زبردست نور سعدیہ بہنا!
بہت ہی اچھا سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے اور اوپر سے آپ کا اندازِ تحریر۔ اللہ آپ کے قلم میں مزید روانی عطافرمائے اور اس سلسلہ کو جاری و ساری رکھنے میں آپ کی مدد فرمائے ۔
آمین۔
کوشش انسان کا فرض ہے اور انسان اپنی کوشش سے ناممکن سمجھے جانے والے بہت سے کام ممکن بنا لیتا ہے لیکن بہرحال ایک متحرک انسان کے آگے کبھی نہ کبھی کوئی ایسا مقام ضرور آتا ہے جب وہ " وقت سے پہلے نہیں اور مقدرسے زیادہ نہیں " کے فلسفے پر غور کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اِس طرح کی بند گلی میں بھی اُمید بہرحال اپنا راستہ رکھتی ہے اور ہم معجزے یا معجزہ نُما کا راستا دیکھتے ہیں یا اُس کی تلاش میں چل نکلتے ہیں۔ یہ راستے ہر شخص کو مُختلف طرح کے تجربات سے دوچار کرتے ہیں۔ آپ کی دی گئی معلومات نصابی کُتب میں نظروں سے گُذری ہوئی ہیں۔
آپ اپنے داخلی تجربات کو قابلِ استفادہ سمجھیں تو شئیر کریں۔ ڈیٹا شئیرنگ ، انفارمیشن شیئرنگ اور نالج شئیرنگ میں سے ابتدائی دو کو کھانے میں نمک کی طرح رکھیں اور آخری پر توجہ دیں۔ یہ ہر شخص کی ضرورت ہے آپ سمیت ہر شخص طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ محض علم سے یا پھر علم پر عمل سے۔
جزاک اللہ۔۔۔۔۔
قیمتی تحریر کا شکریہ۔
آپ کے بلاگ کو دیکھا، میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آن لائن مجلہ میں آپ کی تحریر آپ کے نام کے ساتھ(یا بلاگ ایڈریس) کے ساتھ شائع کرنے کی اجازت ہے؟
مکالمہ کا آپشن نظر نہیں آیا، چنانچہ پبلیکلی ہی مجبورا یہ بات پوچھ رہا ہوں۔
رہی بات سورۃ العلق کی، تو علم الانسان مالم یعلم کی آیت ہماری 'فقیری' کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔اللہ پیارے نے کتنے شاہانہ انداز میں کہا ہے، کہ تم کہیں تک بھی پہنچو، اور کتنی ہی کامیابی حاصل کرلو۔۔۔تمہیں اس چیز کا علم دینے والا میں ہی ہوں جو تم نہیں جانتے تھے۔۔۔میں آقا ہون، تم بندے! بندہ، آقا کے تابع ہی ہوتا ہے۔۔۔اور تمہاری بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم آقا کے احکام پر جان دیں۔
بندہ وہ ہے جس میں بندگی ہو۔۔۔ورنہ وہ سراسر گندہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔
جھوٹ اور فریب کا پلندہ ہوتا ہے۔
لا ریب فیہ: قرانِ پاک کلامِ الہی ہے ۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے ۔
بے شک ۔۔۔لا ریب فیہ
بہت بہت شکریہ
اس کو فائل کے طور پر محفوظ کر رہی ہو نا؟؟ بطور ای بک تو شائع کر ہی سکتا ہوں جب مکمل ہو جائے، یا جتنا مکمل ہو سکے، یا جب سو ڈیڑھ سو صفحے کا مواد جمع ہو جائے۔ نظر ثانی کے بعد مجھے ای میل کر دینا۔
جو آپ کا حکم! ایسا ہی کروں گی.اس میں اپنی شاعری شامل نہ کرو تو بہتر ہو۔ نثری ترجمہ ہی رہنے دو، ورنہ پھر اس کی اصلاح کی بھی ضرورت ہو گی!!!
یہ علمی اور عقل پسندانہ سوچ ہے جسے دوسرے نقطہء نظر کے لوگ اپنی حقیقی یا نام نہاد عشق پسندی سے رَدّ کرتے نظر آتے ہیں چنانچہ یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ ذاتی نقطہء نظر کے مطابق میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسانی زندگی کو اتنا ازراں نہیں سمجھناچاہیے کہ کسی کو کسی بھی معاملےمیں کوئی جواز بنا کر انسانی زندگی سے کھیلنے کی اخلاقی آزادی بھی دِی جائے عمل تو بہت دور کی بات ہے۔ ہاں قومیں اپنے تہذیبی اور مذہبی مزاج کے موافق قانون سازی کرنے میں آزاد ہیں دُنیا خواہ اِن قوانین کو کُچھ بھی کہے، یہ اُن کا حق اور اختیار ہےاور ہر خِطے کے باسیوں کو اپنے لاگو قوانین کا احترام لازم ہےاور خلاف ورزی کی صورت میں مقررہ تادیب عین عدل ہے۔آپ ﷺ ان تمام میں سے بڑھ کے تھے ۔جب آپﷺ نے اپنی توہین کے خلاف کچھ بھی نہ بولا اور نہ اصحاب کو اجازت دی جو سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار رہتے تھے تو ہم کون ہوتےہیں کہ جس بات کی اجازت اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دی ، جس بات کی اجازت اور حکم ہمیں حدیث سے نہیں ملتا کہ آپﷺ نے بدلہ اللہ کی راہ میں ، اللہ کے لیے ، اللہ کی رضا میں ، اللہ کے دین کو پھیلانے کی خاطر لیا ، آپ ﷺ کی ذات تو کہیں بھی نہیں تھی اپنے لیے کھڑی ہونے والی ، تو کیا حدیث و قراں سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ آپس میں فتنہ و فساد ڈالیں ، لڑائی کریں یا صلح صفائی سے کام لیتے ہوئے اسلام کے حامی ناصر رہیں ۔
واہ!کرو کام دن میں ، ہے کیا دن کا مقصد ؟
سجا لو الہی کی باتوں سے راتیں!
بے شک کتنے ہی بچے دیکھے جو حوادثِ زمانہ سے بچپن میں بوڑھے ہو گئے ، قیامت تو پھر قیامت ہے۔اُس دن(قیامت) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا
ایک بات بچپن کی جب میں نے غازی علم دین کی بات سُنی تھی دل پر بڑا اثر ہوا. اب میں نے ہندوؤں کے بجائے مسلمان کو مسلمان کے لیے قتل کرکے دیکھا اور اس نے دنیا کی نظر میں شہادت کا رتبہ پالیا گوکہ وہ شہید نہ ہوا تھا. اس طرح جو مارا گیا وہ گنہ گار کافر...میں نے تب سے خود کو کٹہرے میں کھڑے پایا کہ اسلام تو مذہب ہی امن کا ہے یہ تو غیر مذہب انسان کے لیے امن کا گہوارہ رہا ہے (عہدِ خلافت میں) میں رائے قائم نہ کرسکی کہ علم مجھے جہاں سے لینا تھا وہاں سے محروم رہی . اب جب اس کو کھولا تو جگہ جگہ صبر اور نفس کی تسخیر کی بات کی گئی ہے . برداشت کی بات کی گئی ہے . سوچوں تو آپ ﷺ (مظلوم) نے دشمن کے لیے ہاتھ دُعا کے اُٹھائے. اس نے شرم سے پانی پانی کر دیا کہ وہ عالی مرتبت ﷺاپنی تکلیف اور پریشانی بُھلا کر لوگوں کی جو نافرمان تھے ، دُعا میں مصروف رہے تھے . اور یہ امید کہ ہوسکتا ہے کہ ان کی اگلی نسلیں اچھی ہوں اگر یہ نہیں اس لیے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا سوائے میدانِ جنگ کے ... میں نے سارا قرانِ پاک سے جواب لیا ہے . میری رائے تو اس معاملے میں قائم قرانِ پاک کی روشنی میں ہوئی ہے یہ ایسا چراغ ہے جس نے میری ساری زندگی میں رہنمائی کرنی ہے مگر اس سے کا سارا خزانہ ِ علم حاصل کرنے میں خود کو پیچھے محسوس کرتی ہوں . بے شک اس کا مکمل علم اللہ اور اس کے حضور پاکﷺ کو ہے . اللہ تعالیٰ مجھے سیدھے راستے پر چلائے کہ اس سے پہلے یہ خواہش کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی . آمینیہ علمی اور عقل پسندانہ سوچ ہے جسے دوسرے نقطہء نظر کے لوگ اپنی حقیقی یا نام نہاد عشق پسندی سے رَدّ کرتے نظر آتے ہیں چنانچہ یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ ذاتی نقطہء نظر کے مطابق میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسانی زندگی کو اتنا ازراں نہیں سمجھناچاہیے کہ کسی کو کسی بھی معاملےمیں کوئی جواز بنا کر انسانی زندگی سے کھیلنے کی اخلاقی آزادی بھی دِی جائے عمل تو بہت دور کی بات ہے۔ ہاں قومیں اپنے تہذیبی اور مذہبی مزاج کے موافق قانون سازی کرنے میں آزاد ہیں دُنیا خواہ اِن قوانین کو کُچھ بھی کہے، یہ اُن کا حق اور اختیار ہےاور ہر خِطے کے باسیوں کو اپنے لاگو قوانین کا احترام لازم ہےاور خلاف ورزی کی صورت میں مقررہ تادیب عین عدل ہے۔