اصلاح کے بعد دوبارہ پیشِ خدمت ہے
پہلا سا درد پہلی سی وحشت نہیں رہی
لگتا ہے جیسے تجھ سے محبت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
آئے بہار اب ، کہ نہ آئے یہ غم نہیں
یوں بھی ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
اب بھی محبتوں کا تو قائم ہے سلسلہ
لیکن وہ سوزِ رفتہ وہ...
تبدیلیوں کے بعد دوبارہ پیشِ خدمت ہے
لہجے کو تیرے دیکھ کے حاجت نہیں رہی
کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
آئے بہار اب ،یا نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
باقی نہیں ہے میکدے میں رسمِ مے کشی
زندہ وہ بادہ...
استاتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
لہجے کو تیرے دیکھا تو حاجت نہیں رہی
کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
مردہ سا ہو گیا ہے یہ تہذیب کا بدن
اس کے لہو میں اب وہ حرارت نہیں رہی
اب تو بہار...
تبدیلیوں کے بعد دوبارہ پیشِ خدمت ہے
خود بھی اپنا حساب کر لینا
اس کے پہلے کہ وہ حساب کرے
حق و باطل یوں ہو چکا ہے عیاں
جس کو چاہے تو انتخاب کرے
جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے
خواہشوں سے وہ اجتناب کرے
زندگی ایک امتحان ہے دوست
رب تجھے اس میں کامیاب کرے
علم کہتے ہیں اس کو جو نیرؔ
پیدا ہستی میں...
اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزارش ھے
بخش دے گا جسے وہ چاہے گا
جس کو چاہے گا وہ عذاب کرے
جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے
خواہشوں سے وہ اجتناب کرے
خود بھی اپنا حساب کر لینا
اس سے پہلے کہ وہ حساب کرے
حق و باطل ہو چکا ہے عیاں
جسے چاہے تو انتخاب کرے
زندگی ایک امتحان ہے دوست
رب تجھے اس میں کامیاب...
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن
الف عین سر اور دیگر اساتذہ کی خدمت میں اصلاح کیلئے ایک غزل
کہیں مکین کہیں پر مکاں نہیں ملتا
جہاں پہ غم نہ ہو ایسا جہاں نہیں ملتا
جو تم سے پہلے یہاں اور لوگ رہتے تھے
وہ خاک ہو گئے ان کا نشاں نہیں ملتا
ترے فریب سے بچائے اب خدا ہم کو
کہ تیرے لہجے سے تیرا...
اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزاراش ہے
ایک عالم ہے بے قراری کا
گویا موسم ہے آہ و زاری کا
جس کا دل ہے غموں کا شیدائی
اسے کیا شکوہ غم گساری کا
عشق میں دل تو ہو گیا ایسے
جیسے کاسہ کسی بھکاری کا
بے خبر تھے جو ہم سمجھتے تھے
عشق کو کھیل اک مداری کا
ابتدا سے ہے دمِ آخر تک
زندگی نام بے قراری کا