تَوَلّا--------- (نظم)

یاسر شاہ

محفلین
علامہ کی یاد دلا دی! ان کی بھی اکثر نظموں /قطعوں کا اختتام فارسی شعر پر ہوتا تھا۔ اس سے بڑھ کر تعریف کیا ہو گی؟ مبارک ہو یاسر شاہ
جزاک اللہ خیر اعجاز صاحب ۔علامہ کہاں میں کہاں ۔خیر آپ کہتے تو مان لیتے ہیں۔
بس گزارش یہی ہے کہ تعریف بھلے اتنی نہ کریں بس کبھی کبھی جو میں آپ سے بات کروں ڈر ڈر کے ،اس کا جواب مرحمت فرما دیا کریں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ماشاءاللّه ، آپ کا خالی مراسلہ بھی کافی ہے اس نظم کی یاد دلانے کے لیے ۔۔۔
جزاک الله خیرا بھائی

سر یاسر شاہ صاحب!
نظم تَوَلّا گو آپ نے بہت پہلے پوسٹ کی تھی لیکن میں نے آج پہلی مرتبہ پڑھی۔بہت خوب سر۔ ایسی نظموں کی مسلمانوں کو زیادہ ضرورت ہے۔
جزاک الله خیرا-خورشید بھائی حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ -واقعی ایک نئی صنف سخن ایجاد کرنے کی ضرورت ہے جس میں دیگر مظلومین صحابہ رضی الله عنھم کا ذکر بھی مفصل کیا جائے جیسے حضرت امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ اور دیگر اہل بیت حضرات رضی الله تعالیٰ عنھم اجمعین کا کیا جاتا ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
بہت خوب!
ہر شعر بہترین ہے لیکن عنوان مجھے خاص طور پر پسند آیا۔
عبید بھائی آپ ایسی علمی شخصیت سے داد پا کر مسرّت ہوئی- جزاک الله خیر -الله جل شانہ آپ کو دارین کی عافیت سے نوازے -آمین
درخواست ہے کہ اپنی نگارشات سے بھی نوازا کریں -
 

یاسر شاہ

محفلین
اس کا مزار بنانے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
اصل محبت ہو تو بغض بھی محبّت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اصل بغض ہو تو محبت بھی بغض کی وجہ سے -اہل بیت سے محبّت کسے نہیں ہے،کم از کم کوئی گروہ ایسا میری نظر میں نہیں جو ان سے محبت نہ کرتا ہو ، نہ سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ اس قدر اصرار اور اعلان اور دعوے ان کی محبّت کے مخصوص دنوں میں وہاں پر کیوں کیے جاتے ہیں کہ جہاں لوگوں کو پہلے ہی سے ان سے محبت ہے -وہی نکتہ کہ اصل محبت ہے یا بغض -لیکن ہوسکتا ہے کوئی مکر جائے اور کہہ دے کہ ہمیں حب علیؓ بغض معاویہؓ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ اہل بیت ہیں ہی محبّت کے قابل-چلو مان لیتے ہیں - لیکن پھر یہی آپ کاوالاسوال اٹھے گا کہ پھر ایک مجوسی ابو لولو مردود سے محبّت کیوں ہے جو فاروقؓ کے تن میں زہریلا خنجر گھونپنے والا ہے -کیا کہیں بجز اس کے کہ دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا -
 

الشفاء

لائبریرین
بڑا ہی سچا اور پیارا کلام یاسر بھائی۔ اللہ عزوجل آپ پر اپنا کرم بنائے رکھے۔۔۔

ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی بوبکر و عمر عثمان و علی
ہم مرتبہ ہیں یاران نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
(مولانا ظفر علی خان)
 

یاسر شاہ

محفلین
بڑا ہی سچا اور پیارا کلام یاسر بھائی۔ اللہ عزوجل آپ پر اپنا کرم بنائے رکھے۔۔۔
آمین جزاک اللہ خیر شفا بھائی ۔
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی بوبکر و عمر عثمان و علی
ہم مرتبہ ہیں یاران نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
(مولانا ظفر علی خان)
بہت خوب۔ماشاءاللہ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
حُبِّ علیؓ بریست ز بغضِ معاویہؓ

فردوس دور است ز ماحولِ ہاویہ
*کونڈوں_کی_حقیقت* 🚨

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یوم وفات اور کونڈوں کی رسم بد

فاتح عرب و عجم، شمشیر اسلام، رازدارد رسالت، کاتب وحی، خلیفہ سادس امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ 22 رجب المرجب 60 ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 22 رجب یوم وفات ہے نصف سے زائد دنیا پر خلافت اسلامی کا علم لہرانے والے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا۔

امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جنہیں زبان رسالت سے ہادی و مہدی، راز دار رسالت اور حلیم جیسے القابات عطا کیے گئے۔
آپ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہیں اللہ کی مقدس کتاب قرآن پاک کی کتابت کا شرف حاصل ہو ا۔
آج یہ عظیم شخصیت اتنی مظلوم ہو چکی ہے کہ اس عبقری شخصیت کے یوم وفات پر دشمنان اسلام خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

اور اس دن ”کونڈوں“ کے نام سے شیرینی پکا کر تقسیم کی جاتی ہے۔ غیروں کی دیکھا دیکھی کچھ اپنے لا علم حضرات بھی اس مکروہ فعل کو رواج دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور وہ بھی سادہ لوحی میں اس عظیم صحابی رسول کی وفات پر خوشی کے اظہار کے نامعقول کام میں غیروں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔

♦ *کونڈوں کا پس منظر*
یہ خلاف شرع اور مکروہ بدعت دراصل مخالفین اسلام اور معاندین صحابہ کرام کی ایجاد ہے۔ جو شمالی ہند کے علاقہ اودھ سے شروع ہوئی۔
پھر لکھنو اور رام پور کے نوابوں نے رفض کو پروانے چڑھانے کیلئے اس قسم کی بدعات کو عام کرنے میں حصہ لیا۔ یہ رسم 1906ء سے چلی اور لکھنو شہر آج بھی اس رسم کی وجہ سے مشہور ہے۔
1906ءکے قبل کہیں بھی یہ رسم منعقد نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ لکھنو میں ابن سبا کی نسل سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور شروع شروع میں چوری چھپے گھروں میں پوریاں بناتے اور لوگوں کو بلوا کر وہیں کھلا دیتے اور ان کا منہ صاف کر کے پھر باہر بھیج دیتے جب استفسار کیا گیا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے یہ شوشہ چھوڑ ڈالا کہ یہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے کونڈے ہیں ۔

حالانکہ یہ کونڈے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے ہوتے تو کم از کم یہ دیکھ لیا جاتا کہ 22 رجب المرجب حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کا یوم پیدائش ہے؟ یا 22 رجب کو حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی وفات ہوئی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی پیدائش ایک روایت کے مطابق ماہ ربیع الاول میں ہوئی ۔ اور دوسری روایت کے مطابق رمضان المبارک میں ہوئی تو رجب سے ان کی پیدئش کا دور کا بھی واسطہ نہیں اور ان کی وفات بغیر اختلاف کے ماہ شوال میں ہوئی۔
تو حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف تین مہینے کسی نہ کسی طرح تو منسوب ہو سکتے ہیں رمضان، ربیع الاول اور شوال۔ مگر رجب کا مہینہ تو ان سے منسوب ہو ہی نہیں سکتا۔

مناظر اسلام امام اہل سنّت حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ” النجم“ کی اشاعت جمادی الاول ۸۴۳۱ھ میں لکھا تھا کہ ایک بدعت ابھی تھوڑے دنوں سے ہمارے اطراف میں شروع ہوئی ہے اور تین چار سال سے اس کا رواج بڑھتا جا رہا ہے یہ بدعت کونڈوں کے نام سے مشہور ہے۔

♦ *لفظ کونڈے کی تحقیق*

“کونڈا“ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کیونکہ عربی میں ”ڈ“ کا استعمال نہیں ہوتا۔ پس یہ ”کونڈا“ اردو یا پنجابی زبان کا لفظ ہے۔ جیسا کہ معاشرے میں عام طور پر مخالف کو کہا جاتا ہے”تیرا کونڈا ہو جائے“۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تیرا ستیاناس ہو جائے۔
یعنی یہ کوئی اچھا لفظ نہیں ہے۔ اس لفظ کا استعمال دوستی کے معنی میں نہیں بلکہ تعصب، دشمنی اور دشنام طرازی کے معنی میں ہوتا ہے۔
اہل تشیع حضرت حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی آڑ لے کر در حقیقت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وفات پر یہ رسم ادا کرتے ہیں، اور اپنے حلقہ کے اندر برملا اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔
لیکن دوسروں کے سامنے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کا نام لیتے ہیں۔ پھر حقیقت سے ناواقفیت کی بنا ءپر سادہ لوح مسلمان بھی اہل تشیع کی دیکھا دیکھی اس رسم میں حصہ لیتے ہیں۔
سو چنا چاہیے کہ آخر یہ رسم چوری چوری کیوں ہوتی ہے؟ اور رات کے آخری حصے میں کیوں ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو سب کے سامنے بلا خوف و خطر اس کا اظہار کیا جاتا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ کی مقدس جماعت ’صحابہ‘ کے ایک انتہائی جلیل القدر صحابیؓ ہیں اور نبیﷺ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تعلق یہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس طرح کی غیرشرعی اور خلاف اسلام رسومات سے اعراض کرنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے اس بدعت غلیظہ کی حقیقت کو عام مسلمانوں پر واضح کرتے ہوئے اپنے سمیت سب بھائیوں کو اس سے بچانے کی کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور کرنی چاہیے۔

امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا یوم وفات 22 رجب، کوہے۔ اس دن کی آمد سے پہلے ہی اپنے گرد و نواح کے مسلمانوں کو اس سے باخبر و ہوشیار کریں تاکہ وہ اس مکروہ عمل میں شامل ہو کر اللہ کی ناراضگی، قلب محمدﷺ کی تکلیف اور صحابہ کرام کی دشمنی کا ذریعہ نہ بنیں۔...
(منقول)
 
Top