
ناول نگار ، ادیب اور ترجمہ کار جناب مشرف علی فاروقی ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ مشرف علی فاروقی نے اردو ادب کے گراں قدر سرمائے داستانِ امیر حمزہ اور داستانِ طلسمِ ہوش رُبا کو انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالا۔فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ "اد ب کی کوئی قومی شناخت نہیں ہوتی،دھڑے بندیوں سے الگ رہ کر تخلیقی سفرجاری رکھا جاسکتا ہے ، ایوارڈ ملنا کسی ادیب کی بہت بڑی کامیابی نہیں"۔
وہ مزید فرماتے ہیں کہ "اردو ادب کے کرتا دھرتا نا اہل لوگ ہیں"۔
روزنامہ دنیا کے "سنڈے میگزین" میں ان کا بہت دلچسپ و معلوماتی انٹر ویو نظر سے گزرا تھا ، سوچا کہ آپ سب کے ساتھ اسے سانجھا کروں ۔ لیجئے آپ بھی پڑھئے۔