نور وجدان
لائبریرین
ایک مکالمہ میں نے پہلے لکھا تھا مجھے لگا یہ اس سے ملتا جلتا ہے سو اسکو یہاں لنک کر رہی ہوں جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ایک-مکالمہ.76432/
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
وہ کافی عرصے بعد پھر مجھ سے ملنے آیا ۔بالکل اسی طرح جیسے کبھی کبھی ہم مزاروں پہ چلے جاتے ہیں ۔اس کے برعکس وہ خانقاہ بن کر میرے سامنے کھڑا مجھے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے جاننا چاہتا ہو تمہارا حال کیا ہے ؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی ۔دل سے ایک صدا آئی
چہرے پہ سجائے رکھتے ہیں جو ہنسی کی کرن
نہ جانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں
مجھے پھر سے ساحل پہ گھروندے بناتے دیکھ کر بولا : '' ایک تو تم لڑکیاں عجیب ہوتی ہو ۔تمہیں معلوم بھی ہوتا ہے انہوں نے ٹوٹنا ہوتا ہے پھر بھی بناتی ہو۔'' پھر ہنستا ہی چلا گیا اسکی ہنسی میں فاتحانہ پن تھا۔
میں نے ایک لمحے پھر کو ہی اسکو دیکھا اور اتنی یکسوئی سے وہ بھی گھبرا گیا۔ پھر میں گھروندا بنانے میں مصروف ہوگئی ۔
اس نے پوچھا : '' تم جو محل بنانا چاہ رہی ہو اس کو لہریں لے جائیں گے سب ختم ہوجائے گا۔ کتابِ زیست کا بوسیدہ صفحہ پھر سے مت پلٹو، تم پچھتاؤ گی ۔
میں نے اسکو کہا ؛ '' کبھی کبھی پچھتاوے بھی سکون دیتے ہیں ۔جو مزا جلنے میں ہے وہ صبا کے چلنے میں بھی نہیں ۔
وہ مجھ سے بولا: تمہارا وہ غرور کہاں گیا جس میں میں جل گیا تھا۔ اب تم خود جلنے کی بات کر رہی ہو۔ تمہیں ایندھن کی بھٹی اپنے پاس رکھ کر ملتا کیا ہے ؟
میرے ہاتھ پورے ساحل کی گیلی مٹی سے رنگ چکے تھے ۔میرا لباس مٹی بن چکا تھا۔ خود کو دیکھا پھر اسے ۔۔۔ وہ سراپا جمال تھا ۔۔۔اسکے بال باد کے جھونکے سے جب الجھتے تب مجھے اسکی خوشبو دیتے ۔ میں خوشبو کا احساس کرتے ہوئے بولی : '' مٹی کا کام جلنا ہے جب تک یہ جلتی نہیں ہے تب تک کندن نہیں ہوتی ۔ تمہارے عشق کی لو دل میں ایسی جلی کہ وہ بجھتی نہیں ، اگر اسکو بجھاؤں تو خود میں جلتی ہوں ''
اس نے تاسف سے ایک سانس بھری جیسے ایک جلتا ہو سگریٹ دھواں چھوڑتا ہے اور بولا: '' جب تک محبت کو عقل سے ناپو گی اس کا حساب کتاب رکھو گی ، تکرار کرو گی تو جلنا ہی پڑے گا ۔ یہ ایندھن تم نے خود خریدا ہے ۔ تم جیسے عقلیت پسند محبت کو سائنس سمجھتے ہیں جب یہ دور چلی جاتی ہے تب دل کا راگ الاپنے لگ جاتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں محبت میں مادیت نہیں کبھی محبت تو روح سے ہوتی ہے ۔میں تم سے کہا کرتا تھا نہ محبت روح بھی ہے ، مادہ بھی ۔۔۔'' پھر چپ ہوگیا ۔ میں نے پہلی دفعہ اسکی چہرے پہ شبنم کے قطرے دیکھے۔ اس نے گاگلز لگاتے ہوئے سگریٹ سلگانا شروع کردیا جیسے وہ خود بھی جل رہا ہو۔
میرے دل نے چاہا کاش میں ساحل پر رہنے والی جل پری ہوتی اس شبنم کو سیپ میں قید کرلیتی اس امید پہ کہ یہ موتی بن جائے ۔ ابھی میں ایسا سوچ ہی رہی تھی اس سوچ میں مجھے ایک شعر یاد آیا
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اسکی قسمت میں حضور نہیں ۔
میں نے جواب دیا: ' تمہارا ساحل پہ لوٹ آنا ہی میرے لیے کافی ہے میں اس امید پہ گھروندتے بناتی رہی گی کہ تم کبھی تو آؤگے اور انکو مٹتا دیکھو گے۔ تم نے کہا تھا کہ ''مجھ سے مت الجھو ورنہ نہ جی سکو گی نہ ہی مر سکو گی'' میں نے تم سے الجھنا چھوڑ دیا ہے یہ کہتے ہوئے ساحل کی موجیں نے شور مچایا یوں لگا طوفان آگیا ہے ۔سارے گھروندے جو اسکو دیکھ دیکھ کر بنا رہی تھی مٹی بن رہے تھے ۔کیچڑ ہورہے تھے ۔ان کے دیکھتے ہوئے وہ مسکرایا نہیں مجھے دیکھتا رہ گیا۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
یہ ادبی تحریر نہیں یہ کچھ احساسات پہ مشتمل چند جملے ہیں ۔۔۔ ایک درخواست ہے حساس لوگ ہی اسکو پڑھیں ۔۔ کچھ برا لگے تو اس کو دل میں رکھ لیں ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ایک-مکالمہ.76432/
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
وہ کافی عرصے بعد پھر مجھ سے ملنے آیا ۔بالکل اسی طرح جیسے کبھی کبھی ہم مزاروں پہ چلے جاتے ہیں ۔اس کے برعکس وہ خانقاہ بن کر میرے سامنے کھڑا مجھے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے جاننا چاہتا ہو تمہارا حال کیا ہے ؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی ۔دل سے ایک صدا آئی
چہرے پہ سجائے رکھتے ہیں جو ہنسی کی کرن
نہ جانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں
مجھے پھر سے ساحل پہ گھروندے بناتے دیکھ کر بولا : '' ایک تو تم لڑکیاں عجیب ہوتی ہو ۔تمہیں معلوم بھی ہوتا ہے انہوں نے ٹوٹنا ہوتا ہے پھر بھی بناتی ہو۔'' پھر ہنستا ہی چلا گیا اسکی ہنسی میں فاتحانہ پن تھا۔
میں نے ایک لمحے پھر کو ہی اسکو دیکھا اور اتنی یکسوئی سے وہ بھی گھبرا گیا۔ پھر میں گھروندا بنانے میں مصروف ہوگئی ۔
اس نے پوچھا : '' تم جو محل بنانا چاہ رہی ہو اس کو لہریں لے جائیں گے سب ختم ہوجائے گا۔ کتابِ زیست کا بوسیدہ صفحہ پھر سے مت پلٹو، تم پچھتاؤ گی ۔
میں نے اسکو کہا ؛ '' کبھی کبھی پچھتاوے بھی سکون دیتے ہیں ۔جو مزا جلنے میں ہے وہ صبا کے چلنے میں بھی نہیں ۔
وہ مجھ سے بولا: تمہارا وہ غرور کہاں گیا جس میں میں جل گیا تھا۔ اب تم خود جلنے کی بات کر رہی ہو۔ تمہیں ایندھن کی بھٹی اپنے پاس رکھ کر ملتا کیا ہے ؟
میرے ہاتھ پورے ساحل کی گیلی مٹی سے رنگ چکے تھے ۔میرا لباس مٹی بن چکا تھا۔ خود کو دیکھا پھر اسے ۔۔۔ وہ سراپا جمال تھا ۔۔۔اسکے بال باد کے جھونکے سے جب الجھتے تب مجھے اسکی خوشبو دیتے ۔ میں خوشبو کا احساس کرتے ہوئے بولی : '' مٹی کا کام جلنا ہے جب تک یہ جلتی نہیں ہے تب تک کندن نہیں ہوتی ۔ تمہارے عشق کی لو دل میں ایسی جلی کہ وہ بجھتی نہیں ، اگر اسکو بجھاؤں تو خود میں جلتی ہوں ''
اس نے تاسف سے ایک سانس بھری جیسے ایک جلتا ہو سگریٹ دھواں چھوڑتا ہے اور بولا: '' جب تک محبت کو عقل سے ناپو گی اس کا حساب کتاب رکھو گی ، تکرار کرو گی تو جلنا ہی پڑے گا ۔ یہ ایندھن تم نے خود خریدا ہے ۔ تم جیسے عقلیت پسند محبت کو سائنس سمجھتے ہیں جب یہ دور چلی جاتی ہے تب دل کا راگ الاپنے لگ جاتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں محبت میں مادیت نہیں کبھی محبت تو روح سے ہوتی ہے ۔میں تم سے کہا کرتا تھا نہ محبت روح بھی ہے ، مادہ بھی ۔۔۔'' پھر چپ ہوگیا ۔ میں نے پہلی دفعہ اسکی چہرے پہ شبنم کے قطرے دیکھے۔ اس نے گاگلز لگاتے ہوئے سگریٹ سلگانا شروع کردیا جیسے وہ خود بھی جل رہا ہو۔
میرے دل نے چاہا کاش میں ساحل پر رہنے والی جل پری ہوتی اس شبنم کو سیپ میں قید کرلیتی اس امید پہ کہ یہ موتی بن جائے ۔ ابھی میں ایسا سوچ ہی رہی تھی اس سوچ میں مجھے ایک شعر یاد آیا
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اسکی قسمت میں حضور نہیں ۔
میں نے جواب دیا: ' تمہارا ساحل پہ لوٹ آنا ہی میرے لیے کافی ہے میں اس امید پہ گھروندتے بناتی رہی گی کہ تم کبھی تو آؤگے اور انکو مٹتا دیکھو گے۔ تم نے کہا تھا کہ ''مجھ سے مت الجھو ورنہ نہ جی سکو گی نہ ہی مر سکو گی'' میں نے تم سے الجھنا چھوڑ دیا ہے یہ کہتے ہوئے ساحل کی موجیں نے شور مچایا یوں لگا طوفان آگیا ہے ۔سارے گھروندے جو اسکو دیکھ دیکھ کر بنا رہی تھی مٹی بن رہے تھے ۔کیچڑ ہورہے تھے ۔ان کے دیکھتے ہوئے وہ مسکرایا نہیں مجھے دیکھتا رہ گیا۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
یہ ادبی تحریر نہیں یہ کچھ احساسات پہ مشتمل چند جملے ہیں ۔۔۔ ایک درخواست ہے حساس لوگ ہی اسکو پڑھیں ۔۔ کچھ برا لگے تو اس کو دل میں رکھ لیں ۔
آخری تدوین: