شکوہ اور سوال ۔۔۔۔۔!!!!

نور وجدان

لائبریرین
ہماری سوچ کا محور اکثر دنیا ہو تی ہے ۔ دنیا میں لوگ بہت خوش ہیں اور کیوں خوش ہیں ۔ اسکو میری بد دعا لگی اسکے ساتھ برا ہوا ۔ ہم برا ہونے پر خوش اور کسی کے اچھا ہونے پر نا خوش ہو تے ہیں ۔ ہمارے ہونٹ کی جنبش میں مناجات بھی مطلب کی ہوتی ۔ اللہ سائیں اچھا کرنا ۔ بلکہ اس بندے سے زیادہ دینا۔ مجھے ترقی دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال کیا ہوتا ہے ۔۔؟ اک سوال تو معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اک سوال مدد کا ہوتا ۔ مگر مرا مطلب سوال سے شکوہ کے معانی میں ہیں ۔ بندہ رب سے سوال کیوں کرتا ہے ۔ سوال کرنا ہو تو وہ کس حد تک جائز ہے ۔ مجھے حکمت کا جواب اللہ وتبارک وتعالیٰ کی قصے سے ملا اور پتا چلا اللہ جانی نے قصے کیوں کر بتائے ہیں ۔ ان میں کیا حکمتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

سورت کہف شریف میں اسکا ذکر ملتا ہے اور کیا کمال انداز بیاں ہے ۔ میں اس کرم کے کہاں قابل کہ اس بات کو سلیقے سے بتا پاؤں جس قصے سے مجھے سفرِ خضر یاد آتا ہے ۔ روانگی سے قبل انہوں نے منع کیا سوال نہ کرنا اور یہ ساتھ جانے کی شرط تھی ۔ جب حضرت موسیٰ (ع) نے پوچھا مالک کائنات سے کہ اللہ اس دنیا میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس علم نہیں ۔ پروردگار ِ عالم نے کہا۔۔ ایک ایسا بندہ ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اسے تجھ پر فو قیت ہے ۔ پوچھا کون ہے وہ ؟ جواب ملا کہ وہ خضر (ع) ہیں ۔ موسی ؑ تو نبی دلال تھئ ملنے کی ضد کی ۔ پروردگار عالم نے کہا مرا بندہ یہاں یہاں ملے گا، یہ وہی خضرؑ ہیں جنہوں نے آبِ حیات پیا ہے ۔۔۔۔!!!

موسیٰ (ع) سمندر پر آپ کے ساتھ تھے ۔ جس کشتی پر سوار تھتے اسکے کچھ حصوں کو توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ حیران ہوئے سوال کیا ۔ آپ ؑ کو خضر ؑ نے ٹوک دیا ۔ کہ سوال منع کیا تھا ۔اب کہ سوال کیا تو سفر آپ ؑ کے ساتھ نہ ہو گا۔پھر جب آپ ساحل پر آئے تو ایک بچہ کو مار ڈالا۔ اب تو حضرت مو سیٰ حیران ہوئے ۔۔ لب رک نہ سکے کہ سوال ہونٹ پر در آیا۔۔ پوچھا یہ کیا کیا۔ حضرت خضر ؑ نے کہا میں نے منع کیا تھا سوال نہ کرنا۔ مجھے اجازت دیں ۔ اب آپ کی اور میری راہ علیحدہ ۔۔۔ مگر حضرت موسیٰ ؑ نے منت سما جت کی ۔ مجھے آخری موقع دیں ۔اب کہ سوال کیا تو مجھ سے آپ علیحدہ ہوجائیں بے شک ۔۔

حضرت خضر ؑ مان گئے۔ جہاں پر یہ دونوں ہستیاں تھیں وہ ایک گاؤں تھا وہاں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ خضر ؑ نے اس گھر کی دیوار شکستہ حالت میں تھی ۔۔۔ آپ ؑ نے دیوار تعمیر کر دی ۔ حضرت موسیؑ پھر سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ پوچھا یہ کیا آپ نے ۔۔ مکان کی دیوار کی تعمیر پر کچھ اجرت ہی لے لیتے ۔ اور کیا وجہ تعمیر کرنے کی ۔۔ ۔ !!!!

اب کی بار حضرت خضر ؑ نے کہا کہ اب میرا تمہارا سفر ختم۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ سوال نہ کرنا ۔ جاتے جاتے وہ سوالات کا جواب دے گئے ۔ کہا جس کشتی کو خراب کیا تھا وہ بہت حسیں اور اکمل تھی ۔ ساحل کے پار ایک بادشاہ ہے اسے جو اچھی کشتی لگتی ہے وہ اس پر قابض پو جاتا ہے ۔ اس کشتی میں نقص کی وجہ سے وہ اسے اپنی ملکیت نہیں بنائے گا ۔ اور غریب کا بھلا ہو جائے گا۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا اس نے
بڑا ہو کر ماں باپ کے لئے ملامت و تذلیل کا باعث بننا تھا ۔ اسکے بدلے اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا کرے گا۔ جس مکان کی دیوار کو میں نے تعمیر تھا ۔اسکے نیچے خزانہ دفن ہے جو یتیم بچوں کا ہے اور اب وہ بچے بالغ نہیں ۔ وہ سونا دیوار کے نیچے دفن رہے گا ۔ کیونکہ حریص رشتہ دار ان کا سونا غضب کر لیتے تھے ۔

حضرت موسی ؑ جو لاڈلے نبی ہیں ، لاڈلے نبی تسلیم کیا کہ خضرؑ کا علم ان سے زیادہ ہے ۔ اور رخصت ہوئے ۔ اس سارے واقعے میں ''سوال '' حکمت ہے ۔ ہم سوال کہیں یا شکوہ کہ لیں ۔۔ مالک سے سوال کرتے اللہ میں کیوں سول سروس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس تم میں کمی ہے بس اللہ کی مرضی اور ہے اور اس پوشیدہ بھلا ہے جو وہ ہی جانتا ہے اسکے سوا کوئی نہیں ۔ اللہ تعالی بندہ کو ڈھیل دیتا ہے کسی حد تک کہ وہ شکوہ یا سوال کرے ۔ جب وہ حدود پار کردے تو اسکے ساتھ چل نہیں سکتا ۔ ہم کیتے ہیں اللہ اس کا بیٹا لائق ہے میرا نالائق یا کہ میرے ہم نوا مجھ سے اچھا پیش کیوں نہیں آتے میں بھلا چاہتا ہوں ۔ نو سال کا بچہ عالمی ریکارڈ بناتا ہے ۔ مگر 20 -22 سال میں وہ ریکارڈ نہیں با سکے ۔ایسا کیوں ۔ عاشق بناتا ہے اللہ خاص خاص کو ،،، اور معشوق تو اس سے بھی زیادہ چنیدہ ہوتے ہیں ۔ ہم فٹ سے کہتے پیں اللہ میں معشوق کیوں نہیں ۔َ کیوں بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ سوال پہ سوال وہ خاموش ، وہ ساتھ نہیں چھوڑتا چاہے ہمارا یار شیطان ہی کیوں نہ ہو۔۔




کبھی کسی نے اللہ سے کہا اللہ مجھے نبی اکرم ﷺ کا امتی بنایا کسی اور نبی کا بنا دیتے ۔ کوئی نہیں کہے گا ۔ ہم کو اللہ خاص بناتا ہے امتی بنا کر اور آدم کی خصلت ہے کہ وہ خود کو عام نہیں ہونے دیتا ۔خوب سے خوب تر کا جنون ہوتا ہے ۔ ہم بازار جاتے ہیں لینا اک سوٹ یا شرٹ ہوتی ہے یا پرفیوم ۔۔ پورا شہر یا ملک اور کوئی تو باہر کے ممالک بھی چھان مارتے ہیں پھر جا کر انہیں کچھ پسند آتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں پسند کیا ہے ہیارے محمد ﷺ مجتبیٰ مرتضیٰ کا امتی ہونا ۔ اللہ نے چھانٹی کی ہے ہماری ۔ساری امتوں میں سے چنا ہے ۔ خاص خاص بندوں کو نبیﷺ کی امت میں ڈالتا گیا۔ پم چنے ہوئے ، گنے ہوئے لوگ ہیں ۔ اللہ کی پسند ہیں ۔ جتنا شکر کرین تو کم ہیں ۔

موت کے اجل نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا ۔ فرمایا میں نے سمندر کی موجوں کو کہا اسکو ماں کی مامتا دو لوری دو ، ہوا کو کہا اسکا جھولا بن جاؤ ، سورج کو کہا اسکو روشنی دو ، درختوں کو کہا اسکو سایہ دو ، پھلوں کا کہا اسکو توانا کرو ۔۔۔۔ تم جانتے ہو وہ کون تھا۔۔۔ وہ نمرود تھا جس نے بڑے ہو کر خدائی کا دعوا کیا تھا ۔

مجھے رہ رہ کر قرانِ پاک کی نشانی /آیت یاد آرہی ہے جسکو سورہ رحمان میں بار بار دیرایا گیا ہے ۔
فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ سوال کرنا بھی اسکی نعمت کو جھٹلانا ہے ۔ ہم بہت خاص ہیں اللہ کے۔۔ وہ اپنے لاڈلے بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ۔ہم پھر بھی شریک کرتے ہیں اسکو ۔ وہ ہمیں سب کچھ دیتا ہے مگر ایک مطالبہ کرتا ہے کہ مومن ہو جا ، محبت کا مومن بن جا ، محبت سیکھ ۔۔۔ بس تو محبت کرنا سیکھ اسکے بعد وہ جو آسمانوں ہر مقیم کبھی تری دعا رد نہیں کرے گا۔عاشق ایک تو حکمتوں کو جانتا ہے نہ بھی جانے تو ہوتا تو وہ دیوانہ ہے ۔ اسکا ہوش رہتا ہے اسے بس ۔ ذات باری تعالیٰ کے بعد وہ سب بھول جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ''میں'' ہوتی ہے / انا کہ لوں۔۔۔۔۔ اس کو خاک تلے روند دیتا ہے

اک تری چاہت ہے

اک مری چاہت ہے

ہوگا وہی جو مری چاہت ہے

ہاں اگر تو سپرد کردے خود کو

اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تجھ کو وہ دوں گا جو تری چاہت ہے

اور اگر تو نے مخالفت کی اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تھکا دوں گا اس میں جو تری چاہت ہے

پھر ہو گا وہی جو مری چاہت ہے !!!


اختتام سے پہلے دو حکمت سے بھرپور واقعات آپکی نظر کر دوں ۔۔ اک بزرگ نے منت مانی سید سیدی بابا بلھے شاہ رح کے مزار مبارک پر ۔۔۔ روز وہاں جا کر زار و قطار روتا رہتا کہ بات پوری ہو جائے مگر رونا کے سلسلہ بڑھتا جاتا۔۔دل پگھل کر موم ہوتا جا رہا تھا ۔۔ جسم سے سکت جا رہی تھی مگر دعا قبول نہیں ہو رہی تھی ۔ مایوسی کے سائے منڈلا رہے تھے پاس پا س ،۔۔ پر وہ بزرگ مایوس نہیں ہوئے معمول بنا لیا جیسے بندہ نماز پڑھتا اسطرح آکر زاریاں کرنا۔۔۔۔۔اک دن یہ بزرگ زار ع قطار رو رہے تھے ۔۔ تو دیکھا اک نائقہ آیئں ۔۔ منت مانگی ۔۔گھونگھر ؤں کی آواز کانوں میں سنسائی ۔۔ کچھ برا لگا جی کو مگر توجہ ہٹالی ۔

پھر اگلے دن وہ وہاں پر حاضر تھے ۔۔۔ آج مزار پر بہت چہل پہل تھی ۔۔ جیسے کوئی لنگر سا ہو ۔۔ کھانہ تقسیم ہو رہا ۔۔ پیسے بانٹے جا رہے ۔۔۔ ذرا کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ اس نائقہ کی دعا قبول ہو گئی ہے اور اس خوشی میں لنگر کا اہتمام ہوا۔۔ اب تو یہ صاحب مکمل مایوس ہوگئے مری کوئی اہمیت نہیں ۔ اک دن کے اندر اسکی دعا قبو ل ہو گئی ۔ اور تین دن تک مزار نہ گئے ۔۔۔ تیسری رات آنکھ لگتی ہے تو اک نورانی شخصیت جلوہ گر ہو تی ہے ۔۔۔۔ وہ عالی مقام سید سیدنا بابا بلھے شاہ رح ۔۔۔۔۔ بولے ۔۔۔!! تم اتنے ناراض ہوگیے ۔۔ اس عورت کا آنا مالک کو قبول نہ تھا کہ وہ آئے اور بار بار مانگے سو دعا پوری کردی اور تری زاریاں بہت پسند تھیں اور اس لئے مالک تجھے بار بار بلاتا تھا تو اسکا محبوب ہے ترا رونا قبول ہو جاتا ہے اس لئے تری دعا قبول نہیں ہوتی ۔ پھر اس دن کے بعد سے کبھی مزار جانا نہ چھوڑا۔۔


بات کروں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقسیم پر تو اک اور بات یاد آجاتی ہے ۔۔۔ سیدنا بابا بلھے شاہ اپنے پیرو مرشد کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔مجلس کا سماں تھا ۔ مرشد برحق نے کہا بلھیا۔۔۔!! مٹھائی تقسیم کر ڈالو ۔۔


بابا بلھے شاہ نے پو چھا سیدی کس طرز پہ ۔۔۔اللہ کی یا محمدﷺ کی طرز پہ۔۔۔۔۔۔!!! آپ کی بات کو نہ سمجھ پائے اشارتًا کہا کہ اللہ کی طرز پہ۔۔۔۔ جنابی عالی مقام نے کسی کو ایک ، کسی کو سات ، کسی کو 3 کسی کو چار اور کسی کو کچھ بھی نہ دیا۔۔ مرشد کامل نے پوچھا یہ کیسی تقسیم تھی ۔۔۔؟ بولے : آپ نے خود ہی تو کہا تھا اللہ کی طرز پہ کرو۔۔۔ اللہ کی تقسیم تو ایسی ہوتی ہے کسی کو بے حد دیتا ہے کسی کو تھوڑا۔۔کسی کو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ کا طرزِ کار تو یکساں تقسیم کا ہے ۔۔۔!!! آپ سب کو اک سا دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالی دے کر بھی اور نہ دے کر بھی آزماتا ہے ۔۔۔ جب دعا قبول نہ ہونے پر سوال کریں کم دینے میں سوال کریں تو کیا جائز ہے ۔۔؟ اللہ کی ہر بات تو اسرار ہے جس میں پوشیدہ بھلا ترا یا مرا ہے ۔۔۔!!!بات اس پہ ختم کرتی ہوں ۔۔۔
شکوہ محبت میں ہی ہوتا ہے
مگر محبت شکوہ سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔۔۔!!!



از نور ؔ

__________________
 

اوشو

لائبریرین
شکوہ محبت میں ہی ہوتا ہے
مگر محبت شکوہ سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔۔۔ !!!


واہ خوبصورت اور پر اثر تحریر
شکریہ نور سعدیہ
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر آپ ساتھ ساتھ حوالہ لکھتی جاتیں تو بہت اچھا ہوتا :)
بجا ہے آپ کی بات ۔۔۔مگر یہ نیٹ سے لیا ہوا علم نہیں ہے۔ میں نے بچپن میں مختلف کتا بیں پڑھیں ۔۔مجے معذرت کے ساتھ ان کے نام یاد نہیں۔۔اور آپ کو کسی بات پر شک ہے تو اچھی بات سمجھ لیں اور مجھ سے کوئی خطا تو میں معافی کی طلبگار ہوں
 

ماہی احمد

لائبریرین
بجا ہے آپ کی بات ۔۔۔ مگر یہ نیٹ سے لیا ہوا علم نہیں ہے۔ میں نے بچپن میں مختلف کتا بیں پڑھیں ۔۔مجے معذرت کے ساتھ ان کے نام یاد نہیں۔۔اور آپ کو کسی بات پر شک ہے تو اچھی بات سمجھ لیں اور مجھ سے کوئی خطا تو میں معافی کی طلبگار ہوں
:) شک کی بات نہیں میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ پر مجھے لگا کہ مختلف باتوں اور واقعات وغیرہ کا کوئی مستند حوالہ تحریر میں مزید جان ڈال دیتا ہے۔
 
ہماری سوچ کا محور اکثر دنیا ہو تی ہے ۔ دنیا میں لوگ بہت خوش ہیں اور کیوں خوش ہیں ۔ اسکو میری بد دعا لگی اسکے ساتھ برا ہوا ۔ ہم برا ہونے پر خوش اور کسی کے اچھا ہونے پر نا خوش ہو تے ہیں ۔ ہمارے ہونٹ کی جنبش میں مناجات بھی مطلب کی ہوتی ۔ اللہ سائیں اچھا کرنا ۔ بلکہ اس بندے سے زیادہ دینا۔ مجھے ترقی دینا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ سوال کیا ہوتا ہے ۔۔؟ اک سوال تو معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اک سوال مدد کا ہوتا ۔ مگر مرا مطلب سوال سے شکوہ کے معانی میں ہیں ۔ بندہ رب سے سوال کیوں کرتا ہے ۔ سوال کرنا ہو تو وہ کس حد تک جائز ہے ۔ مجھے حکمت کا جواب اللہ وتبارک وتعالیٰ کی قصے سے ملا اور پتا چلا اللہ جانی نے قصے کیوں کر بتائے ہیں ۔ ان میں کیا حکمتیں ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!!!!

سورت کہف شریف میں اسکا ذکر ملتا ہے اور کیا کمال انداز بیاں ہے ۔ میں اس کرم کے کہاں قابل کہ اس بات کو سلیقے سے بتا پاؤں جس قصے سے مجھے سفرِ خضر یاد آتا ہے ۔ روانگی سے قبل انہوں نے منع کیا سوال نہ کرنا اور یہ ساتھ جانے کی شرط تھی ۔ جب حضرت موسیٰ (ع) نے پوچھا مالک کائنات سے کہ اللہ اس دنیا میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس علم نہیں ۔ پروردگار ِ عالم نے کہا۔۔ ایک ایسا بندہ ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اسے تجھ پر فو قیت ہے ۔ پوچھا کون ہے وہ ؟ جواب ملا کہ وہ خضر (ع) ہیں ۔ موسی ؑ تو نبی دلال تھئ ملنے کی ضد کی ۔ پروردگار عالم نے کہا مرا بندہ یہاں یہاں ملے گا، یہ وہی خضرؑ ہیں جنہوں نے آبِ حیات پیا ہے ۔۔۔ ۔!!!

موسیٰ (ع) سمندر پر آپ کے ساتھ تھے ۔ جس کشتی پر سوار تھتے اسکے کچھ حصوں کو توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ حیران ہوئے سوال کیا ۔ آپ ؑ کو خضر ؑ نے ٹوک دیا ۔ کہ سوال منع کیا تھا ۔اب کہ سوال کیا تو سفر آپ ؑ کے ساتھ نہ ہو گا۔پھر جب آپ ساحل پر آئے تو ایک بچہ کو مار ڈالا۔ اب تو حضرت مو سیٰ حیران ہوئے ۔۔ لب رک نہ سکے کہ سوال ہونٹ پر در آیا۔۔ پوچھا یہ کیا کیا۔ حضرت خضر ؑ نے کہا میں نے منع کیا تھا سوال نہ کرنا۔ مجھے اجازت دیں ۔ اب آپ کی اور میری راہ علیحدہ ۔۔۔ مگر حضرت موسیٰ ؑ نے منت سما جت کی ۔ مجھے آخری موقع دیں ۔اب کہ سوال کیا تو مجھ سے آپ علیحدہ ہوجائیں بے شک ۔۔

حضرت خضر ؑ مان گئے۔ جہاں پر یہ دونوں ہستیاں تھیں وہ ایک گاؤں تھا وہاں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ خضر ؑ نے اس گھر کی دیوار شکستہ حالت میں تھی ۔۔۔ آپ ؑ نے دیوار تعمیر کر دی ۔ حضرت موسیؑ پھر سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ پوچھا یہ کیا آپ نے ۔۔ مکان کی دیوار کی تعمیر پر کچھ اجرت ہی لے لیتے ۔ اور کیا وجہ تعمیر کرنے کی ۔۔ ۔ !!!!

اب کی بار حضرت خضر ؑ نے کہا کہ اب میرا تمہارا سفر ختم۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ سوال نہ کرنا ۔ جاتے جاتے وہ سوالات کا جواب دے گئے ۔ کہا جس کشتی کو خراب کیا تھا وہ بہت حسیں اور اکمل تھی ۔ ساحل کے پار ایک بادشاہ ہے اسے جو اچھی کشتی لگتی ہے وہ اس پر قابض پو جاتا ہے ۔ اس کشتی میں نقص کی وجہ سے وہ اسے اپنی ملکیت نہیں بنائے گا ۔ اور غریب کا بھلا ہو جائے گا۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا اس نے
بڑا ہو کر ماں باپ کے لئے ملامت و تذلیل کا باعث بننا تھا ۔ اسکے بدلے اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا کرے گا۔ جس مکان کی دیوار کو میں نے تعمیر تھا ۔اسکے نیچے خزانہ دفن ہے جو یتیم بچوں کا ہے اور اب وہ بچے بالغ نہیں ۔ وہ سونا دیوار کے نیچے دفن رہے گا ۔ کیونکہ حریص رشتہ دار ان کا سونا غضب کر لیتے تھے ۔

حضرت موسی ؑ جو نبی دلال ہیں ، لاڈلے نبی تسلیم کیا کہ خضرؑ کا علم ان سے زیادہ ہے ۔ اور رخصت ہوئے ۔ اس سارے واقعے میں ''سوال '' حکمت ہے ۔ ہم سوال کہیں یا شکوہ کہ لیں ۔۔ مالک سے سوال کرتے اللہ میں کیوں سول سروس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس تم میں کمی ہے بس اللہ کی مرضی اور ہے اور اس پوشیدہ بھلا ہے جو وہ ہی جانتا ہے اسکے سوا کوئی نہیں ۔ اللہ تعالی بندہ کو ڈھیل دیتا ہے کسی حد تک کہ وہ شکوہ یا سوال کرے ۔ جب وہ حدود پار کردے تو اسکے ساتھ چل نہیں سکتا ۔ ہم کیتے ہیں اللہ اس کا بیٹا لائق ہے میرا نالائق یا کہ میرے ہم نوا مجھ سے اچھا پیش کیوں نہیں آتے میں بھلا چاہتا ہوں ۔ نو سال کا بچہ عالمی ریکارڈ بناتا ہے ۔ مگر 20 -22 سال میں وہ ریکارڈ نہیں با سکے ۔ایسا کیوں ۔ عاشق بناتا ہے اللہ خاص خاص کو ،،، اور معشوق تو اس سے بھی زیادہ چنیدہ ہوتے ہیں ۔ ہم فٹ سے کہتے پیں اللہ میں معشوق کیوں نہیں ۔َ کیوں بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ سوال پہ سوال وہ خاموش ، وہ ساتھ نہیں چھوڑتا چاہے ہمارا یار شیطان ہی کیوں نہ ہو۔۔




کبھی کسی نے اللہ سے کہا اللہ مجھے نبی اکرم ﷺ کا امتی بنایا کسی اور نبی کا بنا دیتے ۔ کوئی نہیں کہے گا ۔ ہم کو اللہ خاص بناتا ہے امتی بنا کر اور آدم کی خصلت ہے کہ وہ خود کو عام نہیں ہونے دیتا ۔خوب سے خوب تر کا جنون ہوتا ہے ۔ ہم بازار جاتے ہیں لینا اک سوٹ یا شرٹ ہوتی ہے یا پرفیوم ۔۔ پورا شہر یا ملک اور کوئی تو باہر کے ممالک بھی چھان مارتے ہیں پھر جا کر انہیں کچھ پسند آتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں پسند کیا ہے ہیارے محمد ﷺ مجتبیٰ مرتضیٰ کا امتی ہونا ۔ اللہ نے چھانٹی کی ہے ہماری ۔ساری امتوں میں سے چنا ہے ۔ خاص خاص بندوں کو نبیﷺ کی امت میں ڈالتا گیا۔ پم چنے ہوئے ، گنے ہوئے لوگ ہیں ۔ اللہ کی پسند ہیں ۔ جتنا شکر کرین تو کم ہیں ۔

اگر شکایت کرنے پر آئیں تو ہم نمرود و فرعوں اور شداد کی مثال لیتے ہیں ۔ شداد نے آسمان اور زمیں کے درمیاں معلق جنت بنائی ۔ جو دنیا کے عجوبوں میں سے تھی ۔ اور جنت اپنی نذیر آپ تھی ۔ مگر شداد اس جنت میں پاؤں نہ رکھ سکا کہ اجل نے آتھاما۔ سارا زمانے کا سب سے کامیاب شخص خود اپنی کامیابی نہ دیکھ سکا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے پوچھا موت کے اجل سے کہ تمہیں جاں قبض کرتے ہوئے کبھی رحم آیا ۔ موت کے اجل نے جواب دیا ہاں ایک دفعہ جب طوفان نے کشتی کو گھیرا ہو تھا ۔ آپ کا حکم تھا سب کی جان لے لو مگر ایک بچہ جو ماں کی گود میں تھا اسکی رہنے دو مجھے تب ماں کی جان قبض کرتے ہوئے دکھ ہوا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو میں نے اسکے ساتھ کیا معاملہ کیا

موت کے اجل نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا ۔ فرمایا میں نے سمندر کی موجوں کو کہا اسکو ماں کی مامتا دو لوری دو ، ہوا کو کہا اسکا جھولا بن جاؤ ، سورج کو کہا اسکو روشنی دو ، درختوں کو کہا اسکو سایہ دو ، پھلوں کا کہا اسکو توانا کرو ۔۔۔ ۔ تم جانتے ہو وہ کون تھا۔۔۔ وہ نمرود تھا جس نے بڑے ہو کر خدائی کا دعوا کیا تھا ۔

مجھے رہ رہ کر قرانِ پاک کی نشانی /آیت یاد آرہی ہے جسکو سورہ رحمان میں بار بار دیرایا گیا ہے ۔
فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ سوال کرنا بھی اسکی نعمت کو جھٹلانا ہے ۔ ہم بہت خاص ہیں اللہ کے۔۔ وہ اپنے لاڈلے بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ۔ہم پھر بھی شریک کرتے ہیں اسکو ۔ وہ ہمیں سب کچھ دیتا ہے مگر ایک مطالبہ کرتا ہے کہ مومن ہو جا ، محبت کا مومن بن جا ، محبت سیکھ ۔۔۔ بس تو محبت کرنا سیکھ اسکے بعد وہ جو آسمانوں ہر مقیم کبھی تری دعا رد نہیں کرے گا۔عاشق ایک تو حکمتوں کو جانتا ہے نہ بھی جانے تو ہوتا تو وہ دیوانہ ہے ۔ اسکا ہوش رہتا ہے اسے بس ۔ ذات باری تعالیٰ کے بعد وہ سب بھول جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ''میں'' ہوتی ہے / انا کہ لوں۔۔۔ ۔۔ اس کو خاک تلے روند دیتا ہے

اک تری چاہت ہے

اک مری چاہت ہے

ہوگا وہی جو مری چاہت ہے

ہاں اگر تو سپرد کردے خود کو

اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تجھ کو وہ دوں گا جو تری چاہت ہے

اور اگر تو نے مخالفت کی اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تھکا دوں گا اس میں جو تری چاہت ہے

پھر ہو گا وہی جو مری چاہت ہے !!!


اختتام سے پہلے دو حکمت سے بھرپور واقعات آپکی نظر کر دوں ۔۔ اک بزرگ نے منت مانی سید سیدی بابا بلھے شاہ رح کے مزار مبارک پر ۔۔۔ روز وہاں جا کر زار و قطار روتا رہتا کہ بات پوری ہو جائے مگر رونا کے سلسلہ بڑھتا جاتا۔۔دل پگھل کر موم ہوتا جا رہا تھا ۔۔ جسم سے سکت جا رہی تھی مگر دعا قبول نہیں ہو رہی تھی ۔ مایوسی کے سائے منڈلا رہے تھے پاس پا س ،۔۔ پر وہ بزرگ مایوس نہیں ہوئے معمول بنا لیا جیسے بندہ نماز پڑھتا اسطرح آکر زاریاں کرنا۔۔۔ ۔۔اک دن یہ بزرگ زار ع قطار رو رہے تھے ۔۔ تو دیکھا اک نائقہ آیئں ۔۔ منت مانگی ۔۔گھونگھر ؤں کی آواز کانوں میں سنسائی ۔۔ کچھ برا لگا جی کو مگر توجہ ہٹالی ۔

پھر اگلے دن وہ وہاں پر حاضر تھے ۔۔۔ آج مزار پر بہت چہل پہل تھی ۔۔ جیسے کوئی لنگر سا ہو ۔۔ کھانہ تقسیم ہو رہا ۔۔ پیسے بانٹے جا رہے ۔۔۔ ذرا کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ اس نائقہ کی دعا قبول ہو گئی ہے اور اس خوشی میں لنگر کا اہتمام ہوا۔۔ اب تو یہ صاحب مکمل مایوس ہوگئے مری کوئی اہمیت نہیں ۔ اک دن کے اندر اسکی دعا قبو ل ہو گئی ۔ اور تین دن تک مزار نہ گئے ۔۔۔ تیسری رات آنکھ لگتی ہے تو اک نورانی شخصیت جلوہ گر ہو تی ہے ۔۔۔ ۔ وہ عالی مقام سید سیدنا بابا بلھے شاہ رح ۔۔۔ ۔۔ بولے ۔۔۔ !! تم اتنے ناراض ہوگیے ۔۔ اس عورت کا آنا مالک کو قبول نہ تھا کہ وہ آئے اور بار بار مانگے سو دعا پوری کردی اور تری زاریاں بہت پسند تھیں اور اس لئے مالک تجھے بار بار بلاتا تھا تو اسکا محبوب ہے ترا رونا قبول ہو جاتا ہے اس لئے تری دعا قبول نہیں ہوتی ۔ پھر اس دن کے بعد سے کبھی مزار جانا نہ چھوڑا۔۔


بات کروں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقسیم پر تو اک اور بات یاد آجاتی ہے ۔۔۔ سیدنا بابا بلھے شاہ اپنے پیرو مرشد کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔مجلس کا سماں تھا ۔ مرشد برحق نے کہا بلھیا۔۔۔ !! مٹھائی تقسیم کر ڈالو ۔۔


بابا بلھے شاہ نے پو چھا سیدی کس طرز پہ ۔۔۔ اللہ کی یا محمدﷺ کی طرز پہ۔۔۔ ۔۔۔ !!! آپ کی بات کو نہ سمجھ پائے اشارتًا کہا کہ اللہ کی طرز پہ۔۔۔ ۔ جنابی عالی مقام نے کسی کو ایک ، کسی کو سات ، کسی کو 3 کسی کو چار اور کسی کو کچھ بھی نہ دیا۔۔ مرشد کامل نے پوچھا یہ کیسی تقسیم تھی ۔۔۔ ؟ بولے : آپ نے خود ہی تو کہا تھا اللہ کی طرز پہ کرو۔۔۔ اللہ کی تقسیم تو ایسی ہوتی ہے کسی کو بے حد دیتا ہے کسی کو تھوڑا۔۔کسی کو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ کا طرزِ کار تو یکساں تقسیم کا ہے ۔۔۔ !!! آپ سب کو اک سا دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالی دے کر بھی اور نہ دے کر بھی آزماتا ہے ۔۔۔ جب دعا قبول نہ ہونے پر سوال کریں کم دینے میں سوال کریں تو کیا جائز ہے ۔۔؟ اللہ کی ہر بات تو اسرار ہے جس میں پوشیدہ بھلا ترا یا مرا ہے ۔۔۔ !!!بات اس پہ ختم کرتی ہوں ۔۔۔
شکوہ محبت میں ہی ہوتا ہے
مگر محبت شکوہ سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔۔۔ !!!



از نور ؔ

__________________
متاثر کن تحریر ، آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ خوب ہے اپنا مدعا بیان کرنے میں جواب نہیں، سوچ بھی بہت عمدہ ہے ، خلوص نیت بھی ہے یقینا
بس محترم بہنا ایک چھوٹی سی بات ہے
ایک یاد دہانی کروانا مقصود ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات یا قرآن کے الفاظ بیان کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ، میں نے یہ واقعات پڑھ رکھے ہیں لیکن آپ کا
انداز بیان دل کوبہت بھایا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
متاثر کن تحریر ، آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ خوب ہے اپنا مدعا بیان کرنے میں جواب نہیں، سوچ بھی بہت عمدہ ہے ، خلوص نیت بھی ہے یقینا
بس محترم بہنا ایک چھوٹی سی بات ہےی ہے اور
ایک یاد دہانی کروانا مقصود ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات یا قرآن کے الفاظ بیان کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ، میں نے یہ واقعات پڑھ رکھے ہیں لیکن آپ کا
انداز بیان دل کوبہت بھایا ہے
میں نے یہ قصصا الانبیاء سے پڑھا ہے÷ترجمہ بھی سنا ہے ÷ کہیں پر بات کس طرح بیاں ہوتی ہے۔ میں نے الفاظ بیاں کیا ہی نہیں میں نے تو مفہوم بیاں کیا ہے ۔لفظ تو عربی میں موجود ہیں ۔۔بہت شکریہ سراہنے کا ۔ ساتھ میں آپ کی بات میں نے میں نے سمجھ لیا ہے :):):wave:
 
Top