گنجلک
گرہیں جو کھل بھی جائیں، الجھے رہیں گے دھاگے
کس سمت ہو مسافت
آغاز بھی وہی ہے
انجام بھی وہی ہے
دل بحرِ بے کراں میں
بے انت خواہشوں کے ہیں ان گنت جزیرے
لہروں کی چاندنی کب موجِ فلک پہ اتری!
تسکینِ دلنوازی پھر حرزِ جاں تو ہوگی
اک لطف گر بہم ہے
جو درد ہے میسر
اتنا نہیں ہے کافی
زعمِ نشاطِ غم...