محمود احمد غزنوی
محفلین
پرسوں دنیا نیوز میں خورشید ندیم نے ایک کالم لکھا تھا جس میں رجال الغیب کے موضوع پر اس نے کچھ سوالات اٹھائے تھے۔ آج اوریا مقبول جان نے شائد اسی حوالے سے یہ کالم لکھا ہے۔

کالم نگار حضرات معاشرے کے حوالے سے مختلف ایشوز پر قلم اٹھاتے ہیں۔۔اور ہمارے معاشرے میں مذہب ایک بہت اہم اور بڑا ایشو ہے، چنانچہ کوئی حرج نہیں۔
کالم نگار حضرات معاشرے کے حوالے سے مختلف ایشوز پر قلم اٹھاتے ہیں۔۔اور ہمارے معاشرے میں مذہب ایک بہت اہم اور بڑا ایشو ہے، چنانچہ کوئی حرج نہیں۔
یہ دونوں کال م نگار ان تماما حوالوں سے اکژر کالم لکھتے رہتے ہیں جنکا آپ نے تذکرہ کیا، اگر کبھی کبھی ایسے موضوعات پر بھی بات جا نکلے تو کوئی حرج نہیں۔متفق ہوں۔ لیکن محمود بھائی، ہمارے مذہب پر لکھنے والے اہلِ قلم اُن ٹھوس مسئلوں پر قلم کیوں نہیں اٹھاتے جنہیں ہم عام زندگی میں جھیلتے ہیں۔ اِن مذہبی اہلِ قلم کو تو فرقہ واریت، شدت پسندی، تعلیم کی کمی، اور اس جیسے کئی دیگر مسئلوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ ایک بہت مذہبی معاشرہ ہے، معاشرتی برائیوں کے خلاف مذہب کے تناظر میں لکھا جائے گا تو یقیناً اچھا اثر پڑے گا۔ لیکن اس کے بجائے رجال الغیب جیسے غیر ضروری اور غیر معاشرتی مسئلوں پر اخبارات میں کالم چھپنا تو سمجھ سے بالاتر ہے۔
آپ اس موضوع یعنی "رجال الغیب" کو اگر وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو یہ اور ان جیسے دوسرے موضوعات کی بنیاد پر معاشرے میں دو مختلف مکاتبِ فکر پائے جاتے ہیں اور اس اختلاف کی جڑیں کافی دور تک پہنچی ہوئی ہیں۔۔۔ چنانچہ تعلق تو بنتا ہے۔۔رہی بات یہ کہ ایک کالم میں ان موضوعات کا احاطہ ناممکن ہے ، تو یہ بات درست ہے لیکن کالم کا مقصد تو صرف توجہ دلانا ہوتا ہے۔لیکن اس کا تعلق کسی "خبر" سے ہو تو سمجھ بھی آتی ہے کیسے کہ اگر فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی کوئی واقعہ ہو گیا ہو یا پھر بہبود آبادی یا تعلیم کا ایشو ہو۔ لیکن خالص مذہبی موضوعات کا اخبارات (جو کہ خبروں کے لئے ہوتے ہیں) کیساتھ کیا تعلق ہے۔
اس مقصد کے لئے مذہبی کتب اور جرائد موجود ہیں۔ اور کیا یہ حضرات واقعی میں سمجھتے ہیں کہ مذہب جیسے پیچیدہ اورسنجیدہ موضوع پر یہ آدھے صفحے کے آرٹیکل میں کوئی بھی معقول بات لکھ پائیں گے؟
اور دوسری بات یہ کہ اگر مجھے مذہب پر معلومات درکار ہوں گی تو میں مذہب کے علماء کی کتب یا رسائل کا مطالعہ کروں گا نہ کہ کسی اخبار کے تراشے کا؟
پتہ نہیں آپ سب لوگ بےوقوفوں اور کم علموں کی کونسی جنت کی کونسی گھاٹی میں رہائش پذیر ہو خورشید ندیم کا کالم مذہبی بالکل نہیں ہے یہ تو ایک متھ پر مبنی ہے اور اس متھ کا جو تصور عام طور پر عوام الناس میں پایا جاتا ہے اس کے بارے میں استفسار ہے۔
برائے مہربانی آپ لوگ پہلے مذہب کو سمجھئے اور پھر مذہب کا نام استعمال کیجئے۔
میرے خیال میں انہوں نے ہم سب کو ہی یہ کہا ہے۔۔صرف آپ نہیں۔غالباً یہ میری طرف ہی اشارہ تھا۔ آپ کسی کی ہتک کئے بغیر بھی معقول گفتگو کر سکتے ہیں۔محمود بھائی کو بھی میری رائے سے اختلاف ہے لیکن انہوں نے کسی کو کم علمی کا طعنہ تو نہیں دیا ہے؟
میرے خیال میں انہوں نے ہم سب کو ہی یہ کہا ہے۔۔صرف آپ نہیں۔
نہ تنہا من در ایں میخانہ مستم
جنید و شبلی و عطّار شد مست
نہیں ایسی بات نہیں ہے، البتہ ان میں بے ساختگی بہت ہے۔ پورا دھاگہ پڑھ کر انکے ذہن میں سب سے پہلے جو بات ابھری، انہوں نے اسے بلا کم و کاست بیان کردیا۔ روحانی بندوں اور عام عقل کے بندوں میں ایک فرق یہ بھی ہے۔