درست کہا آپ نے...........بالکل درست.........لیکن معاشرے میں جہاں صلبی رشتوں میں قربتیں جاتی رہیں...........یہ مواصلاتی قربتیں رفاقتیں مجھے پتہ نہیں کیوں تھوڑا superficial لگنے لگتی ہیں بعض اوقات...............
اس بات سے متفق ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ مواصلات نے قریب بیٹھے کو دور اور دور بیٹھے کو قریب کر دیا۔۔۔ آپ کسی کے پاس بیٹھیں ہوں۔۔۔ اسکی نظریں موبائل پر جمی رہتی ہیں۔۔۔ اللہ کے بندے جو تمہارے پاس ہے اس کی قدر کرو۔۔۔ اور یہ رفاقتیں کچھ اس لیے بھی ہیں کہ لوگوں کو آپ کے کل حالات کا جزوی علم بھی نہیں ہوتا۔۔۔ سو ہر طرف مثبت جملے ہی سننے کو ملتے ہیں۔۔
مراجعت کی ضرورت نہیں۔۔۔ اخلاقی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ضرورت ہو وہاں فائدہ اٹھا لیا جائے۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ نئی نسل کی خود مختاریوں پر والدین کو نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ بقول وسیم بریلوی
نئی نسلوں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے
کہاں سے بچ کے چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے
سوال تو یہ بھی ہے کہ اخلاق اور کردار کی نیونہ اب کس زمین پہ رکھی جائے...........پہلے تو یہ سراسر مذہب پہ استوار تھے............اب اور کتنے ہی عوامل ہیں جو چیخ چیخ کر کہ رہے ہیں کہ ہم ہیں وہ جن سے عصر نو کے اخلاق عالیہ کی تعریف کشید و معلوم کی جائے گی...........
فلک شیر بھائی ! اخلاقیات کی اصل تو مذاہب کی دین ہی ہے۔ اب بعد میں کوئی طبقہ اُن میں سے چنیدہ معاملات کو اپنے طور پر لے کر چلنے لگے تو اُس سے خاظر خواہ نتائج برامد نہیں ہو سکیں گے۔ مذہب ہمیں کبھی محبت سے اور کبھی ڈرا دھمکا کر ایک دوسرے سے نتھی رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ پھر صلہ رحمی جیسا مشکل ترین عمل محض اخلاقیات کی بنیاد پر تو شاید کوئی بھی کرنے پر تیار نہ ہو۔