میں پنجاب کے ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا ہوں جس کے شجرے میں مقامیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ مجھے پنجاب اور پنجابیت سے عقیدت کی حد تک لگاؤ ہے۔ میں کچھ محققین کی اس رائے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا کرتا ہوں کہ پنجابی زبان کا اصل مرزبوم دیومالائی دریا ایراوتی یعنی راوی کا وہی کنارہ ہے جس پر رام، لچھمن اور سیتا کھیلا کرتے تھے اور جہاں میری نسل ان کے وارثوں کی حیثیت سے مدتِ مدید سے آباد چلی آ رہی ہے۔ اسی مرکز سے دائیں بائیں نکل کر پنجابی نے سرائیکی، ہندکو، گوجری، ماجھی وغیرہ لہجے اختیار کیے ہیں۔
مگر اس تمام تر عصبیت کے باوجود میں تسلیم کرتا ہوں کہ پنجابی محض اہلِ پنجاب کی زبان ہے۔ اہلِ پاکستان کی نہیں۔ اہلِ برِ صغیر کی تو بالکل بھی نہیں۔ قبولیتِ عامہ کے اس درجے پر ہمارے ہاں اگر کوئی زبان فائز ہے تو وہ محض اردو ہے جس کا ایک اور نام ہندی بھی ہے۔ یہی زبان اس لائق ہے کہ جہاں مختلف اللسان لوگ مل بیٹھیں وہاں گفتگو اور اظہارِ خیال کے لیے استعمال کی جائے۔ اگر تناظر عالمی سطح کا ہو تو پھر یہی گدی انگریزی کو منتقل کر دینی چاہیے۔
ہمارے ہاں گزشتہ دنوں سماجی ویب گاہوں پر ایک انگریزی مکتب کے اس مراسلے پر بہت غل ہوا جس میں پنجابی کو واہیات زبان قرار دے کر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مجھے اس بات کا دکھ ہوا تھا۔ مگر ساتھ ساتھ ایک تجسس بھی پیدا ہوا تھا کہ آخر بلھے شاہ اور میاں محمد بخش کی زبان پر یہ وقت کیسے آ گیا۔ میرے ذہن کے منطقی گوشوں میں یہ کھد بد شروع ہو گئی تھی کہ اس غلط فہمی یا انقلاب کی بنا آخر کیسے پڑی؟
مجھے رہ رہ کر یاد آ رہا تھا کہ پنجابی وہ زبان ہے جس کی کوکھ میں اردو جیسی عالمگیر اور مہذب زبان نے پرورش پائی تھی۔ جس کا لسانی شعور ناسخؔ کے وسیلے سے اردو کی لفظیات پر ثبت ہو چکا ہے۔ جس کے اصول فارسی جیسی مہذب اور شائستہ زبان کے سے سانچے میں یوں ڈھلے ہوئے ہیں کہ دونوں سگی بہنیں معلوم ہوتی ہیں۔ جو اپنی تصریفات کے تنوع اور بلاغت میں گاہے گاہے عربی کے برابر جا پہنچتی ہے۔ جس میں تاجدارِ ہند بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی نہایت اہتمام سے سخن سنجی کی کوشش فرمائی تھی۔ جس کی بابت انشا اللہ خان انشاؔ جیسا صاحب نظر اور مقتدر عارفِ تہذیب یہ کہنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ
سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھا کا
تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا​
جس کا طوطی آج بھی پاک و ہند میں یوں بولتا ہے کہ زاویہ پڑھنے والوں سے لے کر فلم بینوں تک ہر کسی تک اس کی کچھ نہ کچھ صدائیں پیہم پہنچتی رہتی ہیں۔ کیا سبب، کیا غضب کہ یہ زبان غیرمہذب قرار پا گئی؟
کچھ لوگوں نے تب بھی یہ نکتے اٹھائے تھے کہ پنجابی کا استعمال غلط کیا جاتا ہے۔ اسے ٹھٹھے اور واہی تباہی کی زبان خود اہلِ پنجاب نے بنا کر رکھ دیا ہے۔ مگر شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ؟ اس شور شرابے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے بچشمِ خود اور بنظرِ غائر ان رویوں کا مطالعہ کرنے کی تحریک اور موقع ملا جو اس تہمت کے ذمہ دار بنے ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ یہ زبان کیونکر بولی جاتی ہے اور اس کا اثر لوگوں پر کس طرح کا مرتب ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ شاید بہت عرصے سے ہو رہا تھا مگر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق میری توجہ اس سے پہلے اس طرف نہ ہوئی تھی۔ اب افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ انگریزی مدرسہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ پنجابی واقعی فی زمانہ ایک گری ہوئی زبان کی سطح پر پہنچ گئی ہے یا پہنچا دی گئی ہے جس میں گفتگو بذاتِ خود بدویت کی ایک نشانی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس بات کا بہتوں کو دکھ ہو گا مگر میرا دکھ تب دونا ہو جاتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ بدنامی کن اسباب سے پیدا ہوئی ہے۔
بات پنجابی زبان کی نہیں۔ بات دراصل اس کے بولنے والوں اور ان کے رویوں کی ہے۔ اہلِ پنجاب اپنی بےباکی اور آزادہ روی کے سبب ہمیشہ سے معروف ہیں۔ مگر امتدادِ زمانہ کے اثرات کچھ ایسے ہوئے ہیں کہ تہذیب کے معیارات نے پنجابیوں کے کسی زمانے کے ان محاسن کو معائب میں شمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ صاف گوئی خوبی نہیں رہی بلکہ بدتمیزی کے دائرے میں داخل سمجھی جانے لگی ہے۔ خوش طبعی اور دل لگی کو اس رنگ میں روا رکھنا ہرزہ سرائی اور پھکڑ پن خیال کیا جانے لگا ہے جو اہلِ پنجاب کا طرۂِ امتیاز رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا ہے کہ اہلِ پنجاب نے اس تغییرِ زمانہ کے ردِ عمل میں اپنے رویوں کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی بجائے الٹا انھیں پنجابی میں ملفوف کرنے کی روش اپنا لی ہے۔ یعنی جہاں دل کی بھڑاس نکالنی خلافِ تہذیب خیال کی جائے وہاں بجائے اس سے گریز کرنے کے پنجابی پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی!
عبرت کا مقام یہ ہے کہ اب غیراہلِ زبان بھی ایسے موقعوں پر بعض اوقات مزاحاً اور استہزاً پنجابی ہی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ اس بھونڈے پن کا بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پنجابی زبان کے بارے میں ایک انتہائی نامناسب تاثر لوگوں میں ابھرا ہے۔ یعنی اسے گالم گلوچ، ذومعنیٰ کلام اور یاوہ گوئی کے لیے موزوں ترین زبان خیال کیا جانے لگا ہے۔ جب اس نہج پر ہم نے اسے آپ پہنچا دیا تو پھر کیا وجہ کہ اب اسے بچوں کے لیے نامناسب زبان قرار نہ دیا جائے؟ قہر تو یہ ہے کہ خود اہلِ پنجاب کی بڑی تعداد بھی اپنے بچوں سے سے پنجابی میں گفتگو تب تک نہیں کرتی جب تک مضحکہ اڑانے یا دشنام طرازی کا قصد نہ ہو۔ معصوموں کو پڑھاتے انگریزی ہیں، بولتے اردو ہیں اور نامناسب باتوں کے لیے پنجابی پر اتر آتے ہیں۔ اگر اپنی زبان سے محبت اسی دوغلے پن کا نام ہے تو اس کی بالکل ٹھیک سزا پنجابی اور پنجابیوں کو مل گئی ہے اور شاید مزید بھی ملتی رہے گی۔
ایک اور اہم نکتہ اس ضمن میں یہ ہے کہ نسبتاً جارح مزاج ہونے کے باعث اہلِ پنجاب ان جگہوں پر بھی پنجابی بولنے سے باز نہیں آتے جہاں آداب اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مختلف پس منظروں کے لوگوں کی محفل میں اگر کوئی دو لوگ آپ کو دھڑلے سے ایک اجنبی زبان بولتے نظر آئیں تو اغلب ہے کہ وہ پنجابی ہی ہو گی۔ گو کہ یہ وتیرہ ہر قوم کے طبقۂِ جہلا میں پایا جاتا ہے کہ وہ مزاح، شدت اور مجادلے وغیرہ کی صورت میں ماحول کی پروا کیے بغیر جھٹ اپنی مادری زبان کا پلو تھام لیتے ہیں مگر پنجابیوں کا پڑھا لکھا طبقہ بھی عموماً اس عیب سے بری نہیں۔ اس بدمذاقی کا نتیجہ اکثر تکدر اور تنفر کی صورت میں نکلتا ہے۔ گویا یہ اہلِ پنجاب کا ایک اور پھوہڑ پن ہے جو ان کی انتہائی وقیع اور جمیل زبان کے حق میں سمِ قاتل بن گیا ہے۔
میں ذاتی طور پر ابلاغ کے سلسلے میں کافی کوڑھ مغز واقع ہوا ہوں۔ اگر کوئی زبان مجھے نہیں آتی تو اس کے قائلین کے لہجے، تاثرات اور حرکات وغیرہ کی مدد سے فحوائے کلام کا اندازہ لگانا میرے لیے تکلیفِ ما لا یطاق کا حکم رکھتا ہے۔ مجھے اکثر تجربہ ہوا ہے کہ میرے ساتھیوں نے اچانک کسی غیر زبان میں گفتگو شروع کر دی اور میں نے خود کو انتہائی اجنبی محسوس کیا۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ایسے موقعوں پر ہر قہقہہ اپنی ذات پر لگایا گیا معلوم ہوتا ہے اور ہر سرگوشی میں اپنی غیبت نظر آتی ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ جب میرے بھائی بند پنجابی میں یونہی گفتگو کرتے ہیں تو اور لوگوں کو کس قدر کوفت ہوتی ہو گی۔ وہ خود کو کس قدر اجنبی محسوس کرتے ہوں گے؟ جس کثرت سے یہ وقوعہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا ہے ان کی طبیعت میں پنجابی سے نفرت کتنی ترقی کر جاتی ہو گی؟ پھر یہ بھی ہے کہ یہ تمام نتائج مجھے محض ناقدانہ جائزے اور تفکر و تدبر سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ میں نے بہت سے لوگوں کو باقاعدہ پنجابی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے دیکھا ہے۔ بلکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایک ہوش مند پنجابی ہیں تو آپ کو بھی یہ تجربہ ہوا ہو گا۔ اور اگر نہیں ہیں تو یہ صدا خود آپ نے کبھی نہ کبھی ضرور بلند کی ہو گی۔
اس مسئلے کا حل فردِ واحد کے پاس نہیں۔ یہ ایک پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے آگاہی اور شعور کی تقسیم ضروری ہے۔ میں اور آپ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو محض یہ کہ اپنے حصے کے دیے جلائیں اور پنجابی کو اس کے جائز مقام سے محبت یا نفرت میں سرِ مو ادھر ادھر نہ ہونے دیں۔ پنجابی ہیں تو غیر اہلِ زبان کی موجودگی میں اپنی زبان کے بےجا استعمال سے گریز کریں اور نہیں ہیں تو ایسی چیرہ دستیوں کو فرد یا ذات کی سطح پر دیکھیں نہ کہ قوم یا زبان کی سطح پر۔ یہ سب کہہ چکنے کے بعد میں اپنی قوم اور زبان کے حق میں دعا ہی کر سکتا ہوں، اور کچھ نہیں!

برائے خصوصی اطلاع:
محمد ریحان قریشی اور ایچ اے خان
 
آخری تدوین:

با ادب

محفلین
کسی بھی موضوع پہ مدلل بات کرنا ایک الگ بات یے لیکن اپنی ہی خامی و کوتاہی جو اس بہترین انداز سے قبول کر کے اسکی نشاندہی کرنا اور اس بہترین پیرائے میں کرنا بہت خوب ہے.
یہ صرف پنجابی کا مسئلہ نہیں مسائل اور بھی موجود ہیں ..جن کی نشاندہی کی ضرورت ہے.
 
بات پنجابی زبان کی نہیں۔ بات دراصل پنجابی بولنے والوں اور ان کے رویوں کی ہے۔ اہلِ پنجاب اپنی بےباکی اور آزادہ روی کے سبب ہمیشہ سے معروف ہیں۔ مگر امتدادِ زمانہ کے اثرات کچھ ایسے ہوئے ہیں کہ تہذیب کے معیارات نے پنجابیوں کے کسی زمانے کے ان محاسن کو معائب میں شمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ صاف گوئی خوبی نہیں رہی بلکہ بدتمیزی کے دائرے میں داخل سمجھی جانے لگی ہے۔ خوش طبعی اور دل لگی کو مہذب گفتگوؤں میں اس رنگ میں روا رکھنا ہرزہ سرائی اور پھکڑ پن خیال کیا جانے لگا ہے جو اہلِ پنجاب کا طرۂِ امتیاز رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا ہے کہ اہلِ پنجاب نے اس تغییرِ زمانہ کے ردِ عمل میں اپنے رویوں کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی بجائے انھیں پنجابی میں ملفوف کرنے کی روش اپنا لی ہے۔ یعنی کسی جگہ جہاں دل کی بھڑاس نکالنی خلافِ تہذیب خیال کی جائے وہاں بجائے اس سے گریز کرنے کے پنجابی پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی!
عبرت کا مقام یہ ہے کہ غیراہلِ زبان بھی ایسے موقعوں پر بعض اوقات مزاحاً اور استہزاً پنجابی ہی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ اس بھونڈے پن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پنجابی زبان کے بارے میں ایک انتہائی نامناسب تاثر لوگوں میں ابھرا ہے۔ یعنی اسے گالم گلوچ، ذومعنیٰ کلام اور یاوہ گوئی کے لیے موزوں ترین زبان خیال کیا جانے لگا ہے۔ جب اس نہج پر ہم نے اسے آپ پہنچا دیا تو پھر کیا وجہ کہ اب اسے بچوں کے لیے نامناسب زبان قرار نہ دیا جائے؟ قہر تو یہ ہے کہ خود اہلِ پنجاب کی اکثریت بھی اپنے بچوں سے سے پنجابی میں گفتگو تب تک نہیں کرتی جب تک مضحکہ اڑانے یا دشنام طرازی کا قصد نہ ہو۔ معصوموں کو پڑھاتے انگریزی ہیں، بولتے اردو ہیں اور نامناسب باتوں کے لیے پنجابی پر اتر آتے ہیں۔ اگر اپنی زبان سے محبت اسی دوغلے پن کا نام ہے تو اس کی بالکل ٹھیک ٹھیک سزا پنجابی اور پنجابیوں کو مل گئی ہے اور شاید مزید بھی ملتی رہے گی۔
کیا پیارے انداز میں آپ نے بات کہہ دی۔ میرا تعلق لاہور سے ہے لیکن کیونکہ آباؤ اجداد ہجرت کر کے آئے تھے اس لیے ہم لوگ گھر میں تو اردو ہی بولتے ہیں۔ میری جم پل لاہور ہی کی ہے اس لیے کچھ تھوڑی بہت پنجابی کہہ سن لیتا ہوں۔ لیکن جس بات کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے بالکل درست ہے۔ میں خود مذاق اور جگت پانی کے لیے پنجابی پر شفٹ ہو جاتا ہوں(n)،اس کی وجہ بھی آپ نے خوب پیارے انداز سے بیان فرمادی۔ ’نالے جو مزہ جگت دا پنجابی وچ آندا اے اوہ فیر پنجابی سمجن والے ای جاندے نے‘۔ ویسے جو خالص اردوبولنے والے ہیں وہ سمجھتے ہیں میں پنجابی ہوں اور اگر کہیں کسی اندرون شہر والے سے پالا پڑجائے تووہ کہتا ہے یار تو پنجابی نہ ہی بولا کر، ایسی تیسی پھیر دیتا ہے زبان کی:sneaky:۔ ویسے یہ بات بالکل درست ہے کہ کافی کھلی ڈلی گفتگوہوتی ہے پنجابیوں کی، بسا اوقات محفل میں وہ بات کرجاتے ہیں جو اکیلے میں بھی کرتے ہوئے عام طور پرجھجک محسوس ہوتی ہے، نہیں؟ ’تسی تے آپ سمجھدار ہو‘:sneaky:
 
کیا پیارے انداز میں آپ نے بات کہہ دی۔ میرا تعلق لاہور سے ہے لیکن کیونکہ آباؤ اجداد ہجرت کر کے آئے تھے اس لیے ہم لوگ گھر میں تو اردو ہی بولتے ہیں۔ میری جم پل لاہور ہی کی ہے اس لیے کچھ تھوڑی بہت پنجابی کہہ سن لیتا ہوں۔ لیکن جس بات کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے بالکل درست ہے۔ میں خود مذاق اور جگت پانی کے لیے پنجابی پر شفٹ ہو جاتا ہوں(n)،اس کی وجہ بھی آپ نے خوب پیارے انداز سے بیان فرمادی۔ ’نالے جو مزہ جگت دا پنجابی وچ آندا اے اوہ فیر پنجابی سمجن والے ای جاندے نے‘۔ ویسے جو خالص اردوبولنے والے ہیں وہ سمجھتے ہیں میں پنجابی ہوں اور اگر کہیں کسی اندرون شہر والے سے پالا پڑجائے تووہ کہتا ہے یار تو پنجابی نہ ہی بولا کر، ایسی تیسی پھیر دیتا ہے زبان کی:sneaky:۔ ویسے یہ بات بالکل درست ہے کہ کافی کھلی ڈلی گفتگوہوتی ہے پنجابیوں کی، بسا اوقات محفل میں وہ بات کرجاتے ہیں جو اکیلے میں بھی کرتے ہوئے عام طور پرجھجک محسوس ہوتی ہے، نہیں؟ ’تسی تے آپ سمجھدار ہو‘:sneaky:

اسے بے شرمی کہتے ہیں
 
ہر انسان یا قوم اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اسکی زبان ہی مہان ہے۔ وہ اپنی مادری زبان سے محبت کرتا ہے اور اسی زبان میں اظہار اس کے لیے اسان ہوتا ہے ۔ یہ فطری ہے
زبان وقت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد مر بھی جاتی ہے ۔ مری ہوئی زبان زندہ بھی کی جاسکتی ہے۔ زبان کا معیار معاشرے کی ترقی اور نفاست کی نمو پر ہوتا ہے۔ ہر زبان اچھی ہے مگر وہ زبانیں جو انسانی ترقی کے لیے استعمال ہوتی ہیں برتر رہتی ہے زندہ ہوتی ہیں
 

loneliness4ever

محفلین
السلام علیکم!! کافی وقت بعد آیا اور آکر آپ کی تحریر پڑھی
اچھا لگا بلکہ بہت اچھا لگا ۔۔۔۔۔۔۔ سدا بے مثال و خوشحال رہیں ۔۔۔ آمین صد آمین
 

حماد علی

محفلین
گو کہ ہمارا خاندان سن۷۱ کہ بعد سے پاکستان میں آباد ہے یعنی ۴۵ سالوں سے ، ہمارے دادا، دادی ،نانا ،نانی اور بہت سے رشتہ دار اب بھی بنگالی زبان میں گفتگو کرتے ہیں پر یہ بہت کم بولی جاتی ہے اور وہ تمام لوگ جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئ بشمول میرے والدین اور میں بنگالی سے صرف اس کہ نام کی حد تک ہی واقف ہیں ، آج بھی پنجابی ہمارے خاندان میں وہ مقام حاصل نہ کر سکی جو اردو یا انگریزی کو حاصل ہے!
ہجرت کے بعد اردو زبان کو میرے خاندان نے اپنایا اور اس زبان نے ہمیں، پنجابی زبان کو ہوش سبھالنے کہ بعد سے ہی معیار سے گرا ہوا پایا اس لیے نہ تو اس کو اپنانے کی کوشش کی نہ سیکھنے کی کوئ دو سال پہلے حضرت سلطان باھو کا کلام پڑھا تو اندازہ ہوا کہ پنجابی ، معیار سے گری ہوئ زبان نہیں بلکہ اسے گرا دیا گیا ہے۔
ان ۴۵ برسوں میں مجھے حیرت تھی کہ ہمارے خاندان کہ افراد نے پنجابی کو کیوں نہ اپنایا ؟ تو ہمیں اس کہ یہی وجہ نظر آئ کہ اردو کو اپنانے کہ بعد خاندان والوں نے گھر کہ اندر اس زبان کو آپس میں رابطے کہ لیے مناسب نہ سمجھا !
بہت خوبصورت انداز تحریر ہے جناب آپ کا ۔ بہت خوب لکھا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
راحیل بھیا، ماشاءاللہ، کیسا رواں قلم پایا ہے آپ نے ۔۔۔ !!!

ایک اور خوب صورت تحریر!

حضورِوالا! عرض یہ ہے کہ کیا پنجابی میں تواتر سے اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے؟ اور اچھا ادب تخلیق نہ ہونے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ پنجابی زبان تحریری شکل میں گویا کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ اکا دکا رسالے، ایک آدھ گم نام سا اخبار اور بس! سکولوں وغیرہ میں پنجابی زبان پڑھانے کا رواج ہے ہی نہیں تو پھر؟

سوال یہ بنتا ہے ۔۔۔ اگر کسی زبان میں معیاری ادب ہی تخلیق نہ پا رہا ہو، سکولوں کالجوں میں کوئی زبان پڑھائی ہی نہ جا رہی ہو تو پھر ایسی زبان میں بہتر انداز میں مکالمے کا سلیقہ کیسے آئے گا؟

پنجابی زبان میں جو ڈرامے بنتے ہیں، وہ زیادہ تر سٹیج ڈرامے ہیں اور ان کا معیار آپ کے سامنے ہے، یہی جگت بازیاں اب پنجابی زبان کی پہچان اور بنیادی حوالہ بنتی جا رہی ہیں تو پھر؟

کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ پنجابی رسم الخط کو بھی رواج دیا جائے؟ اسے تحریری صورت میں لکھا جائے تاکہ اس میں معیاری ادب تخلیق پائے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جس زبان میں تواتر سے اچھا ادب تخلیق نہ پا رہا ہو تو اس کے زوال کے دن کبھی ختم نہیں ہوتے۔ بہرحال، یہ تو میری رائے ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔
 

سروش

محفلین
جشن ریختہ 2016 میں مجھے یاد ہے کہ جاوید اختر صاحب نے اہل پنجاب کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ اردو کی آبیاری کریں ، یہ آپکی زبان ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جتنی خدمت اہل پنجاب نے اردو کی ہے ، اتنی شاید خود اہل زبان نہیں کرسکے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اردو اور پنجابی کوئی الگ زبانیں نہیں ہیں جیسا کہ راحیل صاحب نے فرمایا کہ اردو نے پنجابی کی گود میں پرورش پائی ، تو کہہ سکتے ہیں کہ اردو پنجابی کی درست شدہ شکل ہے ۔ بہرحال پنجابی کی اپنی بات ہے ، بہت سی چیزیں خالص پنجابی ہی میں اچھی لگتی ہیں ۔
اب لہجے کا فرق دیکھ لیں ، بہار اور جھاڑکھنڈ کی اردو ، ہریانہ کی اردو اور راجھستان کی اردو ۔۔پھر یوپی کی اور حیدرآباد کی اردو ۔۔ یہ سب لہجے اردو کے کتنے زبردست ہیں ۔
مجھے کئ مرتبہ اتفاق ہوا اہل پنجاب (ہندوستان) کی اردو میں گفتگو کرنے کا یقین کریں کئی ایسے لوگ ملے جن کے لہجے سے لگتا ہیں نہیں کہ وہ اہل زبان نہیں ہیں ۔
پنجاب میں کافی عرصہ گزارا ہے اور راحیل بھائی کی بات سے اتفاق ہے کہ شہروں میں عموماً یہ مشاہدہ رہا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اور اردو ماحول میں رکھتے ہیں ۔
آخر میں راحیل بھائی کا بہت شکریہ ایک بار پھر انکی بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملی ۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا۔
والسلام
 

سروش

محفلین
قبولیتِ عامہ کے اس درجے پر ہمارے ہاں اگر کوئی زبان فائز ہے تو وہ محض اردو ہے جس کا ایک اور نام ہندی بھی ہے۔ یہی زبان اس لائق ہے کہ جہاں مختلف اللسان لوگ مل بیٹھیں وہاں گفتگو اور اظہارِ خیال کے لیے استعمال کی جائے۔
کلی اتفاق ہے ۔
 

squarened

معطل
اچھا ادب تخلیق نہ ہونے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ پنجابی زبان تحریری شکل میں گویا کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ اکا دکا رسالے، ایک آدھ گم نام سا اخبار اور بس!

اُس میں بھی اخبار والا معیار کم ہی نظر آتا ہے ، ملاحظہ کیجیے ٢ حال کی خبریں
دُدھ نہیں چٹا کمیکل: گیارہ کمپنیاں نوں ڈبے تے’’ایہہ ددھ نہیں‘‘ لکھن دا حکم۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی
پنجاب فوڈ اتھارٹی والیاں مارچ وچ دُدھ نما کیمکل ویچن والی کمپنیاں نوں دس دتا سی کہ تسی چاہ دا رنگ چٹا کرن ولا پوڈر Tea Whitener ویچدے ہو اتے ایس نوں دُدھ آکھدے ہو ۔

یہ پڑھ کر آپ مسکرائیں گے نہیں؟

خیبر پی کے حکومت کھوتے باہر گھلن لئی تیار:پائیدارکھوتا ڈویلپمنٹ پراجیکٹ
یہ تو ویسے پوری ہی کمال کی ہے
کیونجے کھوتیاں دی تے کوئی قومیت نہیں ہوندی تاں مارے دوجی قومیتاں تے صوبیاں توں وی کھوتے خیبر پی کے لیجائے جاسکدے نیں۔

اس پر کیا تبصرہ کیا جائے؟؟ :سوچ
 

فرقان احمد

محفلین
اُس میں بھی اخبار والا معیار کم ہی نظر آتا ہے ، ملاحظہ کیجیے ٢ حال کی خبریں
دُدھ نہیں چٹا کمیکل: گیارہ کمپنیاں نوں ڈبے تے’’ایہہ ددھ نہیں‘‘ لکھن دا حکم۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی
پنجاب فوڈ اتھارٹی والیاں مارچ وچ دُدھ نما کیمکل ویچن والی کمپنیاں نوں دس دتا سی کہ تسی چاہ دا رنگ چٹا کرن ولا پوڈر Tea Whitener ویچدے ہو اتے ایس نوں دُدھ آکھدے ہو ۔

یہ پڑھ کر آپ مسکرائیں گے نہیں؟

خیبر پی کے حکومت کھوتے باہر گھلن لئی تیار:پائیدارکھوتا ڈویلپمنٹ پراجیکٹ
یہ تو ویسے پوری ہی کمال کی ہے
کیونجے کھوتیاں دی تے کوئی قومیت نہیں ہوندی تاں مارے دوجی قومیتاں تے صوبیاں توں وی کھوتے خیبر پی کے لیجائے جاسکدے نیں۔

اس پر کیا تبصرہ کیا جائے؟؟ :سوچ
صاحب! پنجابی زبان کا جو حال ہو چکا ہے، فی زمانہ ہماری نظر میں تو یہ بھی ادبِ عالیہ ہے :)
 

squarened

معطل
پنجابی زبان کا جو حال ہو چکا ہے، فی زمانہ ہماری نظر میں تو یہ بھی ادبِ عالیہ ہے

ہمیں تو پنجابی فورمز کے توسط سے ہی پڑھنے کو ملی ہے اور سچی بات ہے جیسا راحیل بھائی کا کہنا ہے جگت بازی میں ہی زیادہ استعمال ہوتے دیکھی ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ میٹھی زبان لگتی ہے اس لیے اس میں دلچسپی ہے تو کبھی یہ اخبار بھی کھول لیتی ہوں۔ یہ خبر کل ہی پڑھ کر تھوڑی ہنسی آئی اور آج یہ تھریڈ یہاں دیکھا

ویسے کچھ دن قبل اردو کا یہ نوحہ بھی کالم میں پڑھا تھا جس میں آدھا ذکر پنجابی کو ترویج نہ دینے کے بارے میں ہی تھا مگر یہاں قصور حکمرانوں کا ٹہرایا گیا ہے
یہ بابو اُردو کی دال نہیں گلنے دیں گے!
 

عاطف ملک

محفلین
عبرت کا مقام یہ ہے کہ اب غیراہلِ زبان بھی ایسے موقعوں پر بعض اوقات مزاحاً اور استہزاً پنجابی ہی کا سہارا لینے لگے ہیں۔
تھوڑی سی شرمندگی ہوئی پڑھ کر :)
قہر تو یہ ہے کہ خود اہلِ پنجاب کی بڑی تعداد بھی اپنے بچوں سے سے پنجابی میں گفتگو تب تک نہیں کرتی جب تک مضحکہ اڑانے یا دشنام طرازی کا قصد نہ ہو۔ معصوموں کو پڑھاتے انگریزی ہیں، بولتے اردو ہیں اور نامناسب باتوں کے لیے پنجابی پر اتر آتے ہیں۔
بالکل درست بات!
نسبتاً جارح مزاج ہونے کے باعث اہلِ پنجاب ان جگہوں پر بھی پنجابی بولنے سے باز نہیں آتے جہاں آداب اس کی اجازت نہیں دیتے۔
یہ بھی تجربہ بارہا ہو چکا
مجھے اکثر تجربہ ہوا ہے کہ میرے ساتھیوں نے اچانک کسی غیر زبان میں گفتگو شروع کر دی اور میں نے خود کو انتہائی اجنبی محسوس کیا۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ایسے موقعوں پر ہر قہقہہ اپنی ذات پر لگایا گیا معلوم ہوتا ہے اور ہر سرگوشی میں اپنی غیبت نظر آتی ہے
متفق
راحیل بھیا، ماشاءاللہ، کیسا رواں قلم پایا ہے آپ نے ۔۔۔ !!!

ایک اور خوب صورت تحریر!

حضورِوالا! عرض یہ ہے کہ کیا پنجابی میں تواتر سے اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے؟ اور اچھا ادب تخلیق نہ ہونے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ پنجابی زبان تحریری شکل میں گویا کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ اکا دکا رسالے، ایک آدھ گم نام سا اخبار اور بس! سکولوں وغیرہ میں پنجابی زبان پڑھانے کا رواج ہے ہی نہیں تو پھر؟

سوال یہ بنتا ہے ۔۔۔ اگر کسی زبان میں معیاری ادب ہی تخلیق نہ پا رہا ہو، سکولوں کالجوں میں کوئی زبان پڑھائی ہی نہ جا رہی ہو تو پھر ایسی زبان میں بہتر انداز میں مکالمے کا سلیقہ کیسے آئے گا؟

پنجابی زبان میں جو ڈرامے بنتے ہیں، وہ زیادہ تر سٹیج ڈرامے ہیں اور ان کا معیار آپ کے سامنے ہے، یہی جگت بازیاں اب پنجابی زبان کی پہچان اور بنیادی حوالہ بنتی جا رہی ہیں تو پھر؟

کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ پنجابی رسم الخط کو بھی رواج دیا جائے؟ اسے تحریری صورت میں لکھا جائے تاکہ اس میں معیاری ادب تخلیق پائے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جس زبان میں تواتر سے اچھا ادب تخلیق نہ پا رہا ہو تو اس کے زوال کے دن کبھی ختم نہیں ہوتے۔ بہرحال، یہ تو میری رائے ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔
میں جناب فرقان احمد کی باتوں سے کافی حد تک متفق ہوں کہ اچھے اور معیاری ادب کی کمی کی وجہ سے ہی پنجابی کی یہ حیثیت بن گئی ہے۔
اور یہ ہم اہلِ زبان کی ذمہ داری ہے کہ اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس مسئلے کا حل فردِ واحد کے پاس نہیں۔ یہ ایک پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے آگاہی اور شعور کی تقسیم ضروری ہے۔ میں اور آپ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو محض یہ کہ اپنے حصے کے دیے جلائیں اور پنجابی کو اس کے جائز مقام سے محبت یا نفرت میں سرِ مو ادھر ادھر نہ ہونے دیں
آپ کی تجویز بھی بہت عمدہ ہے۔
ہمیشہ کی طرح ایک عمدہ تحریر جس نے سوچ کے نئے دریچے وا کیے۔
شکریہ راحیل فاروق :)
 
Top