اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلنی ہیں نگاہیں
احساسِ بہاراں ، نہ غمِ فصلِ خزاں ہے
آندھی کی ہتھیلی پہ ہے جگنو کی طرح دل
شعلوں کے تصرف میں رگِ غُنچہ جاں ہے
ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش
سینے میں ہر اک سانس بھی نیزے کی انی ہے
اب آنکھ کا آئینہ سنبھالوں میں کہاں تک
جو اَشک بھی بہتا ہے وہ ہیرے کی...