ذِکر جہلم کا ہے، بات ہے دِینے کی
چاند پُکھراج کا، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اُدھڑی ہوئی چاندنی
رات کوشش میں ہے چاند کو سینے کی
کوئی ایسا گِرا ہے نظر سے کہ بس
ہم نے صُورت نہ دیکھی پھر آئینے کی
درد میں جاوِدانی کا احساس تھا
ہم نے لاڈوں سے پالی خَلِش سِینے کی
موت آتی ہے ہر روز ہی رُوبرُو...