ڈاکٹر ادیب رائے پوری کا ایک منفرد نعتیہ کلام

عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار، تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار، کہ رَہتے ہیں وہ توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار

ورنہ وُہ سیّدِ عالی نَسَبی، ہاں وُہی اُمّی لقَبی ، ہاشمی و مُطّلبی و عَرَبی و قَرشی و مَدَنی اور کہاں ہم سے گنہگار

آرزُو یہ ہے کہ ہو قَلب مُعَطّر و مُطَہّرو مُنَوّر و مُجَلّٰی و مُصَفّٰی، دُرِ اَعلیٰ جو نظر آئے کہیں جَلوۂ رُوئے شَہہِ اَبرار

جن کے قَدموں کی چَمک چاند ستاروں میں نظر آئے، جِدھر سے وُہ گُذر جائے، وُہی راہ چمک جائے، دَمک جائے، مہک جائے ،بنے رَونق ِگُلزار

سُو نگھ لُوں خُوشبُوئے گَیسُوئے مُحَمَّدﷺ وہ سیاہ زُلف نہیں ، جس کے مقابل یہ بَنَفشَہ، یہ سیُوتی ،یہ چنبیلی ، یہ گُلِ لالہ و چمپَا کا نکھار

اُن کی نکہت پہ ہے قربان، گُل و بَرگ و سمن ،نافۂ آہوئے خُتن، اور کَہیں سُنبَل، کہیں رَیہا، کہیں عَنبَر، کہیں قَیصَر، کہیں صَندَل کی بَہار

ہے تمنّا کہ سُنُوں میں بھی وہ آوازِ شَہہِ جِنّ و بَشَر، حَق کی خبر، خُوش تَر و شیرِیں زشکر، حسنِ فصاحت کا گُہر،کوئی نہیں جِس کے بَرابَر

وُہ دِل آرام صدا، دونوں جہاں جس پہ فدا، غُنچَہ دہن، طُوطیِ صَد رَشکِ چمن، نَغمۂ بلبل زگلستانِ اِرم ،مصر و یمن جس کے خَرِیدار

بَخش دیتے ہیں شہنشاہِ سمر قند و بخارا ،کسی مَحبُوب کے رُخسار کےتِل پر، مگر اَے خلق کے رہبر، اَے میرے مہرِ منوّر

میں کرُوں تُجھ پہ تَصَدُّق، دَمِ عِیسٰی، یدِبَیضا، دَرو دِیوارِ حرم کعبۂ دل،اِن سے بڑی کوئی نہیں شے میرے پاس، میری چشمِ گُہربار

جامۂ عشق محمدﷺ جو پہن لیتا ہے، ہر خار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت سے شمار

اے خدا عزوجل! اے شہ کونین کے رب! لفظ حریص کے سبب، ایک ہوں سب، عجمی ہوں کہ عرب، تاکہ ملے امت مرحوم کو پھر کھویا وقار

یا نبیﷺ آپ کا یہ ادنیٰ ثنا خواں، در رحمت کا گدا ، دیتا ہے در در یہ صدا ، چاہتا ہے آپ سے چاہت کا صلہ، اپنی زباں میں تاثیر

سن کے سب اہل چمن، اس کا سخن، ان کو بھی آجائے حیا ،سر ہو ندامت سے جھکا ،اور نظر دیکھے وہ اسلاف کی الفت کا نظارا، اک بار

اک شہنشاہ نے بخشے جو ثمر قند و بخارا ،کسی محبوب کے رخسار کے تل پر مگر اے سیدے عالی، تیری ناموس تیری عظمت پر

اے رسول مدنی ایک نہیں لاکھوں ہیں قربان گئے عشق کے ہر کوچہ بازار میں سر اپنا ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں کرنے کو نثار

عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون ،بلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زبان اس سے نہیں کوئی سروکار

جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار

یہ مہاجر کی صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز

حرم کعبه میں عرفات کے میدان میں یا روضہ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار

اے ادیب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال

اُن کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اِس میں شعار

صلی اللہ علی النبی الامی وآلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم

الفاظ و معانی
توصیف : خوبی بیان کرنا
شہہ: بادشاہ
ابرار: اولیاءا للہ
قرشی: قریش سے منسوب
مُجلٰی: چمکایا ہوا، صاف کیا ہوا
مُصفٰی: پاک صاف، نتھرا ہوا
دُر: موتی، گوہر
سیوتی: ہندی میں سفید گلاب کو کہتے ہیں
نافہ: مُشک کی تھیلی۔ ایک خاص ہرن کے پیٹ کی تھیلی جو خوشبو دار ہوتی ہے
آہوئے ختن: مقام ختا کا ہرن، جو مشک کے لئے مشہور ہے۔ آہو ہرن کو کہتے ہیں۔ نافہ آہوئے ختن کا مطلب ہوا کہ ختا کے ہرن کی مشک کی تھیلی۔
گُہر: موتی، اصل نسل، حسب نسب
چکیدہ: فارسی لفظ ہے۔ ٹپکا ہوا۔ صفت ہے
تصدق: صدقے، نثار، کوئی چیز وار کر خیرات کرنا
دمِ عیسٰی: حضرت عیسٰی کی پھونک جس سے مردہ زندہ ہوجاتا تھا
یدِ بیضا:حضرت موسیٰ کا معجزہ نما ہاتھ، روشن اور چمکدار ہاتھ
سب کہوﷺ اورالف الف تحیۃ وسلام
اللہ ہمیں مدینہ کی زیارت نصیب فرمائے۔آمین
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ شامل کرنے کا،
بس ایک ذرا تدوین کر کے ان اشعار کو اشعار کی طرح دو سطر میں لکھ دیں تو بہت اچھا ہے
حوصلہ افزائی کے بے حدمشکورہوں۔
غلطی کی طرف توجہ دلانے کےلیے بھی شکریہ۔
دراصل اسی طرز پرایک نعت گوسے سنی تھی توویسے ہی تحریر کردی۔
 
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار تو کھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اسرار کہ رہتے ہیں وہ توصیف ثنائے ابرار میں ہر لہجائے گوہر بار
ورنہ وہ سیدے اعلی نسبی ہاں وہی امی لقبی ہاشمی و مطلبی و عربی و قرشی ومدنی اور کہاں ہم سے گناہگار
یہ دو مصرعوں کی ترتیب ہے، "الف اور رے" قافیہ ہے ۔
اور دوسری چیز جو ابھی دیکھی ، کچھ جگہ الفاظ، املا، کی اغلاط بھی ہیں ، نسخے سے دیکھ کر درست کرلی جائے تو بہت مناسب رہے گا۔
 
یہ دو مصرعوں کی ترتیب ہے، "الف اور رے" قافیہ ہے ۔
اور دوسری چیز جو ابھی دیکھی ، کچھ جگہ الفاظ، املا، کی اغلاط بھی ہیں ، نسخے سے دیکھ کر درست کرلی جائے تو بہت مناسب رہے گا۔
تصحیح اورنشاندہی کےلیے بہت بہت شکریہ
دراصل نسخہ بندہ کودستیاب نہیں، اوریہ نعتیہ کلام کسی مستند ویب سائٹ پربھی نہیں مل رہی۔
کافی دیر سرگرداں مارے پھرتا رہا مگرجومطلوب تھا نہ ملا اس کے علاوہ بہت سی لاجواب نعتیہ کلام ومناقب ہاتھ آگئیں۔
اب آپ ہی کوئی راہنمائی کریں کہ بندہ کیا کریں؟
 
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری​
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل​
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ​
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور​
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر​
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور​
 
سرخ رنگ میں موجود الفاظ و مصرع سید ادیب حسین رائے پوری کے مجموعہ ’’ مقصودِ کائنات‘‘ میں اسی طرح ہیں۔

عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار، تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رَہتے ہیں وہ توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
ورنہ وُہ سیّدِ عالی نَسَبی، ہاں وُہی اُمّی لقَبی ، ہاشمی و مُطّلبی و عَرَبی و قَرشی و مَدَنی اور کہاں ہم سے گنہ گار


آرزُو یہ ہے کہ ہو قَلب مُعَطّر و مُطَہّرو مُنَوّر و مُجَلّٰی و مُصَفّٰی، دُرِ اَعلیٰ جو نظر آئیں کہیں جَلوۂ رُوئے شَہہِ اَبرار
جن کے قَدموں کی چَمک چاند ستاروں میں نظر آئے، جِدھر سے وُہ گُذر جائے، وُہی راہ چمک جائے، دَمک جائے، مہک جائے ،بنے رَونق ِگُلزار


سُو نگھ لُوں خُوشبُوئے گَیسُوئے مُحَمَّدﷺ وہ سیاہ زُلف نہیں ، جس کے مقابل یہ بَنَفشَہ، یہ سیُوتی ،یہ چنبیلی ، یہ گُلِ لالہ و چمپَا کا نکھار

جس کی نکہت پہ ہیں قربان گل و برگ و ثمن نافہِ آہوئے ختن بادِ چمن بوئے چمن نازِ چمن نورِ چمن رنگِ چمن سارا چمن زار (یہ مصرع سید ادیب رائے پوری کے مجموعہ ’’مقصودِ کائنات‘‘ میں ہے)
اُن کی نکہت پہ ہے قربان، گُل و بَرگ و سمن ،نافۂ آہوئے خُتن، اور کَہیں سُنبَل، کہیں رَیہا، کہیں عَنبَر، کہیں قَیصَر، کہیں صَندَل کی بَہار
(یہ مصرع مقصودِکائنات میں نہیں)


یہ تمنّا کہ سُنُوں میں بھی وہ آوازِ شَہہِ جِنّ و بَشَر، حَق کی خبر، خُوش تَر و شیرِیں زشکر، حسنِ فصاحت کا گُہر، نطق کرے ناز سخن پر
وُہ دِل آرام صدا، نامِ خدا، جس پہ فدا، غُنچَہ دہن، طُوطیِ صَد رَشکِ چمن، نَغمۂ بلبل زگلستانِ عدن ،مصر و یمن جس کے خَرِیدار


بَخش دیتے ہیں شہنشاہِ سمر قند و بخارا ،کسی مَحبُوب کے رُخسار کےتِل پر، مگر اَے خلق کے رہبر، اَے میرے مہرِ منوّر
میں کرُوں تُجھ پہ تَصَدُّق، دَمِ عِیسٰی، یدِبَیضا، دَرو دِیوارِ حرم کعبۂ دل،اِن سے بڑی کوئی نہیں شے میرے پاس، میری چشمِ گُہربار
(یہ شعر مقصودِکائنات میں نہیں)

اک شہنشاہ نے بخشے جو ثمر قند و بخارا ،کسی محبوب کے رخسار کے تل پر مگر اے سیدِ عالم، تیری ناموس تیری عظمت پر
اے رسول مدنی! ایک نہیں لاکھوں ہیں قربان گہِ عشق کے ہر کوچہ بازار میں سر اپنا ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں کرنے کو نثار



آپ کے ذکر میں ہیں نغمہ سرا سارے ہُدی خوانِ عرب، نغمہ نگارانِ عجم، شوکتِ الفاظِ ادب، عظمتِ قرطاس و قلم، بادِ صباء موجِ نسیم
دہنِ بلبلِ شیریں، لحنِ قمری و طوطی، شبِ مہتاب، ستارے، مَلَک و حور و جناں جن کی نواؤں میں درودوں کا حصار


وَرَفَعنا لَکَ ذکرَک کی اِس اِک آیتِ توصیف کی توصیف میں، تفسیر میں، تشریح میں، توضیح میں، تضمین میں ہر عہد کی شامل ہے زبان
لَبِ حَسّان و رواحہ و لَبِ فاطمہ زہرا و علی، عابدِ بیمار و بوصیری، دہنِ عُرفی و جامی لَبِ سعدی و رَضؔا سب سرشار



عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون وبلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار

یہ مہاجر کی ہے صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز
حرم کعبه میں عرفات کے میدان میں یا روضہ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار


ایسا محبوب دیا حق نے تمھیں صَلِّ عَلٰی، جس کا مماثل نہ مقابل کہ لقب جس کو حریصُُ کا دیا، اتنا کیا جس نے گنہ گاروں سے پیار
اے خدا ! اے شہ کونین کے رب! لفظ حریص کے سبب، ایک ہوں سب، وہ عجمی ہوں کہ عرب، تاکہ ملے امت مرحوم کو پھر کھویا وقار


یا نبیﷺ آپ کا یہ ادنیٰ ثنا خواں، در رحمت کا گدا ، دیتا ہے در در یہ صدا ، چاہتا ہے آپ سے چاہت کا صلہ، اپنی زباں میں تاثیر
سن کے سب اہل چمن، اس کا سخن، ان کو بھی آجائے حیا ،سر ہو ندامت سے جھکا ،اور نظر دیکھے وہ اسلاف کی الفت کا نظارا، ایک بار


اے ادیؔب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال
اُن کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اِس میں شعار
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کہ پختون وبلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار

یہ مہاجر کی ہے صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز
حرم کعبہ میں عرفات کے میدان میں یا روضہ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار

 

جاسمن

لائبریرین
ہائے اتنی پیاری نعت۔۔۔یہ تو سیدھی دل میں اتر گئی۔
سبحان اللہ!
مجھے تو الفاظ نہیں مل رہے اپنے محسوسات کو بیان کرنے کے لئے۔بس میں نے اسے ایک آخری پہر میں پڑھنے کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کروں گی اور اسے پڑھتی جاوں گی۔میں ابھی سے پرجوش ہوں۔
جزاک اللہ خیرا۔اللہ آپ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیارا امتی بنائے۔ آمین!ثم آمین!
 
آخری تدوین:
عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار، تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار، کہ رَہتے ہیں وہ توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار

ورنہ وُہ سیّدِ عالی نَسَبی، ہاں وُہی اُمّی لقَبی ، ہاشمی و مُطّلبی و عَرَبی و قَرشی و مَدَنی اور کہاں ہم سے گنہگار

آرزُو یہ ہے کہ ہو قَلب مُعَطّر و مُطَہّرو مُنَوّر و مُجَلّٰی و مُصَفّٰی، دُرِ اَعلیٰ جو نظر آئے کہیں جَلوۂ رُوئے شَہہِ اَبرار

جن کے قَدموں کی چَمک چاند ستاروں میں نظر آئے، جِدھر سے وُہ گُذر جائے، وُہی راہ چمک جائے، دَمک جائے، مہک جائے ،بنے رَونق ِگُلزار

سُو نگھ لُوں خُوشبُوئے گَیسُوئے مُحَمَّدﷺ وہ سیاہ زُلف نہیں ، جس کے مقابل یہ بَنَفشَہ، یہ سیُوتی ،یہ چنبیلی ، یہ گُلِ لالہ و چمپَا کا نکھار

اُن کی نکہت پہ ہے قربان، گُل و بَرگ و سمن ،نافۂ آہوئے خُتن، اور کَہیں سُنبَل، کہیں رَیہا، کہیں عَنبَر، کہیں قَیصَر، کہیں صَندَل کی بَہار

ہے تمنّا کہ سُنُوں میں بھی وہ آوازِ شَہہِ جِنّ و بَشَر، حَق کی خبر، خُوش تَر و شیرِیں زشکر، حسنِ فصاحت کا گُہر،کوئی نہیں جِس کے بَرابَر

وُہ دِل آرام صدا، دونوں جہاں جس پہ فدا، غُنچَہ دہن، طُوطیِ صَد رَشکِ چمن، نَغمۂ بلبل زگلستانِ اِرم ،مصر و یمن جس کے خَرِیدار

بَخش دیتے ہیں شہنشاہِ سمر قند و بخارا ،کسی مَحبُوب کے رُخسار کےتِل پر، مگر اَے خلق کے رہبر، اَے میرے مہرِ منوّر

میں کرُوں تُجھ پہ تَصَدُّق، دَمِ عِیسٰی، یدِبَیضا، دَرو دِیوارِ حرم کعبۂ دل،اِن سے بڑی کوئی نہیں شے میرے پاس، میری چشمِ گُہربار

جامۂ عشق محمدﷺ جو پہن لیتا ہے، ہر خار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت سے شمار

اے خدا عزوجل! اے شہ کونین کے رب! لفظ حریص کے سبب، ایک ہوں سب، عجمی ہوں کہ عرب، تاکہ ملے امت مرحوم کو پھر کھویا وقار

یا نبیﷺ آپ کا یہ ادنیٰ ثنا خواں، در رحمت کا گدا ، دیتا ہے در در یہ صدا ، چاہتا ہے آپ سے چاہت کا صلہ، اپنی زباں میں تاثیر

سن کے سب اہل چمن، اس کا سخن، ان کو بھی آجائے حیا ،سر ہو ندامت سے جھکا ،اور نظر دیکھے وہ اسلاف کی الفت کا نظارا، اک بار

اک شہنشاہ نے بخشے جو ثمر قند و بخارا ،کسی محبوب کے رخسار کے تل پر مگر اے سیدے عالی، تیری ناموس تیری عظمت پر

اے رسول مدنی ایک نہیں لاکھوں ہیں قربان گئے عشق کے ہر کوچہ بازار میں سر اپنا ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں کرنے کو نثار

عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون ،بلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زبان اس سے نہیں کوئی سروکار

جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار

یہ مہاجر کی صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز

حرم کعبه میں عرفات کے میدان میں یا روضہ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار

اے ادیب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال

اُن کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اِس میں شعار

صلی اللہ علی النبی الامی وآلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم

الفاظ و معانی
توصیف : خوبی بیان کرنا
شہہ: بادشاہ
ابرار: اولیاءا للہ
قرشی: قریش سے منسوب
مُجلٰی: چمکایا ہوا، صاف کیا ہوا
مُصفٰی: پاک صاف، نتھرا ہوا
دُر: موتی، گوہر
سیوتی: ہندی میں سفید گلاب کو کہتے ہیں
نافہ: مُشک کی تھیلی۔ ایک خاص ہرن کے پیٹ کی تھیلی جو خوشبو دار ہوتی ہے
آہوئے ختن: مقام ختا کا ہرن، جو مشک کے لئے مشہور ہے۔ آہو ہرن کو کہتے ہیں۔ نافہ آہوئے ختن کا مطلب ہوا کہ ختا کے ہرن کی مشک کی تھیلی۔
گُہر: موتی، اصل نسل، حسب نسب
چکیدہ: فارسی لفظ ہے۔ ٹپکا ہوا۔ صفت ہے
تصدق: صدقے، نثار، کوئی چیز وار کر خیرات کرنا
دمِ عیسٰی: حضرت عیسٰی کی پھونک جس سے مردہ زندہ ہوجاتا تھا
یدِ بیضا:حضرت موسیٰ کا معجزہ نما ہاتھ، روشن اور چمکدار ہاتھ
سب کہوﷺ اورالف الف تحیۃ وسلام
اللہ ہمیں مدینہ کی زیارت نصیب فرمائے۔آمین
ماشاء اللہ. بہت خوب نعت. اور بہت خوب کاوش
 
احسان اللہ سعید بھائی کیا کہنے اس کلام کے واہ واہ جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔ بہت شکریہ شامل کرنے کا،
بس ایک ذرا تدوین کر کے ان اشعار کو اشعار کی طرح دو سطر میں لکھ دیں تو بہت اچھا ہے
اس میں تدوین ہو گی تو یہ اصل سے ہٹ جائے گی اور مسخ ہو جائیگی. کیونکہ شاعر نے ایسے ہی لکھی ہے. نوعِ جدید ہے.
 
Top