عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

نمرہ

محفلین
انسان کی تمنائیں سادھنائیں پوری نہ ہوں تو بہت تکلیف دیتی ہیں۔ ہمارامسئلہ یہ ہے کہ پوری ہو جائیں تو اور زیادہ تکلیف دیتی ہیں۔

اس کی وجوہات بہت سی ہیں جن میں سے کچھ ہماری سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ اپنی برگشتہ طالعی پر اس قدر یقین ہو چلا ہے کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں کا شک ساغر تھمائے جانے سے پہلے ہی ذہن میں آ جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ کائنات میں انٹروپی کی طرح زندگی میں بھی انتشار وقت کے ساتھ ساتھ صرف بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا اور جو لوگ آپ کو اس کے برعکس سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ جان کے دھوکے کھاتے دھوکے دیتے ہیں۔ اسی قنوطیت پسند طبیعت کا شاخسانہ ہے کہ سیدھا سادا غم ملے تو طبیعت کو یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ کم از کم ہمارے علم میں تو ہے کہ ابھی زندگی میں خرابی کہاں پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں دانت میں تکلیف ہوئی تو ہم نے شکر ادا کیا کہ آج کل کمر کے درد میں کچھ افاقہ ہے نیز دل تو ٹھیک ٹھاک کام کر رہا ہے۔ خیر اب بڑھتی عمر کے ساتھ کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی میں خوشی کے موقعوں پر جلدی جلدی خوش ہو لینا چاہیے کیونکہ پھر نہ وقت ملتا ہے اور نہ خوشی مگر میر کے پیروکاروں کو رسل کی بیعت بھی کہاں تبدیل کر سکی ہے۔

ایک تعلق اس کا دور کے ڈھول سہانے کی ان کہی کرولری سے بھی ہے کہ قریب کا کنسرٹ بھی بیکار ہوتا ہے۔ ہم بھی ناشکروں کے اس جم غفیر سے تعلق رکھتے ہیں جسے دور دراز کے ناقابل رسائی تصورات مسحور کرتے ہیں اور اپنے آس پاس بیزاریت کا بڑا سا دائرہ دکھائی دیتا ہے۔ مریخ جانے کی تمنا تو ہے مگر اپنے شمالی علاقہ جات کہ ایک دنیا ان کے حسن کی دلدادہ ہے، دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہماری اماں کی تشخیص کے مطابق یہ نری ناشکری ہے جو ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ ہماری کوالٹی ہی اس قدر لو ہے کہ اگر ہم کسی کو پسند آ جائیں تو اگلے کے ذوق پر سوال نہ اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ڈننگ اور کروگر کی پیشنگوئی کے برعکس ہم نکمے بھی ہیں اور اپنے نکمے پن سے واقف بھی اس لیے ایسے سوالات اٹھانے کے قابل ہیں۔ ہماری تحریروں کو لوگ انکار پہ انکار کرتے ہیں لیکن اگر کوئی غلطی سے شائع کر دے ہمیں تو انھیں خط بھیجیں گے کہ آپ لوگ کیا کچھ شائع کرنے لگ گئے ہیں اور اس جریدے کو اپنی دائمی بلیک لسٹ میں ڈال دیں گے۔

یہ معاملہ تو رہا اپنی جگہ کہ بہرحال ناقابل رسائی ہونے کے تصور میں ایک خاص کشش ہے جو دسترس میں ہرگز ہرگز نہیں۔ ہمیں جس کام سے منع کیا جائے وہ تو ہم ضرور بالضرور کرتے ہیں لیکن اگر کچھ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے تو بستر پر پڑ جاتے ہیں۔ اور اگر نیگیٹو فیڈ بیک سے کام لینے کی کوشش کی جائے جیسا کہ اسائنمنٹوں امتحانوں کا رواج ہے تو پھر تو ہم بعض اوقات پارٹی کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور پھر لوگ سمجھا بجھا کر ٹریک پر لاتے ہیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن اس تکلیف کا سب سے اہم پہلو خود ہماری مشکل پسند طبیعت ہےجو ہمیں مشکل میں ڈالے رکھتی ہے۔ انسان کو یا تو آسان چیزیں پسند کرنی چاہیں یا پھر ایسی شخصیت کا مالک ہونا چاہیے جیسا کہ عشق نبرد پیشہ کا تقاضا ہے۔ سہل طلبی اور دشوار پسندی کا امتزاج بڑا خطرناک ہو جاتا ہے خود انسان کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے جن کی قسمت میں صبح شام زندگی کے دکھڑے سننا لکھ دیا گیا ہو۔ انسان یا تو بڑے بڑے خواب نہ دیکھے، یا پھر ان کے لیے پہاڑ کاٹنے کی ہمت رکھتا ہو۔ ہم نہ تو خواب چھوڑ سکتے ہیں اور نہ بستر، سو بڑی کشمکش میں رہتے ہیں۔

جسٹی فیکیشن ہر چیز کی طرح اس کی بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ انسان کا معیار بلند ہونا چاہیے، ، شکل چاہے جیسی بھی ہو۔لیکن مشکل پسندی کے بہرحال بہت سے مضمرات ہوا کرتے ہیں، سو وہ بھگتتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑی سی گیدرنگ میں ایک بے تکلف دوست نے پوچھا: کوئی پسند ہے؟ میں تعارف کرائے دیتا ہوں، ریڈ لپ سٹک کسی سے ادھار مانگ کر لگا لینا۔
ہم نے متانت سے جواب دیا کہ دو یونیورسٹیاں پسند ہیں۔ نام سن کر منہ اتر گیا۔ کہنے لگے، مشکل ہے۔

اب یونیورسٹیوں کو ہی لیجیے، دنیا میں ہزار ہا ہیں لیکن ہمیں پسند آ گئی تھی ایک جس کے انیشیلز سی ایم ڈبلیو سے ملتے جلتے تھے یعنی کمپیوٹرائزڈ وہیکل ورکشاپ جس کا بورڈ ہمارے دفتر کے راستے میں پڑتا تھا اور جسے دیکھ کر ہم آتے جاتے ٹھنڈی آہیں بھرا کرتے تھے۔ پھر ہماری آہیں بارگاہ ایزدی میں قبول ہو گئیں اور یونیورسٹی والوں نے ہمیں برقی پروانہ بھیج دیا کہ بی بی اپنا بوریا بستر باندھیے اور ہمارے شہر کو رونق بخشیے۔ خود ہم بھی دیکھنا چاہتے تھے کہ ہمارے اٹھنے کے بعد کتنے لوگ اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا کی پوسٹیں کرتے ہیں ( جواب: ایک، اور انھیں ہم نے بڑا اونچا درجہ دے دیا ہے) تو یونیورسٹی کو مطلع کر دیا کہ ہم آپ کی راہداریوں کو رونق بخشنے کو تیار ہیں۔ کچھ اپنے دفتر والوں کا بھی خیال تھا کہ انھیں بتائیں کہ کیا گوہر نایاب گنوا بیٹھے ہو لوگو مگر وہ اس قدر ٹھہرے ہوئے لوگ ہیں کہ ہماری ہی فئیر ویل پر ہمارا پورا گروپ ایک جملہ کہے بغیر اٹھ کھڑا ہوا اور ہمیں چھوڑ کر یوں بھاگ نکلا کہ ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ اپنی اور چار خالی کرسیوں کی تصویر کھینچیں اور کہیں چسپاں کریں، میں اور میرا گروپ کے عنوان کے ساتھ۔

یک گونہ مایوسی تو ہمیں بہرحال ہوئی کہ دنیا جس ادارے کو اتنی اچھی جگہ سمجھتی ہے کمپیوٹر سائنس (اور فن فیکٹ: ڈراما) پڑھنے کے لیے وہ شاید اتنی بھی اچھی نہیں یا شاید کمپیوٹر چپیں بنانےوالوں کے لیے ان کا معیار کافی کم ہے۔ کمپیوٹر سائنس والے تو خیر باقاعدہ سائنس دان ہوتے ہیں مگر ہماری ایسی قسمت کہاں۔پھر یونیورسٹی کے شہر میں گھومتے پھرتے تو ہم نے کچھ دن خوشی خوشی گزارے کہ بہت غریب پرور بلکہ گریجویٹ طالب علم پرور شہر ہے لیکن اس کے بعد ہمیں یونیورسٹی ٹکرا گئی اور ہم یونیورسٹی کو۔

ایک آدھ ہفتے کی اورینٹیشنز میں کھانے پینے کے لیے تو ہم جاتے رہتے تھے مگر جب پہلے دن کی صبح قینچی چپل میں پھرتے ہوئے ایک سائکل پر میرا لونگ گواچا بجتا ہوا سن لیا تو ہم مکمل طور پر عشق میں گرفتار ہو گئے۔ یہی قینچی چپل اگر ہم اپنی پچھلی یونیورسٹی پہن کر جاتے تو اول تو ہمیں گھسنے نہ دیا جاتا اور دوئم اگر ہم گھس ہی جاتے تو ہمارے بہت سارے کلاس فیلوز بے ہوش ہو کر گر جاتے۔ پرانی یونیورسٹی کی ہمارے دل میں اپنی جگہ ہے مگر آج کل ہم جہاں پائے جاتے ہیں وہاں ساری توجہ سائنس پر ہوتی ہے تو ایسے حالات میں دل کا بچنا کہاں ممکن تھا۔

لیکن صاحب، صدیوں پہلے لسان الغیب نے جو کہا تھا کہ عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکل ہا تو اس کی سچائی ہمیں اب پتہ چلتی ہے جب مذاق اور محاورے کے علاوہ حقیقت میں روز و شب ایسے سوالات درپیش ہوتے ہیں کہ کچھ کھائیں یا سو جائیں اور ہم سونے کو ترجیح دیتے ہیں فقط اس ظالم حقیقت کی وجہ سے کہ بھوکا انسان کوڈ اور ہارڈوئیر ڈی بگ کر سکتا ہے ہے مگر تھکا ہوا انسان نہیں۔یہاں روز و شب بھی ہم نے عادت کے مارے لکھ دیا ورنہ حقیقت میں ہماری طرف صرف دن ہوتا ہے چوبیس گھنٹے پر محیط جس میں دو چار گھنٹے ہم سو جایا کرتے ہیں اور وہ بھی پروڈیکٹیویٹی کے چکر میں ۔ ہجر کے مارے ہوئے ان خوش نصیبوں سے حسد ہوتا ہے جن کے شب و روز ایک طویل رات پر مبنی ہوتے ہیں کہ اس میں بستر پر پڑا رہنے کا بہت سکوپ ہوتا ہے۔ سونے کا حساب تو یوں ہے کہ رات کو جلدی سونے کا مطلب ہے، دو بجے سونا۔ نارمل وقت چار بجے ہے اور ذرا دیر سے سونے کا مطلب ہے صبح چھ سے آٹھ بجے کی نیند۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہم سچ میں ورکوحلک ہو چکے ہیں اور اس درجہ کہ جب کوئی بڑا کام نمٹ جاتا ہے تو اس کے بعد سوچتے ہیں کہ زندگی اتنی خالی کیوں ہے۔ ان خال خال صبحوں میں جب ہم الارم کے بغیر اٹھتے ہیں تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ آج کتنا عجیب دن ہے۔رویہ بھی ہم نے وہی اپنا لیا ہے کہ ڈیزائن کا جو معیار درکار ہے وہ تو کم ترین معیار ہے اور جب تک ہم اس سے دس گنا تیز سسٹم نہ بنا لیں تو اسائنمنٹ کا حق ادا نہیں ہو گا۔ دن کے بیس گھنٹے یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو پھر اس کوئے ملامت کے طواف کو جاتے ہیں غالب کو یاد کرتے ہوئے۔ پندار کے صنم کدے کا رونا کیا روئیے کہ ہمیں اگر کبھی خیال آتا بھی ہے تو فقط فریج کی ویرانی کا کہ اس میں کھانا بھی خود بنا کر رکھنا پڑتا ہے اور یہ اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے کی بلاشبہ آخری حد ہے اور لوگوں کو ہم پر زیادہ ترس کھانا چاہیے۔ عرض نیاز عشق چھوڑئیے، ہم تو دنیا اور دنیا والوں کی برائیاں بھی کرنے کے قابل نہیں رہے اور جب کبھی دو چار منٹ اطمینان کے ملیں تو اس میں برتن دھونے سے ایسی خوشی پاتے ہیں جسے نارمل لوگ سیر و تفریح میں تلاش کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کہہ ضرور اٹھتے ہیں اپنی اماں کو کہ آئندہ اگر مزید پڑھنے کی بات کریں تو ہمیں گولی مار دیجئے گا لیکن سچ یہی ہے کہ پھر یہی زندگی ہماری ہے اور سوچتے ہیں کہ اگر ہماری اصل پسندیدہ یونیورسٹی نے اب بھی ہمیں قبول نہیں کیا تو سیدھا سیدھا کوئی کھڑکی تلاش کریں گے۔​
 
آخری تدوین:
بہت بہت مبارکباد نمرہ بٹیا۔ آپ نئی وسعتوں اور رفعتوں کو پہنچیں، بلکہ وہ آپ کو پہنچیں، آمین! اور آپ کی تحریر پر کیا تبصرہ کریں، ہم نے تو بہت پہلے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ :) :) :)
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہ
بلاشبہ ہنستی مسکراتی رواں دواں شستہ شگفتہ تحریر
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
غالبا زباندانی کسی ادیب کا.سرمایہ ہوتی ہے. کہیں ایسا.نہیں.کہا.گیا کچھ زیادہ لکھا ہے. شاعری.میں قنوطیت حسن.کو دوبالا کرتی ہے،کچھ ایسا نثر میں آپ کے لیے ہے. سرسری اور عام سے انداز میں.بڑی.بات کہنا..فن ہے .. اچھا لگا ..
 
Top