سید رافع
محفلین
بسم الله الرحمن الرحيم
شیخ فرید الدین عطار کی کتاب تذکرۃ الاولیا ء سے کچھ اقتباسات لیے ہیں۔ دعا ہے کہ جو کوئی ان اقتباسات کو پڑھے اس سے کشادگی حاصل ہو۔ اور میرے حق میں دعائے خیر کرے۔ اور یہ بعید نہیں کہ اس کی کشادگی سے میری قبر بھی کشادہ ہو جائے۔ آمین
ہر قسم کی تعریفیں اس ذات پاک کو زیبا میں جو اسے افضل تعالیم اور سب سے زاید عطا کے ساتھ اپنے بندوں پر احسان فرماتا ہے۔ تمام صاحبان عزت و عظمت سے اُس کی حمد کرتے ہیں اور زمین وآسمان میں وہی عبادت کے قابل ہے ۔ وہ صاحب عزت وجبروت و صاحب جلال و ملکوت جو عوام کی نظروں سے انوار الحمد وقدس میں پوشیدہ ہے۔ لیکن اپنے عشق کے سوختہ جگر انسانوں کی بصیرتوں سے قرین و قریب ہے۔ جو خواصان دریائے حقیقت میں انکے بقاء کوفنا سے ملا دیا ہے ۔ اور جو قریب بہاء کے قعر میں غرق ہیں ۔ ان کے فناء کے کناروں کو بقائے خالص سے ملا دیا ہے اور انہیں سوائے اپنی ذات کے دوسری چیزوں سے غنی فرمادیا ہے۔ بلکہ اپنے خزئنہ نعایم میں سے انہیں توفیق حسن رفیق فرمائی ہے اُن کو بسب بقاء کے فناء سے اور بسبب فناء کے بقاء سے مستغنی کر دیا ہے۔
ہم اسکی تعریف کرتے ہیں جو ہمیں اس شخص کے مکروں سے بچانے کے لئے کافی ہے جو اس کی وجہ سے ہمارے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔ اور ان لوگوں کے شر سے جو زبان و دل سے اس خداوند کے انکاری ہیں۔ اور میں ہر اس شخص سے محفوظ رکھا ہے جو ہمیں اس کی ذات سے گمراہ کرے۔ اس نے ہم کو اپنا غلام و بندہ بنا کر اپنے کلام پاک سے معزز فرمایا ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ واحدہ لا شریک ہے ۔حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ مسلم اس کے بندےاور رسول ہیں ۔ جو آپ نے فرمایا حق ہے ۔ آپ نے اپنے انصار و مقام ہدایت میں سرفراز کیا ۔ اور طالبان مدایت کے دلوں کو جواہردین کے انوار سے منور فرمایا۔ اور یقین کے عمدہ ذخیرے جمع کرنے کی انہیں تو فیق عنایت فرمائی اور انبیاء کے اسرار و کا انہیں راز دار بنایا ۔ اور اپنے مقلدین میں سے اُن اصحاب کو جنہوں نے دین اور دنیا کو چھوڑ دیا ۔ انہیں خزائن غیب کی ان اشیاء سے سرفراز کیا جنہیں آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں عقلیں پہنچ نہیں سکتیں۔ اُنکے قلوب کو وہاں تک رسائی دی جن سے مطالب انتہائی روشن ہو گئے۔ اور ان کی روحوں کو نور اقدس سے مصفا بنا دیا ۔ حق تعالے اُن پر اور ان کے آل و اصحاب پر لا تعداد در در سلام نازل فرمائے جب تک کہ لطف کا آفتاب مشرق فضل سے طلوع کرتا رہے۔ اور عنائیت کی بجلی ہدایت کے بادلوں سے چمکتی رہے ؟ اور جب تک ناطقہ صدق کلمہ حق کہتا رہے۔
میرے اس کتاب کے جمع کرنے کے جو کے چند امور باعث ہوئے ۔ ایک تو یہ کہ میری یاد گار ہو۔ اور جو کوئی اس کو پڑھے اس سے کشادگی حاصل کرے ۔ اور میرے حق میں دعائے خیر کرے۔ اور یہ بعید نہیں اس کی کشادگی سے میری قبر بھی کشادہ ہو جائے۔
ایک شخص نے حضرت ابو علی وفاقی رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ مردان خدا کی باتیں سننے میں کچھ فائدہ ہے، جب ہم ان پر عمل نہیں کر سکتے؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں اس میں دو فوا ئد ہیں۔ ایک تو یہ مرد طالب میں محبت قوی ہو جاتی ہے اور اُسکی طلب بڑھ جاتی ہے ۔ دوسرے اگر کوئی شخص مغرور و شر پسند ہو ۔ تو وہ اپنے غرور و شر کو باہر نکال پھینکتا ہے اور اپنی بھلائی برائی سے واقف ہو جاتا ہے۔ اور اگر اندھا نہ ہو۔ توخود مشاہدہ کرتا ہے۔
حضرت عینیہ رحمتہ اللہ علیہ سے پو چھا کہ مرید کو ان حکایات اور روایات سے کیا فائدہ ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ ان کی باتیں اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔ اگر مرید کا دل شکستہ ہو۔ تو اس سے قوی ہو جاتا ہے۔ اور اس لشکر کی مدد حاصل کرتا ہے ، اور اس بات کی دلیل حق تعالیٰ کا ارشاد ہے قرآن شریف ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کیلیے پیغمبروں کا حال تجھ سے کہتا ہوں تاکہ تیرا دل ان کا ذکر سننے سے آرام حاصل کرے اور مضبوط ہو جائے۔
اور نیز یہ امر بھی باعث تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، کہ صالحین کا ذکر کرتے وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ پڑھنے والے کو اس دستر خوان سے فائدہ ملے اگر کوئی شخص یہ دستر خوان بچھائے ۔
اس پر اللہ تعالے کی رحمت نازل ہو اور موت سے پہلے کسی اللہ کے دوست کا سایہ اُس کو نصیب ہو ۔ اور اُن تمام رفیقان خداوند کو قرآن وحدیث کے مطابق پا یا تو میں نے بھی یہ شغل اختیار کیا اگرچہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ لیکن تاہم ان کی مشابہت تو حاصل ہو جائے گی کہ جو شخص جس قوم کے ساتھ مشابہت رکھے گا وہ اسی میں سے ہوگا۔
اور ایک بات یہ بھی تھی کہ مجھے بچپن ہی میں اس گروہ کے ساتھ انسیت تھی۔ اور میرے دل کو ہمیشہ خوشی انہیں باتوں سے ہوئی تھی کیونکہ آدمی اپنے محبوب کے ساتھ ہوتا ہے۔ حسب استطاعت میں نے ان کی باتوں کو روشن کیا کیونکہ یہ ایسا زمانہ ہے کہ اس قسم کی تمام باتیں پوشیدہ ہیں، اور کئی ایک مدعی ان لوگوں کے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں اور اہل قلب کبریت احمر کی طرح نادر الوجود ہوگئے ہیں۔ یہ زمانہ نہایت دگرگوں حال میں ہے ۔ اور برے لوگوں نے اچھوں کو بالکل بھلا دیا ہے۔ اور اس لیے کتاب کا نام بھی تذکرة الاولیاء ہی رکھا۔ تاکہ گمراہ لوگ ان لوگوں کو فراموش نہ کردیں۔ اور خلوت نشیں لوگوں کی طلب میں رہیں اور ان کی طرف را غب ہوں تاکہ ان کے فیض کی برکت سے سعادت ابدی حاصل کریں ۔ یہ بات دنیا داروں کے دلوں کو سرد کرتی ہیں، اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ دعا ہے کہ خداوند مجھے صلحاء کی جماعت میں سے کردے یا اُن کے دیدار کرنے والوں ہی میں جگہ عطا ہو کیونکہ میں اپنے آپ میں کوئی طاقت نہیں دیکھتا ۔ شاید میری یہ دعا قبول ہو گئی ہے۔
یہ کتاب وہ ہے جو نا مردوں کو مرد بناتی ہے۔ اس کتاب کے مدون کرنے کامقصد یہ بھی تھا کہ شاید کل قیامت کے روز اسی کے باعث میری نجات ہو جائے ۔
یہ کتاب چھیانوے ایواب پر منقسم ہے۔
آخری تدوین: