تصویر سے کہانی

سیما علی

لائبریرین
پتا نہیں کیوں اس تصویر کو دیکھ کے ہمیں یہ شعر یاد آگیا۔۔۔۔۔۔
ہے مشق سخن جاری چکّی کی مشقت بھی۔۔۔۔
اکثر رشتوں میں زیادہ کام کا بوجھ عورتوں پر ہی پڑتا ہے۔۔۔۔تمام کاموں کو وقت پر ہی کرنا ہے تاکہ کسی کو شکایت نہ ہو اور خاص طور پر دہہات کی عورتیں جنکو کھیتوں پر کام بھی کرنا ہے اورگھر کے تمام لوگوں کا خیال بھی رکھنا ہے ۔۔شیرخوار بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنا ہے۔
شکرگزاری کا احساس لوگوں کو آپس کے رشتوں کو باندھتا ہے، جس سے تعلق مضبوط بنتا ہے اور عورتوں کو تھوڑا شکریہ کہہ دینا سے بہت خوشی ملتی ہے ۔
خوشگوار زندگی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ ایکدوسر ے کو سراہا جائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کاش یہ ہمیں سمجھ آجائے ۔۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
ابھی پو نہیں پھوٹی تھی، چڑیوں کی چہکار کے ساتھ اس کی چکی کی گھررگھرر بھی شاملِ ہوگئی۔
گندم پسے گی، روٹی بناؤں گی ۔سیاں جی کو اپنے میں ہاتھوں سے کھلاؤں گی۔
محبت اک نشہ ہے، سرشاری ہے۔محبوب کے لیے مشقت کب ہم پر بھاری ہے۔
آسمان کے کناروں سے جھانکتی سفیدی دیکھ کر اس کے ہاتھوں میں تیزی آ گئی ۔
چل میری چکی تیز و تیز ۔
۔۔۔۔
حیاتی کی چکی میں پستے وقت کے اے دانو ! تم بھی ایسا آٹا نکالنا جس سے میں اپنے مالک کے لیے خوشبو دار روٹی بنا سکوں۔
نئی کہانی کے لیے تصویر
71-F7-D5-EE-1-EC2-489-E-8-B44-C4-E22-E4-DAFFD.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
نئی کہانی کے لیے تصویر
71-F7-D5-EE-1-EC2-489-E-8-B44-C4-E22-E4-DAFFD.jpg
کسی زمانے میں چکی ہر گھر کی ضرورت ہوا کرتی تھی نور کے
تڑکے اس کے سامنے پیچھے پڑ بیٹھ کر
گھر کی خواتین گھرر گھر ر شروع کر دیتیں پر ل
پھر تمدن نے پلٹا کھایا . سماج کی رگوں میں دوڑتی عورت سے چکی چھن گئی جس کی گھرر گھرر سے دن بیدار ہوتا تھا . دور دیہات میں بھی چکی اب خال خال ہی نظر آتی ہے . روٹی مگرمل رہی ہے زیادہ تیزی اور برق رفتاری سے.
عورت کی دامن سے جڑی ایک نادیدہ چکی البتہ سماج کے ہر شہر، قصبے اور دیہات میں آج بھی باقی ہے جس کے دو پاٹوں کے درمیان وہ خود پس رہی ہے پستی جا رہی ہے.
بس ہمارا کام ہے اسے پسنے سے نکالنا ہے ۔
 
Top