کیا خوب فلمی نغمہ ہے " جو ہم نے داستاں اپنی سُنائی ، آپ کیوں روئے" تو خیر رونا تو کیا ہمیں تو اپنا اوکھا ویلا یاد آ گیا جب اباّ جی کے ہاتھوں ہماری ہفتہ وارانہ بنیادوں پر دُھلائی ہوتی تھی
معاملہ یہ تھا کہ ہم ٹارزن ، عمرو عیار، چلوسک ملوسک، آنگلو بانگلو سیریز کی کہانیوں سے ہوتے ہوئے، محمود، فاروق، فرزانہ اور انسپکٹرجمشید سیریز ، عمران سیریز تک پُہنچے اور پھر آداب عرض ، سلام عرض، جواب عرض، جاسوسی، سسپنس، مسِٹری، ایڈوینچر، سب رنگ وغیرہ سے ہوتے ہوئےمطالعے کی نئی فتوحات کو چل نکلےوہ دُنیا تھی پامسٹری، علم الاعدا، علمِ نجوم، شمع بینی اور ٹیلی پیتھی کے بارے لکھی گئی کتابوں کےجنونی مطالعے کی دُنیا ۔ اِن کتابوں کے اور سابقہ ذکر کیے گئے رسالوں کے ٹائٹل پیج پر عموما" کو ئی خوبرو حسینہ جلوہ فگن ہوتی تھی اور اباّ جی لفافہ دیکھ کر ہی مضمون بھانپ لیتے تھے کہ یہ سراسر غیر نصابی کُتب ہیں اور وہ اُنہیں بحیثیتِ مجموعی "آوارہ کتابوں" کا لقب دیتے تھے۔
میں کبھی اُن کے دفاع میں ایک جملہ بھی نہیں بول سکا (اتنا وقت بھی نہیں ملتا تھا) سو اُنہیں اُن کی آوارگی میں کبھی بے یقینی نہ ہوئی
میں ہر بار نئی جگہ پر چھُپ کر اپنی من پسند کتابیں پڑھتا اور پکڑا جاتا اور مار کھانے کے بعد کپڑے جھاڑ کر زیادہ محفوظ جگہ کے بارے میں سوچنا شروع کردیتا
اِس بات کا کبھی بھولے سے بھی خیال نہ آتا کہ میں اپنے اِ س شوق سے تائب ہو سکتا ہوں
تو یوں میرے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے ساتھ ساتھ اچھا خاصا ایڈوینچر بھی شاملِ حال رہا