زندگی بڑی عجیب شے ہے ۔ انسان کبھی کسی چھوٹی سی چیز کو پانے کے لیئے مچل جاتا ہے مگر مجال ہے انسان کو وہ چیز میسر آجائے ۔ اور جب انسان تھوڑے پر قناعت کرنا چاہے تو پھر وہی حال ہوتا ہے جو چھپر پھاڑ کر ملنے پر ہوتا ہے کہ جو چھپر پھاڑ کرملا ہوتا ہے اس کے آدھے سے چھپر کی مرمت کرانی پڑتی ہے ۔ اور باقی آدھا پولیس والوں کو دینا پڑتا ہے اس لاکھ دہائی کے باوجود کہ بھائیوں ۔۔۔ میں نے کہیں سے چوری نہیں کیا ہے بلکہ اوپر والے نے چھپر پھاڑ کردیا ہے ۔ بھلا آج کے زمانے میں کون ان پرانی باتوں پر یقین کرتا ہے اور وہ بھی پولیس والے ۔
تو صاحبو ! قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں زندگی میں پہلا عشق ہوا ۔ یہ میڑک کے دور کی بات ہے ۔ ابھی اس عشق کو پروان چڑھے تقریباً ساڑھے تین دن ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک انکشاف یہ ہوا کہ کسی اور خاتون کو بھی ہم سے عشق ہوگیا ہے ۔ یہ وہ نکتہِ آغاز تھا جس کا سب سے پہلے ہم نے اپنی آپ بیتی میں ذکر کیا ۔ مجال ہے کہ آدمی کو عشق ہوجائے اور چلو ہو بھی جائے تو پھر چھپر پھاڑ کر ملنا اس نازک معاملے میں کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر اس دو رخی عشق ( جسے دو رخی تلوار کہنا زیادہ مناسب رہے گا ) میں سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ جس سے ہم نے عشق کیا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے ۔ سو جب بھی دل کی بات کہنے کی کوشش کی تو معمر مستورات کا احترام جانے کیوں ہمارے زبان کی چاشنی بننے لگتا ۔ اور اُسے پھر ہم نے ہمیشہ باجی کہہ کر مخاطب کیا اور بعد میں کھسیا کر اپنی ادبی طبعیت کو کوستے ہوئے ٹائم وغیرہ پوچھ لیا کرتے تھے ۔ متعدد بار کوشش کی کہ اپنی دل کی بات اس دل ُروبا کو کہہ دیں مگر زبان نے بھی گویا قسم کھا رکھی تھی کہ آپا اور باجی کے علاوہ منہ سے کچھ اور نہیں اُگلنا ۔ اگر کچھ اُگلا تو پھر پھینٹی لگنا مقدر بننا تھا کہ ضیاءالحق کا دور تھا اور اس زمانے میں ویسے بھی حقوق العباد کا جذبہ نوجوانوں میں بہت عام ہوا کرتا تھا ۔ جس کے نتیجے میں ہر بس اسٹاپ پر بس کے اگلے حصے سے ( جو خواتین کے لیئے مختص تھا ) وہاں سے نوجوانوں کو برآمد کرکے ڈنڈوں اور گنوں سے تواضع کی جاتی تھی ۔ اس کارِ خیر میں نوجوانوں کیساتھ کچھ بزرگ بھی حصہ لیکراپنی کھوئی ہوئی جوانی کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے ۔
اسی دوران دوسرے عشق کا سانحہ ہوگیا ۔ دوسرے عشق کا سانحہ پہلے عشق کے المیے کے بلکل برعکس تھا ۔ یعنی جس سے ہمیں عشق ہوا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے اور جسے اب ہم سے عشق ہوا ۔ وہ محترمہ ہمارے سامنے جوان ہوئیں ۔ پہلے عشق میں ہماری زبان آپا اور باجی کی چاشنی سے بھری ہوتی تھی اور دوسرے عشق میں زبان ، ِبیٹا رانی کہہ کہہ کر نہیں تھکتی تھی ۔ بہت عرصے تک سر مارتے رہے کہ اپنی زبان کو لگام دیں مگر ہر کوشش بےسود ۔ بلآخر فیض کی اس نظم سے ہم نے اپنے دل کے بناسپتی گھی کے چراغ بجھائے کہ ۔۔۔
کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
خیر میڑک کا زمانہ گذر گیا ۔ چونکہ ہم اپنے دیگر دوستو کی طرح عشق کی اصل روح سے صحیح طور پر متعارف نہیں ہو سکے تھے اس لیئے کئی اچھے دوستوں کو میڑک میں چھوڑ کر آگے کالج کی دنیا میں قدم رکھا ۔ دوستوں نے ہمیں بڑی لعنت ملامت کی کہ ہم ان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں مگر دوستو کی گریہ آوزری سے زیادہ ہمیں اپنے والدِ محترم کے اس چھتر کی فکر تھی ۔ جو انہوں نے صرف اس ارادے سے خریدا تھا کہ اگر ہم میڑک میں فیل ہوگئے تو ہماری پشت ہٹا کر یہ چھتر وہاں نصب کردیا جائے گا ۔
کالج کی دنیا ، ایک نئی دنیا تھی ۔ اسکول میں زیادہ محلہ دار یا آس پاس کے دوستوں کی بہتات تھی ۔ مگر کالج میں نئے چہرے تھے جن کا تعلق شہر کے مخلتف علاقوں سے تھا ۔ ہر چیز نئی تھی ۔ حتی کہ ہم خود کو بھی نئے نئے سے لگے ۔ اسکول میں اپنا خیال کیا رکھا ہوگا جو ہم نے کالج میں اپنے ناز اٹھائے۔ ہمارا کالج بوائز اینڈ گرلز تھا ۔ اور یوں لگتا تھا کہ جیسے سارے شہر کا حسن ، بس ہماری کلاس میں سما گیا ہے۔ ہماری کلاس میں یوں تو کئی حیسن چہرے تھے ۔ مگر جس چہرے نے ہمیں متاثر کیا اس کا ذکر کرنا شامتِ اعمال کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا کہ وہ آج کل قومی اسمبلی کی ممبر ہیں ۔ اس کی آمد گویا آمدِ بہار ہوتی تھی اور لوگ اس کو چوری چھپے دیکھتے تھے ۔ مگر خدا کی قسم ۔۔۔ ہم نے اسےکبھی چوری چھپے نہیں دیکھا ۔ بلکہ جب بھی دیکھا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا ۔ جس پر ایک دن ہمارے پروفیسر صاحب خفا ہوگئے اور کہا کہ کہاں دیکھ رہو ۔ شرم نہیں آتی کلاس میں بیٹھ کر ایسی حرکتیں کرتے ہو ۔ ہم نے بڑی عاجزی سے عرض کیا ۔۔۔ ” سر ۔۔۔ رات سوتے ہوئے گردن توڑ ہوگیا ہے اس لیئے گردن اپنے زوایے پر قائم نہیں رہی ۔ گردن موڑنے سے قاصر ہوں اگر آپ کہیں تو کلاس سے نکل جاتا ہوں ۔ مگر آپ جیسے قابل استاد کا لیکچر سننے سے محروم ہوجاؤں گا ۔ ” پروفیسر صاحب نے تاسف بھرے لہجے میں احیتاط کی ہدایت کی اور اپنے لیکچر میں مشغول ہوگئے اور ہم موصوفہ کو لیکچر کے دوران جی بھر دیکھتے رہے ۔
ٹکٹکی باندھ کر مسلسل دیکھنے سے ہمیں واقعی گردن توڑ ہوگیا ۔ اور ساتھ یہ خوف بھی غالب آگیا کہ اگر کسی دن موصوفہ نے اپنی کرسی بدل لی تو ہمارا کیا ہوگا ۔ اس عمل سے جہاں ہماری زرافے جیسی گردن پر اثر پڑا ۔۔۔ وہاں ہماری تعلیمی قابلیت کی والدِ محترم پر قلعی بھی کھل گئی ۔ انہوں نے اپنے خریدے ہوئے چھتر سے ہمارے وہ طبق روشن کیئے جس کا مڈیکل سائنس کی کتاب میں اب تک کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ اس روایتی تشدد کے نتیجے میں ، گردن توڑ کے ساتھ مذید اتنے اور توڑ ہوئے کہ پھرظالم ڈاکٹروں نے وہاں ایسی مرہم پٹی کی کہ صرف ناک سے سانس لینے کا راستہ کُھلا چھوڑا ۔ اور جب ہم کرسی پر پلاسٹر اور پٹیوں میں جکڑے بیٹھے ہوئے ہوتے تو محلے کے بچے ہمیں حرکات و سکنات سے محروم دیکھ کر جھاڑو کے تنکوں سے ہماری ناک میں گدگدی کر کے ہمیں چھینک دلانے کی کوشش کرتے اور جب ہمیں چھینک آتی تو پلاسٹر کی وجہ سے جو کچھ جڑا ہوا ہوتا تھا وہ پلاسٹر کے کُھلنے کے بعد ٹوٹی ہوئی چائینا کی پلیٹوں کی طرح برآمد ہوجاتا ۔ جس پر ڈیوٹی بھی کوئی مقرر نہیں تھی ۔ اور ہم بے پیندہ لوٹے کی طرح سجدہ ریز ہوجاتے ۔اس خاص موقع پر گلی میں ہمارا کوئی دشمن اپنے اسٹیریو پر اقبال کا شعر بغیر کسی کمرشل کے ، حبیب ولی محمد کی آواز میں بار بار دھراتا :
” تیرا دل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں ”
ہماری شاندار تعلیمی قابلیت کو دیکھتے ہوئے والد ِ محترم کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ” لونڈا ۔۔ پڑھائی میں دھیان نہیں دے رہا ہے تو اس کو کوچنگ سینڑ پر بٹھا دو ۔ ( ہمیں تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی کوٹھے پر بٹھانے کی بات کہہ رہے ہیں ) والد صاحب نے بھی سوچا کہ صبح کالج ، شام ، کوچنگ سینٹر ۔ شاید کچھ پڑھ لے گا ۔
ابھی کوچنگ سینٹر میں دوسرا دن ہی ہوا تھا کہ اس پر نظر پڑ گئی ۔ کیا بلا کی سادگی تھی ، کیا سانولا پن تھا ۔ یعنی اوپر والے نے پھر چھپر پھاڑ کر دیا تھا ۔ صبح و شام کے اوقات آسان ہوگئے تھے ۔ کالج جاکر آنکھوں کو سیکنے کی خواہش صبح ہی صبح بیدار کردیتی تو والد صاحب بڑی حیرت سے دیکھتے اور پوچھتے کیوں خیریت ۔۔۔ ! اتنی صبح کیسے اٹھ گئے۔ ؟ کیا دودھ لینے جانا ہے ۔؟ ” اور شام کو ڈوبتے سورج جیسی شفق کو قریب سے دیکھنے کی خواہش بغیر کسی کاہلی کا مظاہرہ کیے ، کوچنگ سینٹر لے جاتی تھی ۔ دونوں جگہ وقت کی پابندی اور تعلیم میں دلچسپی اس بات کا مظہر تھی کہ میں عنقریب کراچی میں ٹاپ کرنے والا ہوں ( یہ میرے والدِ محترم کا نکتہِ نظر تھا ) ۔
ایک طرف کسی کے حسن سے ہم بے حال تھے تو دوسری طرف کسی کے سانولے پن اور سادگی نے ہماری دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کیا ہوا تھا ۔ کسی طور دل کو قرار نہ تھا ۔ لگتا تھا کہ یہ اسی فقیر کی بدعا کا نتیجہ ہے جس کی لُنگی میں ایک دفعہ بچپن میں ہم نے پٹاخہ باندھ دیا تھا ۔ اور پھر اس نے دھوتی اٹھا کر جو بدعا دی تھی اس کا تذکرہ کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا ۔ سو پہلے بھی ہم بیک وقت دو عشقِ بُتاں میں گرفتار ہوئے ۔مگر فیض کے اشارے پر دونوںکو ادھورا چھوڑنا پڑا ۔ اب پھر وہی معرکہ آن پڑا تھا ۔ ادھر جائیں تو دل ہاتھ سے نکلتا تھا ۔ اُدھر جائیں تو جگر پیٹنے کا جی کرتا تھا ۔ عجب کشمکش کا عالم تھا ۔ اب فیض بھی نہیں رہے تھے کہ ان سے کوئی دوسری نظم لکھوا لیتے ۔ اچانک ہمیں اپنے بہت ہی قریبی دوست خالد کا خیال آیا ۔ جو ہمارے ساتھ کالج میں تو پڑھتے ہی تھے مگر ساتھ ساتھ وہ اتنے ذہین تھے کہ ایک پیرائیوٹ اسکول میں نویں اور دسویں جماعت کو بھی پڑھایا کرتے تھے ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ ان کی ذہانت ہمارا کوئی ” ایک عشق ” متعین کردے گی ۔
( جاری ہے )
گذشتہ سے پیوستہ
ہم خالد کو ایک قربیی خان صاحب کے کیفے لے گئے ۔ کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ چائے خالد کی کمزوری ہے ۔ لہذا ان کی خاطر ومدارت کرنا بھی چائے سے لازم ٹہری ۔ ابھی چائے کا نزول ہوا ہی تھا کہ موصوف نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پورا چائے کا چینک ( کیتلی ) ایک سانس میں خالی کردیا ۔ اس قدر گرم چائے اور اس طرح حلق میں اُتارنے کا مظاہرہ ہم نے پہلی بار دیکھا تھا ۔ حلق میں جانے کس کمپنی کی فائبر آپٹیکل کیبل انسٹال کرائی ہوئی تھی کہ ساری چائے حلق چھوئے بغیر ان کے معدے میں براجمان ہوچکی تھی ۔ ہم نے خان صاحب کو آنکھ مارتے ہوئے دوسری فرضی چینک کا آرڈر دیا اور جلدی سے اپنا مسئلہ خالد کے سامنے گوشوار کردیا کہ ہمارے جیب میں مذید چائے کی چینک کے لیئے معقول رقم موجود نہیں تھی ۔
ہماری داستانِ غم سن کر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے پیچھے باندھتے ہوئے ایک سرد آہ بھری اور پھر کسی سوچ میں گُم ہوگئے ۔ یہ بتانا بہت مشکل تھا کہ انہوں نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لیں تھیں ۔ کیونکہ ان کی آنکھوں کے پپوٹے ان کی آنکھوں کے ڈیلوں سے بہت چھوٹے تھے ۔ ایک ڈیلے کا سائز تقریباً ایک سواتی سیب جتنا تھا ۔ اور ان پپوٹوں سے ان ڈیلوں کا احاطہ کرنا ناممکن تھا ۔ ہم کچھ دیر تو صبر کرتے رہے ۔ مگر جب ان کا استغراق طول کھینچنے لگا تو ہمیں چائے کا حقیقی آرڈر دیکر ان کو اُلوؤں کی طرح شاخ سے اتارنا پڑا ۔ انہوں نے اپنی پہلے سے کھلی ہوئی آنکھوں کو مذید کھولنے کی ناکام کوشش کی اور میز پر انگلیاں بجاتے ہوئے خان صاحب کی طرف دیکھنے لگے ۔ ہم نے ان کو اپنا مدعا یاد دلایا تو بڑی گھمبیر آواز میں مخاطب ہوئے ۔
” یار تمہارا مسئلہ واقعی بہت پیچیدہ ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمہیں ایک عشق پانے کے لیئے دوسرے عشق کو کھونا پڑے گا ۔”
ہم نے بڑی عاجزی سے عرض کیا ۔
” جی جناب ۔۔۔ ہمیں علم ہے ۔۔۔ مگر کسی ایک عشق سے ہاتھ دھونا ہمیں زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف لگ رہا ہے ۔ سمجھ نہیں آتا کیا کروں ”
ہم نے شاہ رخ خان کی طرح گھگیانے کی ناکام ایکٹنگ کی ۔
اے غمِ زندگی ، کچھ تو دے مشورہ
ایک طرف اس کا گھر ، ایک طرف میکدہ
خالد صاحب نے دوسری چائے کی چینک کیساتھ بھی تاتاریوں جیسا سلوک روا رکھا ۔
” دیکھو ۔۔۔۔۔ ” خالد صاحب نے جیسے کچھ کہنے کا آغاز کیا ۔
” لگتا یہی ہے کہ یہ عشق تمہارے اندر تک اُتر چکے ہیں ۔جن سے جدائی تمہارے لیئے ممکن نہیں ۔ اس کا علاج یہی ہے کہ کسی ایک عشق کا اثر تمہارے دل سے کچھ اس طرح زائل ہو جائے کہ دوسرا عشق تمہاری زندگی کی حتمی صورت بن جائے ۔ ”
” مگر یہ کیسے ممکن ہے ۔۔۔۔۔ ؟ ” ہم تقریباً گڑگڑائے ۔
ہمیں ان کے فلسفے سے زیادہ اپنے مسئلے کے حل کی فکر تھی ۔
انہوں نے میز پر دونوں کہنیاں ٹکاتے ہوئے اپنے بڑے بڑے ڈیلوں والی آنکھیں کو ہماری جھیل جیسی معصوم آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جیسے ڈبونے کی کوشش کی اور پھر فلسفیانہ انداز میں کہا ۔
” تمہیں ۔۔۔ ایک تیسرا عشق کرنا پڑے گا ”
ہمیں ایسا لگا کہ کسی بچھو نے ہمیں ڈنگ مار دیا ہو ۔ مگر ہم پٹھان کے ہوٹل کی بوسیدہ چھت کا خیال کرکے اچھلنے سے باز رہے ۔
” خالد صاحب ۔۔۔ ہم آپ کو اپنا مسیحا سمجھ کر آج کے دن کا جیب خرچ بمعہ موٹر سائیکل کے پیٹرول کے پیسے ، چائے کی صورت میں آپ پر وار چکے ہیں ۔ یہ شام کی شفق اور صبح کا اجالا ہماری ننھنی سی جان پر کیا بھاری نہیں تھا کہ آپ تیسرے عشق کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ کچھ تو خیال کجیئے ۔ ”
“یار ۔۔۔ تم نرے احمق ہو ۔ عشق کا روگ لگا لیتے ہو ۔ پھر دردِ دل کی دوا ڈھونڈتے ہو “۔ خالد صاحب نے تقریباً جھنجھلاتے ہوئے کہا ۔
دیکھو ۔۔۔۔ اگر تم تیسرا عشق کروگے تو تمہارے دل سے ان دو عشق میں سے کسی ایک عشق سے بیزاری خود بخود پیدا ہوجائے گی ۔ اور جس سے بیزاری پیدا ہوجائے اس کو الوادع کہہ کر دوسرے والے کو اپنی مستقل منزل بنالینا ۔ آسان سا حل ہے ۔ ”
” پھر تیسرے عشق کا کیا ہوگا ۔؟ ”
ہم نے اپنی زیرو وولیٹج والی کھوپڑی سے ان کے اس عظیم الشان منصوبے کو سمجھتے ہوئے اپنا خدشہ بیان کردیا ۔
” پھر وہی احمقوں والی بات ۔۔۔۔ ارے تم تیسرا عشق کونسا دل کے کہنے پر کروگے ۔ وہ عشق تو تم اپنے ان موجودہ عشقوں میں سے کسی ایک عشق کو بھلانے کے لیئے انجام دوگے ۔ جب منصوبہ پایہ ِ تکمیل تک پہنچے گا تو تیسرے عشق کو بھلانا کونسا مشکل ہوگا کیونکہ اس کی افادیت صرف قیلوے کرنے کے مترادف ہوگی ۔ ”
خالد کو شاید ہماری طبعیت کا اندازہ نہیں تھا ۔ سو ہم نے ڈرتے ڈرتے ان سے سوال کیا
” اگر تیسرے عشق میں بھی ہم دل و جاں سے فدا ہوگئے تو ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ”
یہ سنتے ہی خالد صاحب نے پی آئی اے کے پرانے فوکر جہاز کی طرح کرسی پر بیھٹے بیھٹے کئی خوفناک جھٹکے لیئے اور پھر غصے سے کھڑے ہوگئے ۔
” یار ۔۔۔۔ عجیب آدمی ہو ۔۔۔۔ عشق بھی تم اس طرح ہضم کر لیتے ہو جیسے مولوی حلوے کا حشر کرتے ہیں ۔ میں تم کو اتنا مفید مشورہ دے رہا ہوں اور تم عشق میں ڈنڈی پہ ڈنڈی مار رہے ہو ۔ کچھ تو خوفِ خدا کرو ۔ ”
ہم ڈر گئے کہ خالد صاحب ناراض ہوگئے تو ان کو منانا پھر بہت مشکل ہوگا ۔
” سوری خالد ۔۔۔۔۔ میں تو مذاق کر رہا تھا ۔ بیٹھئے ۔۔۔ میں اور چائے کا آرڈر دیتا ہوں۔ ”
ہم نے خان صاحب سے ادھار کا تقاضا کرتے ہوئے تیسری چائے کا آرڈر دیا ۔
“خالد صاحب ۔۔۔۔ آپ کا مشورہ مجھے پوری طرح سمجھ آگیا ہے ۔ واقعی تیسرا مصنوعی عشق ہی اجالا اور شفق میں سے ، کسی ایک کے انتخاب میں مدد دے سکتا ہے ۔ مگر ہنوز دلّی دور است ” ۔ ہم نے اپنی پریشانی پھر ظاہر کی ۔
” اب کیا ہوگیا ۔ ؟ ”
خالد نے بیزاری سے استفار کیا
” یہ تیسرے عشق کا سامان کہاں سے دستیاب ہوگا ۔ ؟ ”
ہم نے بلآخر اپنا حتمی مدعا بیان کردیا ۔
خالد صاحب نے اپنی ” انٹولے ” جیسی آنکھوں کو بھینچنے کی کوشش کی ۔ اس سے پہلے وہ ہمیں کچھ اور خطابات سے نوازتے ۔ ہم نے فوراً کہا ۔
” لجیئے خالد صاحب ! چائے آگئی ۔۔۔ پیجیئے اور پلیز اس معرکہ کے آخری حصے پر بھی دماغ سوزی کرلیں ۔ ”
چائے دیکھ کر خالد صاحب کی آنکھیں واپس سواتی سیب جتنی ہوگئیں ۔
” میرے پاس اس کا بھی ایک حل ہے ۔ ” خالد نے کچھ توقوف کے بعد کہا ۔
ہماری باچھیں کان سے جا لگیں ۔
” جی جی ارشاد ۔۔۔۔ ”
ہم صبر کی آخری سرحدوں پر کھڑے ہوگئے
” میرے اسکول میں دسویں کلاس کے لیئے میتھ کے ٹیچر کی ضرورت ہے ۔ تم وہ جاب جوائن کرلو ۔ ”
ہمیں بڑا غصہ آیا کہ پورے 33 امتیازی نمبروں کیساتھ ہم نے دسویں کلاس میں حساب کا پرچہ پاس کیا تھا ۔ اب موصوف ہم کو جانے کس آزمائش میں دوبارہ دھکیل رہے تھے ۔
” اس سے کیا ہوگا جناب ۔۔۔۔ ” ہم نے بڑی عاجزی سے پوچھا ۔
” پوری بات سنو ۔۔۔۔۔ خالد صاحب نے ایک مشہور مذہبی اسکالر کی طرح ناصح انداز میں ہمیں مذید کچھ کہنے سے روک دیا ۔
” وہاں فیمل ٹیچرز ہیں ۔ جن میں سے اکثر میری طرح کالج میں بھی پڑھتیں ہیں اور اسکول میں بھی پڑھاتیں ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ آنکھ مٹکا کر لو ۔ ”
ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خالد صاحب ۔۔۔ گاؤں کے کسی چودھری کی طرح ہمیں اپنا اُچکا سمجھ کر کسی کڑی کو چُک لینے کی بات کر رہے ہیں ۔
” جناب ۔۔ یہ آنکھ مٹکا تو فلرٹ کے دائرے میں آتا ہے ۔ کیا ایسا کرنا مناسب ہوگا۔؟ ”
ہم نے اپنی بچی کچی اخلاقی جرات کو بروئے کار لاتے ہوئے خالد صاحب سے ان کے الفاظ کی نظرِ ثانی کی طرف اشارہ کیا ۔
” ہاں ۔۔۔ تمہیں فلرٹ ہی کرنا ہے ۔ اس لیئے اس لفظ کا انتخاب کیا ۔ اگر تیسرا سچا عشق کرنا ہے تو میری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے ۔ مگر خدا کے لیئے میرے پاس مت آنا ۔ مجھے چائے پینے کا شوق ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ زندگی کی باقی چائے، پاگل خانے میں بیٹھ کر پیئوں ۔ ”
خالد صاحب نے آخر کار ہری جھنڈی ہاتھ میں پکڑ لی ۔ اس سے پہلے وہ ہری جھنڈی لہراتے ۔ ہم نے کہا ۔
” ٹھیک ہے خالد صاحب ۔۔۔۔ ہم اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیئے پوری طرح تیار ہیں ۔ اب آگے آپ جو حکم کریں ”
پیر کے دن میرے اسکول آجانا ۔ میں اپنے اسکول کے پرنسپل سے ملا دوں گا ۔ میرے کہنے پر وہ تم کو انٹرویو کے بغیر ہی جاب دیدیں گے ۔ ”
ہم نے خالد صاحب کا ہاتھ کسی مرشد کی طرح بڑی عقیدت سے چوما ۔ جس سے کسی مرغی کے سالن کی بُو آرہی تھی ۔ اور پیر کو حاضر ہونے کا وعدہ کرتے ہوئے اجازت طلب کی۔
ابھی ہم اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھے ہی تھے کہ پیچھے سے خالد نے آواز لگائی ۔
” ہاں ایک بات دھیان میں رکھنا ۔ ”
ہم ہمہ تن گوش ہوگئے ۔
” وہاں پرنسپل کی لڑکی بھی پڑھاتی ہے ۔ خبردار ۔۔۔۔ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا ۔وہ ہماری منظورِ نظر ہے ۔ ”
” جو حکم جناب ۔۔ بندہ اس طرف دیوارِ چین تعمیر کرلے گا ۔ آپ بےفکر رہیں ۔ ”
” میں بے فکر نہیں رہ سکتا کہ تم وہاں نازل ہو رہے ہو ۔ خیر بس اب دھیان رکھنا ۔ خدا حافظ ”
ہم سوچ میں پڑگئے کہ کوئی لڑکی خالد صاحب کی منظورِ نظر کیسے ہوگئی ۔ کیونکہ اگر وہ کسی مرد کی آنکھوں میں اپنی بیضوی آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے تو وہ بھی چکرا جاتا تھا ۔ اور کسی صنف نازک کی آنکھوں میں براہ راست جھانکنے کا مطلب ، اس غریب کی بے ہوشی سے مشروط ہوتا تھا ۔ معاملہ یک طرفہ لگتا تھا ۔ مگر ہمیں اپنے معاملے کی فکر تھی ۔ لہذا ہم نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
(جاری ہے )
کچھ حسینوں کے خطوط ، کچھ تصویرِ بُتاں ( سانحہِ سوئم )
( سانحہِ سوئم )
ہم حسبِ وعدہ پیر کی صبح خالد صاحب کے اسکول پہنچ گئے ۔ ہم نے سفید کارٹن کی شرٹ اور بلو جینز پہن رکھی تھی ۔ ہماری معصوم سی شکل سے متاثر ہوکر اسکول کے چوکیدار نے ہمارے پسندیدہ لباس کو اسکول کی یونیفارم سمجھ کر ہمیں اندر جانے سے روک دیا اور کہا " اوئے خوچہ ! تم اتنی دیر سے اسکول کیوں آیا اے ۔ ام تم کو اندر نئیں جانے دیگا ۔ "
ہم نے کہا " خان صاحب ! آپ کو سمجھنے میں غلطی فہمی ہوئی ہے ۔ ام ۔۔۔۔ ہمارا مطلب ہے کہ ہم ۔۔۔ اس اسکول میں پڑھنے نہیں بلکہ پڑھانے آئے ہیں ۔"
خان صاحب بولے " اوئے امارا ساتھ مخولی مت کرو اور اپنا والدین ساتھ لاؤ ۔ "
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ خالد صاحب اندر سے نمودار ہوئے اور کہا " یار کہاں رہ گئے تھے اور یہاں گیٹ پر کیا کررہے ہو ۔ "
ہم نے کہا " لگتا ہے خان صاحب چوکیداری سے پہلے انڈر 19 کرکٹ ٹیم کی سلکیشن کمیٹی میں تھے کہ ان کو اپنی عمر کا یقین دلانا مشکل ہو رہا ہے ۔"
خالد نے ہماری بات کو نظرانداز کرتے ہوئے جلدی سے کہا کہ " چھوڑو اس قصے کو ، اندر چلو ۔ پرنسپل صاحب انتظار کر رہے ہیں ۔ "
ہم خالد کیساتھ پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوئے تو پرنسپل صاحب نے ہمیں بیٹھنے کو کہا ۔
پرنسپل صاحب نے ہمارے تعارف اور تعلیمی اسناد دیکھنے کے بعد کہا ۔
" خالد صاحب نے آپ کو یہاں کے قوانین اور باقی تفصیلات سے آگاہ کردیا ہوگا ۔ "
" آپ کو دن میں چار پریڈز لینے ہیں ۔ دو نویں اور باقی دسویں کلاس میں ۔۔۔۔۔ میں آپ کو ہزار روپیہ ماہانہ دوں گا ۔ آپ کو قبول ہے ۔ ؟ "
ہمیں تو پرنسپل صاحب ، پرنسپل سے زیادہ قاضی لگے ۔
ہزار روپے ہمارے دو ہفتے کا جیب خرچ تھا اور موصوف ہمیں ان پیسوں کی نوید ایسے سنا رہے تھے جیسے کسی خزانے کی کنجی ہمارے ہاتھ میں پکڑا رہے ہوں ۔ خیر ہمیں اپنے مقصد کی تکمیل سے غرض تھی اور وہ ان پیسوں کیساتھ ہو رہی تھی تو کیا برا تھا ۔ ؟
جی ۔۔۔ میں راضی ہوں ۔
ہم نے " قبول " ہے کہنے سے قدرے اجتناب کیا ۔
"گڈ ۔۔۔۔۔ خالد صاحب ! آپ ان کو ان کی کلاسز دکھادیں ۔ امید ہے کہ آپ کا وقت یہاں اچھا گذرے گا ۔ "
پرنسپل صاحب نے گویا ہمیں جانے کی اجازت دیدی ۔
وقت تواچھا گذرنا ہی تھا کہ ہم دیکھ چکے تھے کہ اسکول میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کے تناسب میں خاصا فرق تھا ۔بعد میں ہم نے حساب لگایا تھا تو یہ تناسب لڑکیوں کے حق میں نکلا ۔ یعنی 73 فیصد لڑکیاں اور 27 فیصد لڑکے ۔
سب سے پہلے خالد صاحب ہمیں اسٹاف روم لے گئے ۔ اور ہمارا تعارف تمام ٹیچرز سے کرایا ۔ ہمیں یہ دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی کہ پرنسپل صاحب نے ٹیچرز کی تعداد میں بھی اسکول کے طلباء و طالبات والا تناسب رکھا ہوا تھا ۔ خالد صاحب کے علاوہ ایک اور مرد ٹیچر تھے ۔ ان کا نام مجاہد معلوم ہوا ۔ شکل سے ہمیں حُجتی لگے ۔ ماشاءاللہ وہ اتنے باریش تھے کہ ان کو اپنے گربیاں کے چاک ہونے کی چنداں فکر کرنےکی ضرورت نہ تھی ۔انہیں اسلامیات کے مضامین پڑھانے کے لیئے مقرر کیا گیا تھا ۔ ہم تینوں کے علاوہ باقی سب خاتون ٹیچرز تھیں ۔ جن کی تعداد ہم پہلی نظر میں گن چکے تھے ۔ کُل تعداد اصولاً تو 9 بنتی تھی ۔ مگر ایک خاتون ٹیچر اتنی صحت مند تھیں کہ ہم اس تعداد کو ساڑھے 9 سے کم قرار دینے پر ہرگز تیار نہ ہوئے ۔ چند ایک اتنی حیسن تھیں کہ ہم نے سوچا کہ آج ہی سے اپنے عشق کے رجسٹر میں کسی ایک کا کھاتہ کھول دیں ۔ مگر خالد صاحب کی نظروں میں اپنے لیئے تنبیہ دیکھ کر ہم اس ارادے سے باز رہے ۔ خالد صاحب نے مذید کہا کہ کچھ ٹیچرز ابھی کچھ دنوںکی رخصت پر ہیں ۔ اُن سے تعارف اُنکی واپسی پر کرادیا جائے گا ۔ اس کے بعد خالد صاحب ہمیں نویں و دسویں کی کلاسز میں لے گئے اور وہاں بھی ہمارا تعارف کرایا ۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہماری اور طلباء و طالبات کی عمروں میں کچھ زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ سےطالبات ہمیں شوخی اور طلباء شکی نظروں سےدیکھ رہے ہیں ۔ پہلا دن تعارف کی نظر ہوگیا ۔ اور ہم پرنسپل اور خالد صاحب سے اجازت لیکر گھر روانہ ہوگئے کہ کل سے ہمیں باقاعدہ طور پر جاب پر آنا تھا ۔
دوسرے دن ہم ٹیچر کی حیثیت سے اسکول پہنچ گئے ۔ مگر خان صاحب کو دوبارہ گیٹ پر دیکھ کر ٹھٹکے ۔ لیکن خان صاحب نے ہمیں دیکھ کر اپنی باچھیں پھیلادیں ' اور کہا " پخیر راغلے سر جی ۔۔۔۔ آپ کو آج اسکول میں پہلا دن مبارک ہو " ۔ ہم نے خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اندر داخل ہوگئے ۔ خالد صاحب کی ہدایت کے مطابق ہم پہلے اسٹاف روم گئے ۔ جہاں خاتون ٹیچرز کے علاوہ مجاہد صاحب بھی براجمان تھے ۔ ابھی اسکول کی اسمبلی شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا ۔ سلام کے بعد مجاہد صاحب نے اپنی شخصیت کے تاثر کے عین مطابق باقاعدہ ہمارا انٹرویو لینے کا آغاز کردیا ۔ ہمیں بھی انٹرویو دینے میں کوئی ترّرد نہیں ہوا کہ تمام خاتون ٹیچرز کی نظریں اخبار اور کان ہمارے انٹرویو پر لگے ہوئے تھے ۔ ابھی وہ ہمارے شجرہ ِ نسب پر ہی تھے کہ خالد صاحب آگئے ۔ جس سے انٹرویو کا سلسلہ موقوف ہوگیا ۔
اسمبلی کے دوران ہم سے خالد صاحب نے سرگوشی سے پوچھا " کیا کوئی پیش رفت ہوئی ۔ ؟ "
ہم نے نفی سے سر ہلا دیا
" خیر ابھی پہلا دن ہے ۔ پہلے سب سے واقفیت پیدا کرلو ۔"
ہم نے شکر کیا کہ خالد صاحب کےدماغ میں یہ بات آگئی ۔
" آپ کی منظورِ نظر کہاں ہے ۔ آپ نے اس سے تعارف نہیں کرایا ۔ "
ہم نےایک خدشے کے پیشِ نظر خالد سے سوال کیا ۔
" کیوں ۔۔۔۔ اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو ۔ ؟ "
خالد نے شکی لہجہ اختیار کرتے ہوئے ہم سے الٹا سوال کر ڈالا ۔
" وہ اس لیئے کہ کسی سے " آنکھ مٹکا " کرنے سے پہلے ہمیں یہ علم ہونا چاہیئے کہ وہ کہیں آپ کی منظورِ نظر تو نہیں ۔ "
ہم نے جل کر جواب دیا ۔
" اوہ ۔۔۔ ہاں صحیح کہہ رہے ہو ۔ " خالد صاحب کے چہرے پر خجالت کے آثار نمودار ہوگئے ۔ مگر ان کی آنکھوں کے ڈیلے پھر بھی کسی تاثر سے بے نیاز رہے ۔
" وہ اپنی خالہ کے گھر لاہور گئی ہوئی ہے ۔ کچھ روز میں واپسی متوقع ہے ۔ "
اپنی منظورِ نظر کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں کے ڈیلوں کےدرمیان تعلقات اچانک کشیدہ ہوگئے ۔ شاید انہوں نے اس کے سراپے کے تصور کو مختلف زاویوں سے اپنے ڈیلوں میں سمونے کی کوشش کی تھی ۔
ہم اپنی باتونی طبعیت کے باعث خواتین ٹیچرز میں جلد ہی گھل مل گئے ۔ حسبِ توقع ہمیں کئی حسینوں نے آنکھوں کے راستے کئی سندیسے بھیجے ۔ جنہیں دیکھ کر ہمارا دل کئی بار مچلا ۔ مگر ہم نے اپنی فقیری عاشقانہ طبعیت کو بڑی مشکل سے قابو میں رکھا اور کوشش کی کہ آنکھیں بند کرکے کسی کیساتھ اپنے مصنوعی عشق کا آغاز کردیں ۔ مگر دل اس پر راضی نہ ہوا ۔ کئی دن اسی شش و پنچ میں گذر گئے ۔ اسی دوران خالد صاحب کی طبعیت ناساز ہوگئی اور وہ کچھ دن کی رخصت لیکر گھر پر آرام فرما ہوگئے ۔ چنانچہ ان کی کلاسیں لینا بھی ہمارا مقدر ٹہریں اور ہم مکمل طور پر تدریسی شعبے سے وابستہ ہوگئے ۔ ایک دن ہم دسویں کلاس کے آخری پریڈ میں جیومیٹری کے رازوں سے پردے اٹھا رہے تھے کہ اچانک ہماری نظر کلاس کے باہر کھڑکی سے راہدری میں پڑی ۔ جیومیٹری کے جس زاویئے کی ہم تعریف کررہے تھے اسی زاویئے پر ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ ایسا حیسن چہرہ ، ایسا حسین سراپا ، ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ امی حضور کی خواتین ڈائجسٹوں سے چوری چھپے پڑھی جانے والی کہانیوں کے تمام اقتباسات ہمارے ذہن میں یکدم روشن ہوگئے ۔ دودھیا رنگت پر کالی زلفیں ناگ بن کر اس کے سفید کارٹن کے کُرتے پر بنے ہوئے ڈیزائن سے اٹھکھلیاں کر تی ہوئی نظر آئیں ۔ ہرنی جیسی آنکھوں میں ستاروں جیسی چمک جھلملا رہی تھی ۔ سرخ انگوری ہونٹوں پر جان لیوا مسکراہٹ کا بسیرا لگا ۔ چوڑی دار پاجامے میں اس کی قد و قامت کسی دیودار کے درخت کی مانند لگی ۔ صراحی دار گردن میں ایک سنہری چین اپنی قسمت پر رشک کرتی ہوئی نظر آئی ۔ کانوں میں سلور جُھمکے سورج کی سنہری تپش میں قوح و قزح کا سماں باندھتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ کُرتے کے گلے کے کڑائی کے کام میں ہمارا پسندیدہ نیلا رنگ نمایاں تھا ۔ اسکے بائیں رخسار پر پڑے ہوئے گڑھے کے بھنور میں ہم نے خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کیا ۔ خواتین ڈائجسٹ کی کہانیوں میں پڑھے ہوئے بہت سے جملے ابھی باقی تھے کہ وہ ظالم حسینہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ، ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی ہوئی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔ اور ہم پلٹ کر دیکھنے والے کی طرح پتھر کے بُت بنے رہ گئے ۔ کب پریڈ ختم ہوا ۔ کب چھٹی ہوئی ، کب کس اسٹوڈینٹ نے آکر 180 کے زاویئے پر کُھلا ہوا ہمارا منہ بند کیا ، کچھ یاد نہیں ۔ بس اتنا یاد ہے کہ اس نے ہم کو ایک لمحے ترچھی نظر سے دیکھا تھا ۔ جو تیر کی مانند ہماری آنکھوں سے ہوتا ہوا دل میں اتر گیا ۔ اور ہم یہ کہنے کی آس دل میں لیئے کھڑے رہ گئے کہ ۔۔۔۔
ترچھی نگاہ سے نہ دیکھو اپنے عاشق ِ دل گیر کو
کیسے تیر انداز ہو ، سیدھا تو کر لو تیر کو
چھٹی کے بعد بھی ہم اُسے دیوانہ وار اسکول میں ڈھونڈتے رہے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئی ۔ اور ہم اس تڑپ کیساتھ گھر واپس لوٹے کہ " ایک بار دیکھا ہے ، دوسری بار دیکھنے کی تمنا ہے "۔ گھر آکر ہم کھانا کھائے بغیر اپنے کمرے میں چلے گئے اور اس کے تصور میں کھو گئے ۔ کاش کسی فلم کے ہیرو ہوتے تو خیالوں میں اس کے ساتھ کسی گانے میں جلوہ افراز ہوجاتے اور گانے کا ایک سین سنگاپور میں فلماتے تو دوسرا سین سوئیزلینڈ میں اور کوئی روک ٹوک بھی نہیںہوتی ، بلکہ پورا فلمی اسٹاف ہمارے عشق کے تحفظ کی خاطر کمیرے لیئے ہمارے آگے پیچھے ہوتا ۔ رات خوابوں میں بھی وہی سراپا لہراتا رہا ۔ ہم خلاف ِمعمول صبح جلدی اٹھ گئے ۔ اور حسب ِ معمول والدِ محترم نے ہمیں حیرت سے دیکھا اور کہا " جاؤ ! سو جاؤ ۔۔۔ میں دودھ لے آیا ہوں ۔ " ہم ان کے طنز پر کوئی تبصرہ کیئے بغیر ، فجر کی نماز پڑھنے کا اعادہ کرتے ہوئے وضو کے لیئے باتھ روم میں گھس گئے۔ ہمیں یاد آیا کہ ہم نے آخری بار ساتویں کلاس میں فجر کی نماز پڑھی تھی جس میں اللہ میاں سے سالانہ امتحان کے پرچے میں ہونے والی غلطی کی درستگی کے لیئےگڑگڑا کے دعا کی تھی ۔ کیونکہ ہم تاریخ کے پرچے میں زبردست دھاندلی کے مرتکب ہوئے تھے کہ دیوارِ برلن توڑنے کا سہرا محمود غزنوی کے سر باندھ آئے تھے ۔
( چند حسینوںکے خطوط ، چند تصویرِ بُتاں ( حصہِ انکشاف )
پھر عجب امتحاں آپڑا تھا ۔ ہم عارضی عشق میں مبتلا ہونے آئے تھے ۔ مگر یہاں مستقل عشق کے آثار پیدا ہوچلے تھے ۔ جس سے ہمارے موجودہ دونوں عشقوں کی بقا ، ملک کی سالمیت کی طرح خطرے میں پڑ چکی تھی ۔ کیونکہ صبح کا اجالا اور شام کی شفق کا خیال ہمارے ذہن سے ایکدم محو ہونا شروع ہوگیا تھا۔ سوچا تھا کالج کی چھیٹیوں میں اسکول کی جاب جوائن کرکے جب مصنوعی عشق میں مبتلا ہوجائیں گے تو کالج واپسی پر ہمیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجائےگی ۔ مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ ہمارا نام تاریخ میں عشق کے حوالے سے فلمسٹار جاوید شیخ کیساتھ لکھے جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔ جس کے ہم ہرگز محتمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ ناچار ہمیں اس سلسلے میں دوبارہ خالد صاحب سے رجوع کرنا پڑا جو بیمار تھے ۔ ہماری اطلاع کے مطابق خالد صاحب معمولی سے موسمی زکام کا شکار تھے ۔ سو ہم نےاسکول جانے سے قبل ان کی عیادت کا پروگرام بنایا اور ان کے گھر پہنچ گئے ۔
خالد صاحب کو جس حال میں ہم نے بسترِ علالت پر دیکھا تو سوچا کہ عیادت کے بجائے ان کی تعزیت کرکے چلے جائیں ۔ مگر ہم نے اس فریضے کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھا ۔ ہمیں ان کی شکل کسی سوکھی ہوئی ، اُلٹی ناسپاتی کی طرح لگی ۔ موصوف دو عدد بڑے سائز کے کمبلوں میں 35 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں لپٹے ہوئے پڑے تھے ۔ داوؤں کا ایک وافر ذخیرہ ان کے بستر کے ساتھ میز پر پڑا ہوا تھا ۔ جسے دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ بازار میں داوؤں کی قلت کا ذمہ دار کون ہے ۔ کچھ دیر ہم خاموشی سے بیٹھے رہے مگر جب خالد صاحب نے کوئی حرکت نہ کی تو ہم نے سوچا ان کے گھر والوں کو خبر کردیں کہ خالد صاحب کا کمرہ ان کے چھوٹے بھائی کے لیئے خالی ہوگیا ہے ۔ مگر اچانک خالد صاحب کروٹ بدلتے ہوئے زور سےکراہے تو ہم نے اس خبر کی اشاعت موخر کردی ۔ خالد صاحب نے اپنی انڈے نما بیضوی آنکھوں سے ہمیں دیکھا تو ہم نے جھٹ سے سلام جڑ دیا ۔ اور ان کی خیریت پوچھی ۔
انہوں نے خفگی کا اظہار کیا اور کہا " اب آئے ہو ۔۔۔۔ وہ بھی اکیلے " ۔
ہم سے رہا نہیں گیا اور کہا " آپ فکر نہ کریں ۔ تین آدمی بھی کہیں سے مل ہی جائیں گے ۔ "
انہوں نے ہماری بات کو شاید سمجھا نہیں اور کہا " میرا مطلب ہے کہ ہماری منظورِ نظر کو بھی ساتھ لے آتے ۔ کم از کم مجھے اس حال میں دیکھ کر اس کا دل پسیجتا اور اپنا دل ہار بیٹھتی ۔ " ہم سمجھ گئے کہ خالد صاحب نے روایتی عاشقوں کی طرح اپنی بیماری کا ڈرامہ رچا کر اپنی منظورِ نظر کی ہمددریاں سمیٹنے کی کوشش کی ہے ۔
" خالد صاحب ۔۔۔ ! ہماری اطلاع کے مطابق ، آپ کی منظور نظر کی اب تک واپسی نہیں ہوئی ہے ۔ مگر آپ کے ڈرامے میں اس قدر جان ہے کہ اگر وہ آ بھی جاتی تو سب سے پہلے آپ کو اس حال میں دیکھ کر آپ کے چالیسویں کا دن ضرور مقرر کرتی ۔ کچھ خدا کا خوف کرو یار ۔ اس قدر گرمی میں دو لحاف لیکر پڑے ہوئے ہو ۔"
" لگتا ہے میری ٹائمنگ غلط ہوگئی کہ میری اطلاع کے مطابق اس کو اب تک آجانا چاہیئے تھا ۔ خیر تم سناؤ کیا پروگریس ہے ۔ "
انہوں نے جھنپتے ہوئے اپنے ایکسرے جیسے جسم سے دونوں لحاف ہٹاتے ہوئے سوال کیا ۔
" کیا بتاؤں ۔۔۔ بس قیامت ہوگئی ہے ۔ " ہم نے اضطراری کیفیت اختیار کرتے ہوئے جواب دیا ۔
" کیا مطلب ۔۔۔۔ اسکول میں تو سب ٹھیک ہے ناں ۔ کہیں تم نے ۔۔۔۔۔ " اس سے پہلے خالد صاحب ہمارے کردار پر سیاستدانوں کی طرح انگلیاں اٹھاتے، ہم نے انہیں روک دیا ۔
" یار ! پوری بات سنو " ہم نے جُھلجھلاتے ہوئے کہا ۔
" ہم تیسرے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ " ہم نےاپنی نئی کشمکش کا سبب ان کے سامنے بیان کردیا ۔
" ویری گڈ ۔۔۔ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ کالج کی چھٹییاں ختم ہونے سے پہلے تمہارا مسئلہ حل ہوگیا ۔ اب دیکھتے ہیں کہ کالج واپسی پر تمہارے نصیب میں صبح کا نور آتا ہے یا شام کا چراغ ۔ "
" ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ معاملہ ہمیشہ کی طرح المناک صورت اختیار کرگیا ہے ۔ " ہم نے رونی سی صورت بنا لی ۔
" کیوں کیا ہوگیا " خالد صاحب نے تشویش اور حیرت کی درمیان گُھسنے کی کوشش کرتے ہوئے سوال داغا ۔
" کل ہم نے جو حیسن سراپا دیکھا ، اس کے بعد دل کسی طرف مائل نہیں ہورہا ۔ سمجھ نہیں آتا کہ ایکدم سے ہمیں کیا ہوگیا ہے ۔ "
پھرہم نے بےچارگی کے عالم میں یہ شعر پڑھا ۔۔۔
میری قسمت میں عشق گر اتنے تھے
دل بھی یارب کئی دیے ہوتے
" یار ! کم از کم شعر تو صحیح کہہ لو " خالد صاحب نے بسترِ مرگ پر بھی غالب کا دفاع کیا ۔
" جنابِ من ۔۔۔ اگر چچا غالب ایسی کشمکش میں مبتلا ہوتے تو وہ بھی اسی خیال کے مالک ہوتے ۔ انہیں تو ایک عشق نے اتنے غم دے دیئے ۔ ہمارا سوچو کہ ہم اتنے عشقوں کے ساتھ کتنے غم جھیل رہے ہونگے ۔ "
ہم نے خالد صاحب پر پوسٹ مارٹم شدہ شعر کے فضائل وضع کرنے کی کوشش کی ۔
" اچھا چھوڑو یہ شعر و شاعری اور بتاؤ ۔۔۔۔۔ پھر کیا ہوا ، کون تھی ، کیا کوئی بات ہوئی ، اسکول ٹیچر تھی یا کوئی وزیٹر تھی ۔ ؟ "
خالد صاحب نے ایک ساتھ 12 وٹامن کی گولیاں کھا کر سوالات کی بوچھاڑ کرڈالی ۔
" بس اسکی ایک جھلک دیکھ پایا ، اور اس نے جس نظر سے ہمیں دیکھا ، ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس نظر میں کچھ اور تسلسل رہتا تو ہم دیوانے ہوجاتے ۔ "
ہم نے خالد صاحب پر اپنی کیفیت عیاں کرنے کی کوشش کی ۔
" ہمممم ۔۔۔۔ " خالد صاحب نے سوچ میں پڑگئے ۔
" آج اسکول جاؤ ۔۔۔۔ اگر ٹیچر ہے تو ضرور نظر آجائے گی ۔ ویسے تم نے کسی میلے میں ماں سے بچھڑے ہوئے بچے کی طرح اپنی جو شکل بنا رکھی ہے ۔ اسے دیکھ کر یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ تمہارا آخری اور حتمی عشق ہوگا ۔ اور اگر ایسا ہے تو تم کو چنداں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تمہارے "سابقہ " عشقوں کا کیا ہوگا ۔ میرے بھائی ۔۔۔ ! زندگی میں ایک ہی عشق کافی ہوتا ہے ۔ اگر یہ عشق سچا ہے تو تمہارے عشقوں کو بریک لگ جانا چاہیئے ۔ اس صورتحال میں یہ سودا برا نہیں ہے ۔ "
خالد صاحب نے ہمارے موجودہ عشقوں کو سابق قرار دینے کا فتوی جاری کرتے ہوئے ہماری فقیرانہ طبعیت پر بھی چوٹ کی ، مگرہم نے اسے نظرانداز کردیا کیونکہ ہمیں کوئی ایسا سیاسی بہانہ درکار تھا جو ہمیں اپنے پچھلے بیانات ( عشق ) سے منحرف کردے ۔ چنانچہ ہم نے ان کے فتویٰ پر لبیک کہتے ہوئے اپنے دونوں عشقوں سے منحرف ہوتے ہوئے اس کی تمام تر ذمہ داری خالد صاحب پر ڈال دی ۔
" خالد صاحب ۔۔۔۔ تُسی گریٹ ہو " ہم جذبات سے مغلوب ہوگئے ۔ مگر ہم نے ان کے ہاتھ چومنے سے پرہیز کرتے ہوئے صرف اسے تھامنے تک ہی محدود رکھا ۔ کیونکہ کسی سالن کی بُو کیساتھ اب ہم میں داؤوں کی بُو سونگھنے کی بلکل ہمت نہیں تھی ۔
خالد صاحب کی دعاؤں اور فتوے کیساتھ ہم اسکول کی طرف روانہ ہوئے ۔ جانے کیوں دل کو یقین ہوچلا تھا کہ آج اُس لالہ رخ سے ملاقات ہوجائے گی ۔ راستے میں اس حسینہ کے تصور میں ہم کچھ ایسے منہمک ہوئے کہ اسکول سے بھی تقریبا تین کلو میٹر آگے نکل گئے ۔ ہوش تب آیا جب ہم ایک بھینس سے بغلگیر ہوتے بال بال بچے ۔ بھینس نے غصے کے عالم میں اپنی غزالی آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور ایک لمبی سی " ہوں " کی ، ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کہہ رہی ہو " شرم نہیں آتی کسی کو چھیڑتے ہوئے ۔ " ۔ بھینس کے اس شکوے پر ہمیں اپنے ذوق کی بے مائیگی کا شدت سے احساس ہوا ۔ مگر ہم نے یہ بھی شکر کیا کہ آس پاس کوئی بیل نہیں تھا ۔ ورنہ اس کو بھینس کے سامنے اپنے نمبر بناتے ہوئے ذرا سی بھی دیر نہیں لگتی ۔ ہم نے کمالِ پھرتی سے موٹر سائیکل کو واپس موڑا اور دوبارہ اسکول کی طرف روانہ ہوگئے ۔ اسکول ذرا تاخیر سے پہنچے ۔ اسمبلی شروع ہوچکی تھی اور قرات جاری تھی ۔ ہم سیدھا اپنی جگہ گئے اور وہاں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے ۔ غیرارادی طور پر ہماری نظر سامنے خواتین ٹیچرز کی قطار پر پڑی ۔ وہ وہاں موجود تھی ۔ ہمارا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔ ہم نے واضع طور پر اس کو اپنی طرف متوجہ پایا ۔ ہمارے دل کی دھڑکن اتنی بلند ہوگئی کہ ساتھ کھڑے ہوئے مجاہد صاحب ہمیں خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ شاید ان کا خیال تھا کہ ہم اپنی جیب میں واک مین لیئے گھوم رہے ہیں ۔ خوشی کے عالم میں ہم قومی ترانے میں بھی ہاتھ باندھے کھڑے رہے ۔
حسبِ معمول اسمبلی سے فارغ ہوکر ہم اسٹاف روم آئے ۔ ہمارے ساتھ مجاہد صاحب بھی تھے ۔ کیونکہ ان کا بھی ہماری طرح کلاس ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے پہلا پریڈ کہیں نہیں تھا ۔ ہمیں بے چینی سے اس حسینہ کے کوائف درکار تھے ۔ مجاہد صاحب سے اس بارے میں پوچھنے کا مطلب پولیس کے تفتیشی مراحل سے گذرنا تھا ۔ سو ہم خاموش رہے ۔ ہم نے وقت گذاری کے لیئے اخبار کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وہ اسٹاف روم میں داخل ہوئی اور عین ہماری سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی ۔
" السلام علیکم سر " ۔ ہمیں ایسا لگا جیسے کسی نے کوئی مدھر سا گیت چھیڑ دیا ہو ۔ وہ ہم سے ہی ہمکلام تھی اللہ اللہ ۔
" وعلیکم السلام " ہم نے مشینی انداز میں جواب دیا ۔
" آپ کے بارے میں کافی سنا تھا ، سوچا کہ واپسی پر فوراً آپ سے ملاقات کی جائے ۔ مگر ۔۔۔۔ کل آپ کہاں غائب ہوگئے تھے ۔ " اس نے شکوے بھرے لہجے میں پوچھا ۔
ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے دفتر سے واپسی پر تاخیری کے سبب ہمیں نخرہ دکھایا جا رہا ہے ۔ اور پھر ہم نے خیالوں ہی خیالوں میں دروازے پر شوہروں کی طرح اسے اپنا بریف کیس پکڑواتے ہوئے بھی دیکھا ۔
" سر ۔۔۔۔ کہاں ہیں آپ " اس نے ہمیں دوبارہ اسٹاف روم میں لاتے ہوئے پکارا ۔
ہم اس کو کیا بتاتے کہ " اے حسینہ ! کل تجھ کو کہاں نہیں ڈھونڈا ، ساری رات ہم نے تیرے تصور میں گذاری ، چوبیس گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں ہم اپنے تمام سابقہ عشقوں سے بھی تائب ہوئے ۔ "
" دراصل کل مجھے جلدی تھی ۔ اس لیئے میں چلا گیا تھا ۔ " ہم نے اپنی خودی کو بلند رکھا
" اوہ ۔۔۔۔ خیر آپ سنائیں ، اسکول میں پڑھانے کے سوا اور آپ کیا کرتے ہیں ۔ " اس نے بڑی انہماکی سے پوچھا
" پڑھانے کے علاوہ ہم بس عشق کرتے ہیں ۔ " ہمارے منہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا ۔
" ہم فرسٹ ائیر کے طالب علم ہیں ۔ خالد صاحب نے کالج کی چھٹیوں میں اسکول میں پڑھانے پر راغب کیا کہ اس سے پچھلے نصابوں کی بھی یاد دہانی ہوجاتی ہے ۔ "
ہم نے کمالِ ڈھٹائی کیساتھ دروغ گوئی سے کام لیا ۔
" ہاں یہ تو سچ ہے ۔ کیونکہ میں نے بھی یہی سوچ کر یہاں پڑھانے کا سلسلہ جاری کیا اور اس بہانے پاپا کا بھی کچھ کام سنبھال لیتی ہوں ۔ "
اس کے جملے کے آخری حصے سے ہمارے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجی اور ہم نے استفار کیا ۔
" پاپا کا کام ۔۔۔۔۔ میں کچھ نہیں سمجھا ۔ "
" ارے ۔۔۔ ہاں آپ نئے ہیں ناں ۔۔۔ اس لیئے شاید آپ کو علم نہیں کہ پرنسپل صاحب میرے پاپا ہیں ۔ "
اس نے ہمارے سر کے عین اوپر گویا دنیا کے تیسرے ایٹم بم کا دھماکہ کرتے ہوئے انکشاف کیا ۔
ہم اپنی محبت کے تصوراتی ڈرامے کے پہلے ہی سین میں بریف کیس سمیت دروازے پر سے ہی لوٹا دیئے گئے ۔
کیونکہ اس بار جس کو ہم اپنا دل دے بیٹھے تھے ۔ وہ خالد صاحب کی منظورِ نظر تھی ۔
( جاری ہیں )
چند حسینوںکے خطوط ، چند تصویرِ بُتاں ( قصہِ پنجم )
ہم ہکا بکا بیھٹے رہ گئے ۔ ہمارے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ یہ حسینہ خالد صاحب کی منظورِ نظر نکلے گی ۔ اور ستم یہ تھا کہ خالد صاحب اپنے عشق کی آگ میں یکطرفہ جل رہے تھے ۔ کیونکہ قرائین و شواہد کہتے تھے کہ موصوفہ خالد صاحب میں ہرگز دلچسپی نہیں رکھتی اور نہ ہی اس پر خالد صاحب کے دل کی حالت عیاں ہے ۔ سو ایک تضاد تھا ۔ مگر ہم نے فلمی روایت پر عمل کرتے ہوئے دوستی پر اپنے عشق کو قربان کرنا بہتر سمجھا ۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ خالد صاحب اپنے انٹولے جیسی آنکھوں میں آنسو لیئے گلی گلی گاتے پھریں کہ " دوست دوست نہ رہا ، پیار پیار نہ رہا " ۔
اس دن ہم نےاسکول میں بےکیف سا وقت گذارا ۔ اسکول واپسی پر ایک پی سی او سے ہم نے خالد صاحب کو فون کرکے ان کی محبوبہ کی آمد کی خبر سنا دی ۔ دوسری طرف سے ہمیں ایک ہچکی سی سنائی دی ۔ اب پتا نہیں وہ خالد صاحب کی آخری ہچکی تھی یا اس خبر سے ان کی قوتِ گویائی متاثر ہوچکی تھی ۔ خیر ہم نے اپنا فرض پورا کردیا تھا ۔ اس لیئے خاموشی سے ریسور رکھ کر پی سی او سے باہر نکل گئے ۔ مگر سیدھا گھر جانے کے بجائے مرزا کباب والے کی دوکان پر رُک گئے کیونکہ سخت بھوک لگی ہوئی تھی ۔ ( ٹینشن میں ہمیں ہمیشہ بھوک لگتی ہے ) ۔ ہم نے مرزا جی سے کباب بنانے کو کہا اور وہاں بینچ پر بیٹھ گئے ۔ مرزا جی نے کباب کو سیخ پر گھماتے ہوئے کہا " کیا بات ہے حجور ۔۔۔ آج سکل پر بارہ کیوں بج رہے ہیں ۔ ؟"
ہمارے خیمے میں پہلے سے ہی آگ لگی ہوئی تھی ۔ مرزا جی نے اور تیل چھڑک دیا ۔
ہم نے بھنا کر جواب دیا " مرزا جی ! ماہر نفسیات مت بنو ، کباب بناؤ "
ارے ارے ۔۔۔۔ آج تو چھوٹے خان صاحب کا مجاج انگاروں کے مافق گرم ہے ۔ خیر تو ہے ۔ ؟ ( والدِ محترم خان صاحب کے لقب سے پہچانے جاتے تھے ) ۔ " مرزا جی نے ہاتھ کے پنکھے سے انگاروں کو ہوا جھلتے ہوئے اپنی فکر کا اظہار کیا ۔
" ہاں ۔۔۔ سب ٹھیک ہے مرزا جی " ۔ تھوڑا توقف کے بعد ہم نےکہا ۔
" نہیں ! حجور کوئی بات ہے جرور ۔۔۔۔۔ ہمیں تو چھوکری وکری کا چکر لگے ہے ۔ "
ہم کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مرزا جی نے سیخ پر کباب نہیں بلکہ ہمارا دل پرو کر انگاروں میں جھونک دیا ہو۔ ہم انکے قیاس پر حیران رہ گئے ۔
" تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو۔ ؟ ہم نے حیران نہ ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے پوچھا ۔
" ارے چھوٹے خان صاحب ۔۔۔۔ آپ کی سکل بتا رہی ہے کہ بڑے بے آبرو ہوکر کسی کے کوچے سے نکلے ہو ۔" مرزا جی نے ہماری کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آنکھ مارتے ہوئے جواب دیا ۔
اچھا ۔۔۔ اچھا ۔۔۔ جلدی سے کباب دو اور ۔۔۔ تفتیش کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو پولیس میں نوکری کرلو ۔ اور ہاں ۔۔۔ یہ ساری سیخیں بھی اپنے ساتھ لیتے جانا کہ شاید کسی ملزم سے کچھ اگلوانا پڑجائے ۔ "
ہم نےجلے بھنے انداز میں ان کے صحیح قیاس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور کباب لیکر دوکان کے سامنے بچھی ہوئی بنچ پر بیٹھ کر چپاتی اور کبابوں سے اپنے ناکام عشق کا بدلہ لینا شروع کردیا ۔ عشق کے معاملے میں ہم ہمیشہ چھپڑ پھاڑ قسمت کے مالک رہے تھے ۔مگر اس بار جس عشق کو ہم حتمی سمجھے تھے وہ نہ صرف اپنے فلمی منطقی انجام کو پہنچا تھا بلکہ ساتھ ساتھ سوئمنامی طوفان کی طرح ہمارے دیگر عشقوں کو بھی بہا کر لے گیا تھا ۔اور ہم جیسے ، کیلے کے درخت پر لٹکے رہ گئے تھے ۔ جس پر زیادہ دیر تک لٹکنا بھی ممکن نہ تھا ۔
ہم اپنے تمام مرحوم عشقوں کے تجزیئے میں مصروف ہی تھے کہ کسی ہارن کی تیز مسلسل آواز نے ہماری سماعت پر برا اثر ڈالا اور ہم نے انتہائی کوفت کے عالم میں ہارن کی آواز کی سمت میں دیکھا تو ایک باریش بزرگ موٹر سائیکل پر چلے آرہے تھے ۔ اور انہوں نے ہارن پر اپنی انگلی اس طرح رکھی ہوئی تھی کہ جیسے وہ وہاں سے آکسجین حاصل کر رہے ہوں ۔ بصورتِ دیگر اس طرح سے ہارن سے بدتمیزی کرنا کیا معنی رکھتا تھا ۔ جبکہ سڑک پر اتنا رش بھی نہیں تھا ۔ ان صاحب کے عقب میں ہم نے واضع طور پر کسی خاتون کو روایتی انداز میں موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا دیکھا ۔ ہماری تو آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کوئی خاتون اس زاویئے سے موٹر سائیکل کی سیٹ پر بیٹھ کر اپنا توازن کیسے قائم رکھتیں ہیں ۔ یہ معمہ حل کرنے کے لیئے ایک دن ہم نے اپنے ایک دیرینہ دوست کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اپنی موٹر سائیکل پر ہمیں اس طرح بیھٹنے کی اجازت دے تاکہ ہم اس توازن کی کوئی شرعی اور سائنسی توجہہ کو سمجھ سکیں ۔ ہمارے اس دوست نے کچھ دیر تو ہمیں بڑی عجیب نظروں سے دیکھا اور پھر موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے یہ جا وہ جا ۔ کمبخت پتا نہیں ۔۔۔ کس قسم کے مضر خیالات اور عقائد ہمارے خلاف اپنے ذہن میں برپا کرکے چلا گیا تھا ۔ وہ دن تھا اور آج کا دن ہے ، اس کو پھر کبھی اپنے پاس پھٹکتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ہارن مسلسل بجتا رہا اور موٹر سائیکل ہماری سمت بڑھتی ہوئی ہمارے سامنے سے گذرنے لگی ۔ ہم نے اپنی توجہ بزرگ سے ہٹا کر خاتون کی طرف مرکوز کی تو ہمیں احساس ہوا کہ وہ کسی کالج کی یونیفارم میں ملبوس کوئی خاتون ہیں جو شاید اپنے والد کیساتھ موٹر سائیکل پر کہیں جا رہیں تھیں ۔ ہم نے ایک اُچٹتی سی نظر جب اس کے چہرے پر ڈالی تو مرزا جی کا گولہ کباب ہمارے گلے میں پھنستے پھنستے بچا۔ سفید دوپٹے کے حصار میں وہ چہرہ ہمیں Pink Rose کی مانند لگا ۔ اللہ کی پناہ ۔۔۔ اتنی بڑی اور گہری سیاہ آنکھیں ہم نے پہلے زندگی میں کسی کی نہیں دیکھیں تھیں ۔
یہ سب سیکنڈوں میں ہوا ۔ اور موٹر سائیکل ہمارے سامنے سے گذرگئی ۔ ہم نے تڑپ کر موٹر سائیکل کے تعاقب میں دیکھا تو موصوفہ دوسری طرف منہ کرکے بیٹھیں ہوئیں تھیں ۔ یعنی اب ان کے چہرے کا صرف سائیڈ ہی دیکھا جا سکتا تھا ۔ اور وہ بھی مکمل طور پر پردے کے احکامات کے تعمیل میں مصروف تھا ۔ اچانک اس نے ہمیں پلٹ کر دیکھا اور مسکرادی ۔ ہمارے جسم میں گویا کرنٹ سا دوڑ گیا ۔ بخدا وہ واقعی بہت بڑی اور روشن آنکھیں تھیں ۔ ہمیں وہ غزل یاد آگئی جس میں جگجیت سنگھ نے ہوش والوں کو بتایا تھا کہ " بے خودی کیا چیز ہے " ۔ ہمارے سامنےگویا سونالی باندرے تھی اور ہم عامر خان کی طرح اپنے لزرتے ہوئے جسم پر قابو رکھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ لمحوں میں یہ قیامت کا سفر ختم ہوگیا ۔ اور موٹر سائیکل ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی ۔
ہم ایک عجیب سے احساس کیساتھ واپس گھر لوٹے ۔ اب جدھر بھی ہم نظر اٹھاتے ۔ وہیں ہمیں وہ دو بڑی بڑی ، کالی سیاہ روشن آنکھیں نظر آتیں ۔ اور ہم پر ایک سرشاری کی کیفیت سوار ہوجاتی ۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے ہمیں ہیروئن کی آنکھیں بھی اسی کی مانند نظر آئیں ۔ مگر جب اس سراب کا اطلاق نثار قادری کے چہرے پر نظر آیا تو ہم لاحول پڑھتے ہوئے اس سراب کے گرداب سے باہر نکل آئے اور سونے کی تیاری میں مشغول ہوگئے ۔
صبح چھٹی تھی ۔ ہماری خواہش تھی کہ ہم دیر تک سوتے ۔ مگر جس باقاعدگی سے ہم علی الصباح روز اٹھ رہے تھے تو ڈر تھا کہ والد ِ محترم سے کہیں یہ جملہ سننا نہ پڑ جائے کہ " اب اٹھے ہو ، آج تو دودھ سارا بک گیا ۔ " سو جی نہ چاہتے ہوئے بھی جلدی اٹھ گئے ۔ ناشتے کے بعد ہمارا ارادہ تھا کہ آج کچھ بچھڑے ہوئے دوستوں کو اپنا شرفِ دیدار بخشیں گے ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیئے جونہی ہم نے اپنی موٹر سائیکل گھر سے باہر نکالی تو سامنے والے گھر سے وہی موٹر سائیکل والے بزرگ اپنی موٹر سائیکل باہر نکالتے ہوئے نظر آئے ۔ جن کیساتھ ہم نے سونالی باندرے کو دیکھا تھا ۔ ہمیں بریک سا لگ گیا ۔ اور ہم گوند لگی گولی کی طرح اپنی موٹر سائیکل سے چپک گئے اور موٹر سائیکل کے وہ حصے بھی صاف کرنے لگے ۔ جہاں ہاتھ تو درکنار انگلی بھی نہیں جاتی تھی ۔ ہمیں حیرت تھی کہ جہاں ہم پیدا ہوئے اور جہاں بچپن گذارا اور جہاں سے جوانی کا آغاز کیا ۔ عین اسی محلے میں اس قدر حسن برپا تھا اور ہمیں خبر بھی نہ تھی ۔ اور جانے ہم کہاں کہاں بھٹک رہے تھے ۔ محترم بزرگ نے کسی کو اندر آواز دی اور موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے لگے ۔ ہم کنکھنیوں سے یہ سارا منظر دیکھنے لگے ۔ بزرگ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہی دوشیزہ دروازے پر نمودار ہوئی ۔ اس کے ہاتھ میں شاید کچھ کاغذات تھے جو وہ ان بزرگوار کو دینے آئی تھی ۔ اس دوران اس کی بھی نظر ہم پر پڑگئی ۔ اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں حیرت کے سائے لہرائے ۔ مگرپھر وہ نارمل ہوگئی ۔ شاید اسے احساس ہوگیا تھا کہ ہمارا تعلق اسی گھر سے ہے ۔ بزرگ رخصت ہوچکے تھے ( مطلب کہ گھر سے رخصت ہوچکے تھے ) ۔ سو ہم اپنے تمام خواص کیساتھ اس کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ وہ بھی ہمیں نہ دیکھتے ہو ئے بھی دیکھ رہی تھی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ نمایاں تھی ۔ موصوفہ پہلے دن سے ہی ہم میں دلچسپی لے رہیں تھیں ۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ یہ سب اُس فئیر اینڈ لوَلی کا کمال ہے جو ہم نے ایک دوست کے کہنے پر گذشتہ ماہ سے استعمال کرنا شروع کی تھی ۔ ہم نے بھی جگجیت سنگھ کی غزل کی حقیقت کو سامنے رکھ کر " بے خودی " کے عالم میں موٹر سائیکل صاف کرتے ہوئےاپنا ہاتھ جلتے ہوئے سائلنسر پر بھی رکھ دیا ۔ مگر ہمیں کچھ محسوس نہیں ہوا ۔ تکلیف تب محسوس ہوئی جب فضا میں مرزا کباب والے کے کبابوں سے ملتی جلتی بو ہم نے محسوس کی ۔ پھر جھٹکے کیساتھ ہم نے اپنی ہتیھلی سائلنسر سے اٹھانے کی کوشش کی ۔ مگر ہتیھلی کو گویا وہ در چھوڑنا گوارا نہیں تھا ۔ ہم تکلیف سے بلبلا اٹھے ۔ ہماری حالت دیکھ کراُس سے رہا نہ گیا اور وہ حجاب کے تمام پردے چاک کرتی ہوئی ہمارے پاس آپہنچی ۔
" حد کرتے ہیں آپ بھی ۔۔۔۔۔ " آواز تھی یا گویا سخنور بھیا نے ستار کے تاروں کو کہیں سے چھیڑا تھا ۔ ہم اپنی تکلیف بھول گئے ۔ ہماری ہتیھلی پر دل جیسا نشان بن چکا تھا ۔ جسے وہ اپنے دوپٹے سے لپٹنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
" میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔ میری فکر نہ کجیئے '" ہم نے پہلی بار اپنی عاشقانہ طبعیت کے برعکس متانت اور سنجیدگی سے کہا ۔ ( جس پر ہمیں خود بھی حیرت ہوئی ۔ ورنہ ہم سمجھے تھے کہ کسی فلمی گانے کا آغاز ہونے والا ہے )
" کیسے ٹھیک ہیں آپ ۔۔۔۔ دیکھیئے آپ نے اپنی پوری بائیں ہتیھلی جلا لی ہے ۔ " اس نے تشویش بھرے لہجے میں ہمیں ہماری ہتیھلی دکھانےکی کوشش کی ۔
اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ اور میں عین گلی میں ہیں ۔
" دیکھئے آئندہ احتیاط سے کام لجیئے گا ۔ میں چلتی ہوں ۔ " جس تیزی سے وہ ہماری طرف آئی تھی اسی تیزی سے وہ اپنے گھر کی طرف دوڑ گئی ۔
" آپ کا دوپٹہ " ہم نے صدا لگائی ۔
" پھر لے لوں گی "
ہم اپنا زخمی ہاتھ لیئے گلی کے کونے پر واقع اپنے جگری یار غیاث کے گھر گئے ۔ صبح کے 11 بج رہے تھے اور وہ صحن کے عین وسط میں منہ کھولے چارپائی پر سو رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر چار پانچ مکھیاں منہ کے معائنے میں مصروف تھیں ۔ مگر جراثیموں کے ڈر کہ وجہ سے اندر جانے سےگریز کر رہیں تھیں ۔ ہم نے اس کو لات مار کر اٹھایا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ ہمیں دیکھا تو کہنے لگا " ظالم ۔۔۔ آخری سین چل رہا تھا ۔ ۔۔۔ گلے بھی ملنے نہیں دیا ۔ " ہم نے کہا " ابے ! اپنی فلم کا مہورت بند کر ۔۔ یہ دیکھ میرا ہاتھ جل گیا ۔ کسی ڈاکٹر کے پاس لے چل ۔
" اوہ ۔۔ یہ کیسے ہوا ۔ "
"کچھ نہیں موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے اس کی صفائی کرنے لگ گیا تھا ۔ بے دھیانی میں سائلنسر پر ہاتھ رکھ دیا ۔ "
"چل ۔۔۔۔ کسی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔"
میں اس کی موٹر سائیکل پر سوار اس کے پیچھے بیٹھ گیا ۔
یار ۔۔۔ ہماری گلی میں عین میرے گھر کے سامنے کون آیا ہے ۔ پہلے تو یہاں فاروق صاحب رہتے تھے ۔
" تم نے جب سے کالج کی ہوا کھائی ہے ۔ تم نے محلے میں جھانک کر ہی کب دیکھا ہے ۔ دو ہفتے ہوئے وہ مکان بیچ کر جاچکے ہیں اور کوئی نئی فیملی وہاں رہنے آئی ہے ۔ "
" ہوں ۔۔۔۔ "
" ہوں ۔۔ کیا " ۔۔۔۔۔۔ غیاث نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے استفار کیا ۔
" کچھ نہیں ۔۔۔۔ بعد میں بتاؤں گا "
ڈاکٹر کے کلینک سے مرہم پٹی سے فارغ ہو کر ہم گھر واپس آگئے ۔
غیاث ہمیں گھر چھوڑ کر جاچکا تھا ۔ اور ہم اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹے والدِ محترم کا سپنس ڈائجسٹ چوری چھپے پڑھنے کی کوشش کررہے تھے ۔ مگر دھیان بار بار اسی کی طرف جا رہا تھا ۔ ہم نے سائیڈ ٹیبل سے اس کا دوپٹہ نکالا اور چہرے سے لگایا تو ایک معطر سی خوشبو دل و دماغ میں اُتر گئی ۔ مگر ہمیں ڈر تھا کہ محلے میں اس طرح کی کارستانی کی بھنک اگر والدِ محترم کو پڑگئی تو اس بار وہ چھتر سے نہیں بلکہ اپنی خاندانی بندوق سےگھر کی چھت پر کھڑا کرکے ہمیں شہزادہ سلیم کی طرح داغنے کی کوشش کریں گے ۔ وہاں تو رعایا نے شہزادے سلیم کا ساتھ دیدیا تھا ۔ مگر یہاں تو پورا محلہ یہ کہتا " خان صاحب ! ذرا دیکھ کر گولی ماریئے گا ۔ کہیں نشانہ خطا نہ ہوجائے ۔ " اور والدِ محترم بھی کہتے " پٹھان کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا ۔ اورلوگوں سے پوچھ پوچھ کر نشانہ داغتے " ہم نے جھرجھری لیکر عامر خان کی طرح دوپٹے سے کھیلنے کا ارادہ ترک کرکے اُسے واپس سائیڈ ٹیبل میں چھپا دیا ۔
ایک دن میں اتنے عاشقانہ تغیرات پر ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمارے ساتھ کچھ خاص معاملہ ہے ۔ کیونکہ ایک عشق ختم نہیں ہوتا دوسرا دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے ۔ پھر اچانک ہماری نظروں کے سامنے پرنسپل کی صاحبزادی کا سراپا لہرایا تو ہمارے دل میں ایک ہوک سی اٹھی ۔ کیا زبردست خاتون تھیں ۔ مگر ہم نے اس عشق کی ناکامی کو قسمت کی ستم ظریفی سے جوڑتے ہوتے خود کو بڑی بڑی آنکھوں میں غرق کرلیا اور نیند کی وادیوں میں کھو گئے ۔
دوسرے دن ہم اسکول روانہ ہوئے ۔ اسمبلی شروع ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی ۔ ہم اسٹاف روم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اسی دوران ہمارے رقیبِ ُروسیا اسٹاف روم میں داخل ہوئے ۔ ہمیں بڑا غصہ آیا کہ ایک دن بھی صبر نہیں ہوا اور فوراً ہی اپنی منظورِ نظر کے دیدار کو آدھمکے ۔ خالد صاحب کو سب نے خوش آمدید کہا اور طبعیت پوچھی ۔ خالد صاحب نے بڑی خوش دلی سے سب کا شکریہ ادا کیا ۔ منظورِ نظر سے متوقع ملاقات کی خوشی میں ان کی باچھیں ان کے کان سے بھی پیچھے جالگیں تھیں ۔ اور منہ " بلیک ہول " کی مانند کھلا ہوا تھا جس میں آدھ سیر کا پورا ایک سیب سما سکتا تھا ۔ خالد صاحب ہمارے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے ۔
"یار ! آج ساتھ ہی رہنا ۔ آج دل قابو میں نہیں ہے ۔ "
خالد صاحب نے سب کی نظر بچاتے ہوئے ہمارا ہاتھ دبا کر شادیِ مرگ کی کیفیت میں اپنے دل کی حالت بیان کرنے کی کوشش کی ۔
ہم کوئی جلا بھنا جواب دینے ہی والے تھے مگر خالد صاحب کے چہرے پر خوشی کے ساتھ اضطراری کیفیت دیکھ کر ہمیں ان پر ترس آگیا ۔
" یار حوصلہ کرو ۔۔۔۔ اگر یہی کیفیت ہمیشہ طاری تم پر رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ پرنسپل صاحب تمہیں اس کی شادی پر شامیانے میں کرسیاں لگانے پر مامور نہ کردیں اور اس کو کسی اور کیساتھ کار میں سوار کرادیں ۔
دل میں نہ ہو جرات اسے محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
یہ سنتے ہی خالد صاحب تن کر بیٹھ گئے ۔
ہم نے کہا " یار ۔۔ حوصلے کی بات کی ہے ۔ درزی کو سینے کے ناپ دینے کی نہیں ۔
خالد صاحب ایک دم سے جھینپ گئے ۔
ہماری ہنسی چھوٹ گئی ۔
" یار مذاق کر رہا ہوں ۔ اور تم ہر بات پر سنجیدہ ہو رہے ہو ۔"
" تمہیں پتا ہی نہیں کہ حقیقی محبت کیا ہوتی ہے ۔ ؟ تم نے کبھی کی ہوتی تو تم کو معلوم ہوتا کہ اس کیفیت میں انسان کے دل کی کیا حالت ہوتی ہے ۔ "
انہوں نے شکایتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے جواب دیا ۔
خالد صاحب کی اس بات پر ہمارے دل سے ایک آہ سی اٹھی مگر ہم نے اس کو دبا لیا ۔ ہم ان کو کیا بتاتے کہ ظالم ۔۔۔۔ حقیقی محبت کا آغاز ہوا ہی تھا کہ تم گرم ہوا بن کر چل پڑے ۔
" کیا آج تم نے اس کو دیکھا ۔؟ "
خالد صاحب نے اشتیاق کے عالم نے سوال کیا ۔
" نہیں ابھی تک تو دیدار نہیں ہوا۔ "
تھوڑی دیر بعد وہ جلوہ افروز ہوگئی ۔
سب سے سلام کے بعد وہ جیسے ہی کرسی پر بیٹھی تو ہم نے سب سے اجازت چاہی کہ ہمیں پرنسپل صاحب سے ملنا ہے ۔ ہم نے واضع طور پر محترمہ کے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھے ۔ پرنسپل صاحب سے ملنے کا مقصد ہمیں اپنے تدریسی شعبے سے سبکدوش ہونا مقصود تھا کہ وہ حسینہ ہماری نظروں کے سامنے کسی اور کی نظر آئے ۔ دل کو گوارا نہیں تھا ۔ پرنسپل صاحب موجود نہیں تھے ۔ لہذا ہم دوبارہ اسٹاف روم میں آگئے ۔ مگر خالد صاحب کے چہرے پر معمول کے اثرات دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی ۔ ہم سمجھے تھے کہ اب تک وہ اپنی منظورِ نظر سے ملکر شادیِ مرگ کی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہونگے ۔ ہم ان کے برابر میں بیٹھ گئے ۔ ہم نے سامنے دیکھا تو وہ ہمیں ہی دیکھ رہی تھی اور اس کی نظروں میں بڑی کاٹ تھی ۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ہماری بے رخی پر رنجیدہ ہے ۔ مگر ہم اس کو کیا بتاتے ہم نے عشق پر دوستی کو مقدم رکھا ہے ۔ وہ اٹھ کر باہر چلی گئی ۔ اسی دوران خالد صاحب نے ہمیں کہنی ماری اور کہا ۔ " تم نے تو کہا تھا کہ وہ لاہور سے واپس آگئی ہے " ۔
ہمیں ایک جھٹکا سا لگا ۔
" کیا مطلب ۔۔۔۔ یہ جو سامنے بیٹھی تھی ۔ یہی تو پرنسپل کی لڑکی تھی۔۔۔۔ یہی تو آپ کی منظورِ نظر ہے ناں "
" ارے نہیں یار ۔۔۔۔ پرنسپل صاحب کی یہ لڑکی نہیں ، بلکہ اس سے بڑی والی جو کہ اسی کیساتھ لاہور گئی ہوئی تھی ۔ اس کی واپسی شاید اب تک نہیں ہوئی ہے "
خالد صاحب نے چہرے پر مایوسی سجاتے ہوئے ایک بڑا انکشاف کیا ۔
ہم نے اپنا سر کرسی کی پشت پر ٹکا لیا ۔ اور واقعات ِ دہر کے معاملات پر غور کرنے لگے ۔
ابھی کل ہی ہم نےاسی عشق سے خود کو محروم کیا تھا مگر دوسرے عشق نے ہمیں آکر فوراً سہارا دیدیا تھا ۔ اور ہمیں موقع بھی نہیں ملا کہ اپنے نئے عشق کو عشقِ واحد قرار دیکر ا سکو حتمی قراردے دیں ۔ مگر تیز ہواؤں نے ہماری کشتی کا رخ پھر طوفان کی طرف کردیا ۔ یعنی اب پھر وہی دو عشقوں کا معاملہ تھا ۔
میںکہاں جاؤں ، ہوتا نہیں فیصلہ
ایک طرف اس کا گھر ، ایک طرف میکدہ
یہ عجیب بات تھی کہ ہم اپنی فقیری عاجزانہ عاشقی طبیعت کے برخلاف جب کسی ایک عشق پر اکتفا کرنے کی کوشش کرتے تو حالات ہمارے لیئے عشق کی مذید راہیں ہموار کردیتا ۔ مگر ان راہوں پر چلنا ہمارے لیئے اب اس لیئے بھی سود مند نہیں رہا تھا کہ ہماری تعلیمی قابلیت مسلسل متاثر ہورہی تھی ۔ اور والدِ محترم کے چھتر کا سائز بھی ہماری تعلیمی جدول کی تنزولی کے برخلاف اپنے حدود و رقبہ سے تجاویز کر رہا تھا کہ والدِ محترم چھتر سے ہماری پشت کو نشانہ بناتے مگر وہ چھتر ہماری پشت کے علاوہ کہیں اور اپنی تجاویزات بڑھانے کی جسارت میں مصروف نظر آتا ۔ جس کی وجہ سے ہم ایک عام آدمی کی طرح نشت پر بیھٹنے سے قاصر ہوگئے ۔ اور جس طرح ہم اپنی موٹر سائیکل چلاتے ہوئے پائے جاتے اسے دیکھ کر سب یہی کہتے کہ کوئی اس کو بتلائے کہ موٹر سائیکل کی نشت بیھٹنے کے لیئے ہوتی ہے ۔ اب ہم کسی کو کیا بتاتے کہ اس حالت میں موٹر سائیکل کی نشت پر بیھٹنے کی اذیت سہنے سے اچھا ہے کہ ہم موٹر سائیکل کھڑے ہوکر ہی چلالیں ۔
اب وہی صورتحال آن پڑی تھی کہ اس طرف جائیں تو دل ہاتھ سے نکلتا تھا اور دوسری طرف بڑھیں تو کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ ہمارے دل کی حالت یوں تو ہر حسینہ کو دیکھ کر غیر ہوجاتی تھی ۔ مگر پرنسپل صاحب کی صاحبزادی کے حسین سراپے نے ہمارے دل و دماغ پر ایسا اثر چھوڑا تھا کہ جس میں کوئی کمی نہیں ہو رہی تھی ۔ ہم اسے بھلانے کی جتنی کوشش کرتے وہ ہمیں اتنی ہی شدت سے یاد آتی ۔ مگرمعاملہ اب واضع تھا کہ خالد صاحب کی منظورِ نظر اصل میں ہماری منظورِ نظر کی بڑی ہمشیرہ تھیں ۔ خالد صاحب سے اب ہمارا کوئی تنازعہ نہیں رہا تھا ۔ مگر مشکل یہ تھی کہ ہم نے ایک غلط فہمی کی بناء پر پرنسپل صاحب کی صاحبزادی کو جس طرح نظرانداز کیا تھا ۔ اس کا تدارک بھی آسان نہ تھا ۔ اس مسئلے کا دوسرا سنگین پہلو یہ بھی تھا کہ ہم دوسری طرف بھی اپنے دل کو نئےعشق کے راہ پر ڈال چکے تھے ۔ ایک طرف ہمیں اپنی روٹھی ہوئی محبت کو منانا مقصود تھا تو دوسری طرف ہمیں اپنے تازہ عشق سے سبکدوشی بھی مطلوب تھی ۔ جو ہمارے فلسفہِ عشق کے مطابق سراسر غیر اخلاقی حرکت تھی ۔ اس مسئلے کے حل کے لیئے ہم نے بہت سی موویز بھی دیکھیں ۔ مگر لگتا تھا کہ کسی بھی فلمی رائٹر کو ہماری طرح عشق پہ عشق کرنے کی قدرتی صلاحیت نصیب نہیں ہوئی تھی کہ ہمیں ایسی کوئی بھی مووی نہیں مل سکی ، جس میں ہماری اس مشکل کا حل موجود ہوتا ۔ مگر والدِ محترم کو معلوم ہوگیا کہ ہم آج کل تعلیم پر توجہ دینے کے بجائے مادھوری ڈکشٹ کی موویز دیکھ رہے ہیں ۔ سو یہاں بھی ان کا چھتر پھر کام آیا اور ہمیں ایک بار پھر پلاسٹر اور پیٹوں میں جکڑ کر بستر کے حوالےکردیا گیا ۔
اسکول میں کئی دن کی غیر حاضری کا سبب جاننے کے لیئے خالد صاحب ہمارے گھر وارد ہوئے تو ہماری حالت دیکھ کر ان کو جھٹکا لگا ۔ ہم نے کمالِ ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے والدِ محترم کے روایتی تشدد کا ذکر گول کردیا اور اپنی اس حالت کا ذمہ دار کیلے کے چھلکے کو بنایا جو ہماری موٹر سائیکل کے ٹائر کے نیچے آکر کچلا گیا تھا ۔ انہوں تاسف کا اظہار کیا ۔ اور پھر بلآخر ہماری دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ۔
“ یار ۔۔۔۔ تمہارے اس کا عشق کا کیا ہوا ۔ جس کے خاطر تم اپنے تمام عشقوں سے سبکدوش ہوگئے تھے ۔ “
ہمارا دل چاہا کہ ہم خالد صاحب سے لپٹ لپٹ کر روئیں ۔ مگر وہ صرف جمعے کو ہی نہاتے تھے ۔ اور کبھی کبھی وہ بھی بھول جاتے تھے ۔ ویسے بھی ہمیں روایتی تشدد کے دو دن بعد ہوش آیا تھا۔ لہذا ہم نے اس کلوروفام سے بچنا مناسب سمجھا اور کہا ۔
“ اب ہم کیا بتائیں خالد صاحب ۔۔۔۔ کہ وہ ہوش روبا کون ہے ۔ “
“ ارے یار ۔۔۔ بتاؤ تو سہی شاید میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد کرسکوں ۔ “
“ خالد صاحب ۔۔۔ پلیز آپ جھٹکا مت کھانا کہ وہ حسینہ آپ کے منظورِ نظر کی ہمشیرہ ہے ۔ “
خالد صاحب کی انٹولے جیسی آنکھیں مذید پھیل گئیں ۔ مگر انہوں نے کوئی منفی ردعمل دکھانے کے بجائے ہمارے زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمیں گلے لگاتے ہوئے بری طرح بھینچ لیا ۔ ہم نے بڑی مشکل سے اپنا سانس روکے رکھا ۔
“ یار یہ تو کمال ہوگیا ۔ ہم دونوں تو پہلے دوست تھے ۔ اب ہم زلف بھی بن جائیں گے “
خالد صاحب نے خوشی سے بےقابو ہوتے ہوتے مستقبل کا تابناک نقشہ بھی کھینچ دیا ۔
مگر ہمارے چہرے پر افسردگی برقرار رہی ۔
امی نے اندر سے ہمارے لیئے چائے بجھوا دی ۔
“ ارے یار یہ تم نے اپنا منہ کیوں سوجھا لیا ہے ۔ اب کیا مسئلہ ہے ۔ بلآخر تم کو اپنی منزل مل گئی ناں ۔ “
خالد صاحب نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا ۔
ہم نے پھر خالد صاحب کو تمام قصہ سنایا کہ کس طرح ایک غلط فہمی کی بناء پر ہم نے اپنی منزل کو کھو دیا تھا ۔
خالد صاحب کچھ دیر تو خاموش رہے اور پھر کہا ۔
“ مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنی محبت پر ہماری دوستی کو ترجیح دی ۔ گو کہ ایسا نہیں تھا ۔ اگر ایسا ہوتا تو تم قربانی تو دے چکے تھے ۔ “
یہ کہہ کر وہ دوبارہ گلے ملنے کے لیئے بڑھے تو ہم نے بڑی عاجزی سے ان کی توجہ اپنے زخموں کی طرف دلائی ۔
“ اوہ سوری یار ۔۔۔۔ آج میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہا ہوں ۔ خیر میں اس سے بات کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ۔ ویسے بھی میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ تم نے دلچسپی لے رہی ہے ۔ “
“ ہاں ۔۔ محسوس تو میں نے بھی کیا تھا ۔ مگر اس کی مسلسل توجہ کو بھی نظر انداز کرتا رہا ہوں ۔ اس کو قائل کرنا اب اتنا آسان بھی نہیں ہوگا ۔ “
“ ارے ہوجائے گا ۔۔۔۔ اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔ “
“مگر ایک اور بھی مسئلہ ہے ۔“ ہم نے ڈرتے ڈرتے خالد صاحب کو مکمل صورتحال سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔
“ ہائیں ۔۔۔ اب کیا مسئلہ رہ گیا ہے ۔ “ خالد صاحب نے حیرت سے سوال کیا ۔
“ ہم ایک نئے عشق میں بھی مبتلا ہوگئے ہیں “ بلآخر ہم نے خالد صاحب کو صحیح صورتحال بتادی ۔
یہ سنتے ہی خالد صاحب کے حلق میں اترا ہوا چائے کا گھونٹ باہر آگیا ۔ ان کی آنکھیں بے یقینی کے عالم میں پھیل گئیں ۔
“ یار ۔۔۔ تم کس مٹی کے بنے ہوئے ہو ۔ “ کچھ دیر خاموشی کے بعد بلآخر خالد صاحب کے حلق سے آواز بر آمد ہوئی ۔
“ اپنی دانست میں مجھے سونپی ہوئی محبت کا کم از کم چند دن تو سوگ منا لیتے ۔ تم نے تو اُسی دن اپنے عشق کا نیا کھاتہ کھول دیا ۔ “
“ یار ۔۔۔ ہم کیا کرتے ۔۔۔۔ ہم تو مرزا کباب والے کی دوکان پر بیٹھے کباب کھا رہے تھے جب وہ سونالی باندرے میرے سامنے سے گذری ۔ جس ظالم ادا سے جس طرح اُس نے مسکرا کر ہمیں دیکھا ۔ اگر آپ ہوتے تو وہیں چکرا کر گر جاتے ۔ مجھے تو گھر جانے کا بھی موقع نہیں ملا ۔ “
ہم نے رونی آواز میں اپنی صفائی دینے کی کوشش کی ۔
“ ہمممم ۔۔۔۔ تمہارے ساتھ مسئلہ واقعی عجیب ہے ۔ مگر خدا کے بندے ۔۔۔ اپنے دل کو قابو میں کیوں نہیں رکھتے ۔ ہر کسی پر لٹو ہوجاتے ہو ۔ “
“ بہت کوشش کرتا ہوں خالد صاحب ۔۔۔۔ مگر کبھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہوں تو کبھی قدرت کے سامنے ہیتھار ڈال دیتا ہوں ۔ مگر یہ وارداتیں اتنی تسلسل سے ہوتیں ہیں کہ میں تہی دست ہوجاتا ہوں ۔ “
ہم نے اپنی رومانی طبیعت کی پچاس فیصد ذمہ دار بلآخر قبول کر ہی لی ۔
“ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پرنسپل صاحب کی صاحبزادی کو کس طرح قائل کیا جائے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس معصوم کی آنکھوں میں تم نے یہ عشق کے دیپ ، ان تیز ہواؤں میں جلائے ہیں ۔ ان کے بُجھنے کی خبر اس کو کیسے دی جائے ۔ “
خالد صاحب نے مسئلے کی اصل جڑ کے نشاندہی کرتے ہوئے تاسف بھرے لہجے میں ہم سے استفار کیا ۔
ہم نے منہ میں گھونگھیاں ڈال دیں ۔
خالد صاحب ہمارا منہ تکنے لگے ۔ مگر ہم ایسی صورت بنائے بیٹھے رہے جو عموماَ قبض کی حالت میں ہوجاتی ہے ۔
بات بڑی حد تک واضع تھی کہ جسے دیکھ کر ہمیں کرنٹ لگا تھا دراصل وہی ہماری شخصیت کا گمشدہ حصہ تھی ۔ یہ مقناطیسی کشش دوسری طرف بھی بہت واضع طور پر محسوس کی گئی تھی ۔ اور یہی وجہ تھی کہ جہاں عشق کو جو مرحلے طے کرنے میں صدیاں لگتیں ہیں ۔ وہاں لمحوں میں وہ منزلیں طے ہونے لگیں تھیں ۔ لیکن ایک غلط فہمی کی وجہ سے یہ سفر اپنے آغاز میں ہی اپنی سمت کھو بیٹھا تھا ۔ اور جب اس گُھتی کا سرا ہاتھ آیا تو دوسرا ہاتھ ریشم میں پھنسا ہوا تھا ۔
ہاتھ الجھے ہُوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے سے جُدا کس کو کریں ؟
ہم خالد صاحب کو مسلسل ہونقوں کی طرح دیکھ رہے تھے ۔ جب اُنہیں یقین ہوگیا کہ ہمارے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا تو انہوں نے اپنی چائے کی پیالی ختم کی اور جانے کے لیئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔
“ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے رومیو جی ۔۔۔۔ اس مسئلے کا حل سوچو ، میں بھی کوشش کرتا ہوں ۔ امید ہے کوئی حل نکل آئے گا ۔ مگر تم نے آج کے بعد اپنے کسی اور عشق کی نوید پھر سنائی تو خدا کی قسم ۔۔۔۔ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا “ ۔
خالد صاحب کو ہمارے عشقوں کی مسلسل پیداوار پر فیملی پلاننگ والوں کی طرح فکر لاحق ہوگئی تھی ۔
ہم نے سعادت مندی سے سر جھکا دیا -
والدِ محترم کی شفقت کے آثار مندول ہوچکے تھے ۔ مگر ہم بدستور اپنے کمرے میں مقید تھے ۔ ہم نے کئی بار اپنی کمرے کی کھڑکی سے ( جو باہر گلی میں کھلتی تھی ) ۔ چپکے سے جھانک کر سامنے اُس کے گھر کی جانب دیکھا تھا ۔ جہاں ہم کو سونالی باندرے اپنی آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جلائے متعدد بار کھڑی نظر آئی ۔ ہماری ہمت نہیں ہوئی کہ ہم اس کا سامنا کرتے ۔اور شاید وجہ بھی یہی تھی کہ ہم گھر سے باہر نہیں نکلے ۔ ایک دور تھا کہ بیک وقت کئی عشقوں کے بغیر ہمارا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا ۔ اب ایسا مرحلہ آن پڑا تھا کہ ہمیں ایک سے زائد عشق سے وحشت محسوس ہونے لگی تھی ۔ لگتا تھا بچپن میں فقیر کی دی ہوئی بدعا اپنا اثر زائل کر رہی ہے ۔ اور ہمیں زندگی کے سفر میں اس ساتھی کی اہمیت کا احساس شدت سے ہونے لگا تھا ۔ جسے شریکِ سفر کہتے ہیں ۔ ہم نے سلمان خان کو فون کر کے اتنے عرصے شریکَ حیات کے بغیر زندگی گذارنے کا نسخہ پوچھا تو جو حل اُس نے بتایا ۔ وہ ہرگز قابلِ قبول نہ تھا ۔ والدِ محترم کی بندوق کی گولی کا نشانہ تو بعد میں ہم بنتے مگر ہمیں ضیاءالحق کے مروجہ قانون کے مطابق سب کے سامنے اپنی پسندیدہ جینز کی محرومی کیساتھ چھتر کھانے کا سوچ کر ہول آتا تھا ۔ حالانکہ والدِ محترم کی شفقت کے علاوہ اسکول ، کالج اور بازاروں میں بھی ہمیں عوام الناس کی بے انتہا محبت اور شفقت کا بارہا تجربہ رہا تھا ۔ مگر ایسی رسوائی کے ہرگز ہم محتمل نہیں ہوسکتے تھے ۔
ہم نے اسکول جانے کا کئی باراعادہ کیا۔ مگر بیک وقت دو کشتیوں میں پاؤں رکھ کر آگے بڑھنے کے خیال نے ہمیں اس ارادے سے باز رکھا ۔ دل و دماغ اس بات پر راضی ہوچکے تھے کہ اب حتمی عشق کی راہ ہموار کی جائے ۔ کالج کی چھٹیاں ختم ہونے کو آرہیں تھیں اور ہم سے فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس مسئلے کے تدارک کے لیئے ہم کیا راہ نکالیں ۔ ہم نے فیصلہ کرلیا کہ سونالی باندرے کو حقیقت بتائیں گے کہ ہم نے اس کے آنکھوں کے سندیسے کو قبول کرکے جس غلط فہمی میں اس کو مبتلا کیا ہے ۔ اس میں سراسر قصور ہمارا ہے ۔ کہ ہم ٹوٹے ہوئے تھے سو ہم کو جو سہارا ملا وہ ہم نے تھام لیا ۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ کے اس سلسلے میں ہم مخلص تھے یا پھر عارضی طور پر ہم کو اپنا دل بہلانا مقصود تھا ۔
امی حضور سے ہم نے اپنی شلوار قمیض نکالنے کی درخواست کی تو انہوں نے ایک دم سے ” ہائے ” کہا ۔
” کون گذر گیا ۔؟ ”
انہوں نے تاسف سے استفار کیا ۔
کچھ دیر تو ہماری سمجھ کچھ نہیں آیا مگر پھر بات ایک دم سے واضع ہوگئی ۔
ہم شلوار قمیض صرف جمعہ کی نماز کے وقت ہی پہنتے تھے یا پھر کسی کی وفات پر ۔ مگر لگتا تھا کہ اب ہمارا وقت قریب آگیا ہے ۔
ہم نے امی سے کچھ نہیں کہا اور غسلِ صحتیابی کی نیت کیساتھ باتھ روم کی طرف بڑھ گئے ۔
شلوار قمیض میں ہم خود کو بہت عجیب سے لگتے تھے ۔ مگر امی کا کہنا تھا کہ " میرا لال شلوار قمیض میں نعمان اعجاز سے بھی زیادہ وجیہہ لگتا ہے ۔ "
اتنے زبردست کمنٹس کے بعد ہم نے کبھی اپنی امی کے اس دعویٰ کی تردید کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
باہر نکلے تو غیاث مل گیا ۔ ہم کو شلوار قمیض میں دیکھا تو اس نے زور سے ان اللہ وانا اللہ راجعون پڑھ لی۔
چل ۔۔۔ میں بھی کپڑے بدل کر آتا ہوں ۔ مگر انتقال کس کا ہوا ہے "
غیاث نے تاسف بھرے لہجے میں قومی لباس کی طرف دیکھتے ہوئے استفار کیا ۔
" ابے ۔۔۔۔ کسی کو کچھ نہیں ہوا ہے ۔ ہم نے یہ شلوار قمیض آج اپنی مرضی اور پسند سے پہنا ہے ۔ "
" یقین نہیں آتا کہ جو جینز میں بھی سو جائے وہ شلوار قمیض پہن لے اور وہ بھی کسی مذہبی فریضے کی ادائیگی کے بغیر ۔ "
غیاث نے اپنا سر ( جو تقریباً 63 فیصد گنجا تھا ) کجھاتے ہوئے حیرت سے کہا ۔
غیاث کو اس لباس کے بارے میں ہماری تاریخ معلوم تھی ۔ سو اس کا حیران ہونا ہم کو بلکل فطری لگا ۔
" کچھ نہیں بس ایسے ہی جی چاہ رہا تھا ۔ چل مسجد چلتے ہیں ۔ عصر کا وقت ہو رہا ہے ۔ "
غیاث نے اپنا بھاڑ سا منہ کھول کر ہمیں دیکھا ۔
" قیامت کے آثار ہیں بھائی ۔ آج کیا ہو رہا ہے ۔ تم میں یہ کیسا انقلاب آگیا ہے ۔ میں ذرا انکل کو خبر دوں ۔ ان کی تو کب سے حسرت ہے کہ وہ تم کو قمیض شلوار میں دیکھیں ۔ اور وہ بھی مسجد جاتا ہوا ۔ "
" اپنی حیرت کی سائیکل کو ذرا بریک لگا ۔ کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔"
ہم کو غصہ آنے لگا کہ قمیض شلوار زیب تن کرنے پر اس پر حیرتوں کے پہاڑ کیوں ٹوٹ رہے ہیں ۔
"اچھا ۔۔۔ اب میں سمجھا ۔۔۔۔ "
غیاث نے معنی خیز نظروں سے ہمیں دیکھتے ہوئے سامنے والے گھر کی طرف تکنے لگا ۔
" ارے ۔۔۔ وہاں کیوں دیکھ رہا ہے ۔ پاگل ہوا ہے کیا ۔ ؟ "
ہمیں ڈر ہوگیا کہ اگر تھوڑی دیر یہاں اسی طرح کھڑے رہے تو کہیں وہ سونالی باندرے بڑی بڑی انکھیوں کے چراغ لیکر نہ آجائے ۔ اور پھر ہم کہیں کے بھی نہیں رہے گے ۔
" ہمممم ۔۔۔۔ یار ایسی بات تو تھی پہلے بتا دیتا ۔ اب سمجھا تُو نے یہ شلوار قمیض کیوں زیب تن کیا ہوا ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ جمعہ کی نماز کے لیئے توُ یہ لباس پہن کر جاتا ہے یا پھر کسی کی وفات پر ۔ مگر آج ان دونوں باتوں کی عدم موجودگی اس بات کو ظاہر کررہی ہے کہ کوئی خاص بات ہے اور خاص بات یہ ہے کہ تجھے سامنے والے گھر سے کوئی رغبت ہوگئی ہے ۔ خیر ۔۔۔ یہ بات مجھے پہلے دن ہی تیرے سوال سے ہی معلوم ہوگئی تھی ۔ جب تُو نے ان کے بارے میں پوچھا تھا ۔ مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ تُو اتنا سنجیدہ ہوجائے گا ۔ مگر اب کیا کریں ۔ تجھے بھی اپنا دل کے تار چھیڑنے سے پہلے ذرا تحقیق کرلی چاہیئے تھی ناں ۔۔۔۔۔۔ "
غیاث پتا نہیں کیا بکے جا رہا تھا ۔ ہم نے اس کو وہیں روک دیا ۔
" کونسی تحقیق ، کیسی تحقیق ۔۔۔۔ کیا کہے جا رہا ہے ۔۔۔۔ "
ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ اسی دوران ہم اس کو گلی کے کونے پر لے آئے ۔
غیاث نے اشتیاقانہ انداز میں پوچھا ۔
" اچھا یہ بتا ۔۔۔ تجھے وہ اچھی لگی تھی ناں "
ہم نے بھی اپنا بھاڑ سا منہ کھول دیا ۔
"ہاں "
پھر تُونے اس میں دلچسپی لینا شروع کردی ۔
" ہاں "
ہمارا منہ بدستور کھلا ہوا تھا ۔
" مگر یہاں تک پہنچنے سے پہلے تجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ لوگ کون ہیں اور اس مکان میں کب شفٹ ہوئے ۔ آیا کہ مکان کرائے پر لیا ہے یا فاروق صاحب سے خریدا تھا ۔ ؟
" ان تمام باتوں کا میری دلچسپی سے کیا تعلق ۔ ؟ "
ہمارا منہ اب کُھلے کُھلے دُکھنے لگ گیا تھا ۔
" ہے ناں ۔۔۔۔ " غیاث نے اپنا نصف سے زائد گنجا سر کجھاتے ہوا کہا ۔ وہ لوگ یہاں صرف ایک ماہ کے کرائے پر آئے ہیں ۔ ان کی اسی بیٹی کی اگلے ہفتے شادی ہے ۔ جس کے لیئے تو نے مغربی ثقافت چھوڑ دی ہے ۔ ان کو اچھا بڑا مکان درکار تھا ۔ جہاں وہ حیدر آباد سے آنے والے براتیوں کا صحیح طور پر استقبال کرسکیں ۔ لہذا انہوں نے یہ مکان کرائے پر لے لیا ۔ "
ہم اپنا منہ مذید کھولے کھڑے نہیں رہ سکتے تھے ۔
ہمیں چپ لگ گئی ۔ غیاث سمجھا کہ ہم صدمے سے بے جان ہوگئے ہیں ۔ اسے تو یہی معلوم تھا کہ ہم اپنے مزاج کے عین مطابق اس پر لٹو ہوچکے تھے ۔ مگر اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم نے سونالی باندرے سے نہ صرف آنکھیں چار کیں ہیں ۔ بلکہ اس سے باتیں بھی کرچکے ہیں ۔
" تُو سچ کہہ رہا ہے ناں "
" ہاں بلکل سچ ۔۔۔۔ ابا کے پاس ستارہ کےوالد آئے تھے ۔ محلے میں شادی کے لیئے ابا کی مدد سے سب کو مدعو کرنے کا کہہ رہے تھے ۔ میں وہیں ابا کو حقہ گرم کرکے دے رہا تھا ۔ جب میں نے یہ سب کچھ سنا ۔ "
" تجھے اس کا نام کیسے معلوم ہوا ۔ ؟ "
" یار ۔۔۔ بار بار کہہ رہے تھے ۔ ستارہ کی شادی میں ضرور آیئے گا ۔ " غیاث نے جھنجھلا کر کہا ۔
زندگی میں پہلی بار ہمیں اپنی قسمت پر بہت رخش آیا ۔ جس مرحلے کو ہم نے اپنی زندگی و موت کا مسئلہ بنا دیا تھا ۔ قسمت نے اس کا آسان حل ہمارے ہتھیلی پر سجا دیا تھا ۔ مگر ہمیں تعجب ہوا کہ اگر وہ شادی کے بندھن میں بندھ ہی رہی تھی تو ہمیں عامر خان کیوں بنا دیا ۔ کہیں اس کا ارادہ " گجنی " بنانے کا تو نہیں تھا ۔
" تُو ٹھیک تو ہے ناں ۔۔۔ " غیاث نے ہمیں گم سم دیکھا تو فکرمندانہ انداز میں سوال کیا ۔
" ہاں میں ٹھیک ہوں ۔ تجھے معلوم ہی نہیں کہ تو اس بات کا انکشاف کرکے مجھ پر کیا احسان کیا ہے ۔ " ہم نے اس کو خوشی سے گلے لگا لیا ۔
غیاث ہم کو حیرت کے عالم میں دیکھ رہا تھا ۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ اس خبر سے ہم سٹھیا گئے ہیں ۔
ہم اس سے رخصت ہوکر سیدھا دوبارہ اپنے گھر میں آگئے ۔ سیدھا اپنے کمرے میں جاکر نماز پڑھی ۔
رو رو کر اللہ سے معافی مانگی اور گڑگڑا کر عہد کیا کہ پرنسپل صاحب کی صاحبزادی کا ساتھ اگر ہمیں نصیب ہوگیا تو ہم کبھی مڑ کر بھی اپنے ماضی کی طرف نہیں دیکھیں گے ۔ کبھی کسی اور طرف راغب نہیں ہونگے ۔
اس عظیم الشان انکشاف کی خبر دینے بہ نفس و نفیس ہم خود خالد صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
خالد صاحب نے ہمیں بے وقت دیکھا توانہیں حیرت ہوئی ۔
ہم نے باہر کھڑے ہی کھڑے ایک سانس میں سارا واقعہ ان کو سنا دیا ۔
مگر ان کا چہرہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ ان کی آنکھوں کے انٹولے سکڑنے لگے ۔ ہم نے کسی بری خبر کے ڈر سے سوال کیا۔
” خالد صاحب ۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے ناں ۔ آپ کو اتنے بڑے مسئلے کا قدرتی حل پسند نہیں آیا ۔ ؟ ”
” یہ بات نہیں ہے ۔۔۔۔ دراصل میں سوچ رہا ہوں کہ اگر اس کی شادی کہیں اور ہونا مقصود تھی تو اس نے تم میں دلچسپی کیوں لی ! ”
ہم نے کسی دولہے کی طرح شکل " مسکین " بنا لی ۔ ہم ان کو کیا جواب دیتے ۔ کہ اس سوال پر ہم پہلے ہی دماغ سوزی کرچکے تھے ۔
” چلو اچھا ہوا ۔۔۔۔۔ قصہ خود ہی نمٹ گیا ۔ لگتا ہے تمہارے ستاروں کی گردش تھمنے لگ گئی ہے ۔ کل اسکول آجانا ۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کہ آپ کی منظورِ نظر کیا ردعمل ظاہر کرتیں ہیں ۔ ”
چائے پینے کے بعد ہم واپس گھر آگئے ۔ مغرب اور عشاء کے پے در پے نمازیں پڑھتا دیکھ کر والدِ محترم نے والدہ سے کہا ۔ کہیں اس نے کتاب ” موت کا منظر ” تو نہیں پڑھ لی ۔ ہمارے دل میں طمانیت کا وہ عالم تھا کہ ہمیں والد ِ محترم کا تبصرہ بھی بہت اچھا لگا ۔
رات بستر پر لیٹ کر ہم نے دونوں ہاتھوں کو سر کے پیچھے باندھ لیا ۔ اور سوچنے لگے کہ اس دل رُوبا کا سامنے کیسے کریں گے ۔ خفت کا احساس ستانے لگا ۔ خود اعتمادی دم توڑی ہوئی محسوس ہوئی ۔ ہم خوشی میں بھول گئے تھے کہ اس لالہ رُخ کو جس طرح ہم نے نظرانداز کیا تھا۔ اس کا ازالہ کیا صرف ” سوری ” کہنے سے ہوجائے گا یا اس کے لیئے ہمیں کوئی اور راہ نکالنی پڑے گی ۔
یہی سوچتے سوچتے ہم نیند کی وادیوں میں پہنچ گئے ۔
( جاری ہے )
( قصہ ہشتم )
زندگی ہمیشہ غیر یقینی کیفیت سے دوچار رہتی ہے ۔ انسان اپنی سوچ کو پروان تو چڑھا سکتا ہے ۔ مگر اس کو حتمی شکل دینے سے قاصر ہے ۔ ہم زندگی میں بارہا ایسے مراحل سے گذرتے ہیں جہاں ہماری تمام منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے ۔ اور ہم صرف تقدیر کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں ۔ ہم نے بھی اپنی متلون مزاجی کے برعکس یکسوئی کیساتھ اپنی خواہش کو ایک فیصلے میں بدلنے کی کوشش کی مگر تقدیر ہر بارایک نئے منصوبے کیساتھ ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیھٹےرہ جاتے ۔ آج صبح اس دل رُوبا کا سامنا کرنا ہمیں بہت عجیب سا لگ رہا تھا ۔ گو کہ ایک طمانیت سی دل کو حاصل تھی مگر کوئی خوف لاشعور میں بھی پنہاں تھا کہ کہیں ہم مایوس نہ رہ جائیں ۔ مگر اس دل رُوبا کی آنکھوں میں جس پسندیدگی اور محبت کا اظہار ہم نے اپنے لیئے دیکھا تھا ۔ وہ ہمیں باور کراتا تھا کہ اس بار ہماری کشتی پار لگ جائے گی اور ہمارے دل کو قرار آجائے گا ۔
ہم فجر کی نماز کے لیئے اٹھ چکے تھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر ہم تیار ہوکر کچھ دیر بعد ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تو والدِ محترم نے بغور ہمارا جائزہ کیا ۔
“ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں “
“ جی ابو ۔۔۔ ہم بلکل ٹھیک ہیں “ ہم نے ان سے نگاہ ملائے بغیر جواب دیا ۔
“ مجھے نہیں لگتا ، کچھ دنوں میں تمہارے اندر کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں ۔ اور ستم یہ ہے کہ وہ ساری مثبت ہیں ۔ “
“ بس ابو ۔۔۔ ساری عمر تو غیرذمہ دار ی کا مظاہرہ تو نہیں کیا جاسکتا ناں ۔ہم نے سوچا ہے کہ پڑھائی پر توجہ دینے کیساتھ اپنی روٹین بھی ٹھیک کرلینی چاہیئے “
ہم نے اپنی دانست میں والدِ محترم کو قائل کرنے کی کوشش کی ۔
“ ہمممم ۔۔۔۔۔۔ “ والدِ محترم نے ایک لمبی سی ہوں کی اور بغور ہمارے چہرے کی جانب دیکھتے رہے ۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نے کہا ۔
“تمہیں کسی سے عشق تو نہیں ہوگیا ۔“
ہمارے ہاتھ سے چائے کی پیالی چھوٹتے بچی اور ہمارا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا ۔ والدِ محترم کا قیاس حامد زید کے تجزیئے کو بھی مات دے گیا ۔
“ آپ کو تو کوئی موقع چاہیئے کہ آپ میرے بیٹے کی کھنچائی کرتے رہیں ۔ اگر یہ اپنی روٹین ٹھیک کررہا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ۔ “ امی حضور نے صحیح موقع پر ہمارا دفاع کرتے ہوئے مداخلت کی ۔
والدِ محترم نے کوئی جواب نہیں دیا مگر وہ بدستور ہمارے چہرے کی طرف دیکھتے رہے ۔
ہم نے جلدی سے اپنا ناشتہ ختم کیا اور اسکول کی طرف روانہ ہوگئے ۔
موٹر سائیکل پر سوار تھے مگر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم ہواؤں میں اڑ رہے ہیں ۔ جس کو اتنی شدت سے چاہاتھا ۔اب اُس سے ملاپ کے آثار پیدا چکے تھے ۔ حالانکہ اس سفر نے سونمانی جیسے کئی طوفان کا سامنابھی کیا ۔ مگر لگتا تھا کہ اب کنارہ دور نہیں ہے ۔
ابھی ہم انہی خیالوں میں تھے کہ ہم نے دیکھا کہ سڑک پر ایک مجمع لگا ہوا تھا ۔ موٹر سائیکل آگے بڑھانا ممکن نہیں تھا ۔ ہمیں جلدی تھی کہ ہم کسی طرح اسکول پہنچ جائیں ۔ مگر تجسس کی بناء پر ہم نے موٹر سائیکل کھڑی کی اور مجمع کو چیرتے ہوئے تو آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بزرگوار اپنی موٹر سائیکل کے پاس گرے پڑے تھے۔ شاید سر پر چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے ان کا چہرہ لہولہان تھا ۔ ہم سے دیکھا نہیں گیا اور ہم نے انہیں اٹھانے کی کوشش کی تو مجمع میں سے کسی نے کہا کہ شاید بیہوش ہیں ۔
“ تو پھر انہیں یہاں پڑے رہنے سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہوگا ۔ انہیں ہسپتال کیوں نہیں لے جاتے ۔ “ ہم نے اپنی قوم کی روایتی بے حسی پر برہم ہو کر کہا ۔
“ ہیرو جی ۔۔۔۔ ایمبولینس کو کال کیا جاچکا ہے کچھ دیر میں پہنچتی ہوگی ۔ آپ ان کے ساتھ چلے جانا ۔ ہم سب کام پر جانے والے بندے ہیں ۔ آپ کی طرح کسی فلم کی شوٹنگ پر نہیں نکلے ۔ “
ہمارا دل چاہا کہ اس بدبخت کو سبق سیکھائیں مگر موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے ہم نے اپنی بروس لی والی خصوصیات کو پوشیدہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ اور ویسے بھی ہم جوڈو کراٹے سیکھنےکے ابتدائی مراحل میں ہی تھے ۔ ایک آدھ سے تو نمٹ لیتے ۔ مگر کیا پتا اس بدبخت کیساتھ اور کتنے تھے ۔
ایمبولینس آئی تو لوگ بادل کی طرح چھٹ گئے ۔اور ہم بزگوار کیساتھ تنہا رہ گئے ۔
" آپ ان کیساتھ ہیں " ۔ ایمبولینس والے نے ہم سے پوچھا
" جی ۔۔۔۔ وہ ۔ " ہم کچھ اور کہنے والے تھے ۔ مگر بزرگوار کی حالت دیکھی نہیں گئی ۔ ہم نے اثبات میں جواب دیدیا ۔
" تو پھر آپ ساتھ آئیں ۔ "
" جی میرے پاس موٹر سائیکل ہے ۔ میں آپ کے پیچھے آتا ہوں ۔ "
ہم ایمبولینس کے پیچھے اپنی موٹر سائیکل پر ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے ۔
راستے بھر یہی سوچتے رہے کہ اُدھر وہ دل رُبا ہماری راہ تک رہی ہوگی ۔
ہسپتال پہنچ چکے تھے ۔ ڈاکٹر بزرگ کی طرف متوجہ ہوچکے تھے ۔ ہمیں وہیں ٹہرنے کو کہا گیا ۔ ہم بے چینی سے اپنی گھڑی کو باربار دیکھ رہے تھے ۔ اور سوچ رہے تھے کہ اب قدرت نے ہمارے لیئے کیا امتحان رکھا ہے کہ اتنے تغیرات کے بعد ہم سیدھی لائن پر آئے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دیر ، ہمیں پیڑی سے پھر اتار نہ دے ۔
" ان کی حالت اب بہتر ہے ۔ یہ کچھ دوائیں ہیں ۔ آپ لے آئیں ۔ ہوش میں آئیں گے تو انہیں دیدی جائیگی ۔ شاید آج ہسپتال میں رہنا پڑے ۔ " کچھ دیر انتظار کے بعد نرس نے اندر سے نمودار ہوتے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دواؤں کا نسخہ پکڑاتے ہوئے کہا ۔
ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائیں ۔ ایک طرف محبت آوازیں دے کر پکار رہی تھی ۔ دوسری طرف بزرگوار زخمی حالت میں ہم سے انسانیت کے ناطے مدد کا تقاضا کر رہے تھے ۔
ہمیں بھی خیال آیا کہ بزرگوار کے ہوش میں آنے سے پہلے دواؤں کی ضرورت نہیں ہے ۔ لہذا پہلے اسکول چلے جائیں ۔ پھر اس کے بعد مڈیکل اسٹور سے ان کے لیئے دوائیں لیتے ہوئے ہسپتال چلے جائیں گے ۔
ہم پر کچھ دیر حق و باطل کی کیفیت بلکل اسی طرح طاری رہی ۔ جس طرح اردو محفل پر لوگ اپنی آراء کو حق و باطل کی جنگ بنائے رکھتے ہیں ۔
خیال برا نہیں تھا ۔ لہذا اسکول روانہ ہوگئے ۔ اور یہاں یہ بھی ڈر نہیں تھا کہ ہمارے اس فیصلے کو لوگ باطل قرار دیدیں گے ۔
اسکو ل پہنچے تو معلوم ہوا کہ دو پریڈ زنکل چکے ہیں ۔ پرنسپل صاحب نے ہمیں اپنے کمرے میں بلا لیا ۔
" کیا بات ہے جناب ! آپ کچھ دن اسکول سے غائب تو رہے مگر آج دیر سے بھی آئےہیں ۔ "
پرنسپل صاحب نے تادیبی انداز میں پوچھا ۔
" بس سر ! آپ کی صاحبزادی آجکل ہمارے خوابوں و خیالوں میں اس قدر چھائی ہوئیں ہیں کہ وقت کا پتا نہیں چلتا کہ کب شام ہوئی ، کب سحر ہوئی ۔ "
ہم نے یہ جملہ بڑی مشکل سے اپنے منہ سے نکلنے سے روکا ۔ کہ برجستگی سے جواب دینے کی عادت قدرت کی طرف سے عطا ہوئی تھی ۔
" سر راستے میں ایک حادثہ دیکھا ۔ کوئی بزرگوار تھے ۔ انہیں ہسپتال چھوڑ کر آیا ہوں ۔" ثبوت کے طور پر ہم نے ان کو دواؤں کا نسخہ بھی دکھایا ۔
" ہوں ۔۔۔۔ خیر احتیاط کیا کریں ۔ ویسے بھی کسی اسٹوڈینٹ نے شکایت کی تھی کہ کچھ روز قبل آپ کلاس میں اپنی کرسی پر منہ کھول کر سو رہے تھے ۔ "
پرنسپل صاحب نے ایک اور تیر ہماری طرف پھینکا ۔
" جی وہ تو میں ہمیشہ منہ کھول کر ہی سوتا ہوں ۔ " ہم نے معصومیت سے جواب دیا ۔
" آپ منہ کھول کر سوئیں یا منہ بند کرکے ۔ اس سے اسکول کی انتظامیہ کو کوئی غرض نہیں ہے ۔ مگر اسکول میں اپنی اس عادت کا اطلاق مت کیجیئے کہ اسکول میں پڑھنے اور پڑھانے آیا جاتا ہے ۔ سونے نہیں ۔ "
پرنسپل صاحب میں شریف النفس سُسر بننے کی کوئی صلاحیت ہمیں نظر نہیں آئی کہ وہ مسلسل ہمیں رگید رہے تھے ۔
" سوری سر ! آئندہ خیال رکھوں گا ۔ "
ہمارے پاس کچھ کہنے کو نہیں تھا ۔
پرنسپل صاحب کے کمرے سے نکل کر راہدری میں پہنچے ہی تھے کہ خالد صاحب سے مدبھیڑ ہوگئی ۔
" ارے یار کہاں تھے ۔ ؟ اتنی دیر سے اسکول کیوں آئے ہو ۔ پرنسپل صاحب پوچھ رہے تھے۔ " خالد صاحب نے عجلت میں کئی سوال کر ڈالے ۔
" ہاں ابھی سسر جی کی ڈانٹ کی کھا کر آرہا ہوں ۔ "
خالد صاحب ہنس پڑے ۔
" چلو کوئی بات نہیں ۔ویسے تمہاری کچھ دن کی غیر موجودگی میں تمہاری کلاس کا پریڈز بھی اُسی نے لیئے ہیں ۔ "
" اچھا کہاں ہے وہ ۔ ؟ " ہم نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا ۔
" اسٹاف روم میں ہے ۔ جاؤ مل لو ۔ "
خالد صاحب نے آسانی کیساتھ یہ جملہ کہا ۔ مگر ہمیں یہ مرحلہ زندگی اور موت کے مابین لگا ۔
ہم آہستہ قدموں کیساتھ اسٹاف روم کی طرف بڑھے ۔ دل جیسے سینے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ چہرے پر ایک عجیب تناؤ تھا ۔ ہم بہت باتونی ( یار دوستوں کی اکثریت اسے فلرٹ گرادنتی تھی ) مشہور تھے ۔ مگر آج ہماری صلاحیت جیسے دم توڑتی جا رہی تھی ۔ بہرحال ہم اسٹاف روم میں داخل ہوگئے ۔
ہم نے دیکھا کہ وہ اکیلی تھی اور ایک کرسی پر براجمان کسی اخبار کے مطالعے میں مشغول تھی ۔ ہمارے قدموں کی چاپ سن کر اس نے سر اٹھایا تو اس کے چہرے پر کوئی خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ مگر پھر اس نے سرد مہری سے اپنا چہرہ اخبار پر جھکالیا ۔ اس کے چہرے پر خوشی دیکھ کر ہمیں کچھ ڈھارس ہوئی ۔ مگر سرد مہری کو یہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا کہ شاید یہ ہماری اُس سرد مہری کا جواب ہے ۔ جو ہم نے اُسے خالد صاحب کی منظورِنظر سمجھ کر کچھ دن پہلے اختیار کیا تھا ۔
"السلام علیکم " ۔ ہم نے انتہائی متانت کیساتھ سلام کیا ۔
" وعلیکم السلام " سرد مہری سے جواب آیا ۔
" ویسے جب کوئی آئے تو سلام کرلیا کرتے ہیں ۔ " ہم نےاپنی دانست میں ماحول پُرمزاح بناتے ہوئے کہا ۔
" جو آتا ہے پہلے وہی سلام کرتا ہے ۔ " شکایت اپنے عروج پر تھی ۔ ہم لاجواب ہوگئے ۔
" کیسی ہیں آپ ۔ ؟ " ہم نے ماحول سازگار بنانے کی کوشش جاری رکھی ۔
" اللہ کا شکر ہے ۔ " مختصر سا جواب ملا۔
ہم نےمصنوعی شکایتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ۔
" ویسے یہ سوال آپ کو کرنا چاہیئے تھا کہ میں کچھ عرصہ علیل رہا ۔ "
" آپ اچھے بھلے لگ تو رہے ہیں ۔ بلکہ پہلے سے بھی زیادہ فریش نظر آرہے ہیں ۔ "
گفتگو کو پرانی ڈگر پر لانا مشکل لگ رہا تھا ۔
" ہاں ۔۔۔ کچھ دن آرام کیا ہے ناں ۔ شاید یہ وجہ ہو ۔ ویسے آپ نے ہمیں ہماری غیر موجودگی میں یاد کیا ؟ ۔ "
بلآخر ہم نے اپنی خداداد صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے کچھ بے تکلف ہونے کی کوشش کی ۔
اس نے اخبار ایک طرف رکھ دیا ۔ اور اپنی نظریں ہمارے چہرے پہ گاڑدیں ۔
آج ہم نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں اس قدر قریب سے جھانکا ۔ بخدا ہمیں سونالی باندرے بھول گئی ۔
" آپ میں ایسا کیا ہے کہ میں آپ کو یاد کروں ۔ "
ہمیں اس کے لہجے کی سختی کا بلکل احساس نہیں ہوا ۔ بلکہ اس پر اور بھی پیار آیا ۔
" ہمیں معلوم ہے کہ آپ ہم سے بہت ناراض ہیں ۔ ہم نے آپ کے دل کو بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ آپ کی آنکھوں میں اپنے لیئے جس جذبے کو دیکھا تھا ۔ ہم اُسی جذبے کیساتھ آپ کو جواب دیدنا چاہتے تھے ۔ مگر ایک غلط فہمی کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر رہے اور آپ کا دل دکھا بیٹھے ۔ "
ہم نے انتہائی جذبات سے مغلوب ہوکر اس سے اپنے دل کی بات کہنے کی ٹھان لی ۔
" ایک منٹ سر ! آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ " اس نے ہمیں مذید کچھ کہنے سے روک دیا ۔
" آپ کسی بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ میں نے کسی جذبے کا اظہار نہیں کیا ۔ اور نہ ہی کوئی ایسا اشارہ دیا کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہو ۔ یہ تو اسکول کے اسٹاف کے آپس کے روزمرہ کے معمول ہیں ۔ جس کی بنیاد پر ہم اس طرح بات کرتے ہیں ۔ پتا نہیں آپ نے اپنی طرف سے کیا سمجھ لیا ۔ "
اس نے آسان الفاظ ، مگر سخت لہجے میں ہماری حیثیت یاد کرادی۔
ہم اپنی خداداد صلاحیت اور تجربےکے باوجود یہ اندازہ لگانے سے قاصر رہے کہ اس کی دلچسپی دراصل پیشہ ورانہ بنیادوں پر تھی ۔اسے ہم میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ ہم ہکا بکا رہ رہ گئے ۔
" کسی کیساتھ تھوڑا بے تکلف ہوکر بات کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کسی جذبے کا آغاز ہوگیا ہے ۔ " وہ بدستور تلخ تھی ۔
" بہرحال آئندہ خیال رکھیئے گا ۔ "
یہ کہتےہی وہ کرسی سے اٹھی اور اسٹاف روم سے باہر نکل گئی ۔ اور ہم دروازے کی طرف دیکھتے ہی رہ گئے ۔ جس کشتی سے ہمیں ساحل نظر آرہا تھا ۔وہ کنارے پر آکر ڈوب چکی تھی ۔ ہم میں کچھ کہنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہ رہی ۔
کچھ کمی اپنی ، وفاؤں میں بھی تھی
تم سے کیا کہتے کہ تم نے ،کیا کیا
( جاری ہے )
( قصہ نہم )
ہم اپنی عاشق مزاج طبعیت ، لاپرواہی اور بذلہ سنجی کا لاکھ ڈھنڈورا پیٹیں ۔ مگر ہم پر جو وقت کچھ دیر قبل گذر چکا تھا ۔ اس نے ہمیں اس قدر جذباتی کردیا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب اشک ہماری آنکھوں میں آئے اور کب خالد صاحب اپنی بڑی سی عینک کیساتھ ہمارے سر پر آن کھڑے ہوئے ۔ ہماری آنکھوں میں ساون بھادو ں دیکھ کر اضطراب کے عالم میں پوچھا " کیا ہوا ۔؟ "
" کچھ نہیں " ہم نے مختصر سا جواب دیا ۔
" تو پھر یہ اشک ۔۔۔ ؟ "
"کچھ نہیں ، خوشی کے آنسو ہیں ۔"
ہم بڑی مشکل سے مسکرائے اور اسٹاف روم سے باہر نکل گئے ۔
زندگی کا احساس ایک لطیف احساس ہے ۔ مگر انسان کی فطرت بھی بہت متضاد ہے ۔ انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ادوار میں بانٹ کر جیتا ہے ۔ ماضی اسے ایک سہانے خواب کی مانند محسوس ہوتا ہے ۔ جہاں وہ اکثررہنے کی کوشش بھی کرتا ہے ۔ مستقبل کے تابناک تصور سے اس کی امنگیں اور جینے کی آرزوئیں مچلتیں رہتیں ہیں ۔ مگر جو دورجس میں وہ جی رہا ہوتا ہے ۔جسے حال کہتے ہیں ۔ اس کے لیئے وہ ایک معمہ ہوتا ہے ۔ حالانکہ یہی دور اس کی اصل زندگی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ ماضی کہیں پیچھے رہ گیا ہوتا ہے ۔ مستقبل کا تصور چاہے کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو مگر اس کی دسترس اُس واہمے کی طرح ہوتی ہے کہ "کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک " ۔ وہ تمام تعلقات اور رابطے جو احساس کی ذریعے رشتوں کی بنیاد پر اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں ۔ انسان ان سب سے نامعلوم سی اُلجھن محسوس کرتا ہے ۔ اور پھر یہ نامعلوم سی الجھن اس کو متلون مزاج بنادیتی ہے اور پھر یہ متلون مزاجی اس کےحال کو ماضی بنا دیتی ہے ۔ اور پھر یوں ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ انہیں یاد کرکے رورہا ہوتا ہے ۔مگرحال کو پھر نظرانداز کرکے مستقبل کی فریب انگیزیوں میں دوبارہ کھو جاتا ہے ۔
ہم نے بھی اس فریبِ نظر کے خوب دھوکے کھائے ۔ کسی تصور، کسی سراپا کی خاطر کہاں کہاں محاذ آرائی نہیں کی ۔ مگر جو چیز سامنے تھی ۔ اس سے الجھن محسوس ہوتی رہی ۔ اور ماضی کو یاد کرکے مستقبل کے بلیک ہول میں چھلانگیں مارتےرہے اور پھر اپنے وجود کو ڈھونڈتے رہے ۔ ہمیں پھر اس فقیر کا خیال آیا جس نے ہماری گستاخی کی نتیجے میں بدعا دی تھی کہ " تیری دھوتی میں بھی کوئی پٹاخہ پھوڑے ۔ " ( ہم نے اس بدعا کا تذکرہ پہلےکرنا مناسب نہیں سمجھا تھا ) ۔ مگر ہمیں پرواہ نہیں رہی کہ ہم دھوتی نہیں باندھتے تھے ۔ مگر اس خیال سے بھی غافل رہے کہ جینز کی چست پتلون میں کسی پٹاخے کا پھٹنا ، کسی ہوادار دھوتی کے مقابلے میں کیا قیامت ڈھا سکتا ہے ۔ اس کا احساس اب ہورہا تھا ۔ اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ میں آرہی تھی کہ ضروری نہیں ہےکہ ، پٹاخہ کسی بارودی مادے سے ہی وجود میں آئے ۔ اس کا ظہور کسی زبان سے کسی جملے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے ۔
مرنے کے لیئے زہر ضروری تو نہیں ہے
مجھ کو تری ایک چُبھتی ہوئی بات بہت ہے
ہم انہی خیالوں کیساتھ الجھ رہے تھے کہ ہمیں ان بزرگوار کا خیال آیا ۔ جنہیں ہسپتال میں چھوڑ آئے تھے ۔ اسکول سے چھٹی کا وقت ہوچلا تھا ۔ ہم نے اپنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اورمڈیکل اسٹور سے دوائیں لیتے ہوئے ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے ۔
بزرگوار کو ہوش آچکا تھا ۔ مگر عمر اور زیادہ خون بہہ جانے کی صورت میں قدرے نقاہت محسوس کر رہے تھے ۔
" آپ نے اتنی دیر لگادی "ایک دیوہیکل نرس نے ہمیں دیکھتے ہی جھڑک دیا ۔
" جی سوری " ۔ ہماری صرف اتنی ہی آواز نکل سکی ۔ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں وہ ہاتھ نہ جھڑ دے ۔
" بیٹا ! کیا آپ وہی ہیں ۔ ؟ جس نے ہمیں ہسپتال پہنچایا۔" انہوں نے سوال کیا ۔
" جی انکل وہ میں ہی ہوں ۔ معافی چاہتا ہوں کہ دوائیں لانے میں تاخیر ہوگئی ۔ " ہم آہستگی سے کہا ۔
وہ ہمیں کچھ دیر دیکھتے رہے ۔ اور پھر کہا " میں جاب پر جانے گھر سے نکلا تھا ۔ اب تقربیا 2 بج چکے ہیں ۔ میرے دفتر والوں نے گھر فون کیا ہوگا اور گھر والے سب ہی پریشان ہونگے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں آپ کے موبائل سے گھر والوں کو اس واقعے کی خبر کردوں ۔ "
" کیوں نہیں انکل ضرور فون کیجیئے ۔ ہم نے اپنا نیا موبائل انہیں پیش کردیا ۔
انہوں نے فون پر حادثے کی تفصیل کیساتھ ہسپتال کا پتا بھی پتایا اور فون واپس کردیا ۔
" بیٹا ! میری سمجھ نہیں آرہا کہ میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں کہ تم نے میری بڑی مدد کی ۔ "
"اس میں شکریہ کہ کیا بات ہے انکل ۔ مجھے جو کرنا چاہیئے تھا وہ میں نے کیا ۔ " میں نے متانت سے جواب دیا ۔
وہ شکرگذار نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے ۔ اور میں ان کی صحت کے بارے میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ڈاکٹر سے تفصیلات لینے لگا ۔
تقریباِ ایک گھنٹے کے بعد ایک خاتون ایک جواں سال لڑکی کیساتھ کمرے میں داخل ہوئیں ۔ اور انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں ان بزرگوار کی خیریت دریافت کرنے لگیں ۔
میں فوراً باہر آگیا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ خاتون بزرگوار کی اہلیہ اور لڑکی شاید صاحبزادی ہیں ۔
مجھے گھر بھی فون کرنا تھا کہ کافی لیٹ ہوگیا تھا ۔ امی کو فون پر واقعے کی تفصیل بتائی اور کچھ دیر سے آنے کا کہہ کر فون رکھ دیا ۔
" بیٹا ! آپ باہر کیوں کھڑے ہو ۔ اندر آجاؤ ۔ " انہی خاتون نے کمرے سے باہر آکر بہت پیار سے کہا ۔
ہمیں احساس ہوگیا کہ بزرگوار شاید ہمارے بارے میں انہیں بتا چکے ہیں ۔
" بیٹا ! یقین کرو ہم سب آپ کے بیحد ممنون ہیں کہ آپ نے ہماری یوں مدد کی ۔ ورنہ آجکل کون کس کی مدد کرتا ہے ۔ " خاتون نےایک بار پھرہم سے مخاطب ہوئیں ۔
" آنٹی آپ اب شرمندہ نہ کیجیے ۔ انکل پہلے ہی کر چکے ہیں ۔ " ہم نے ماحول کو تناؤ سے نکالنے کے لیئے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ۔
سب ہنس پڑے ۔ تب پہلی دفعہ ہماری نظر اس لڑکی کے چہرےجا پڑی جو غالباً بزرگوار کی صاحبزادی تھیں ۔
قسمت نے گویا قسم کھا رکھی تھی کہ دل کو عشق کے عارضے میں ہمیشہ مبتلا رکھنا ہے ۔ یا پھر اُس فقیر کی دی ہوئی بدعا کسی اور شکل میں ہمارا امتحان لینا چاہتی تھی ۔
انتہائی صاف رنگت پر رخسار پر گلابی رنگ ، حیا کی سرخی بنا قیامت ڈھا رہا تھا ۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں ہرنی کی وحشت کے بجائے تشکر اور اپنائیت کا جذبہ صاف نظر آرہا تھا ۔ ہم اسکے چہرے کا مذید جائزہ لیتے مگر اپنی قسمت اور فقیر کی بدعا کا سوچ کر اپنے دل کی بے قابو ہوتی ہوئی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے ۔
" بیٹا ! آج آپ کا کافی وقت ضائع ہوگیا ہے ۔ اور ہاں ادویات پر آپ کی جو بھی رقم خرچ ہوئی ہے ۔ سدرہ آپ کو ابھی ادا کردیگی ۔ " پھر توقف کے بعد بولے ۔
" میں بھی کتنا پاگل ہوں ۔ اپنےمحسن سے اپنی اہلیہ اور بیٹی کا تو تعارف ہی نہیں کرایا اور نہ ہی اپنے محسن کے بارے میں کچھ پوچھا ۔ " پھر یہ کہہ کر انہوں نے بالترتیب اپنی اہلیہ اور بیٹی کا تعارف کرایا اور ساتھ ساتھ میں نے ابھی اپنے بارے میں بتایا ۔
" انکل میں اب چلوں گا ۔ کافی دیر ہوگئی ہے ۔ کل آپ کو ڈسچارچ کردیا جائے گا ۔ ان شاءاللہ آپ خیریت معلوم کرتا ہوا اسکول جاؤں گا "
" ضرور بیٹا ! مگر کل آنا ضرور ۔ میں انتظار کروں گا ۔ " پھر وہ دعائیں دینے لگے ۔ہم کمرے سے باہر نکل آئے اور ہمارے پیچھے ان کی صاحبزادی بھی تھیں ۔
ہم نے دل پر جبر کیا ہوا تھا کہ اس مہ جبیں کہ طرف نہ دیکھیں ۔ مگر جب اس نے مخاطب کیا تو ہماری نگاہ پھر اس کے چہرے کی جانب اٹھ گئی ۔
عاشق مزاج ہونا تو سمجھ میں آتا تھا ۔ مگر یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ایک قصہ ختم ہونے نہیں پاتا اور دوسرا سامنے کھڑا ہوتا ہے ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حسین چہرے ہماری کمزوری ہیں ۔ اور ہم آنکھ بند کر ان کے پیچھے چلے آتے ہیں ۔ مگر تواتر سے اس مزاجِ عشق کی پُرکاری کے لیئے ایک چہرہ دوسرےچہرے کے بعدمختصر سےوقفے میں سامنے آن کھڑا ہوجاتا تھا ۔ابھی ہم پرنسپل صاحب کی صاحبزادی کی جھاڑ سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوئے تھے کہ ایک نئی " جھاڑ " ہمارے سامنے کھڑی تھی ۔
" کہاں کھوئے ہوئے ہیں " غالباً اس نے ہمیں محو دیکھ کر مخاطب کیا ۔
ہمارے کانوں میں گویا جلترنگ بج اٹھے ہوں ۔ ہم اس کے چہرے کے حصار سے بچنےکی کوشش کر رہے تھے کہ اس کی سُریلی آواز نے ہمارےقدموں میں زنجیریں ڈال دیں۔
" نہیں کچھ نہیں ۔ بس ایسے ہی " ہم سے جواب بن نہیں پایا ۔
" بابا کہہ رہے تھے آپ کی جو رقم ادویات پر خرچ ہوئی ہے ۔ میں آپ کو ادا کردوں ۔ تو کتنی رقم تھی وہ ۔ ؟ اس نے پوچھا ۔
" اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔ ۔۔۔۔۔ ! " ہم نے توقف کے بعد کہا ۔ "ہسپتال کے دروازے پر دے دیجیئے گا ۔ ہم سے ہماری رومانی طبعیت کا بوجھ سہا نہ گیا اور ایک بلآخرایک شگوفہ دے مارا۔
ایک لمحے تو وہ چونکی اور پھر مذاق کو سمجھ کر کھکھلا کر ہنس پڑی ۔ سرخ لبوں کے پیچھے موتی جیسے دانتوں کو دیکھ کر ہم نے سوچا کل سے ہم بھی اپنا ٹوٹھ پیسٹ تبدیل کرلیں گے ۔ کیونکہ اسے دیکھ کر ہمیں بھی دوبارہ کھکھلاکرہنسنے کا شوق ہوا چلا تھا ۔
اس کے اصرار کے باوجود ہم نے رقم نہیں لی ۔ مگر وہ بضد تھی کہ وہ کل یہ رقم میرے ہاتھوں میں تھما دے گی ۔
ہسپتال کے احاطے میں ہم اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو خدا حافظ کہا ۔ اس نے بھی جواب دیا ۔
" آپ کل آئیں گے ناں ۔ "
ہم نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہاں بے یقینی کیساتھ چاہتوں کا بھی ڈیرہ نظر آیا ۔
ہم مسکرائے اور اثبات میں سر ہلادیا اور اس کے چہرے پر طمانیت سی چھا گئی ۔
ہماری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ فقیر کی بدعا کو دعا سمجھیں ۔ یا اپنی قسمت کی عشق کے معاملے میں زرخیزی۔ ہم پر کچھ دیر پہلے اداسی اور مایوسی کا جو عالم چھایا ہوا تھا ۔ وہ لمحوں میں اپنی اہمیت کھو بیٹھا تھا ۔ اور ہماری نگاہوں کے سامنے مستقبل کے حوالے سے پھر رنگین اور شوخ دائرے ناچنا شروع ہو گئے تھے ۔ یکایک ہمیں احساس ہوا کہ مستقبل کا یہ سہانا سراب ، اس حال کو پھر کسی ماضی میں تبدیل نہ کردے ۔ اور ہم مُنیر نیازی کی طرح دہائی دیتے رہ جائیں کہ:
اِک اور دریا کا سامنا تھا مُنیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا!
( جاری ہے )
السلام علیکم سر
کمال کا بیان دیا ہے آپ نے
اپنے عالمِ عشق کا
ہم ہر لفظ ہر جملے اور قیامت خیز
روداد کو مدّے نظر رکھتے ہوئے آپ پر
ایک جرمِ ناقص عائد کرتے ہوئے
اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دفع دعائے
بزرگ کے تحت ہم کو پیاسا چھوڑنے پر
داستانِ ہسپتال لکھنے کی آرزو کی جاتی ہے
ظفری بھائی میں جب اردو محفل چھوڑ کر گیا تھا ۲۰۱۴، یہ سلسلہ تب کا رُکا ہوا ہے۔ اب میں واپس آ گیا ہوں، اس لیے اس (جاری ہے) کو جاری کیا جائے۔
اس دوران چائے کوفی اور ٹھنڈے مشروبات سے آپ کی تواضع کی جاتی رہے گی۔
ممکن ہے مومن فرحین بھی بریانی بنا کر ادھر ہی لے آئے۔