درد کے سمندر میں غوطے لگائے اور پھر ڈوب گئی ..درد لحظہ لحظہ شان بڑھاتا گیا اور میں جھکتی گئی. وہ وقت آیا کہ پیمانہ چھلکتا رہا، جتنا چھلکا اتنا موجود رہا، میں حیران رہی کہ باہر اور اندر برار ہوگیا کیا؟
حاضرینِ دل! سنیے
یہ جو حال ہے، یہ درد ہے، فکر میں ڈھل رہا ہے. یہ فکر عمل سے عامل کرتے جانبِ...