اقتباسات تذکرۃ الاولیاء

سید رافع

محفلین
بسم الله الرحمن الرحيم

شیخ فرید الدین عطار کی کتاب تذکرۃ الاولیا ء سے کچھ اقتباسات لیے ہیں۔ دعا ہے کہ جو کوئی ان اقتباسات کو پڑھے اس سے کشادگی حاصل ہو۔ اور میرے حق میں دعائے خیر کرے۔ اور یہ بعید نہیں کہ اس کی کشادگی سے میری قبر بھی کشادہ ہو جائے۔ آمین

ہر قسم کی تعریفیں اس ذات پاک کو زیبا میں جو اسے افضل تعالیم اور سب سے زاید عطا کے ساتھ اپنے بندوں پر احسان فرماتا ہے۔ تمام صاحبان عزت و عظمت سے اُس کی حمد کرتے ہیں اور زمین وآسمان میں وہی عبادت کے قابل ہے ۔ وہ صاحب عزت وجبروت و صاحب جلال و ملکوت جو عوام کی نظروں سے انوار الحمد وقدس میں پوشیدہ ہے۔ لیکن اپنے عشق کے سوختہ جگر انسانوں کی بصیرتوں سے قرین و قریب ہے۔ جو خواصان دریائے حقیقت میں انکے بقاء کوفنا سے ملا دیا ہے ۔ اور جو قریب بہاء کے قعر میں غرق ہیں ۔ ان کے فناء کے کناروں کو بقائے خالص سے ملا دیا ہے اور انہیں سوائے اپنی ذات کے دوسری چیزوں سے غنی فرمادیا ہے۔ بلکہ اپنے خزئنہ نعایم میں سے انہیں توفیق حسن رفیق فرمائی ہے اُن کو بسب بقاء کے فناء سے اور بسبب فناء کے بقاء سے مستغنی کر دیا ہے۔

ہم اسکی تعریف کرتے ہیں جو ہمیں اس شخص کے مکروں سے بچانے کے لئے کافی ہے جو اس کی وجہ سے ہمارے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔ اور ان لوگوں کے شر سے جو زبان و دل سے اس خداوند کے انکاری ہیں۔ اور میں ہر اس شخص سے محفوظ رکھا ہے جو ہمیں اس کی ذات سے گمراہ کرے۔ اس نے ہم کو اپنا غلام و بندہ بنا کر اپنے کلام پاک سے معزز فرمایا ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ واحدہ لا شریک ہے ۔حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ مسلم اس کے بندےاور رسول ہیں ۔ جو آپ نے فرمایا حق ہے ۔ آپ نے اپنے انصار و مقام ہدایت میں سرفراز کیا ۔ اور طالبان مدایت کے دلوں کو جواہردین کے انوار سے منور فرمایا۔ اور یقین کے عمدہ ذخیرے جمع کرنے کی انہیں تو فیق عنایت فرمائی اور انبیاء کے اسرار و کا انہیں راز دار بنایا ۔ اور اپنے مقلدین میں سے اُن اصحاب کو جنہوں نے دین اور دنیا کو چھوڑ دیا ۔ انہیں خزائن غیب کی ان اشیاء سے سرفراز کیا جنہیں آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں عقلیں پہنچ نہیں سکتیں۔ اُنکے قلوب کو وہاں تک رسائی دی جن سے مطالب انتہائی روشن ہو گئے۔ اور ان کی روحوں کو نور اقدس سے مصفا بنا دیا ۔ حق تعالے اُن پر اور ان کے آل و اصحاب پر لا تعداد در در سلام نازل فرمائے جب تک کہ لطف کا آفتاب مشرق فضل سے طلوع کرتا رہے۔ اور عنائیت کی بجلی ہدایت کے بادلوں سے چمکتی رہے ؟ اور جب تک ناطقہ صدق کلمہ حق کہتا رہے۔

میرے اس کتاب کے جمع کرنے کے جو کے چند امور باعث ہوئے ۔ ایک تو یہ کہ میری یاد گار ہو۔ اور جو کوئی اس کو پڑھے اس سے کشادگی حاصل کرے ۔ اور میرے حق میں دعائے خیر کرے۔ اور یہ بعید نہیں اس کی کشادگی سے میری قبر بھی کشادہ ہو جائے۔

ایک شخص نے حضرت ابو علی وفاقی رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ مردان خدا کی باتیں سننے میں کچھ فائدہ ہے، جب ہم ان پر عمل نہیں کر سکتے؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں اس میں دو فوا ئد ہیں۔ ایک تو یہ مرد طالب میں محبت قوی ہو جاتی ہے اور اُسکی طلب بڑھ جاتی ہے ۔ دوسرے اگر کوئی شخص مغرور و شر پسند ہو ۔ تو وہ اپنے غرور و شر کو باہر نکال پھینکتا ہے اور اپنی بھلائی برائی سے واقف ہو جاتا ہے۔ اور اگر اندھا نہ ہو۔ توخود مشاہدہ کرتا ہے۔

حضرت عینیہ رحمتہ اللہ علیہ سے پو چھا کہ مرید کو ان حکایات اور روایات سے کیا فائدہ ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ ان کی باتیں اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔ اگر مرید کا دل شکستہ ہو۔ تو اس سے قوی ہو جاتا ہے۔ اور اس لشکر کی مدد حاصل کرتا ہے ، اور اس بات کی دلیل حق تعالیٰ کا ارشاد ہے قرآن شریف ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کیلیے پیغمبروں کا حال تجھ سے کہتا ہوں تاکہ تیرا دل ان کا ذکر سننے سے آرام حاصل کرے اور مضبوط ہو جائے۔

اور نیز یہ امر بھی باعث تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، کہ صالحین کا ذکر کرتے وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ پڑھنے والے کو اس دستر خوان سے فائدہ ملے اگر کوئی شخص یہ دستر خوان بچھائے ۔


اس پر اللہ تعالے کی رحمت نازل ہو اور موت سے پہلے کسی اللہ کے دوست کا سایہ اُس کو نصیب ہو ۔ اور اُن تمام رفیقان خداوند کو قرآن وحدیث کے مطابق پا یا تو میں نے بھی یہ شغل اختیار کیا اگرچہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ لیکن تاہم ان کی مشابہت تو حاصل ہو جائے گی کہ جو شخص جس قوم کے ساتھ مشابہت رکھے گا وہ اسی میں سے ہوگا۔

اور ایک بات یہ بھی تھی کہ مجھے بچپن ہی میں اس گروہ کے ساتھ انسیت تھی۔ اور میرے دل کو ہمیشہ خوشی انہیں باتوں سے ہوئی تھی کیونکہ آدمی اپنے محبوب کے ساتھ ہوتا ہے۔ حسب استطاعت میں نے ان کی باتوں کو روشن کیا کیونکہ یہ ایسا زمانہ ہے کہ اس قسم کی تمام باتیں پوشیدہ ہیں، اور کئی ایک مدعی ان لوگوں کے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں اور اہل قلب کبریت احمر کی طرح نادر الوجود ہوگئے ہیں۔ یہ زمانہ نہایت دگرگوں حال میں ہے ۔ اور برے لوگوں نے اچھوں کو بالکل بھلا دیا ہے۔ اور اس لیے کتاب کا نام بھی تذکرة الاولیاء ہی رکھا۔ تاکہ گمراہ لوگ ان لوگوں کو فراموش نہ کردیں۔ اور خلوت نشیں لوگوں کی طلب میں رہیں اور ان کی طرف را غب ہوں تاکہ ان کے فیض کی برکت سے سعادت ابدی حاصل کریں ۔ یہ بات دنیا داروں کے دلوں کو سرد کرتی ہیں، اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ دعا ہے کہ خداوند مجھے صلحاء کی جماعت میں سے کردے یا اُن کے دیدار کرنے والوں ہی میں جگہ عطا ہو کیونکہ میں اپنے آپ میں کوئی طاقت نہیں دیکھتا ۔ شاید میری یہ دعا قبول ہو گئی ہے۔

یہ کتاب وہ ہے جو نا مردوں کو مرد بناتی ہے۔ اس کتاب کے مدون کرنے کامقصد یہ بھی تھا کہ شاید کل قیامت کے روز اسی کے باعث میری نجات ہو جائے ۔


یہ کتاب چھیانوے ایواب پر منقسم ہے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
کچھ مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمہ اللہ کے بارے میں

اسم مبارک محمدبن ابی بکر ابراہیم ہے۔ کنیت ابو حامد با ابو طالب فرید الدین تخلص عطار عام زبانوں پراسم مشہور فرید الدین عطار ہے ۔ ولادت مضافات نیشا پور میں ہوئی۔ مزار اقدس بھی وہیں ہے۔ سن ولادت غالباً 513 ہجری ہے۔ سال ولادت میں بہت سے اختلافات ہیں، میں نفحات الانس کی روایت کو ترجیح دیتا ہوں یعنی 627 ہجری۔ عمر کے طویل ہونے پر سب تذکرے متفق ہیں ۔ سبب وفات بھی سب کو مسلم ہے ۔ یعنی تاتاریوں کے ہاتھ سے جام شہادت نوش فرمایا۔

ابتداء میں ایک بہت بڑے کارخانہ کے مالک تھے۔ ایک دن اپنے کاروبار میں مشغول تھے کہ ایک فقیر نے آکر صدا لگائی کہ خدا کے نام پر کچھ دلاؤ۔ یہ مخاطب نہ ہوئے ۔ اس نے کئی بار صدا لگائی۔ یہ اس قدر منہمک تھے کہ جواب تک دینے کی فرصت نہ پائی۔ اس نے کہا۔ بھلا مصروفیت کا یہ حال ہےتو جان کیسے دو گے ؟ انہوں نے جھنجلا کر کہا جیسے تم دو گے ۔ فقیر نے کہا بھلا میری طرح کیسے دوگے۔ یہ کہا اور سر کے نیچے کاسہ گدائی رکھ کر لیٹ گیا۔ زبان سے لا الہ الا اللہ کہا۔ دفتا ہی روح پرواز کر گئی۔ شیخ کے قلب پراس واقعہ کا بہت اثر پڑا، کارخانہ اسی وقت کھڑے کھڑے لٹا دیا اور خود اسی وقت سے درویشی اختیار کرلی۔

پہلے رکن الدین آکان کی خدمت میں کئی سال بسر کیے۔پھرسفر حج و زیارت بیت اللہ کو نکلنے اور بہت سے مشائخین کی خدمت میں رہے۔ بالآخر شیخ مجد الدین بغدادی کے دست حق پرست پر بیعت کی اور آگے چل کر سلوک و عرفان کے وہ مراتب طے کئے کہ اپنے مرشد کے لئے باعث فخر ہو گئے۔

شہادت کا واقعہ تذکروں میں یوں درج ہے کہ تاتاریوں کے عین ہنگامہ میں ایک سپاہی نے شیخ صاحب کو باارادہ قتل پکڑا ۔ اتنے میں ایک نے کہا اس پر مرد کو قتل نہ کرو ۔ دس ہزار اشرفیاں لے کر میرے حوالے کر دو۔ شیخ نے کہااتنے پر مجھے فروخت نہ کرنا ۔ میں اس سے کہیں زیادہ قیمت کا ہوں۔ آگے بڑھ کر ایک اور شخص ملا۔ اس نے کہا یہ اس پیر مرد کو مجھے دے ڈالو میں ایک گٹھا گھاس کا اس کے عوض میں دیتا ہوں۔ شیخ نے کہا ہاں دے ڈال میری قیمت اس سے بھی کم ہے۔ تاتاری سپاہی سمجھا کہ حضرت شیخ اس سے دل لگی کر رہے ہیں۔ غصہ میں آکر وہیں سرتین سے جدا کر دیا ۔

آپ کے جلالت مرتبہ کے اندازہ کیلئے یہ حقیقت کافی ہے کہ مولانا ردم متعدد مقامات پر شیخ فرید الدین عطار کا نام بہ حیثیت اپنے مقتداد پیشوا کے لیا۔ اللہ ہماری اور ہمارے والدین کی مغفرت حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمہ اللہ کے واسطے فرمائے۔ آمین۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
باب 1 - امام جعفر الصادق علیہ السلام

سلطان ملت مصطفوی دلیل حجت نبوی صدیق عامل عالم تحقیق دنیوی دل اولیاء جگر گوشہ انبیاء ناقد علی وارث نبی علیہ الصلوۃ والسلام عاشق ابو محمد امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ہم نے ذکر کیا تھا کہ اگر انبیاء و صحابہ واہلبیت کا ذکر کریں تو ایک علیحیدہ کتاب کی ضرورت ہے اور یہ کتاب اولیائے امت کے حالات پر مشتمل ہے جو ان کے بعد ہوئے ہیں۔ تبر کا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات سے شروع کرتے ہیں۔

میری زبان و عبارت میں ان کی تعریف و توصیف کی طاقت نہیں کیونکہ وہ بلا تکلف تمام علوم واشارات سے واقف تھے ۔ وہ تمام مشائخین کے سردار ہیں۔ ہر شخص ان پر اعتبار کامل رکھتا ہے ۔ وہ مقتدائے مطلق تھے ۔ وہ الہیوں کے بھی شیخ تھے اور محمدیوں کے بھی امام تھے اور اہل ذوق کے پیشیر و تھے اور اہل عشق کے بھی پیشوا تھے ۔ عابدوں کے مقدیم اور زاہد وں کے مکرم تھے ۔ اور حقائق میں صاحب تصنیف تھے۔ اور لطایف تغیر و تنزیل میں بے نظیر تھے۔

ایک دفعہ حضرت داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ حضرت صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرزند! مجھے کچھ نصیحت کر کہ میرا دل سیاہ ہو گیا ہے۔آپ نے فرمایا، ابا سلیمان تو زاہد زمانہ ہے ، تجھے میری نصیحت کی کیا حاجت ہے۔ حضرت داؤد نے کہا، اے فرزند پیغمبر، خدا نے آپ کو ہم سب پر فضیلت دی ہے اور آپ پر واجب ہے کہ ہم سب کو نصیحت کریں۔ آپ نے فرمایا اے ابا سلیمان میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری جا مجھ سے پرسش کرے کہ تو نے کیوں میری متابعت کا حق ادا نہ کیا۔ نجات نسب صحیح پر موقوف نہیں ہے بلکہ اچھے اعمال پر ہے۔ حضرت داؤد یہ سن کر حق تعالے کے حضور میں روے اور کہا کہ بار خدایا کہ جس شخص کا ظاہر طینت اور ترکیب طبیعت نبوت کے پانی سےہے اور جس کے نانا رسول ہیں اور ماں بتول ہے وہ اس قدر حیران ہے تو داود کیا ہے جو اپنے لئے ناز کرے!


نقل ہے کہ منصور عباس نے ایک ارشاد اپنے وزیر سے کیا کہ جعفر صادق کو لاؤ کہ میں اُسے قتل کروں۔ وزیر نے کہا اس کو جو گوشتہ تنہائی میں بیٹھتا ہے اور عزلت اختیار کی ہے اور دنیا کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہے۔ خلیفہ وزیر پر رنجیدہ ہوا۔ اور کہا کہ انہیں ضرور لاؤ تا کہ اسے قتل کردوں۔ وزیر نے ہر چند منع کیا۔ لیکن کچھ اثر نہ ہوا آخر کار وزیر آپ کو لینے گیا۔ خلیفہ نے ملازموں سے کہاکہ جب صادق آئے اور میں ٹوپی سرے اتاروں تو اس وقت صادق کو قتل کر دینا۔ خیر صادق علیہ السلام تشریف لائے ۔ خلیفہ ! منصور جلدی سے اٹھا۔ اور نہایت عجز سے آپ کی تعظیم کی اور تخت پر ان کو بٹھا یا اور خود نہایت مود با نه طریق سے آپ کے سامنے بیٹھا۔ غلام اس پر متعجب ہوئے۔ منصور نے! پوچھا حضور کو کیا حاجت ہے۔ آپ نے جواب دیا۔ بس یہی کہ تو دوبارہ مجھے اپنے پاس نہ بلائے اور چھوڑ دے تاکہ میں عبادت الہی میں مشغول رہوں۔ پس خلیفہ نے خلعت وغیرہ دیگر نہایت اعزاز سے رخصت کیا، اور اسی وقت منصور کو لرزہ ہونے لگا۔ اور بیهوش ہو گیا اور تین دن اسی حالت میں رہا۔ جب ہوش میں آیا۔ تو وزیر نے پوچھا کہ یہ کیا حالت ہے۔ خلیفہ منصور نے کہا کہ جب صادق علیہ السلام دروازہ میں داخل ہوے تو میں نے ایک اژ د ہے کو ان کے ساتھ دیکھاکہ ا سکا لب ایک تو چبوترہ کے اوپر تھا اور دوسرا چبوترہ کے نیچے۔ اُس نے مجھے زبان حال سے کہا کہ اگر تو ان کو ستائیگا تو تجھے اس چبوتره سے نیچے کھینچ لونگا۔ میں اس اژد ہے کے ڈر سے کچھ نا سمجھ سکا کہ کیا کہہ رہا ہوں اور میں نے ان سے معذرت کی اور اسطرح بیهوش ہو گیا۔

نقل ہے کہ ایک دن آپ اپنے غلاموں میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے کہا آو ہم سب بیعت کریں اور اس میں عہد باند ہیں کہ جو کوئی ہم سب میں سے قیامت کے دن رہائی حاصل کرے وہ باقی دوسروں کی شفاعت کرے۔ غلاموں نے جواب دیا۔ اے فرزند رسول اللہ ﷺ آپ کو ہماری شفاعت کی کیا حاجت ہے جبکہ آپ کا نانا تمام مخلوق کا شفیع ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ میں اپنے افعال سے شرم کھاتا ہوں ، کہ اس حالت میں قیامت کے دن اپنے ناتا کے چہرہ کیطرف دیکھوں۔


نقل ہے کہ جب حضرت امام جعفر نے خلوت اختیار کرلی اور باہر تشریف نہ لائے ۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ آپ کے پاس آئے اور عرض کی کہ اے ابن رسول اللہ! لوگ آپ کے ارشادات قدسیہ سے محروم ہو گئے ہیں۔ آپ نے کیوں گوشہ نشینی اختیار کر لی آپ نے فرمایا ۔ اب میرا منہ لینا ایساہے ۔ اور دو شعر اپنے پر پڑ ھے :

ذهب الونا ذهاب التي الذهب
والناس بين مخائل ومارب

یفشون بينهم المودة والوفا
وقلوبهم محشوة لعقارب

وفا چلی گئی اور سب سونا ہے
اب لوگ تخیل اور امید کے درمیان ہیں


وہ آپس میں پیار اور وفاداری پھیلاتے ہیں
لیکن ان کے دل بچھوؤں سے بھرے ہوئے ہیں

نقل ہےکہ لوگوں نے امام جعفر کو نہایت بیش بہا لباس میں دیکھا تو کہا اے ابن رسول اللہ! یہ لباس تو آپ کے گھر کا معلوم نہیں دیتا۔ آپ نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر آستین میں لگایا تو اس وقت معلوم ہوا کہ آپ ٹاٹ پہنے ہوئے ہیں جو ہاتھوں کو چھلنی کرتا ہے۔ اور فرمایا کہ یہ لوگوں کو دکھانے کے لئے ہےاور وہ خدا کے لئے ۔

نقل ہے کہ حضرت صادق نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ عقلمند کون ہے ؟ آپ نے جو اب د یا کر جو خیر و شر میں تمیز کرے ، تاکہ وہ دو خیروں میں سے خیر الخرین کو اختیار کرے اور دو شروں میں سے کم شر کو اختیار کرے۔

نقل ہے کہ لوگوں نے حضرت صادق سے کہا کہ آپ میں سب بہتر ہیں۔ آپ زاہد بھی ہیں اور کریم بھی ہیں۔ اور خاندان کے قرة العین بھی۔ لیکن متکبر بھی ۔ آپ نے جواب دیا ۔ میں متکبر نہیں ہوں۔ لیکن مجھے کبریائی حاصل ہے کہ جب میں نے اپنے سر سے تکبر نکال دیا تو اس ذات واحد کی کبریائی مجھ میں سما گئی ۔ آپ نے فرمایا تکبر سے تکبر نہ کرنا چاہئے ۔ اس کی کبریا سے کبر زیبا ہے۔

نقل ہے کہ ایک شخص کی روپوں کی تھیلی جاتی رہی۔ وہ شخص حضرت صادق سے جھگڑانے لگا کہ تو نے اُٹھالی ہے اور آپ کو نہ پہچانا کہ آپ کون ہیں۔ آپ نےپوچھا اس میں کتنی رقم تھی؟ اس نے جواب دیاایک ہزار دنیار۔ آپ اُسے گھرلے گئے اور دو ہزار دنیا دے دیئے۔ اُس کے بعد اُس آدمی نے اپنے روپے کو ایک دوسری جگہ پا لیا۔ اور حضرت کے دیے ہوئے روپے کو واپس لے گیا کہ میں نے غلطی کی تھی۔ آپ نے جواب دیا کہ اب واپس نہ لونگا۔ اس کے بعد اس نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ اُس نے جواب دیا کہ حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ۔ وہ اس بات پر شرمندہ ہوا اور چلا گیا۔

نقل ہے ۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ آپ اکیلے ایک راستہ پر جارہے تھے۔ اور اللہ اللہ کہتے تھے۔ اور ایک جلا ہوا آدمی بھی آپ کے عقب میں جارہا تھا اور اللہ اللہ کہتا تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ اے اللہ میرے پاس کپڑا نہیں اور میرے ے پاس ایک جبہ بھی نہیں۔ آپ کو اسی وقت ایک پاکیزہ کپڑا مل گیا۔ آپ نے پہن لیا ۔ وہ جلا ہوا آپ کے سامنے آیا اور کہا، اے خواجہ میں بھی اللہ کہنے میں تمہارا شریک تھا۔ آپ وہ اپنا پرا نا جبہ مجھے دیدو - آپ کو یہ بات پسند آئی اور وہ پرانا جبہ آپ نے اسے دیدیا۔

نقل ہے ایک شخص آپ کے پاس آیااور کہا کہ مجھ کو خداوند دکھا دیجئے۔ آپ نے فرما یا تونے نہیں سنا کہ موسی کو کہا گیا تھا کہ لن ترانی یعنی تم مجھکو نہ دیکھ سکو گے۔ اس نے کہا ہاں لیکن یہ ملت محمدی ہے کہ ایک شخص فریاد کرتا ہے کہ میرے دل نے پروردگار کو دیکھا۔ دوسرا نعرہ لگاتا ہے کہ میں نے اس پر وردگار سے عہد نہیں کیا جس کو دیکھا نہیں۔ آپ نے حکم دیااسے باندھ کر دریا دجلہ میں ڈال دو ۔ لوگوں نے اُسے باندھ کر دجلہ میں ڈال دیا۔ پانی اُسے نیچے لے گیا اور پھر اوپر لایا۔ اس نے کہا ابن رسول اللہ الغیاث الغیاث - آپ نے فرمایا اے پانی اسے پھر نیچے لے جا ۔ وہ نیچے لے گیا۔ اور پھر وہ دوسری بار اس کو اوپر لایا۔حتیٰ کہ وہ اسکو اسی طرح نیچے لے جاتا تھا اور اوپر لے آتا تھا۔ وہ حضرت صادق سے پناہ طلب کرتا تھا۔ اور جب وہ دجلہ میں غرق ہو گیا تو اس نے لوگوں سے امید منقطع کرلی اور جب پھر پانی نے اسکو با ہر اچھالا تو اس نے کہا الہی الغیاث الغیاث۔ آپ نے لوگوں سے کہا اسے باہر نکال لو۔ لوگوں نے اُس کو باہر نکال لیا۔ ایک ساعت اسکو اسی طرح رہنے دیا تاکہ اس کے حواس ٹھکانے آجائیں۔ پھر آپ نے پوچھا کیا تو نے حق تعالے کو دیکھا ہے؟ اُس نے کہا جب تک میں غیر کی پناہ چاہتا تھا اس وقت تک حجاب تھا۔ جب میں نے پورے طور پر اس کی پناہ چاہی اور بیقرار ہوا تو میرے دل میں ایک روزن کشادہ ہو گیا۔ پھر میں نے وہاں سے دیکھا۔ یہانتک کہ میری بیقراری دور ہوگئی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب تک کہ تو خیال صادق کو بلاتا تھا جھوٹا تھا۔

اب اس روزن کونگاہ رکھ اور فرمایا کہ جو شخص یہ کہے کہ خدا کسی چیز پر ہے یا کسی چیز سے ہے وہ کافر ہے۔

اور فرمایا کہ ہر وہ گناہ جس کے اول میں خوف ہو اور آخر میں عذر وہ بندہ کو حق تعالے کے نزدیک کرتا ہے۔ اور وہ عبادت جس کے اول میں امن ہو اور آخر میں غرور وہ بندہ کو حق سے باز رکھتی ہے۔

اور متکبر اطاعت کرنیوالا عاصی ہے اور عاصی عذر کے ساتھ اطاعت کرنے والا۔

لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ درویش صابر فضیلت رکھتا ہے یا تو نگر شاکر؟ آپ نے فرمایا درویش صابر کیونکہ تو نگر کا دل پیسہ کیجا نب ہوتا ہے اور درویش کا دل خدا کی طرف۔

اور فرمایا کہ عبادت بلا تو بہ کرنے کے درست نہیں ہوتی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے تو بہ کو مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ توبہ کرنیوالے عبادت کرنیوالے ہیں۔ اور فرمایا کہ خدا کے ذکر میں تو بہ کا ذکر ناکرنا ذکر سے غافل رہنا ہے۔

اور حقیقت میں خدائے تعالے کو یاد کرنا ایسا ہےکہ اس کے مقابلہ میں تمام اشیاء کو فراموش کردے کیونکہ حق تعالی اس کیلئے تمام اشیاء کا عوض ہے۔

اور فرمایا اس آیت میں کہ میں اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہوں خاص رکھتا ہوں درمیان میں سے واسطہ اور علیحدہ کو دور کر دیا ہے تاکہ لوگ جانیں کو عطائے محض ہے۔

اور فرمایا کہ مومن وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ کرے ۔ اور عارف وہ ہے جو اپنے خدائے تعالی کے ساتھ قائم رہے

اور فرمایا کہ جو شخص نفس کو نفس کے لئے مجائدہ میں ڈالتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے کرامات تک پہنچ جائیگا اور جو شخص نفس کے ساتھ مجاہدہ خدا کیلئے کرتا ہے ۔ وہ خدا تک پہنچ جائیگا۔

اور فرمایا کہ الہام مقبولوں کے وصف میں سے ہے اور بلا الہام استدلال کرنا راندہ درگاہ کی علامت ہے ۔

اور فرمایا شاید اللہ تبارک بندہ میں اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے بنا کہ اند ھیری رات میں سیاہ پتھر پرچیونٹی کا چلنا۔

اور فرمایا عشق الہی نا مذموم ہے نا محمود ۔

اور فرمایا دیکھنے کا راز اس وقت مجھ پر ثابت ہوا کہ جب دیوانگی کا خط مجھ پر کھینچا گیا۔

اور فرمایا کہ آدمی کی نیک بختی اس میں بھی ہے کہ اس کا دشمن عقلمند ہے۔

اور فرمایا پانچ لوگو ں کی صحبت سے پرهیز کرو ایک جھوٹے آدمی سے کیونکہ ہمیشہ اس کے ساتھ غرور میں رہوگے ۔دوسرے احمق سے کہ وہ ہر چند تیرا فائدہ چاہیگا لیکن تیرا نقصان کریگا اور نہ جانے گا۔ تیسرے تخیل سے کیونکہ وہ سب سے اچھا وقت تیرا ضایع کریگا۔ چوتھے بزدل آدمی سے کہ وہ ضرورت کے وقت تجھے چھوڑ دے گا۔پانچویں فاسق سے کہ دہ تجھ کو ایک لقمہ کے عوض فروخت کرڈائے گا اور ایک لقمہ سے کم کا طمع کریگا۔

اور فرمایا حق تعالے نے دنیا میں ایک بہشت اور دوز رخ پیدا کیا ہے بہشت تو عافیت ہے اور اذیت دوزخ ہے ۔ بہشت یہ ہے کہ اپنا کام خدا کے سپرد کرے، اور دوزخ یہ ہے کہ اپنا کام اپنے نفس کے حوالے کرے۔

اور فرمایا اگر دشمن کی صحبت اولیائے اللہ کیلئے مضر ہوتی تو آسیہ کو فرعون سے ضرر پہنچتا ہے۔ اور اگر اولیا کی صحبت اکیلئے نافع ہوتی تو حضرت نوح علیہ السّلام اور لوط علیہ السلام کی عورتوں کو فائدہ پونچتا۔لیکن یہ تنگی کشادگی سے پہلے نہیں ہوتی۔

آپ کے ارشادات تو بہت ہیں۔ لیکن میں نے تاسیس کے طور پر چند کلمات کہے اور ختم دیا ۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
تیسرے مراسلے میں موجود شعر کے حوالے سے ، اس کتاب کے صفحہ 10 پر شعر کچھ یوں لکھا ہے ، براہ کرم تقابل کر لیجیے۔

ذهب الوفاء ذهاب انس الذاهب
والناس بين مخائل ومارب
یفشون بينهم المودة والوفا
وقلوبهم "محق/محو"
* محشواة بعقارب
* یہ پڑھا نہیں جا رہا کہ محو ہے یا محق ۔ سید عاطف علی
---
اردو ترجمہ والی اس کتاب کے صفحہ 11 میں پہلے شعر کا دوسرا مصرع کچھ یوں درج ہے:
والناس بین تخائل و مآرب
اور دوسرے شعر میں پہلے مصرع میں یفشون کی جگہ یھشون جب کہ دوسرا مصرع
و قلوبھم محشورۃ بعقارب
درج ہے۔
---
اضافہ:
1866ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے صفحہ ۱۱ اور برقی کتاب کے صفحہ ۱۳پہ یوں لکھا ہوا ہے:
ذهب الوفاء ذهاب انس الذاهب
والناس بين مخائل ومآرب

یغشون بينهم المودة والوفا
وقلوبهم محو محشوة بعقارب
-

چغتائی لائبریری میں اس کتاب کے صفحہ ۱۴ پہ شعر یوں درج ہے:
ذھب الوفاءُ ذھاب اُنسِ الذّاھِب
والناسُ بینَ مخارب و مارب
یغشون بینھم المودۃ و الوفا
و قلوبھم محشوۃ بعقارب
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین

الف نظامی

لائبریرین
مندرجہ بالا دو مراسلوں میں موجود تمام اشعار کا تقابل کرنے سے کچھ یوں معلوم ہوتا ہے:
پہلے مصرع میں انس اور امس کا فرق
دوسرے مصرع میں مخائل اور مخاتل کا فرق
دوسرے مصرع میں مآرب اور موارِب کا فرق
تیسرے مصرع میں یفشون اور یغشون کا فرق
تیسرے مصرع میں الوفا اور الصفا کا فرق
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین

الدیوان ڈاٹ نیٹ کے مطابق یوں لکھے ہیں جناب علی بن ابی طالب بن عبد المطلب ۔ر۔ ض۔ کے یہ اشعار۔

(مح ۔شو۔ وتن ۔ )

ذَهَبَ الوَفاءُ ذِهابَ أَمسِ الذاهِبِ​

فَالناسُ بَينَ مُخاتِلٍ وَمُوارِبِ​

يَفشونَ بَينَهُمُ المَوَدَّةَ وَالصَفا​

وَقُلوبَهُم مَحشُوَّةٌ بِعَقارِبِ​

بہت شکریہ سید عاطف علی صاحب
 

سید رافع

محفلین
تیسرے مراسلے میں موجود شعر کے حوالے سے ، اس کتاب کے صفحہ 10 پر شعر کچھ یوں لکھا ہے ، براہ کرم تقابل کر لیجیے۔

ذهب الوفاء ذهاب انس الذاهب
والناس بين مخائل ومارب
یفشون بينهم المودة والوفا
وقلوبهم "محق/محو"
* محشواة بعقارب
* یہ پڑھا نہیں جا رہا کہ محو ہے یا محق ۔ سید عاطف علی
---
اردو ترجمہ والی اس کتاب کے صفحہ 11 میں پہلے شعر کا دوسرا مصرع کچھ یوں درج ہے:
والناس بین تخائل و مآرب
اور دوسرے شعر میں پہلے مصرع میں یفشون کی جگہ یھشون جب کہ دوسرا مصرع
و قلوبھم محشورۃ بعقارب
درج ہے۔
---
اضافہ:
1866ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے صفحہ ۱۱ اور برقی کتاب کے صفحہ ۱۳پہ یوں لکھا ہوا ہے:
ذهب الوفاء ذهاب انس الذاهب
والناس بين مخائل ومآرب

یغشون بينهم المودة والوفا
وقلوبهم محو محشوة بعقارب
-

چغتائی لائبریری میں اس کتاب کے صفحہ ۱۴ پہ شعر یوں درج ہے:
ذھب الوفاءُ ذھاب اُنسِ الذّاھِب
والناسُ بینَ مخارب و مارب
یغشون بینھم المودۃ و الوفا
و قلوبھم محشوۃ بعقارب
الف نظامی صاحب بات وہی ہے کہ وفا اٹھ گئی ہے، اور دل میں بچھو ہیں۔ اس بات میں اصل کشادگی ہے۔
 

سید رافع

محفلین

الدیوان ڈاٹ نیٹ کے مطابق یوں لکھے ہیں جناب علی بن ابی طالب بن عبد المطلب ۔ر۔ ض۔ کے یہ اشعار۔

(مح ۔شو۔ وتن ۔ )

ذَهَبَ الوَفاءُ ذِهابَ أَمسِ الذاهِبِ​

فَالناسُ بَينَ مُخاتِلٍ وَمُوارِبِ​

يَفشونَ بَينَهُمُ المَوَدَّةَ وَالصَفا​

وَقُلوبَهُم مَحشُوَّةٌ بِعَقارِبِ​

الدیوان ڈاٹ نیٹ کے مطابق یوں لکھے ہیں جناب علی بن ابی طالب بن عبد المطلب ۔ر۔ ض۔ کے یہ اشعار۔

(مح ۔شو۔ وتن ۔ )

ذَهَبَ الوَفاءُ ذِهابَ أَمسِ الذاهِبِ​

فَالناسُ بَينَ مُخاتِلٍ وَمُوارِبِ​

يَفشونَ بَينَهُمُ المَوَدَّةَ وَالصَفا​

وَقُلوبَهُم مَحشُوَّةٌ بِعَقارِبِ​

جہاں سے ہم نے لیا اس کتاب میں الفاظ کے رد وبدل کے ساتھ یہ اشعار موجود ہیں۔ لیکن کشادگی اس سے پیدا ہوتی ہے کہ اصل تذکیر وہی کی وہی ہے کہ وفا اٹھ گئی، اور دل میں بچھو ہیں۔
 
Top