اے عشق تو کیوں اتنا آساں ہوا پھرتا ہے۔
شب کے رندوں سے پوچھ کیوں پریشاں ہوا پھرتا ہے۔
آگہی عقل کی اساس ہے۔
پھر یہ ظالم خرد سے کیوں حراساں ہوا پھرتا ہے۔
تمنا ہے اسے کہ موت آجائے۔
نیم بسمل جو ہوا پھر کیوں بے جاں ہوا پھرتا ہے۔
کہتے ہیں کہ دولت دل ہے نایاب۔
اب یہ سمجھا میں وہ کیوں جان جہاں ہوا پھرتا...