جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 نشّۂ خواب وصل میں بسترِ غم پہ جا گرا - خوفِ سحر سے شب مجھے خُون ہی کر کے پی گئی (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 پہلے کبھی جو وِصل میں لطف تھا اب نہیں رہا - اور جو تھی فراق میں لذّتِ خودکشی گئی (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 دشتِ عذابِ ذات میں، لوگ جو لائے تھے جنیدؔ - جانے میں اُن کا کون تھا، جانے وہ سب کدھر گئے (جنید عطاری)
دشتِ عذابِ ذات میں، لوگ جو لائے تھے جنیدؔ - جانے میں اُن کا کون تھا، جانے وہ سب کدھر گئے (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 جنیدؔ کیا بنے گی سب سے جو نبھانی پڑے - کہ اب تو راس بھی وحشت کے کچھ نہیں آتا (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 وصل و فراق اصلاً تو کچھ بھی نہیں تھا، ہاں - اک جھوٹ کے سہارے، یونہی عمر کٹ گئی (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 اکثر تو اپنا ہوش بھی رہتا نہیں مجھے - مستثنٰی کر دیا کرو وعدائے یاد سے (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 آبِ خضر و طبِ عیسی سے افاقہ نہ ہوا - ہم سے عاشق مرضِ رنج و اَلم سے چل بسے (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 کس منہ سے اب بتاؤں جفائیں حبیب کی - مجھ سے تو دشمنوں نے بھی انصاف ہی کیا (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 یہ اور بات ملے کتنے ناصحا مجھ کو - تھا اُس کے ہاتھوں کا بگڑا ہوا سدھرتا کیا (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 تھا بھلا کیا پھر اُس گھڑی، اُس دم - جب کوئی بھی نہ تھا، خدا نہ تھا (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 ہر گز نہ اُن میں گن مجھے جو دیکھ کر تجھے - مارے ہوس کے ہونٹوں سے ٹپکاتے رال ہیں (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 جنید ایفا پہ کب تک بحث کرتا - کہ پاس اُس کے جہاں کی حجتیں تھیں (جنید عطاری)
جنید عطاری اکتوبر 12، 2014 کشکولِ عاشقی سے وفائیں سمیٹ کر - پہ سُود بھیج دی ہیں جفائیں مری طرف (جنید عطاری)