راحیل فاروق
محفلین
میں پنجاب کے ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا ہوں جس کے شجرے میں مقامیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ مجھے پنجاب اور پنجابیت سے عقیدت کی حد تک لگاؤ ہے۔ میں کچھ محققین کی اس رائے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا کرتا ہوں کہ پنجابی زبان کا اصل مرزبوم دیومالائی دریا ایراوتی یعنی راوی کا وہی کنارہ ہے جس پر رام، لچھمن اور سیتا کھیلا کرتے تھے اور جہاں میری نسل ان کے وارثوں کی حیثیت سے مدتِ مدید سے آباد چلی آ رہی ہے۔ اسی مرکز سے دائیں بائیں نکل کر پنجابی نے سرائیکی، ہندکو، گوجری، ماجھی وغیرہ لہجے اختیار کیے ہیں۔
مگر اس تمام تر عصبیت کے باوجود میں تسلیم کرتا ہوں کہ پنجابی محض اہلِ پنجاب کی زبان ہے۔ اہلِ پاکستان کی نہیں۔ اہلِ برِ صغیر کی تو بالکل بھی نہیں۔ قبولیتِ عامہ کے اس درجے پر ہمارے ہاں اگر کوئی زبان فائز ہے تو وہ محض اردو ہے جس کا ایک اور نام ہندی بھی ہے۔ یہی زبان اس لائق ہے کہ جہاں مختلف اللسان لوگ مل بیٹھیں وہاں گفتگو اور اظہارِ خیال کے لیے استعمال کی جائے۔ اگر تناظر عالمی سطح کا ہو تو پھر یہی گدی انگریزی کو منتقل کر دینی چاہیے۔
ہمارے ہاں گزشتہ دنوں سماجی ویب گاہوں پر ایک انگریزی مکتب کے اس مراسلے پر بہت غل ہوا جس میں پنجابی کو واہیات زبان قرار دے کر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مجھے اس بات کا دکھ ہوا تھا۔ مگر ساتھ ساتھ ایک تجسس بھی پیدا ہوا تھا کہ آخر بلھے شاہ اور میاں محمد بخش کی زبان پر یہ وقت کیسے آ گیا۔ میرے ذہن کے منطقی گوشوں میں یہ کھد بد شروع ہو گئی تھی کہ اس غلط فہمی یا انقلاب کی بنا آخر کیسے پڑی؟
مجھے رہ رہ کر یاد آ رہا تھا کہ پنجابی وہ زبان ہے جس کی کوکھ میں اردو جیسی عالمگیر اور مہذب زبان نے پرورش پائی تھی۔ جس کا لسانی شعور ناسخؔ کے وسیلے سے اردو کی لفظیات پر ثبت ہو چکا ہے۔ جس کے اصول فارسی جیسی مہذب اور شائستہ زبان کے سے سانچے میں یوں ڈھلے ہوئے ہیں کہ دونوں سگی بہنیں معلوم ہوتی ہیں۔ جو اپنی تصریفات کے تنوع اور بلاغت میں گاہے گاہے عربی کے برابر جا پہنچتی ہے۔ جس میں تاجدارِ ہند بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی نہایت اہتمام سے سخن سنجی کی کوشش فرمائی تھی۔ جس کی بابت انشا اللہ خان انشاؔ جیسا صاحب نظر اور مقتدر عارفِ تہذیب یہ کہنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ
کچھ لوگوں نے تب بھی یہ نکتے اٹھائے تھے کہ پنجابی کا استعمال غلط کیا جاتا ہے۔ اسے ٹھٹھے اور واہی تباہی کی زبان خود اہلِ پنجاب نے بنا کر رکھ دیا ہے۔ مگر شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ؟ اس شور شرابے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے بچشمِ خود اور بنظرِ غائر ان رویوں کا مطالعہ کرنے کی تحریک اور موقع ملا جو اس تہمت کے ذمہ دار بنے ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ یہ زبان کیونکر بولی جاتی ہے اور اس کا اثر لوگوں پر کس طرح کا مرتب ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ شاید بہت عرصے سے ہو رہا تھا مگر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق میری توجہ اس سے پہلے اس طرف نہ ہوئی تھی۔ اب افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ انگریزی مدرسہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ پنجابی واقعی فی زمانہ ایک گری ہوئی زبان کی سطح پر پہنچ گئی ہے یا پہنچا دی گئی ہے جس میں گفتگو بذاتِ خود بدویت کی ایک نشانی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس بات کا بہتوں کو دکھ ہو گا مگر میرا دکھ تب دونا ہو جاتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ بدنامی کن اسباب سے پیدا ہوئی ہے۔
بات پنجابی زبان کی نہیں۔ بات دراصل اس کے بولنے والوں اور ان کے رویوں کی ہے۔ اہلِ پنجاب اپنی بےباکی اور آزادہ روی کے سبب ہمیشہ سے معروف ہیں۔ مگر امتدادِ زمانہ کے اثرات کچھ ایسے ہوئے ہیں کہ تہذیب کے معیارات نے پنجابیوں کے کسی زمانے کے ان محاسن کو معائب میں شمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ صاف گوئی خوبی نہیں رہی بلکہ بدتمیزی کے دائرے میں داخل سمجھی جانے لگی ہے۔ خوش طبعی اور دل لگی کو اس رنگ میں روا رکھنا ہرزہ سرائی اور پھکڑ پن خیال کیا جانے لگا ہے جو اہلِ پنجاب کا طرۂِ امتیاز رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا ہے کہ اہلِ پنجاب نے اس تغییرِ زمانہ کے ردِ عمل میں اپنے رویوں کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی بجائے الٹا انھیں پنجابی میں ملفوف کرنے کی روش اپنا لی ہے۔ یعنی جہاں دل کی بھڑاس نکالنی خلافِ تہذیب خیال کی جائے وہاں بجائے اس سے گریز کرنے کے پنجابی پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی!
عبرت کا مقام یہ ہے کہ اب غیراہلِ زبان بھی ایسے موقعوں پر بعض اوقات مزاحاً اور استہزاً پنجابی ہی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ اس بھونڈے پن کا بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پنجابی زبان کے بارے میں ایک انتہائی نامناسب تاثر لوگوں میں ابھرا ہے۔ یعنی اسے گالم گلوچ، ذومعنیٰ کلام اور یاوہ گوئی کے لیے موزوں ترین زبان خیال کیا جانے لگا ہے۔ جب اس نہج پر ہم نے اسے آپ پہنچا دیا تو پھر کیا وجہ کہ اب اسے بچوں کے لیے نامناسب زبان قرار نہ دیا جائے؟ قہر تو یہ ہے کہ خود اہلِ پنجاب کی بڑی تعداد بھی اپنے بچوں سے سے پنجابی میں گفتگو تب تک نہیں کرتی جب تک مضحکہ اڑانے یا دشنام طرازی کا قصد نہ ہو۔ معصوموں کو پڑھاتے انگریزی ہیں، بولتے اردو ہیں اور نامناسب باتوں کے لیے پنجابی پر اتر آتے ہیں۔ اگر اپنی زبان سے محبت اسی دوغلے پن کا نام ہے تو اس کی بالکل ٹھیک سزا پنجابی اور پنجابیوں کو مل گئی ہے اور شاید مزید بھی ملتی رہے گی۔
ایک اور اہم نکتہ اس ضمن میں یہ ہے کہ نسبتاً جارح مزاج ہونے کے باعث اہلِ پنجاب ان جگہوں پر بھی پنجابی بولنے سے باز نہیں آتے جہاں آداب اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مختلف پس منظروں کے لوگوں کی محفل میں اگر کوئی دو لوگ آپ کو دھڑلے سے ایک اجنبی زبان بولتے نظر آئیں تو اغلب ہے کہ وہ پنجابی ہی ہو گی۔ گو کہ یہ وتیرہ ہر قوم کے طبقۂِ جہلا میں پایا جاتا ہے کہ وہ مزاح، شدت اور مجادلے وغیرہ کی صورت میں ماحول کی پروا کیے بغیر جھٹ اپنی مادری زبان کا پلو تھام لیتے ہیں مگر پنجابیوں کا پڑھا لکھا طبقہ بھی عموماً اس عیب سے بری نہیں۔ اس بدمذاقی کا نتیجہ اکثر تکدر اور تنفر کی صورت میں نکلتا ہے۔ گویا یہ اہلِ پنجاب کا ایک اور پھوہڑ پن ہے جو ان کی انتہائی وقیع اور جمیل زبان کے حق میں سمِ قاتل بن گیا ہے۔
میں ذاتی طور پر ابلاغ کے سلسلے میں کافی کوڑھ مغز واقع ہوا ہوں۔ اگر کوئی زبان مجھے نہیں آتی تو اس کے قائلین کے لہجے، تاثرات اور حرکات وغیرہ کی مدد سے فحوائے کلام کا اندازہ لگانا میرے لیے تکلیفِ ما لا یطاق کا حکم رکھتا ہے۔ مجھے اکثر تجربہ ہوا ہے کہ میرے ساتھیوں نے اچانک کسی غیر زبان میں گفتگو شروع کر دی اور میں نے خود کو انتہائی اجنبی محسوس کیا۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ایسے موقعوں پر ہر قہقہہ اپنی ذات پر لگایا گیا معلوم ہوتا ہے اور ہر سرگوشی میں اپنی غیبت نظر آتی ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ جب میرے بھائی بند پنجابی میں یونہی گفتگو کرتے ہیں تو اور لوگوں کو کس قدر کوفت ہوتی ہو گی۔ وہ خود کو کس قدر اجنبی محسوس کرتے ہوں گے؟ جس کثرت سے یہ وقوعہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا ہے ان کی طبیعت میں پنجابی سے نفرت کتنی ترقی کر جاتی ہو گی؟ پھر یہ بھی ہے کہ یہ تمام نتائج مجھے محض ناقدانہ جائزے اور تفکر و تدبر سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ میں نے بہت سے لوگوں کو باقاعدہ پنجابی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے دیکھا ہے۔ بلکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایک ہوش مند پنجابی ہیں تو آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہو گا۔ اور اگر نہیں ہیں تو یہ صدا خود آپ نے کبھی نہ کبھی ضرور بلند کی ہو گی۔
اس مسئلے کا حل فردِ واحد کے پاس نہیں۔ یہ ایک پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے آگاہی اور شعور کی تقسیم ضروری ہے۔ میں اور آپ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو محض یہ کہ اپنے حصے کے دیے جلائیں اور پنجابی کو اس کے جائز مقام سے محبت یا نفرت میں سرِ مو ادھر ادھر نہ ہونے دیں۔ پنجابی ہیں تو غیر اہلِ زبان کی موجودگی میں اپنی زبان کے بےجا استعمال سے گریز کریں اور نہیں ہیں تو ایسی چیرہ دستیوں کو فرد یا ذات کی سطح پر دیکھیں نہ کہ قوم یا زبان کی سطح پر۔ یہ سب کہہ چکنے کے بعد میں اپنی قوم اور زبان کے حق میں دعا ہی کر سکتا ہوں، اور کچھ نہیں!
برائے خصوصی اطلاع:
محمد ریحان قریشی اور ایچ اے خان
مگر اس تمام تر عصبیت کے باوجود میں تسلیم کرتا ہوں کہ پنجابی محض اہلِ پنجاب کی زبان ہے۔ اہلِ پاکستان کی نہیں۔ اہلِ برِ صغیر کی تو بالکل بھی نہیں۔ قبولیتِ عامہ کے اس درجے پر ہمارے ہاں اگر کوئی زبان فائز ہے تو وہ محض اردو ہے جس کا ایک اور نام ہندی بھی ہے۔ یہی زبان اس لائق ہے کہ جہاں مختلف اللسان لوگ مل بیٹھیں وہاں گفتگو اور اظہارِ خیال کے لیے استعمال کی جائے۔ اگر تناظر عالمی سطح کا ہو تو پھر یہی گدی انگریزی کو منتقل کر دینی چاہیے۔
ہمارے ہاں گزشتہ دنوں سماجی ویب گاہوں پر ایک انگریزی مکتب کے اس مراسلے پر بہت غل ہوا جس میں پنجابی کو واہیات زبان قرار دے کر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مجھے اس بات کا دکھ ہوا تھا۔ مگر ساتھ ساتھ ایک تجسس بھی پیدا ہوا تھا کہ آخر بلھے شاہ اور میاں محمد بخش کی زبان پر یہ وقت کیسے آ گیا۔ میرے ذہن کے منطقی گوشوں میں یہ کھد بد شروع ہو گئی تھی کہ اس غلط فہمی یا انقلاب کی بنا آخر کیسے پڑی؟
مجھے رہ رہ کر یاد آ رہا تھا کہ پنجابی وہ زبان ہے جس کی کوکھ میں اردو جیسی عالمگیر اور مہذب زبان نے پرورش پائی تھی۔ جس کا لسانی شعور ناسخؔ کے وسیلے سے اردو کی لفظیات پر ثبت ہو چکا ہے۔ جس کے اصول فارسی جیسی مہذب اور شائستہ زبان کے سے سانچے میں یوں ڈھلے ہوئے ہیں کہ دونوں سگی بہنیں معلوم ہوتی ہیں۔ جو اپنی تصریفات کے تنوع اور بلاغت میں گاہے گاہے عربی کے برابر جا پہنچتی ہے۔ جس میں تاجدارِ ہند بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی نہایت اہتمام سے سخن سنجی کی کوشش فرمائی تھی۔ جس کی بابت انشا اللہ خان انشاؔ جیسا صاحب نظر اور مقتدر عارفِ تہذیب یہ کہنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ
سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھا کا
تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
جس کا طوطی آج بھی پاک و ہند میں یوں بولتا ہے کہ زاویہ پڑھنے والوں سے لے کر فلم بینوں تک ہر کسی تک اس کی کچھ نہ کچھ صدائیں پیہم پہنچتی رہتی ہیں۔ کیا سبب، کیا غضب کہ یہ زبان غیرمہذب قرار پا گئی؟تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
کچھ لوگوں نے تب بھی یہ نکتے اٹھائے تھے کہ پنجابی کا استعمال غلط کیا جاتا ہے۔ اسے ٹھٹھے اور واہی تباہی کی زبان خود اہلِ پنجاب نے بنا کر رکھ دیا ہے۔ مگر شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ؟ اس شور شرابے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے بچشمِ خود اور بنظرِ غائر ان رویوں کا مطالعہ کرنے کی تحریک اور موقع ملا جو اس تہمت کے ذمہ دار بنے ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ یہ زبان کیونکر بولی جاتی ہے اور اس کا اثر لوگوں پر کس طرح کا مرتب ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ شاید بہت عرصے سے ہو رہا تھا مگر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق میری توجہ اس سے پہلے اس طرف نہ ہوئی تھی۔ اب افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ انگریزی مدرسہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ پنجابی واقعی فی زمانہ ایک گری ہوئی زبان کی سطح پر پہنچ گئی ہے یا پہنچا دی گئی ہے جس میں گفتگو بذاتِ خود بدویت کی ایک نشانی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس بات کا بہتوں کو دکھ ہو گا مگر میرا دکھ تب دونا ہو جاتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ بدنامی کن اسباب سے پیدا ہوئی ہے۔
بات پنجابی زبان کی نہیں۔ بات دراصل اس کے بولنے والوں اور ان کے رویوں کی ہے۔ اہلِ پنجاب اپنی بےباکی اور آزادہ روی کے سبب ہمیشہ سے معروف ہیں۔ مگر امتدادِ زمانہ کے اثرات کچھ ایسے ہوئے ہیں کہ تہذیب کے معیارات نے پنجابیوں کے کسی زمانے کے ان محاسن کو معائب میں شمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ صاف گوئی خوبی نہیں رہی بلکہ بدتمیزی کے دائرے میں داخل سمجھی جانے لگی ہے۔ خوش طبعی اور دل لگی کو اس رنگ میں روا رکھنا ہرزہ سرائی اور پھکڑ پن خیال کیا جانے لگا ہے جو اہلِ پنجاب کا طرۂِ امتیاز رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا ہے کہ اہلِ پنجاب نے اس تغییرِ زمانہ کے ردِ عمل میں اپنے رویوں کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی بجائے الٹا انھیں پنجابی میں ملفوف کرنے کی روش اپنا لی ہے۔ یعنی جہاں دل کی بھڑاس نکالنی خلافِ تہذیب خیال کی جائے وہاں بجائے اس سے گریز کرنے کے پنجابی پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی!
عبرت کا مقام یہ ہے کہ اب غیراہلِ زبان بھی ایسے موقعوں پر بعض اوقات مزاحاً اور استہزاً پنجابی ہی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ اس بھونڈے پن کا بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پنجابی زبان کے بارے میں ایک انتہائی نامناسب تاثر لوگوں میں ابھرا ہے۔ یعنی اسے گالم گلوچ، ذومعنیٰ کلام اور یاوہ گوئی کے لیے موزوں ترین زبان خیال کیا جانے لگا ہے۔ جب اس نہج پر ہم نے اسے آپ پہنچا دیا تو پھر کیا وجہ کہ اب اسے بچوں کے لیے نامناسب زبان قرار نہ دیا جائے؟ قہر تو یہ ہے کہ خود اہلِ پنجاب کی بڑی تعداد بھی اپنے بچوں سے سے پنجابی میں گفتگو تب تک نہیں کرتی جب تک مضحکہ اڑانے یا دشنام طرازی کا قصد نہ ہو۔ معصوموں کو پڑھاتے انگریزی ہیں، بولتے اردو ہیں اور نامناسب باتوں کے لیے پنجابی پر اتر آتے ہیں۔ اگر اپنی زبان سے محبت اسی دوغلے پن کا نام ہے تو اس کی بالکل ٹھیک سزا پنجابی اور پنجابیوں کو مل گئی ہے اور شاید مزید بھی ملتی رہے گی۔
ایک اور اہم نکتہ اس ضمن میں یہ ہے کہ نسبتاً جارح مزاج ہونے کے باعث اہلِ پنجاب ان جگہوں پر بھی پنجابی بولنے سے باز نہیں آتے جہاں آداب اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مختلف پس منظروں کے لوگوں کی محفل میں اگر کوئی دو لوگ آپ کو دھڑلے سے ایک اجنبی زبان بولتے نظر آئیں تو اغلب ہے کہ وہ پنجابی ہی ہو گی۔ گو کہ یہ وتیرہ ہر قوم کے طبقۂِ جہلا میں پایا جاتا ہے کہ وہ مزاح، شدت اور مجادلے وغیرہ کی صورت میں ماحول کی پروا کیے بغیر جھٹ اپنی مادری زبان کا پلو تھام لیتے ہیں مگر پنجابیوں کا پڑھا لکھا طبقہ بھی عموماً اس عیب سے بری نہیں۔ اس بدمذاقی کا نتیجہ اکثر تکدر اور تنفر کی صورت میں نکلتا ہے۔ گویا یہ اہلِ پنجاب کا ایک اور پھوہڑ پن ہے جو ان کی انتہائی وقیع اور جمیل زبان کے حق میں سمِ قاتل بن گیا ہے۔
میں ذاتی طور پر ابلاغ کے سلسلے میں کافی کوڑھ مغز واقع ہوا ہوں۔ اگر کوئی زبان مجھے نہیں آتی تو اس کے قائلین کے لہجے، تاثرات اور حرکات وغیرہ کی مدد سے فحوائے کلام کا اندازہ لگانا میرے لیے تکلیفِ ما لا یطاق کا حکم رکھتا ہے۔ مجھے اکثر تجربہ ہوا ہے کہ میرے ساتھیوں نے اچانک کسی غیر زبان میں گفتگو شروع کر دی اور میں نے خود کو انتہائی اجنبی محسوس کیا۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ایسے موقعوں پر ہر قہقہہ اپنی ذات پر لگایا گیا معلوم ہوتا ہے اور ہر سرگوشی میں اپنی غیبت نظر آتی ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ جب میرے بھائی بند پنجابی میں یونہی گفتگو کرتے ہیں تو اور لوگوں کو کس قدر کوفت ہوتی ہو گی۔ وہ خود کو کس قدر اجنبی محسوس کرتے ہوں گے؟ جس کثرت سے یہ وقوعہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا ہے ان کی طبیعت میں پنجابی سے نفرت کتنی ترقی کر جاتی ہو گی؟ پھر یہ بھی ہے کہ یہ تمام نتائج مجھے محض ناقدانہ جائزے اور تفکر و تدبر سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ میں نے بہت سے لوگوں کو باقاعدہ پنجابی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے دیکھا ہے۔ بلکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایک ہوش مند پنجابی ہیں تو آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہو گا۔ اور اگر نہیں ہیں تو یہ صدا خود آپ نے کبھی نہ کبھی ضرور بلند کی ہو گی۔
اس مسئلے کا حل فردِ واحد کے پاس نہیں۔ یہ ایک پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے آگاہی اور شعور کی تقسیم ضروری ہے۔ میں اور آپ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو محض یہ کہ اپنے حصے کے دیے جلائیں اور پنجابی کو اس کے جائز مقام سے محبت یا نفرت میں سرِ مو ادھر ادھر نہ ہونے دیں۔ پنجابی ہیں تو غیر اہلِ زبان کی موجودگی میں اپنی زبان کے بےجا استعمال سے گریز کریں اور نہیں ہیں تو ایسی چیرہ دستیوں کو فرد یا ذات کی سطح پر دیکھیں نہ کہ قوم یا زبان کی سطح پر۔ یہ سب کہہ چکنے کے بعد میں اپنی قوم اور زبان کے حق میں دعا ہی کر سکتا ہوں، اور کچھ نہیں!
برائے خصوصی اطلاع:
محمد ریحان قریشی اور ایچ اے خان
آخری تدوین: