ہے کچھ اور بھی ممکن، ممکنات سے آگے
معجزہ نما کچھ ہے، معجزات سے آگے
لذّتِ فسانہ ہے، واقعات سے آگے
شورشِ زمانہ ہے، حادثات سے آگے
دیکھیے کہ پھر ہے کیا، اب حیات سے آگے
تاابد اسیری ہے، اس نجات سے آگے
بسکہ یہ محبت ہے، کھیل دھوپ چھاؤں کا
ایک سرد مہری ہے، التفات سے آگے
یہ جہان آرائی، بس فریبِ...
گنجلک
گرہیں جو کھل بھی جائیں، الجھے رہیں گے دھاگے
کس سمت ہو مسافت
آغاز بھی وہی ہے
انجام بھی وہی ہے
دل بحرِ بے کراں میں
بے انت خواہشوں کے ہیں ان گنت جزیرے
لہروں کی چاندنی کب موجِ فلک پہ اتری!
تسکینِ دلنوازی پھر حرزِ جاں تو ہوگی
اک لطف گر بہم ہے
جو درد ہے میسر
اتنا نہیں ہے کافی
زعمِ نشاطِ غم...