گالی گلوچ

(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)
زبان کا بے ہودہ اور غلط استعمال گالی کہلاتا ہے ۔ اسلام میں بد زبانی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لیکن ہمارے سماج ( Society) میں اس کا استعمال ایسے ہے جیسے لوگوں نے فحش گوئی میں پی ایچ ڈی ( Ph.D) کی ہو ۔ کچھ افراد طیش میں آکر خود کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ زبان درازی بہت ہی بری عادت ہے اور اکثر ، لڑائی کا باعث بنتی ہے جبکہ اسلام نے ہمیں اچھی بات کہنے اور ناجائز گفتگو نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تو معبودانِ باطلہ کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے ۔ الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور وہ ( مشرکین ) اللہ کو چھوڑ کر جنھیں پکارتے ہیں ، تم انھیں گالی نہ دو ، پھر وہ بھی جہالت میں حد سے گزرتے ہوئے اللہ کو گالی دیں گے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۰۸ ) ۔ لیکن کچھ بد بخت اﷲ پاک کو گالیاں دینے سے نہیں گھبراتے ۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے حالانکہ اسے زیبا نہیں کہ مجھے گالی دے ۔ اور میری تکذیب کرتا ہے حالانکہ اسے لائق نہیں ( کہ میری تکذیب کرے ) ‘‘ ۔ اس کا مجھے گالی دینا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ : ’’ میری اولاد ہے ‘‘ ۔ اور اس کا میری تکذیب کرنا اس کا یہ کہنا ہے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ دوبارہ مجھے زندہ نہیں کرے گا جس طرح اس نے مجھے پہلے پیدا کیا تھا ‘‘ ، ( بخاری : ۳۱۹۳ ) ۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، الرحمن فرماتے ہیں کہ : ’’ ابن آدم ! مجھے تکلیف پہنچاتا ہے ۔ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے ، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام معاملات ہیں ۔ رات اور دن کو میں ہی پھیرتا ہوں ‘‘ ، ( بخاری : ۲۶ ۴۸ ) ۔ جھوٹے خداوں کا انکار ضروری ہے اور انہیں گالی دینا ٹھیک نہیں ۔
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے جو اسے گمراہ کرنے کے لیے متعدد جال بچھاتا ہے ، لیکن ابلیس کو بھی گالی دینا جائز نہیں ۔ ہاں ! اس سے اﷲ کی پناہ مانگنی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ’’ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اﷲ کی پناہ طلب کرو ۔ یقیناًوہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے ‘‘ ، ( حم السجدۃ : ۳۶ ) ۔
ہنسی آتی ہے مجھے حضرت انسان پر کار بد تو خود کرے ، لعنت کرے شیطان پر
رسول اﷲ ﷺ نے بد کلامی کرنے والے کو آگا ہ فرمادیا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ( گناہ ) ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۶۰۴۴ ) ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ چار باتیں ایسی ہیں کہ وہ جس کے اندر ہوں وہ خالص منافق ہے یا چار خصلتوں میں سے اگر ایک خصلت بھی ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اس سے باز آ جائے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۔ جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے ۔ اور جب کسی سے جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے ‘‘ ، ( بخاری : ۲۴۵۹ ) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے فرمایا : ’’ آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ‘‘ ۔ (صحابہؓ ) کہنے لگے : ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے ؟ ‘‘ فرمایا : ’’ ہاں ! انسان کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے ۔ جب یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۶۳ ) ۔ ہمیں گالی گلوچ کی بجائے سنتِ نبوی ﷺ کو عام کرنا چاہیے ۔
گالی گلوچ کا ماحول اس قدر گرم ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکلا ہوا ہے ۔ جاہل تو جاہل ! پڑھے لکھے بھی بد کلامی کے بغیر بات کرنا بے لطف سمجھتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی جنہیں کلمہ تو شاید ( Probably ) نہ آتا ہو لیکن گالیوں میں بیچلر ( Bachelor) کیا ہوتا ہے ۔ اس میں بچوں کا بھی کوئی کمال نہیں یہ سب والدین کی محنت کا ثمر ہے ۔ بچارے ! والدین کی بھی مجبوری ہے ، اگر بد زبانی نہ کریں تو شیطان ناراض ہو جائے گا ۔ میرے بھائیوں ! ایک طرف شیطان ہے اور دوسری طرف رحمن ۔ ابلیس کہتا ہے : ’’ گالیاں دو ! ‘‘ اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اچھی بات کرو ‘‘ ۔ آپ کس کو راضی کرنا چاہتے ہیں ؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

تجمل حسین

محفلین
السلام علیکم!
محترم عبداللہ صاحب!
آپ نے یہ مراسلہ بھی تعارف کے زمرے میں ہی ارسال کردیا ہے۔ برائے مہربانی ایسے مراسلے اس سے متعلقہ دوسرے زمروں میں ارسال کریں۔
اور ہاں اس مراسلے میں بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہجے درست کردیں۔
شکریہ۔
 

تجمل حسین

محفلین
Top