ملالِ یار دکھی بے حساب رکھتا ہے
یہ زندگی پہ سدا ہی عذاب رکھتا ہے
گریباں میں نہیں جھانکے ہے کوئی بھی اپنے
کسی بھی اور پہ نظرِ عقاب رکھتا ہے
شناختیں نہیں ممکن رہیں ہیں لوگوں کی
ہراک منہ پہ یہاں اب نقاب رکھتا ہے
ابھر نہیں کبھی پاتا ہے زندگی بھر وہ
جو بحر ماضی میں گم زیرِ آب رہتا ہے
کوئی کسی کی...