عبداللہ امانت محمدی
محفلین
روزہ اسلام کا بنیادی رکن ہے ، جو ہر عاقل بالغ مسلمان (مرد و زن ) پر فرض ہے ۔ جس کی برکات سے بے شمار لوگ فائدہ اٹھاتے اور اپنی طاقت کے مطابق بخشش کے لیے نیکیاں جمع کرتے ہیں ۔ جس کی اہمیت اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کے فرامین سے بالکل واضح ہے ۔جس میں مسلمانوں کو لیلۃ القدر جیسی عظیم رات اور اعتکاف جیسی عظیم سنت نصیب ہوتی ہے ۔ روزہ رکھنے والا بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ رمضان کے احکام و مسائل سیکھ کر نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق برکتوں والا مہینہ گزاریں ۔
قرآن و حدیث نے روزہ کی بہت زیادہ فضیلت و فرضیت بیان کی ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۳ ) ۔ سید المرسلین ﷺ فرماتے ہیں کہ : ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے ۔ اول گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اﷲ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکٰوۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ‘‘ ، (بخاری : ۸ ) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دےئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دےئے جاتے ہیں ، اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ‘‘ ، (نسائی : ۲۱۰۶) ۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ پاک فرماتے ہیں، روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے ، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے ، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ )کی جان ہے !، روزہ دار کے منہ کی بو ، اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے ، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب ) وہ(روزہ ) افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرا ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوس ہوگا ‘‘ ، (بخاری : ۱۹۰۴ ) ۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ۔ ان میں ایک دروازے کا نام ’’ الر یان ‘‘ ہے ۔ جس سے داخل ہونے والے صرف روزے دار ہوں گے ‘‘ ، (بخاری : ۳۲۵۷ ) ۔ ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے رمضان کے (فرضی )روزے رکھے اور اس کے بعد شوال میں چھ (نفلی ) روزے رکھے ، وہ شخص ایسے ہے جیسے وہ ہمیشہ روزے رکھنے والا ہے ‘‘ ، (مسلم : ۲۷۵۸ ) ۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزہ دار کو ۔ اور یہ روزہ دار کے ثواب میں کمی کے بغیر ہو گا ‘‘ ، (ترمذی : ۷۰۵ ) ۔ عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا : ’’ جب ماہ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کر لینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابر ہوتا ہے ‘‘ ، (بخاری : ۱۷۸۲ ) ۔ روزہ فرض ہے ، جسے جان بوجھ کر ترک جائز نہیں ۔
کتاب اﷲ اور ’’ماہ رمضان ‘‘کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں :’’ رمضان المبارک وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۵ ) ۔ اور فرمایا :’’ یقیناًہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا ۔ آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے ؟ ، شب قدر ہزار مہینوں (کی عبادت ) سے بہتر ہے ۔ اس میں ہر کام کو سر انجام دینے کو اﷲ کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں ۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے ‘‘ ، (القدر : ۱ تا ۵ ) ۔ ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ یقیناًہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا ‘‘ ، (الدخان : ۳ ) ۔ لیلۃ القدر کا معنی ’’ عزت و شرف والی رات ‘‘ ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے شب قدر کا قیام ایمان و ثواب سمجھ کر کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے گئے ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۱۴ ) ۔ اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۱۷ ) ۔ حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں : ’’ شب قدر کی نشانی یہ ہے کہ اس کی صبح کو سورج کے بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی ‘‘ ، (مسلم : ۱۷۸۵) ۔ امّ المؤمنین سیّدہ عائشہؓ نے عرض کیا : ’’ اے اﷲ کے رسول ﷺ فرمائیے اگر مجھے شب قدر نصیب ہو جائے تو کیا دعا کروں ؟ ‘‘ ، آپ ﷺ نے فرمایا کہنا : ’’ اللّھم انّک عفوّ تحبّ العفو فاعف عنّی : اے میرے اﷲ ! یقیناًتو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف کردے ! ‘‘ ، (ابن ماجہ : ۳۸۵۰ ) ۔ سید المرسلین ﷺ بھی شب قدر کے لیے بہت زیادہ محنت و کوشش کرتے ، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں : ’’ جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اﷲ ﷺکمر بستہ ہو جاتے اور اپنی رات کو زندہ رکھتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۲۴) ۔ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی سمجھ کر تلاوت کرنی چاہیے اور شب قدر کی تلا ش میں آخری عشرے میں خوب محنت کرنی چاہیے ۔
رمضان المبارک میں اعتکاف کرنا اہم ترین عبادات میں شامل ہے ۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں :’’ نبی کریم ﷺ اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ ﷺ کے بعد ، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۲۶ ) ۔ اعتکاف کرنے والا ۲۰ رمضان کو ، مغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر’’ جائے اعتکاف ‘‘ میں داخل ہو ۔عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :’’ نبی پاک ﷺ اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں جاتے ‘‘ ، (ابن ماجہ : ۱۷۷۱ ) ۔اعتکاف جامع مسجد میں کیا جائے۔خواتین بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں ، لیکن مسجد میں ، ان کے لیے گھر میں اعتکاف بیٹھنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور تم ان عورتوں سے اس وقت جماع نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۷ ) ۔نبی ﷺ کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبوی میں ہی لگتے تھے ، ( رمضان المبارک ، ص :۷۷)۔ نہانا ، سر میں کنگھی کرنا ، تیل لگانا اور فرض غسل کرنا ، اعتکاف کی حالت میں درست ہے ۔ بیمار پرسی کے لیے جانا ، کسی کے جنازے میں شریک ہونا اور جماع و ہم بستری کرنا ، دوران اعتکاف ممنوع ہے ۔معتکف آخری عشرہ پورا ہوتے ہی اعتکاف ختم کر دے ۔ ہمارے ہاں جو معاشرے میں یہ بات رائج ہے کہ اعتکاف سے اٹھنے والے کے گلے میں ہار ڈالے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر اٹھانے کے لیے خاندان و برادری کے بڑے لوگ آکر ملاقات کرتے ہیں ، یہ تمام باتیں اور رسومات ، بے دلیل ہیں ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۷۰) ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اِس دفعہ اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ) ۔
مردوں اور خواتین کو چاہیے کہ ’’ ماہ رمضان ‘‘میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی کوشش کی جائے ۔ نہایت جوش و مسرت ، دعاؤں ، رمضان کے مسائل سیکھ اور تقوی اختیار کر کے رمضان المبارک کا استقبال کیا جائے ۔ سچی توبہ کیلئے عزم صادق ، سابقہ گناہوں پر احساس ندامت ،روزے کی حفاظت ، بکثرت تلاوت قرآن مجید ، کم سونا اور(سڑکوں اوردوکانوں کی بجائے ) عبادت میں وقت لگا کر فائدہ حاصل کیا جائے ۔ مسجدوں میں گالی گلوچ اور گندی باتوں کی بجائے ذکرو اذکار کیاجائے ۔نمازیں اول وقت میں ادا کی جائیں اور نماز تراویح میں ذوق و شوق سے شامل ہوا جائے ۔ رمضان المبارک کی قدرو قیمت کی طرف بچوں کی رہنمائی، انہیں آہستہ آہستہ روزے کا عادی بنانا اور انہیں رمضان کے احکام کے متعلق بھی بتایا جائے ۔ عورتوں کو چاہیے کہ شوہر کی خوشنودی ، اپنے واجبات کا پورا کرنا اور بچوں پر رحم و شفقت اور ان کی اچھی تربیت کا خیال رکھیں ، بے پردگی ، مردوں سے باہمی لین دین اور دوکانوں پر گومنے کی بجائے عبادت میں اپنا وقت استعمال کریں، اورغیر محرم سے پردہ کیا جائے ۔ ٹی وی ، ریڈیو ، فلموں ، گانوں ، قوالیوں اور فحش قسم کے ڈراموں سے بچاجائے ۔زکوۃ عید الفطر کی ادائیگی ، تکبیرات کہنا ، عید کی نماز کے لئے (مردوں و زن ) کا نکلنا اور نماز سے پہلے کچھ کھا لینا بھی سنت سے ثابت ہے ، اور ان پر عمل کیا جائے ، (ابوانس حسین بن علی العلی ، خواتین اور رمضان المبارک ) ۔ ماہ رمضان کے قیمتی لمحات کو عبادات میں گزار کر بھر پور استعفادہ حاصل کیا جائے ۔
روزے کی حالت میں جائز اور ممنوعات چیزوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔’’ مسواک اور غسل کرنا ، بطور علاج جسم سے خون نکلوانا ،کلی کرنا، قے آجانا ، کنگی کرنا ، تیل لگانا ، بھیگاہوا کپڑا سر پر ڈالنا ، ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرنا ،بالوں کو مہندی لگانا ،تھوک اور بغلم نگل لینا، آنکھ اور کان میں دوا کے قطرے ڈالنا ،رمضان المبارک کی راتوں میں بیوی سے تعلق قائم کرنا، ہنڈیا سے نمک وغیرہ چکھنا اور حلق میں مکھی وغیرہ داخل ہونا ، یہ امور روزے کی حالت میں سر انجام دینے جائز ہیں ‘‘ ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۴۰ تا ۴۳ ) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ پورا کرے ۔ کیونکہ اس کو اﷲ پاک نے کھلایا اور پلایا ‘‘ ، (بخاری : ۱۹۳۳ ) ۔ ممنوعات روزہ میں : ’’ جھوٹ بولنا ، شہوت انگیز گفتگو کرنا ، شور مچانا ،فحش گوئی ،غیبت ،تہمت طرازی،عیب جوئی، جان بوجھ کر کھانا پینا اور جماع کرنا وغیرہ ہیں ‘‘ ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۴۴ تا ۴۶ ) ۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزہ رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اﷲتعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ‘‘ ، (بخاری : ۱۹۰۳) ۔ حمل و رضاعت ، بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ ترک کر سکتے ہیں لیکن بعد میں گنتی کو پورا کرنا ہوگا ، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’ ’ پس تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرلے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۴)َ ۔ حیض و نفاس کے وقت، عورتوں کا روزے رکھنا اور نماز پڑھنا جائز نہیں ، انہیں بعد میں صرف روزوں کی قضا کرنی ہوگی ، نماز کی نہیں ۔ سیدہ عائشہؓ کی حدیث ہے ، ان سے سوال کیا گیا کہ، کیا حائضہ عورت نماز اور روزے کی قضا کرے ؟ تو انہوں نے فرمایا : ’’ ہمیں رسول اﷲ ﷺ کے پاس حیض آتا اور ہم نماز کی قضا نہ پڑھتے اور نہ ہمیں نماز کی قضا پڑھنے کا حکم فرمایا گیا ‘‘ ، (ابوداؤد : ۲۶۲ ) ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۵۸ ) ۔ رمضان کے مبارک مہینے میں اکثر لوگ بعض غلطیاں کرتے ہیں ۔جیسا کہ : ’’ سحری جلدی کھانا سنت کے خلاف ہے ، جان بوجھ کر سحری لیٹ کرنا ، فجر کی اذان وقت سے پہلے کہنا ، بھول کر کھانے پینے والے پر سختی کرنا یا نہ بتلانا ، مغرب کی اذان میں تاخیر کرنا ، مسواک نہ کرنا ، عورتوں کا خوشبو لگا کر نماز تراویح میں شریک ہونا اور نماز تراویح کو جلدی جلدی ادا کرناوغیرہ ۔ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کی غلطیوں اور ممنوعات چیزوں سے بچا جائے ۔
سیائنسدانوں نے بھی اعتراف کیا ہے ، روزہ صحت کے لئے بہترین ہے ۔ امریکہ کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق سال میں کچھ روز کا فاقہ صحت کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس سے جسمانی دفاعی نظام میں آنے والی خرابیاں دور ہو جاتی ہیں ۔ تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے سے آنے والی تبدیلیاں اور کینسر کے علاج کے دوران جسمانی دفاعی نظام میں آنے والی خرابیاں اس طریقے سے دور کی جاسکتی ہیں ، کیونکہ اس سے پرانے اور خراب خلیات تبدیل ہو جاتے ہیں اور اس کے دوران خراب یا بیکار خلیات کی صفائی ہو جاتی ہے ۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہر چھ ماہ میں دو یا چار روزے رکھنے سے جسم اپنی بقا کیلئے چربی اور چینی کے ذخیرے کو خرچ کرتا ہے اور پرانے خلیات کو ختم کر دیتا ہے ۔
’’ ماہ رمضان‘‘ کا نصیب ہونا بہت قسمت کی بات ہے، ان کے لیے جو اس کے تقاضے پورے کرتے ، سارے روزے رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں ۔ متقی ، لیلۃ القدر کو رکوع و سجود کرتے ، اﷲ سے ڈر تے اور توبہ کرتے ہوئے گزارتے ہیں ۔ بہت لوگ اعتکاف بھی کرتے ہیں ، جس میں وہ نوافل میں راتیں گزار کے ، کتاب و سنت کو سمجھ کر پڑھ کے اور ذکرو اذکار کرکے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں ۔کچھ لوگ رمضان المبارک میں روزے افطار کرواتے ، مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور دین کی نشرواشاعت کے ذریعے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں ۔روزہ روحانی اور جسمانی صحت کے لئے بہت ہی فائدہ بخش ہے ۔ روزہ اور تمام عبادات کا اس وقت فائدہ ہوگا جب کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ کے مطابق ہونگیں ۔
قرآن و حدیث نے روزہ کی بہت زیادہ فضیلت و فرضیت بیان کی ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۳ ) ۔ سید المرسلین ﷺ فرماتے ہیں کہ : ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے ۔ اول گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اﷲ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکٰوۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ‘‘ ، (بخاری : ۸ ) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دےئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دےئے جاتے ہیں ، اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ‘‘ ، (نسائی : ۲۱۰۶) ۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ پاک فرماتے ہیں، روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے ، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے ، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ )کی جان ہے !، روزہ دار کے منہ کی بو ، اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے ، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب ) وہ(روزہ ) افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرا ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوس ہوگا ‘‘ ، (بخاری : ۱۹۰۴ ) ۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ۔ ان میں ایک دروازے کا نام ’’ الر یان ‘‘ ہے ۔ جس سے داخل ہونے والے صرف روزے دار ہوں گے ‘‘ ، (بخاری : ۳۲۵۷ ) ۔ ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے رمضان کے (فرضی )روزے رکھے اور اس کے بعد شوال میں چھ (نفلی ) روزے رکھے ، وہ شخص ایسے ہے جیسے وہ ہمیشہ روزے رکھنے والا ہے ‘‘ ، (مسلم : ۲۷۵۸ ) ۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزہ دار کو ۔ اور یہ روزہ دار کے ثواب میں کمی کے بغیر ہو گا ‘‘ ، (ترمذی : ۷۰۵ ) ۔ عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا : ’’ جب ماہ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کر لینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابر ہوتا ہے ‘‘ ، (بخاری : ۱۷۸۲ ) ۔ روزہ فرض ہے ، جسے جان بوجھ کر ترک جائز نہیں ۔
کتاب اﷲ اور ’’ماہ رمضان ‘‘کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں :’’ رمضان المبارک وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۵ ) ۔ اور فرمایا :’’ یقیناًہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا ۔ آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے ؟ ، شب قدر ہزار مہینوں (کی عبادت ) سے بہتر ہے ۔ اس میں ہر کام کو سر انجام دینے کو اﷲ کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں ۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے ‘‘ ، (القدر : ۱ تا ۵ ) ۔ ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ یقیناًہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا ‘‘ ، (الدخان : ۳ ) ۔ لیلۃ القدر کا معنی ’’ عزت و شرف والی رات ‘‘ ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے شب قدر کا قیام ایمان و ثواب سمجھ کر کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے گئے ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۱۴ ) ۔ اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۱۷ ) ۔ حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں : ’’ شب قدر کی نشانی یہ ہے کہ اس کی صبح کو سورج کے بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی ‘‘ ، (مسلم : ۱۷۸۵) ۔ امّ المؤمنین سیّدہ عائشہؓ نے عرض کیا : ’’ اے اﷲ کے رسول ﷺ فرمائیے اگر مجھے شب قدر نصیب ہو جائے تو کیا دعا کروں ؟ ‘‘ ، آپ ﷺ نے فرمایا کہنا : ’’ اللّھم انّک عفوّ تحبّ العفو فاعف عنّی : اے میرے اﷲ ! یقیناًتو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف کردے ! ‘‘ ، (ابن ماجہ : ۳۸۵۰ ) ۔ سید المرسلین ﷺ بھی شب قدر کے لیے بہت زیادہ محنت و کوشش کرتے ، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں : ’’ جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اﷲ ﷺکمر بستہ ہو جاتے اور اپنی رات کو زندہ رکھتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۲۴) ۔ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی سمجھ کر تلاوت کرنی چاہیے اور شب قدر کی تلا ش میں آخری عشرے میں خوب محنت کرنی چاہیے ۔
رمضان المبارک میں اعتکاف کرنا اہم ترین عبادات میں شامل ہے ۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں :’’ نبی کریم ﷺ اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ ﷺ کے بعد ، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں ‘‘ ، (بخاری : ۲۰۲۶ ) ۔ اعتکاف کرنے والا ۲۰ رمضان کو ، مغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر’’ جائے اعتکاف ‘‘ میں داخل ہو ۔عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :’’ نبی پاک ﷺ اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں جاتے ‘‘ ، (ابن ماجہ : ۱۷۷۱ ) ۔اعتکاف جامع مسجد میں کیا جائے۔خواتین بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں ، لیکن مسجد میں ، ان کے لیے گھر میں اعتکاف بیٹھنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور تم ان عورتوں سے اس وقت جماع نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۷ ) ۔نبی ﷺ کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبوی میں ہی لگتے تھے ، ( رمضان المبارک ، ص :۷۷)۔ نہانا ، سر میں کنگھی کرنا ، تیل لگانا اور فرض غسل کرنا ، اعتکاف کی حالت میں درست ہے ۔ بیمار پرسی کے لیے جانا ، کسی کے جنازے میں شریک ہونا اور جماع و ہم بستری کرنا ، دوران اعتکاف ممنوع ہے ۔معتکف آخری عشرہ پورا ہوتے ہی اعتکاف ختم کر دے ۔ ہمارے ہاں جو معاشرے میں یہ بات رائج ہے کہ اعتکاف سے اٹھنے والے کے گلے میں ہار ڈالے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر اٹھانے کے لیے خاندان و برادری کے بڑے لوگ آکر ملاقات کرتے ہیں ، یہ تمام باتیں اور رسومات ، بے دلیل ہیں ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۷۰) ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اِس دفعہ اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ) ۔
مردوں اور خواتین کو چاہیے کہ ’’ ماہ رمضان ‘‘میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی کوشش کی جائے ۔ نہایت جوش و مسرت ، دعاؤں ، رمضان کے مسائل سیکھ اور تقوی اختیار کر کے رمضان المبارک کا استقبال کیا جائے ۔ سچی توبہ کیلئے عزم صادق ، سابقہ گناہوں پر احساس ندامت ،روزے کی حفاظت ، بکثرت تلاوت قرآن مجید ، کم سونا اور(سڑکوں اوردوکانوں کی بجائے ) عبادت میں وقت لگا کر فائدہ حاصل کیا جائے ۔ مسجدوں میں گالی گلوچ اور گندی باتوں کی بجائے ذکرو اذکار کیاجائے ۔نمازیں اول وقت میں ادا کی جائیں اور نماز تراویح میں ذوق و شوق سے شامل ہوا جائے ۔ رمضان المبارک کی قدرو قیمت کی طرف بچوں کی رہنمائی، انہیں آہستہ آہستہ روزے کا عادی بنانا اور انہیں رمضان کے احکام کے متعلق بھی بتایا جائے ۔ عورتوں کو چاہیے کہ شوہر کی خوشنودی ، اپنے واجبات کا پورا کرنا اور بچوں پر رحم و شفقت اور ان کی اچھی تربیت کا خیال رکھیں ، بے پردگی ، مردوں سے باہمی لین دین اور دوکانوں پر گومنے کی بجائے عبادت میں اپنا وقت استعمال کریں، اورغیر محرم سے پردہ کیا جائے ۔ ٹی وی ، ریڈیو ، فلموں ، گانوں ، قوالیوں اور فحش قسم کے ڈراموں سے بچاجائے ۔زکوۃ عید الفطر کی ادائیگی ، تکبیرات کہنا ، عید کی نماز کے لئے (مردوں و زن ) کا نکلنا اور نماز سے پہلے کچھ کھا لینا بھی سنت سے ثابت ہے ، اور ان پر عمل کیا جائے ، (ابوانس حسین بن علی العلی ، خواتین اور رمضان المبارک ) ۔ ماہ رمضان کے قیمتی لمحات کو عبادات میں گزار کر بھر پور استعفادہ حاصل کیا جائے ۔
روزے کی حالت میں جائز اور ممنوعات چیزوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔’’ مسواک اور غسل کرنا ، بطور علاج جسم سے خون نکلوانا ،کلی کرنا، قے آجانا ، کنگی کرنا ، تیل لگانا ، بھیگاہوا کپڑا سر پر ڈالنا ، ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرنا ،بالوں کو مہندی لگانا ،تھوک اور بغلم نگل لینا، آنکھ اور کان میں دوا کے قطرے ڈالنا ،رمضان المبارک کی راتوں میں بیوی سے تعلق قائم کرنا، ہنڈیا سے نمک وغیرہ چکھنا اور حلق میں مکھی وغیرہ داخل ہونا ، یہ امور روزے کی حالت میں سر انجام دینے جائز ہیں ‘‘ ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۴۰ تا ۴۳ ) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ پورا کرے ۔ کیونکہ اس کو اﷲ پاک نے کھلایا اور پلایا ‘‘ ، (بخاری : ۱۹۳۳ ) ۔ ممنوعات روزہ میں : ’’ جھوٹ بولنا ، شہوت انگیز گفتگو کرنا ، شور مچانا ،فحش گوئی ،غیبت ،تہمت طرازی،عیب جوئی، جان بوجھ کر کھانا پینا اور جماع کرنا وغیرہ ہیں ‘‘ ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۴۴ تا ۴۶ ) ۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزہ رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اﷲتعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ‘‘ ، (بخاری : ۱۹۰۳) ۔ حمل و رضاعت ، بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ ترک کر سکتے ہیں لیکن بعد میں گنتی کو پورا کرنا ہوگا ، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’ ’ پس تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرلے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۴)َ ۔ حیض و نفاس کے وقت، عورتوں کا روزے رکھنا اور نماز پڑھنا جائز نہیں ، انہیں بعد میں صرف روزوں کی قضا کرنی ہوگی ، نماز کی نہیں ۔ سیدہ عائشہؓ کی حدیث ہے ، ان سے سوال کیا گیا کہ، کیا حائضہ عورت نماز اور روزے کی قضا کرے ؟ تو انہوں نے فرمایا : ’’ ہمیں رسول اﷲ ﷺ کے پاس حیض آتا اور ہم نماز کی قضا نہ پڑھتے اور نہ ہمیں نماز کی قضا پڑھنے کا حکم فرمایا گیا ‘‘ ، (ابوداؤد : ۲۶۲ ) ، (اَحکام و مَسائل رمضان ،۲۰۰۵ء، ص : ۵۸ ) ۔ رمضان کے مبارک مہینے میں اکثر لوگ بعض غلطیاں کرتے ہیں ۔جیسا کہ : ’’ سحری جلدی کھانا سنت کے خلاف ہے ، جان بوجھ کر سحری لیٹ کرنا ، فجر کی اذان وقت سے پہلے کہنا ، بھول کر کھانے پینے والے پر سختی کرنا یا نہ بتلانا ، مغرب کی اذان میں تاخیر کرنا ، مسواک نہ کرنا ، عورتوں کا خوشبو لگا کر نماز تراویح میں شریک ہونا اور نماز تراویح کو جلدی جلدی ادا کرناوغیرہ ۔ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کی غلطیوں اور ممنوعات چیزوں سے بچا جائے ۔
سیائنسدانوں نے بھی اعتراف کیا ہے ، روزہ صحت کے لئے بہترین ہے ۔ امریکہ کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق سال میں کچھ روز کا فاقہ صحت کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس سے جسمانی دفاعی نظام میں آنے والی خرابیاں دور ہو جاتی ہیں ۔ تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے سے آنے والی تبدیلیاں اور کینسر کے علاج کے دوران جسمانی دفاعی نظام میں آنے والی خرابیاں اس طریقے سے دور کی جاسکتی ہیں ، کیونکہ اس سے پرانے اور خراب خلیات تبدیل ہو جاتے ہیں اور اس کے دوران خراب یا بیکار خلیات کی صفائی ہو جاتی ہے ۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہر چھ ماہ میں دو یا چار روزے رکھنے سے جسم اپنی بقا کیلئے چربی اور چینی کے ذخیرے کو خرچ کرتا ہے اور پرانے خلیات کو ختم کر دیتا ہے ۔
’’ ماہ رمضان‘‘ کا نصیب ہونا بہت قسمت کی بات ہے، ان کے لیے جو اس کے تقاضے پورے کرتے ، سارے روزے رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں ۔ متقی ، لیلۃ القدر کو رکوع و سجود کرتے ، اﷲ سے ڈر تے اور توبہ کرتے ہوئے گزارتے ہیں ۔ بہت لوگ اعتکاف بھی کرتے ہیں ، جس میں وہ نوافل میں راتیں گزار کے ، کتاب و سنت کو سمجھ کر پڑھ کے اور ذکرو اذکار کرکے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں ۔کچھ لوگ رمضان المبارک میں روزے افطار کرواتے ، مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور دین کی نشرواشاعت کے ذریعے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں ۔روزہ روحانی اور جسمانی صحت کے لئے بہت ہی فائدہ بخش ہے ۔ روزہ اور تمام عبادات کا اس وقت فائدہ ہوگا جب کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ کے مطابق ہونگیں ۔