‘ بصد انداز، قربانِ رسول

ہر قدم ’’آروہی‘‘ کا افلاکِ مدحت کی طرف
اور ’’امروہی‘‘ بنی جاتی ہے دربانِ رسول

وادیِ طیبہ سے ناواقف تھی ’’وادی‘‘ راگ کی
کیسے دکھلاتی بھلا کس جا ہے ایوانِ رسول

آج ’’وادی‘‘ اور ’’سمِ وادی‘‘ بتائیں گے تمہیں
کونسا ’’سُر‘‘ کونسا ہے ’’راگ‘‘ شایانِ رسول

راگ ہے اِک ’’ٹھاٹھ‘‘ کا اِک وقت ہے اس کا ادیؔب
میں نے اس کو کردیا ہر دم ثناخوانِ رسول

اے ادیؔبِ خوش نواء خسرؔو کا یہ فیضان ہے
تم نے ’’موسیقی‘‘ کے فن میں کی بیاں شانِ رسول
 
آخری تدوین:
ذرا مطلع ایک بار پھر دیکھ لیجیے گا، "باگیری" کی بجائے "باگھیشری" ہوگا۔

درست فرما رہے ہیں، محترم شاکرالقادری قادری صاحب نے بھی توجہ دلائی تھی اس طرف

مطلع میں (راگ باگیری ) لکھا گیا ہے موسیقی میں (باگیری نام کا کوئی راگ نہیں بلکہ اس راگ کا نام باگیشری ہے جو در اصل (بھاگیہ شری) ہے جو بعد میں بھاگیشری اور باگیشری کے ناموں سے مستعمل ہوا ۔ یہ کافی ٹھاٹھ کا اوڈو سنپورن راگ ہے ۔۔۔ اوڈو سنپورن سے مراد یہ ہے کہ اس راگ کی آروہی یعنی سروں کی صعودی ترتیب میں پانچ سر استعمال ہوتے ہیں اور آوروہی یا امروہی (سروں کی نزولی ترتیب) میں پورے سات سر استعمال ہوتے ہیں۔ اس راگ کا وادی سر (سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سر) مدھم (ما) ہے اور سموادی سر کھرج (سا) ہے۔

میرے پاس جناب سیّد ادیؔب رائے پوری صاحب کا جو مجموعہ ’مقصودِ کائنات‘ ہے اس میں اسی طرح ہے وہیں سے دیکھ کر ٹائپ کیا ہے۔​
 

محمد وارث

لائبریرین
درست فرما رہے ہیں، محترم شاکرالقادری قادری صاحب نے بھی توجہ دلائی تھی اس طرف

مطلع میں (راگ باگیری ) لکھا گیا ہے موسیقی میں (باگیری نام کا کوئی راگ نہیں بلکہ اس راگ کا نام باگیشری ہے جو در اصل (بھاگیہ شری) ہے جو بعد میں بھاگیشری اور باگیشری کے ناموں سے مستعمل ہوا ۔ یہ کافی ٹھاٹھ کا اوڈو سنپورن راگ ہے ۔۔۔ اوڈو سنپورن سے مراد یہ ہے کہ اس راگ کی آروہی یعنی سروں کی صعودی ترتیب میں پانچ سر استعمال ہوتے ہیں اور آوروہی یا امروہی (سروں کی نزولی ترتیب) میں پورے سات سر استعمال ہوتے ہیں۔ اس راگ کا وادی سر (سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سر) مدھم (ما) ہے اور سموادی سر کھرج (سا) ہے۔

میرے پاس جناب سیّد ادیؔب رائے پوری صاحب کا جو مجموعہ ’مقصودِ کائنات‘ ہے اس میں اسی طرح ہے وہیں سے دیکھ کر ٹائپ کیا ہے۔​
یقینا کتاب میں کتابت کی غلطی ہے۔ ایک وجہ وزن بھی ہے، باگیری سے وزن خراب ہوتا ہے، بھاگیشری سے مصرع موزوں رہتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بھی تو ممکن ہے کہ غلطی شاعر ہی کی ہو؟
ممکن ہے مگر قرائن سے لگتا نہیں، ایک، شاعر نے جس طرح موسیقی کی ٹرمنالوجی استعمال کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کو موسیقی کی مبادیات کا علم ہے۔دوسرے، وزن کی غلطی ایسے شاعر سے بعید ہے، ایک ایک مصرع نپا تلا ہے ، تیسرا یہ کہ شاعر بھی "سیزنڈ" ہیں یعنی نو آموز نہیں۔

آخری یہ کہ یہ اردو شعر و ادب کی روایت ہے، ایسی غلطیاں کاتب کے کھاتے میں جاتی ہیں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
راگ بھاگیشری سے مجھے دو استاد یاد آگئے۔ 1990ء میں انڈیا کے مشہور طبلہ نواز اُستاد ذاکر حسین نے عدنان سمیع کے ساتھ کراچی میں ایک کنسرٹ کیا تھا۔ عدنان سمیع اس وقت صرف پیانو بجاتے تھے، ان دونوں کا اس کنسرٹ میں راگ بھاگیشری کا تال میل اور جگل بندی ایک خاصے کی چیز ہے :)
 
ادیب رائے پوری صاحب کی نعتیں عموماً بہت اچھی ہوتی ہیں خاص طور سے وہ جو بحرطویل کی معروف نعت ہے

عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار، تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رَہتے ہیں وہ توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
ورنہ وُہ سیّدِ عالی نَسَبی، ہاں وُہی اُمّی لقَبی ، ہاشمی و مُطّلبی و عَرَبی و قَرشی و مَدَنی اور کہاں ہم سے گنہ گار



آرزُو یہ ہے کہ ہو قَلب مُعَطّر و مُطَہّرو مُنَوّر و مُجَلّٰی و مُصَفّٰی، دُرِ اَعلیٰ جو نظر آئیں کہیں جَلوۂ رُوئے شَہہِ اَبرار
جن کے قَدموں کی چَمک چاند ستاروں میں نظر آئے، جِدھر سے وُہ گُذر جائے، وُہی راہ چمک جائے، دَمک جائے، مہک جائے ،بنے رَونق ِگُلزار



سُو نگھ لُوں خُوشبُوئے گَیسُوئے مُحَمَّدﷺ وہ سیاہ زُلف نہیں ، جس کے مقابل یہ بَنَفشَہ، یہ سیُوتی ،یہ چنبیلی ، یہ گُلِ لالہ و چمپَا کا نکھار
جس کی نکہت پہ ہیں قربان گل و برگ و ثمن نافہِ آہوئے ختن بادِ چمن بوئے چمن نازِ چمن نورِ چمن رنگِ چمن سارا چمن زار
(یہ مصرع سید ادیب رائے پوری کے مجموعہ ’’مقصودِ کائنات‘‘ میں ہے)
اُن کی نکہت پہ ہے قربان، گُل و بَرگ و سمن ،نافۂ آہوئے خُتن، اور کَہیں سُنبَل، کہیں رَیہا، کہیں عَنبَر، کہیں قَیصَر، کہیں صَندَل کی بَہار
(یہ مصرع مقصودِکائنات میں نہیں)


یہ تمنّا کہ سُنُوں میں بھی وہ آوازِ شَہہِ جِنّ و بَشَر، حَق کی خبر، خُوش تَر و شیرِیں زشکر، حسنِ فصاحت کا گُہر، نطق کرے ناز سخن پر
وُہ دِل آرام صدا، نامِ خدا، جس پہ فدا، غُنچَہ دہن، طُوطیِ صَد رَشکِ چمن، نَغمۂ بلبل زگلستانِ عدن ،مصر و یمن جس کے خَرِیدار


اک شہنشاہ نے بخشے جو ثمر قند و بخارا ،کسی محبوب کے رخسار کے تل پر مگر اے سیدِ عالم، تیری ناموس تیری عظمت پر
اے رسول مدنی! ایک نہیں لاکھوں ہیں قربان گہِ عشق کے ہر کوچہ بازار میں سر اپنا ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں کرنے کو نثار


بَخش دیتے ہیں شہنشاہِ سمر قند و بخارا ،کسی مَحبُوب کے رُخسار کےتِل پر، مگر اَے خلق کے رہبر، اَے میرے مہرِ منوّر
میں کرُوں تُجھ پہ تَصَدُّق، دَمِ عِیسٰی، یدِبَیضا، دَرو دِیوارِ حرم کعبۂ دل،اِن سے بڑی کوئی نہیں شے میرے پاس، میری چشمِ گُہربار
(یہ شعر مقصودِکائنات میں نہیں)


آپ کے ذکر میں ہیں نغمہ سرا سارے ہُدی خوانِ عرب، نغمہ نگارانِ عجم، شوکتِ الفاظِ ادب، عظمتِ قرطاس و قلم، بادِ صباء موجِ نسیم
دہنِ بلبلِ شیریں، لحنِ قمری و طوطی، شبِ مہتاب، ستارے، مَلَک و حور و جناں جن کی نواؤں میں درودوں کا حصار


وَرَفَعنا لَکَ ذکرَک کی اِس اِک آیتِ توصیف کی توصیف میں، تفسیر میں، تشریح میں، توضیح میں، تضمین میں ہر عہد کی شامل ہے زبان
لَبِ حَسّان و رواحہ و لَبِ فاطمہ زہرا و علی، عابدِ بیمار و بوصیری، دہنِ عُرفی وجامی لبِ سعدی و رضا سب سرشار


عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون وبلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار


یہ مہاجر کی ہے صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز
حرم کعبه میں عرفات کے میدان میں یا روضہ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار


ایسا محبوب دیا حق نے تمھیں صَلِّ عَلٰی، جس کا مماثل نہ مقابل کہ لقب جس کو حریصُُ کا دیا، اتنا کیا جس نے گنہ گاروں سے پیار
اے خدا ! اے شہ کونین کے رب! لفظ حریص کے سبب، ایک ہوں سب، وہ عجمی ہوں کہ عرب، تاکہ ملے امت مرحوم کو پھر کھویا وقار


یا نبیﷺ آپ کا یہ ادنیٰ ثنا خواں، در رحمت کا گدا ، دیتا ہے در در یہ صدا ، چاہتا ہے آپ سے چاہت کا صلہ، اپنی زباں میں تاثیر
سن کے سب اہل چمن، اس کا سخن، ان کو بھی آجائے حیا ،سر ہو ندامت سے جھکا ،اور نظر دیکھے وہ اسلاف کی الفت کا نظارا، ایک بار


اے ادیؔب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال
اُن کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اِس میں شعار
 
راگ بھاگیشری سے مجھے دو استاد یاد آگئے۔ 1990ء میں انڈیا کے مشہور طبلہ نواز اُستاد ذاکر حسین نے عدنان سمیع کے ساتھ کراچی میں ایک کنسرٹ کیا تھا۔ عدنان سمیع اس وقت صرف پیانو بجاتے تھے، ان دونوں کا اس کنسرٹ میں راگ بھاگیشری کا تال میل اور جگل بندی ایک خاصے کی چیز ہے :)

سرچ کرنا پڑے گا :thinking:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار، تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رَہتے ہیں وہ توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
جہاں تک میرا خیال ہے یہ اشعار تو حکیم اختر صاحب مرحوم کے ہیں ۔ کراچی میں میں نے ان کے طالبعلموں سے ان ہی کی خانقاہ میں بارہا سنے ہیں ۔
لیکن یہ کوئی بیس پچیس سال قبل کی بات ہے۔۔۔ واللہ اعلم
 
جہاں تک میرا خیال ہے یہ اشعار تو حکیم اختر صاحب مرحوم کے ہیں ۔ کراچی میں میں نے ان کے طالبعلموں سے ان ہی کی خانقاہ میں بارہا سنے ہیں ۔
لیکن یہ کوئی بیس پچیس سال قبل کی بات ہے۔۔۔ واللہ اعلم

یہ کلام تو ادیب رائے پوری صاحِب کا ہی ہے۔ ہوسکتا ہے اسی سے ملتا جلتا کلام حکیم اختر صاحب کا بھی ہو۔۔
ممکن ہو تو حکیم اختر صاحِب کے دیگر کلام شریکِ محفل فرمائیں۔مہربانی ہوگی
 

الف نظامی

لائبریرین
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون وبلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار
 

محمد امین

لائبریرین
جہاں تک میرا خیال ہے یہ اشعار تو حکیم اختر صاحب مرحوم کے ہیں ۔ کراچی میں میں نے ان کے طالبعلموں سے ان ہی کی خانقاہ میں بارہا سنے ہیں ۔
لیکن یہ کوئی بیس پچیس سال قبل کی بات ہے۔۔۔ واللہ اعلم

جی نہیں۔ یہ ادیب رائے پوری کی ہی نعت ہے۔۔۔
 
عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار، تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رَہتے ہیں وہ توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
ورنہ وُہ سیّدِ عالی نَسَبی، ہاں وُہی اُمّی لقَبی ، ہاشمی و مُطّلبی و عَرَبی و قَرشی و مَدَنی اور کہاں ہم سے گنہ گار



آرزُو یہ ہے کہ ہو قَلب مُعَطّر و مُطَہّرو مُنَوّر و مُجَلّٰی و مُصَفّٰی، دُرِ اَعلیٰ جو نظر آئیں کہیں جَلوۂ رُوئے شَہہِ اَبرار
جن کے قَدموں کی چَمک چاند ستاروں میں نظر آئے، جِدھر سے وُہ گُذر جائے، وُہی راہ چمک جائے، دَمک جائے، مہک جائے ،بنے رَونق ِگُلزار



سُو نگھ لُوں خُوشبُوئے گَیسُوئے مُحَمَّدﷺ وہ سیاہ زُلف نہیں ، جس کے مقابل یہ بَنَفشَہ، یہ سیُوتی ،یہ چنبیلی ، یہ گُلِ لالہ و چمپَا کا نکھار
جس کی نکہت پہ ہیں قربان گل و برگ و ثمن نافہِ آہوئے ختن بادِ چمن بوئے چمن نازِ چمن نورِ چمن رنگِ چمن سارا چمن زار
(یہ مصرع سید ادیب رائے پوری کے مجموعہ ’’مقصودِ کائنات‘‘ میں ہے)
اُن کی نکہت پہ ہے قربان، گُل و بَرگ و سمن ،نافۂ آہوئے خُتن، اور کَہیں سُنبَل، کہیں رَیہا، کہیں عَنبَر، کہیں قَیصَر، کہیں صَندَل کی بَہار
(یہ مصرع مقصودِکائنات میں نہیں)


یہ تمنّا کہ سُنُوں میں بھی وہ آوازِ شَہہِ جِنّ و بَشَر، حَق کی خبر، خُوش تَر و شیرِیں زشکر، حسنِ فصاحت کا گُہر، نطق کرے ناز سخن پر
وُہ دِل آرام صدا، نامِ خدا، جس پہ فدا، غُنچَہ دہن، طُوطیِ صَد رَشکِ چمن، نَغمۂ بلبل زگلستانِ عدن ،مصر و یمن جس کے خَرِیدار


اک شہنشاہ نے بخشے جو ثمر قند و بخارا ،کسی محبوب کے رخسار کے تل پر مگر اے سیدِ عالم، تیری ناموس تیری عظمت پر
اے رسول مدنی! ایک نہیں لاکھوں ہیں قربان گہِ عشق کے ہر کوچہ بازار میں سر اپنا ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں کرنے کو نثار


بَخش دیتے ہیں شہنشاہِ سمر قند و بخارا ،کسی مَحبُوب کے رُخسار کےتِل پر، مگر اَے خلق کے رہبر، اَے میرے مہرِ منوّر
میں کرُوں تُجھ پہ تَصَدُّق، دَمِ عِیسٰی، یدِبَیضا، دَرو دِیوارِ حرم کعبۂ دل،اِن سے بڑی کوئی نہیں شے میرے پاس، میری چشمِ گُہربار
(یہ شعر مقصودِکائنات میں نہیں)


آپ کے ذکر میں ہیں نغمہ سرا سارے ہُدی خوانِ عرب، نغمہ نگارانِ عجم، شوکتِ الفاظِ ادب، عظمتِ قرطاس و قلم، بادِ صباء موجِ نسیم
دہنِ بلبلِ شیریں، لحنِ قمری و طوطی، شبِ مہتاب، ستارے، مَلَک و حور و جناں جن کی نواؤں میں درودوں کا حصار


وَرَفَعنا لَکَ ذکرَک کی اِس اِک آیتِ توصیف کی توصیف میں، تفسیر میں، تشریح میں، توضیح میں، تضمین میں ہر عہد کی شامل ہے زبان
لَبِ حَسّان و رواحہ و لَبِ فاطمہ زہرا و علی، عابدِ بیمار و بوصیری، دہنِ عُرفی وجامی لبِ سعدی و رضا سب سرشار


عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون وبلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار


یہ مہاجر کی ہے صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز
حرم کعبه میں عرفات کے میدان میں یا روضہ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار


ایسا محبوب دیا حق نے تمھیں صَلِّ عَلٰی، جس کا مماثل نہ مقابل کہ لقب جس کو حریصُُ کا دیا، اتنا کیا جس نے گنہ گاروں سے پیار
اے خدا ! اے شہ کونین کے رب! لفظ حریص کے سبب، ایک ہوں سب، وہ عجمی ہوں کہ عرب، تاکہ ملے امت مرحوم کو پھر کھویا وقار


یا نبیﷺ آپ کا یہ ادنیٰ ثنا خواں، در رحمت کا گدا ، دیتا ہے در در یہ صدا ، چاہتا ہے آپ سے چاہت کا صلہ، اپنی زباں میں تاثیر
سن کے سب اہل چمن، اس کا سخن، ان کو بھی آجائے حیا ،سر ہو ندامت سے جھکا ،اور نظر دیکھے وہ اسلاف کی الفت کا نظارا، ایک بار


اے ادیؔب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال
اُن کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اِس میں شعار
واہ واہ سبحان اللہ. سر شراکت پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں. اگر اس کی الگ لڑی بنا دیں تو ڈھونڈنے میں آسانی رہے گی.
انتہائی خوبصورت کلام اور اویس بھائی نے پڑھ کے مزید رنگ لگا دیا....
 
واہ واہ سبحان اللہ. سر شراکت پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں. اگر اس کی الگ لڑی بنا دیں تو ڈھونڈنے میں آسانی رہے گی.
انتہائی خوبصورت کلام اور اویس بھائی نے پڑھ کے مزید رنگ لگا دیا....

محفل میں یہ کلام پہلے سے موجود ہے

یہاں پڑھ سکتے ہیں
 

Salahuddin

محفلین
سبحان الله
ادیب راے پوری صاحب کے نعتیہ کلام کی کوئی کتابوں کے نام بتائیں یا ڈاونلوڈ لنک کسی بھائی کے پاس ہو تو عنایت فرمائیں
 

الف عین

لائبریرین
بھاگیشوری نہیں، راگ باگیشوری ایک راگ کا نام ہے۔ لیکن یہاں ادیب سہارنپوری نے باگیشری ہی باندھا ہے۔
 
سبحان الله
ادیب راے پوری صاحب کے نعتیہ کلام کی کوئی کتابوں کے نام بتائیں یا ڈاونلوڈ لنک کسی بھائی کے پاس ہو تو عنایت فرمائیں

ان کے مجموعہ کا نام ’مقصودِ کائنات ﷺ‘ ہے۔ میری معلومات کے مطابق آنلائن دستیاب نہیں البتہ اس لنک پر کچھ کلام یونی کوڈز میں دستیاب ہیں

اور کچھ نعتیں یہاں پر موجود ہیں
 

فہد اشرف

محفلین
موسیقی کے اصطلاحات کا علم نہیں لیکن ہندی میں لفظ "آروہ" اور "اوروہ"ہے امروہ نہیں، آروہ ascending order ہوتا ہے اوروہ descending order۔ شاید آروہ اوروہ کو ہی زیر وبم کہتے ہیں
 
Top