زیک
مسافر
ب سے امریکہ آیا ہوں پاکستان کا یہ دوسرا دورہ تھا۔ ان آٹھ سالوں میں پاکستان بھی کافی بدل گیا ہے اور شاید میں بھی۔ اسی لئے اس دفعہ خود کو وہاں اجنبی محسوس کیا۔ کئی چیزیں بری لگیں اور کئی اچھی مگر اجنبیت ہر جگہ رہی۔
پاکستان میں پرائیویٹ کمپنیاں بھی گاہک کے ساتھ کیا کرتی ہیں اس کا اندازہ اسلامآباد ائرپورٹ پر ہی ہو گیا جب ایوس کار رینٹل سے کار لینے کے لئے گھنٹہ لڑنا پڑا۔ اس کے برعکس جب ہم جیولر کی دکان پر گئے تو اس نے پینے کو بھی پوچھا اور ہمارے ساتھ خاصا وقت صرف کیا۔
ائرپورٹ سے نکلے تو فضا میں آلودگی نے ہمارے پھیپڑوں کو شکار کیا۔ پھر یہ احساس بھی ہوا کہ اگرچہ میں نے گاڑی چلانی پاکستان میں سیکھی اور بہت عرصہ وہاں چلائی بھی مگر اب میں پاکستان کی ٹریفک کا عادی نہیں رہا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہاں ٹریفک بہت بڑھ گئی ہے مگر ہم اٹلانٹا سے گئے تھے ہمیں تو سڑک پر کاریں نظر ہی نہیں آئیں۔ ٹریفک کے قوانین کی کوئی پابندی نہیں کرتا مگر سب انتہائی سست رفتار سے چلتے ہیں۔ سڑکوں کا حال پہلے سے برا لگا مگر ہو سکتا ہے یہ میری غلطفہمی ہو۔
ایک چیز جس کا مین بالکل عادی نہیں رہا تھا وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی بات ہو اسلام درمیان میں ضرور آ جاتا ہے۔ پھر جو ذرا سا بھی مذہبی ہو وہ اپنے آپ کو نیک سے نیکتر ثابت کرنے کی کوشش میں آپ کو رگڑ دیتا ہے۔ اسلامآباد اور اس کے گرد و نواح میں تو میں نے اسلام کی globalization بڑھتے دیکھی۔ دوپٹے یا چادر کی بجائے کالا سکارف عام ہے۔ ہارون یحیٰی کی تحریریں پھیل رہی ہیں۔
ایک چیز جس نے بہت تنگ کیا وہ یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ کافی گھورتے ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ہے مگر مجھے اس دفعہ محسوس ہوا۔ معلوم نہیں اس کی وجہ میرے لمبے بال تھے یا سر پر سینگ مگر بازار وغیرہ میں لوگوں کا گھورنا ایک آنکھ نہ بھایا۔
کچھ اور تبدیلیوں میں ایک کیبل ٹیوی بھی تھا۔ جب میں پاکستان میں تھا تو ٹیوی پر صرف دو چینل آتے تھے۔ اب کیبل پر بہت سے چینل تھے۔ کچھ پاکستان کے تھے، کچھ انڈین اور کچھ امریکہ اور یورپ وغیرہ کے پروگرام دکھاتے تھے۔ پاکستانی چینل پر حالات حاضرہ کے پروگرام پہلے کی نسبت کافی جاندار تھے۔ انڈین چینلز پر میرے ٹرپ کے دوران ہی پابندی لگی اور پھر شاید وہ دوبارہ آنے لگے۔
ایک فاسٹ فوڈ ریستوران میں گیا تو دو لوگوں کو دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی۔ ایک تو کوئی میری عمر کا جوڑا تھا۔ لباس وغیرہ سے کچھ غریب لھتا تھا۔ خاتون نے چادر لی ہوئی تھی اور اسی کو نقاب کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ وہ مزے سے ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور گپیں ہانک رہے تھے۔ آج سے کچھ سال پہلے تک اس ریستوران میں شاید ایسے لوگ نظر نہ آتے۔ دوسرے دو سکول کے لڑکے تھے۔ انہوں نے جیسے بستے لٹکائے تھے اور جیسا لباس پہن رکھا تھا بالکل ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں اندرون شہر سے ہیں۔ یہ شاید rap کا اثر تھا۔
آخری بات یہ کہ اسلامآباد میں Gelato Affair کی آئسکریم اچھی ہے مگر اس کا اطالوی gelato سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
[hr:dca1d65b59]
یہ تحریر آپ میرے بلاگ پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں پرائیویٹ کمپنیاں بھی گاہک کے ساتھ کیا کرتی ہیں اس کا اندازہ اسلامآباد ائرپورٹ پر ہی ہو گیا جب ایوس کار رینٹل سے کار لینے کے لئے گھنٹہ لڑنا پڑا۔ اس کے برعکس جب ہم جیولر کی دکان پر گئے تو اس نے پینے کو بھی پوچھا اور ہمارے ساتھ خاصا وقت صرف کیا۔
ائرپورٹ سے نکلے تو فضا میں آلودگی نے ہمارے پھیپڑوں کو شکار کیا۔ پھر یہ احساس بھی ہوا کہ اگرچہ میں نے گاڑی چلانی پاکستان میں سیکھی اور بہت عرصہ وہاں چلائی بھی مگر اب میں پاکستان کی ٹریفک کا عادی نہیں رہا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہاں ٹریفک بہت بڑھ گئی ہے مگر ہم اٹلانٹا سے گئے تھے ہمیں تو سڑک پر کاریں نظر ہی نہیں آئیں۔ ٹریفک کے قوانین کی کوئی پابندی نہیں کرتا مگر سب انتہائی سست رفتار سے چلتے ہیں۔ سڑکوں کا حال پہلے سے برا لگا مگر ہو سکتا ہے یہ میری غلطفہمی ہو۔
ایک چیز جس کا مین بالکل عادی نہیں رہا تھا وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی بات ہو اسلام درمیان میں ضرور آ جاتا ہے۔ پھر جو ذرا سا بھی مذہبی ہو وہ اپنے آپ کو نیک سے نیکتر ثابت کرنے کی کوشش میں آپ کو رگڑ دیتا ہے۔ اسلامآباد اور اس کے گرد و نواح میں تو میں نے اسلام کی globalization بڑھتے دیکھی۔ دوپٹے یا چادر کی بجائے کالا سکارف عام ہے۔ ہارون یحیٰی کی تحریریں پھیل رہی ہیں۔
ایک چیز جس نے بہت تنگ کیا وہ یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ کافی گھورتے ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ہے مگر مجھے اس دفعہ محسوس ہوا۔ معلوم نہیں اس کی وجہ میرے لمبے بال تھے یا سر پر سینگ مگر بازار وغیرہ میں لوگوں کا گھورنا ایک آنکھ نہ بھایا۔
کچھ اور تبدیلیوں میں ایک کیبل ٹیوی بھی تھا۔ جب میں پاکستان میں تھا تو ٹیوی پر صرف دو چینل آتے تھے۔ اب کیبل پر بہت سے چینل تھے۔ کچھ پاکستان کے تھے، کچھ انڈین اور کچھ امریکہ اور یورپ وغیرہ کے پروگرام دکھاتے تھے۔ پاکستانی چینل پر حالات حاضرہ کے پروگرام پہلے کی نسبت کافی جاندار تھے۔ انڈین چینلز پر میرے ٹرپ کے دوران ہی پابندی لگی اور پھر شاید وہ دوبارہ آنے لگے۔
ایک فاسٹ فوڈ ریستوران میں گیا تو دو لوگوں کو دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی۔ ایک تو کوئی میری عمر کا جوڑا تھا۔ لباس وغیرہ سے کچھ غریب لھتا تھا۔ خاتون نے چادر لی ہوئی تھی اور اسی کو نقاب کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ وہ مزے سے ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور گپیں ہانک رہے تھے۔ آج سے کچھ سال پہلے تک اس ریستوران میں شاید ایسے لوگ نظر نہ آتے۔ دوسرے دو سکول کے لڑکے تھے۔ انہوں نے جیسے بستے لٹکائے تھے اور جیسا لباس پہن رکھا تھا بالکل ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں اندرون شہر سے ہیں۔ یہ شاید rap کا اثر تھا۔
آخری بات یہ کہ اسلامآباد میں Gelato Affair کی آئسکریم اچھی ہے مگر اس کا اطالوی gelato سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
[hr:dca1d65b59]
یہ تحریر آپ میرے بلاگ پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔