ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
حسرتیں چھوڑ گئیں کوچہء و بازار کے بیچ
لوگ ٹوٹے ہوئے ، سالم درودیوار کے بیچ
زینتِ صفحہء اول ہے تماشائے حیات
آدمی چھوٹی خبر ہے کہیں اخبار کے بیچ
بیش و کم کیا کریں اب ، دام جو لگتے ہیں لگیں
نقدِ جاں رکھ چکے جب درہم و دینار کے بیچ
نخلِ اندیشہء صد شاخِ زیاں اگتا ہے
ہر گلستانِ شجر دار و ثمربار کے بیچ
موجہء بادِ صبا زلف سے اُن کی نہ الجھ
گُل نہیں دل ہے مرا گیسوئے خمدار کے بیچ
مل گیا مجھ کو مرے سارے سوالوں کا جواب
اک توقف تھا ترے کلمہء ا نکار کے بیچ
تمہیں مل جائے گی پہچان مرے لفظوں سے
کبھی پڑھ کر مجھے دیکھو مرے اشعار کے بیچ
میں سمجھتا نہیں دریا کو کنارے سے الگ
وہ شناور ہوں کہ رہتا ہے جو منجدھار کے بیچ
جو ملا شاخِ محبت سے اُسے چوم لیا
فرق رکھا ہی نہیں ہم نے گل و خار کے بیچ
یادِ یارانِ وطن ا ور کبھی ذکرِ وطن !
یہ دوائیں ہیں مری مجمعِ آزار کے بیچ
ہمیں مرنا بھی ہے اپنی ہی روایات پر آج
اور جینا بھی ہے مرتی ہوئی اقدار کے بیچ
اک تنازع ہے ہنر عہدِ ضرورت میں ظہیر
کاسہء دادِ فن و کیسہء فنکار کے بیچ
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۴