شوہر کا شکوہ
(شاعر: نامعلوم)
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
زن مریدی ہی کروں اور مدہوش رہوں
طعنے بیگم کے سنوں۔ ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مری تاب ِسخن ہے مجھ کو
شکوہ زوجہ سے، خاکم بدہن ہے مجھ کو
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا
سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی اّبا ترا
عورتیں کہتیں کوئی منہ ہے نہ ہے متھّا ترا
نہ کوئی ناک تھی تیری نہ تھا نقشہ ترا
کتنا خوش تھا، جب تیرا ڈولا نکلا
تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا
تو ہی کہہ دے تیرا فیشل ہے کرایا کس نے ؟
تُونے لہنگا جو کہا وہ بھی سلایا کس نے ؟
شہر یہ موئنجوڈرو پھر سے بسایا کس نے ؟
تُو بتا دے تجھے ’‘کُم کُم“ ہے بنایا کس نے ؟
میں تجھے پیار سے کہتا ہوں ”مِیرا ‘ ریما !“
اور تو ہے کہ مجھے کہتی ہے ”شفقت چیمہ“
تو کہے یا نہ کہے فرش کو دھوتا میں ہوں
پہلے بچوں کو سلاتا ہوں تو سوتا میں ہوں
رات کو پچھلے پہر بیٹھ کے روتا میں ہوں
لوگ کہتے ہیں، انساں نہیں ”کھوتا“ میں ہوں
پھر بھی تُو سدا مجھ سے خفا رہتی ہے
تیوری اک نئی ماتھے پہ سدا رہتی ہے
کبھی کہتی ہو ذرا پاؤں دباؤ اے میاں !
B.P ابLow ہے مرا چائے بناؤ اے میاں !
بھاگ کے جاؤ Leg Piece ہی لاؤ اے میاں !
ہائے مر جاؤں گی مجھ کو تو بچاؤ اے میاں !
کیسے کرتے ہیں تماشا کوئی سیکھے تم سے
تولا ہونا کبھی ماشا کوئی سیکھے تم سے
ہو کے میکے سے جو آتی ہو تو لڑتی کیوں ہو ؟
مجھ پہ اے جانِ غزل اتنا بگڑتی کیوں ہو ؟
B.P بڑھ جائے گا تم اتنا جھگڑتی کیوں ہو ؟
بات ہو کوئی بھی ہر بات پہ اڑتی کیوں ہو ؟
مجھ سے ڈرنے کی بجائے ڈراتی کیوں ہو ؟
اوئے! کہہ کر مجھے دن رات بلاتی کیوں ہو ؟
تو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں
ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں
گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں
پّپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں
”پھر بھی مجھ سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
میں وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
بیوی کا جوابِ شکوہ
(شاعر: نامعلوم)
تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے
چاہے میکے ہی میں ہو تیری خبر رکھتی ہے
اُس کی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے
”پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے“
شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا
دل ‘ جگر چیر گیا نالہء بیباک ترا
آئی آواز ٹھہر، تیرا پتا کرتی ہوں
تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں
میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں
ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں
اور تُو ہے کہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا
اپنے یارو میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا
تو یہ کہتا ہے ”کوئی منہ ہے نہ متّھا تیرا“
میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا
نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا
تو بھی گنجا ہے ارے باپ بھی گنجا تیرا
بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے
یہ ترے کان! کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے
اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے ؟
نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے ؟
آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے ؟
منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے ؟
کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سنانے والے
مولوی سے میرا حقِ مہر چھڑانے والے
صاف کہہ دے، کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟
رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا ؟
کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا ؟
چل بتا دے مجھے‘ اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا
ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی میں ہوں
جوتے سے مزا تجھ کو چکھاتی میں ہوں
Salary اپنی فقط ماں کو تھمائی تُو نے
آج تک مجھ کو کبھی سیر کرائی تُو نے؟
کوئی ساڑھی‘ کوئی پشواز دلائی تُو نے؟
ایک بھی رسم ِ وفا مجھ سے نبھائی تُو نے؟
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں
کتنے ارمان تڑپتے ہیں، مرے سینے میں
بھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی
ماں ابھی اب جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی
میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی
میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی
ابّا بھی مانتے ہیں ان سے ہوا جرم عظیم
آغا طالش کو سمجھ بیٹھے اداکار ندیم
ماں نے تھے جتنے دیئے بیچ کے کھائے زیور
تیرے ماتھے پہ سدا رہتے ہیں پھر بھی تیور
جس گھڑی مجھ سے جھگڑتے ہیں یہ میرے دیور
تیری بہنیں بھی نہیں کرتی ہیں میری Favour
تین مرلے کے مکاں میں نہیں رہ سکتی میں
ساس کے ظلم و ستم اب نہیں سہہ سکتی میں
میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے
رنگ چہرے کا اسی وقت بدل جاتا ہے
سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے
کتنا سادہ ہے، کہتا ہے کہ ”شرماتا ہے“
تُو ہوا جس کا مخالف، وہ تری ساس نہیں؟
میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں!
ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی
ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی
سَرّیا گردن کا‘ تری موڑ کے گھر جاؤں گی
سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں گی
یاد رکھنا، کسی سے نہیں ڈرتی ہوں
آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں
(”دخل در معقولات و غیر معقولات“ پر شعرائے محفلین سے معذرت کے ساتھ )