یہ ہونٹ ریشمی کوزے، یہ چشم نورِ تمام ۔ صائمہ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
یہ ہونٹ ریشمی کوزے، یہ چشم نورِ تمام
اِنہی سے بادۂ ہستی، اِنہی سے گردشِ جام

کسے جگانے کو آتی ہے روز بادِ صبا؟
کسے سلانے چلا ہے فلک سے ماہِ تمام؟

اِسی فریبِ طلب میں گزر گئی مری عمر
خیالِ صبحِ تمنا، اُمیدِ وعدۂ شام

بہک رہے ہیں قدم ماہِ آخرِ شب کے
چھلک رہا ہے شرابِ سخن سے رات کا جام

یہ سانس ٹوٹ بھی سکتی ہے،دیکھ!کھیل نہ یوں
مرے حبیب! مجھے دل کے اک سرے سے نہ تھام

وہ دن گئے کہ تعلق میں وضع داری تھی
بلائے جاتے ہیں عشاق اب تو نام بہ نام

کسےخبر کہ چلے کب فراتِ ناز و نیاز
کسے پتا کہ لگیں کس طرف کو اب کے خیام
(صائمہ زیدی)
 
Top